رنگ باتیں کریں

انسان چاہے کتنا ہی مادیت پرستی کے فریب میں مبتلا ہوجائے مگر پھر بھی اس کے اندر ایک کمی اسے بے چین کیے رکھتی ہے۔


Shabnam Gul June 23, 2013
[email protected]

MUMBAI: اوائلی دور کا انسان فطرت کے رنگوں سے تحرک لیتا تھا۔ کبھی سبزہ اس کی آنکھوں کو طراوت بخشتا تو کبھی قوس قزح کے حسین رنگ اس کے لیے تصوراتی دنیا کا دروازہ کھول دیتے۔ فطرت کے رنگ اس سے باتیں کرتے اور وہ رنگوں کی کہانی کو کھوجنے لگتا۔ جلتی ہوئی آگ کا رنگ اسے خوبصورت دکھائی دیتا تو کبھی وہ کوئلہ اٹھاکر دیواروں پر نقش و نگار بنانے لگتا۔ الاسکا و التمیرا کے غاروں میں لال، پیلے اور کالے رنگوں سے بنی تصویریں قدیم انسان کے جمالیاتی ذوق کا اظہار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رنگ ہمارے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انسان کے طبعی، جذبات و روحانی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مڈل ایجز میں رنگوں کو جادو، سیاروں، مختلف عناصر، روحوں، دھاتوں و جڑی بوٹیوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ جرمن فلاسفر W. Van Goethe نے روشنی و رنگوں کی اہمیت اور انسان کی زندگی پر ان کے اثرات کی وضاحت کی اور سائنسی مشاہدوں کو مابعد الطبیعاتی تصور سے ہم آہنگ کرکے منفرد تجربے کیے۔

انیسویں صدی میں رنگوں کے حوالے سے مزید حقائق سامنے آئے اور رنگوں سے علاج کے طریقہ کار دریافت کیے گئے۔ ڈاکٹر، ہیری رلی نے 1930 میں Syntonics کے نام سے رنگوں سے علاج دریافت کیا۔ جس میں رنگوں کو آنکھوں میں منعکس کرکے علاج کیا جاتا تھا۔ Aura Soma اوراسوما کلر تھیراپی، کروموتھیراپی کے ذریعے بھی مریض شفا پانے لگے۔

سندھ کی قدیم تہذیب میں رنگوں کا استعمال ہوتا تھا۔ خاص طور پر نیلے رنگ کو اہمیت دی جاتی تھی۔ یہ رنگ ''نیر'' نامی پودے سے حاصل کیا جاتا تھا۔ اجرک میں بھی نیلے رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ رنگ ٹھنڈی توانائی کا بہاؤ ہے۔ اظہار و ریاضت کا رنگ بھی کہلاتا ہے کیونکہ سوچ ذات سے لے کر خدا و کائنات سے ہمکلام ہونے تک مستقل سفر میں رہتی ہے یہ رابطہ، ریاضت کی اہم کڑی ہے۔ ورجن میری، کرشنا اور شوا اس رنگ سے منسوب کیے جاتے ہیں۔

مختلف رنگ جن میں پیلا، سرخ، سیاہ، نیلا، ہرا، ناسی، نارنگی اور سفید شامل ہے صحرائے تھر و راجستھان سے لے کر جدید دنیا تک استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ زمین کے قریب تر رنگ ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان زراعت پر انحصار کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سبز رنگ کا شیدائی تھا۔ تبدیلی، فراوانی، رابطہ، خوشحالی، سکون، روانی، ہم آہنگی، و یکسوئی اس رنگ سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ جہاں کھیت، سبزہ و ہریالی ہوتے ہیں وہاں لوگوں کے مزاج معتدل پائے جاتے ہیں۔ آب وہوا خالص ہونے کی وجہ سے ایسے علاقوں میں صحت افزا ماحول پایا جاتا ہے۔ سبز رنگ کو Color of Growth پھلنے پھولنے کا رنگ کہا جاتا ہے۔ جب انسان کے جسم کا مدافعتی نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو۔ افسردگی، تنفس کی بیماریاں ویکسوئی کی کمی ہو تو سبز رنگ کی خوراک کھانے کامشورہ دیا جاتا ہے۔ جن میں موجود وٹامنز و منرلز جسم کی شکستہ توانائی کو رواں دواں رکھتے ہیں۔

سورج ڈوبتے وقت شفق کا رنگ آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ نارنگی رنگ سمت اور مقصد سے متصل ہے۔ جسے تخلیق عمل کا رنگ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ پیلے اور سرخ رنگ کا امتزاج ہے لہٰذا ان دو رنگوں کی خاصیتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ مدافعتی رویے کا حامل ہے۔ بیماری سے لڑنا اور ذہن کو جلا بخشنا اس رنگ کی اہم خوبیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوگی اور بدھسٹ روحانی پیشوا یہ رنگ زیادہ تر استعمال کرتے ہیں۔یہ سماجی تحریک عطا کرتا ہے اور فرد کو پوری کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ پیلا، نارنگی و سرخ کمرشل طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں ان رنگوں کا استعمال ترغیب و اشتہا آمیزی کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ رنگ بھوک بڑھاتے ہیں۔

سورج سے نکلنے والی روشنی میں رنگوں کا امتزاج موجود ہے، رنگوں کی یہ رو ہم تک پہنچتے زمینی ماحول میں جذب ہوجاتی ہے۔ انفراریڈ کو ہم حرارت کی صورت میں محسوس کرتے ہیں۔ یہ برقی مقناطیسی توانائی لہروں کے روپ میں تیزی سے سفر کرتے زمین کی طرف آتی ہیں۔ ان امواج کی لمبائی اور رفتار ان کے ارتعاش کی قوت میں مضمر ہے۔ رنگوں کی ان لہروں میں سرخ رنگ کی wavelength ویولینتھ طویل تر ہے۔ دیکھا جائے تو سرخ رنگ فوری طور پر اپنی طرف توجہ مبذول کروالیتا ہے۔ حرارت سے بھرپور یہ رنگ جسمانی تحرک، توانائی، رفتار، خطرے ہمت و مہم جوئی کا استعارہ ہے۔ سرخ رنگ مادیت پرستی، بے چینی، شخصی فائدے، خودغرضی و منفی رویوں سے بھی قریب تر ہے۔

انسان چاہے کتنا ہی مادیت پرستی کے فریب میں مبتلا ہوجائے مگر پھر بھی اس کے اندر ایک کمی اسے بے چین کیے رکھتی ہے۔ جو اسے بار بار زندگی کی رنگینیوں کے پاس لے جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے اندر کا خلا اور بھی گہرا ہونے لگتا ہے۔ یہ روحانی تشنگی جامنی رنگ کی طرف بے اختیار لپکتی ہے۔ قدیم زمانے میں جامنی رنگ بہت مہنگا رنگا جاتا تھا۔ کیونکہ زیادہ تر یہ رنگ پادری و روحانی پیشوا استعمال کیا کرتے تھے۔ جامنی، سرخ اور نیلے کا امتزاج ہے۔ اس رنگ کو بھی عبادت و ریاضت کے رنگ کا درجہ حاصل رہا ہے۔ جامنی کو Color of Fantasy تصوراتی رنگ بھی کہا جاتا ہے۔ سکون، ٹھہراؤ و ارتکاز کی لہریں ذہنوں کو سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔

گلابی رنگ نزاکت، خوبصورتی اور محبت کا رنگ کہلاتا ہے۔ Healing with Crystals and Chakra energies کے مصنف لکھتے ہیں ''گلابی رنگ اعتماد اور یکجہتی کا یقین دلاتا ہے۔ اس رنگ میں خاصیت ہے کہ یہ منفی وجارحانہ رویوں کو معتدل کرتا ہے۔ جذباتی خوف جارحیت کا سبب بنتا ہے۔ بے ترتیبی اور خون خرابے کو یہ رنگ سکون کی کیفیت میں واپس لے کر آتا ہے۔''

امریکا کی ایک جیل میں کوٹھڑیوں کو گلابی رنگ تجربے کے طور پر کیا گیا جہاں مضطرب اور جارحیت آمیز رویے کے حامل قیدی رکھے گئے تھے۔ ان قیدیوں کے رویوں میں واضح فرق محسوس کیا تھا۔

انسان ازل سے ابد تک کائنات کے اسراروں کو کھوجتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاہ رنگ اس کے لیے پراسراریت اور ضابطے کی تمثیل بنا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اگر سیاہ رنگ کو زیادہ دیر تک دیکھا جائے تو آکسیجن لیول کم ہونے لگتا ہے۔ یہ رنگ کائنات کی مخفی قوتوں کا ترجمان کہلاتا ہے۔ سیاہ رنگ دکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس طرح سفید رنگ سچائی، پاکیزگی و روحانی قوتوں کا سرچشمہ کہلاتا ہے۔ انکشاف کا رنگ جو الہامی کیفیتوں کے زیر اثر ہے۔

انسان کو زیادہ تر وہ رنگ اپنی طرف کھینچتے ہیں جو فطری وخالص ہوں۔ انسان خواہ مصنوعیت کا لبادہ اوڑھ لے اور غیر فطری زندگی گزارنے لگے مگر سچائی اسے اپنی طرف بلاتی رہتی ہے۔ جس چیز کی ہماری ذات میں کمی ہوتی ہے ہم نادانستہ طور پر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہم رنگوں کا انتخاب کرتے وقت وہی رنگ پہنتے ہیں جو ہماری کیفیت کے ترجمان ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے براؤن (ناسی) رنگ زمین سے قریب تر ہونے کی وجہ سے مقبول رہا ہے۔ عملی سوچ ، یکسوئی،مستقل مزاجی، محنت و حقیقت پسندی اس رنگ کی امواج سے جھلکتے ہیں۔ اس رنگ میں سرخ، پیلے اور نیلے رنگ کی توانائی بھی شامل ہے۔ قدیم زمانے میں کتب خانوں کا رنگ براؤن رکھا جاتا تھا تاکہ طالب علم یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرسکیں۔ ایشیا کے مختلف ملکوں میں کمروں وگھروں میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس رنگ کی امواج دماغ کو باہم سکون پہنچاتی ہیں۔ بلڈپریشر کے مریضوں کو براؤن رنگ کے کمروں میں بٹھاکر جب ان کا بلڈپریشر چیک کیا گیا تو وہ نارمل تھا۔ اس رنگ کے پسند کرنے والے پس منظر میں رہنا چاہتے ہیں۔

رنگوں کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر جدید دنیا ان سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ماحول کو موافقت میں بدلنے، صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے موزوں رنگ کا انتخاب زندگی کی یکسانیت کو ایک نیا تحرک عطا کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں