اسلحہ نہیں روٹی چاہیے

ایٹمی پروگرام کی تیاری پر ہونے والے لامحدود اخراجات کو بے نقاب کرنا تو گناہ اور جرم بنادیا گیا ہے۔


Zuber Rehman June 23, 2013
[email protected]

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں بھوک سے روزانہ 50 ہزار انسان لقمہ اجل ہورہے ہیں تو دوسری جانب ایٹمی ممالک نے 2011 میں ایٹمی پروگراموں پر 105 ارب روپے صرف کیے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق یہ اتنی رقم ہے کہ اس کے ذریعے پوری دنیا سے غربت کا دو بار خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کے ایوانوں سے لے کر میڈیا چینلوں تک، سیاست دانوں سے لے کر دانشوروں تک، سب اس ایٹمی طاقت کے نام پر بدحال اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گھرے ہوئے محنت کش عوام کے ذہنوں میں حب الوطنی اور مذہبی جنون کا بارود بھر کے ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے شہری ہیں جس پر ان کو نازاں ہونا چاہیے۔

محب الوطنی کے جذبے ابھار کر کچلے ہوئے استحصال زدہ طبقات کی بربادی، بھوک، مفلسی اور محرومی کو وہ قربانیاں قرار دیا جائے جو ''اسلامی بم'' کی تیاری و ترویج کے لیے دینا ان کا قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔ ہر طرف قومی ترانے گائے جاتے ہیں اور حب الوطنی کی دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ دوسرے ملکوں، قوموں، مذہبوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے انھی کی طرح غریب اور لاچار انسانوں سے نفرت اور حقارت کو ہوا دی جاتی ہے۔ پہلے کئی نسلوں تک یہاں کے بے کس عوام کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ ان کے دفاع کے لیے ایٹم بم ناگزیر ہے۔ آج انھی عوام کو یہ درس دیا جارہا ہے کہ اسی ایٹم بم کی حفاظت اولین قومی فریضہ اور حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد اپاہج بچوں کی پیدائش میں کس قدر اضافہ ہوا یہ آج تک کسی ٹی وی چینل پر نہیں بتایا گیا ہے۔

ایٹمی پروگرام کی تیاری پر ہونے والے لامحدود اخراجات کو بے نقاب کرنا تو گناہ اور جرم بنادیا گیا ہے۔ یہ صورت حال ہر ایٹمی طاقت میں پائی جاتی ہے۔ امریکا سے لے کر بھارت اور اسرائیل سے لے کر کوریا تک ان تمام ملکوں میں ایٹمی پروگرام کو اسی طرح مقدس گائے کا درجہ دیا جاتا ہے جیساکہ پاکستان میں۔ ہر ریاست کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے قومی جنون کو ابھار کر طبقاتی کشمکش کو کچلنا۔ اس وقت دنیا میں 9 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ممالک امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ، اسرائیل، ہندوستان، پاکستان اور کوریا ہیں۔ ایک جانب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جنگی سازوسامان پر اخراجات بڑھ رہے ہیں اور غربت کے خاتمے پر خرچ ہونے والی قوم سکڑ رہی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت 86 کروڑ انسان 25 روپے یومیہ کی آمدن پر گزارا کر رہے ہیں۔

برصغیر جنوبی ایشیا کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا 22 فیصد ہے جب کہ اس خطے میں دنیا کی 41 فیصد غربت پلتی ہے۔ پاکستان میں صرف 2 فیصد بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے جوہری توانائی کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم میں 17 فیصد اضافہ کرکے 6.3 ارب روپے کردیا ہے۔ مختلف محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان اب تک 90 سے 110 ایٹمی ہتھیار تیار کرچکا ہے جب کہ بھارت کے پاس 80 سے 100 ایٹم بم موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے ایٹمی پروگراموں کی بڑھوتری کا جائزہ لیا جائے تو 2021 تک پاکستان کے پاس 200 جب کہ ہندوستان کے پاس 150 ایٹم بم ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے، پاکستان اور ہندوستان کے غریب عوام کے خون اور پسینے سے نچوڑی جانے والی دولت تباہ کاری کے آلات کی تیاری پر پانی کی طرح بہائی جارہی ہے۔ 1940 کے نصف حصے میں امریکا نے 2ارب ڈالر کی لاگت سے ایک ایٹم بم تیار کیا تھا، ڈالر کی موجودہ قیمت کے مطابق یہ لاگت تقریباً 25 ارب ڈالر بنتی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کے لیے یورینیم کی افزودگی پر امریکا میں بجلی کی کل پیداوار کا 10 فیصد صرف ہوا تھا۔

دنیا بھر میں ایٹمی تنصیبات کی حفاظت پر ہزاروں فوجی مامور ہیں۔ اگر صرف حفاظتی انتظامات کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ کروڑوں ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ گلوبل سیکیورٹی نیوز وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں ایٹمی پروگرام پر اب تک ہزاروں ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے۔ جب کہ سالانہ کئی ارب ڈالر مزید خرچ کیے جارہے ہیں۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اس سے پاکستان کا بیرونی قرضہ چار بار اتارا جاسکتا ہے۔ ایٹم بم جدید میزائل ٹیکنالوجی کے بغیر بے کار ہے۔ لہٰذا دور مار بیلیسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری پر بھی کھربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ایٹمی پروگرام کی ترویج کے لیے ہندوستانی ریاست میں جنون اور وحشت بھی برابر بڑھ رہی ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں سرمایہ دارانہ بحران کی شدت اور منڈیوں پر کنٹرول کے لیے سامراجی طاقتوں کے باہمی تنازعات کی پیداوار تھیں۔ ان جنگوں میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں بھی 18 کروڑ افراد مختلف قومی تنازعات اور خانہ جنگیوں میں مارے جاچکے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے جانے والے ایٹم بم سے لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ اس وحشت کا مقصد سوویت یونین کو خبردار کرنا تھا کہ وہ مشرقی محاذ پر پیش قدمی نہ کرے اور جاپان میں سرمایہ داری کو بچانے کے لیے ایسا کیا گیا۔ 1945 میں جاپان پر گرائے جانے والے ایٹم بم آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں پٹاخے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج اگر ایک ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اتنا گردو غبار فضا میں ابھرے گا کہ سورج کی روشنی کئی سال تک زمین پر نہیں پہنچ پائے گی۔ اس منظر کو نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔ اگر ایٹمی حملوں میں نسل انسانی بچ بھی گئی تو نیوکلیئر ونٹر میں اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ ایسے آلات کی تیاری کے ذریعے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دولت کے انبار تو لگائے جاسکتے ہیں مگر نسل انسانی کو یہ مہلک ہتھیارکوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن حکمرانوں کو انسانی سماج، تہذیب حتیٰ کہ نسل انسانی کی بقا سے کوئی غرض بھی تو نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران اور اس کے ساتھ کرہ ارض کے ایک ایک انچ پر قبضے کے لیے ان کی باہمی چپقلش نے انھیں پاگل کردیا ہے۔

مئی 2013 میں شایع ہونے والی ورلڈبینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فی صد سے زائد آبادی انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2011 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کے 44 فیصد بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما نامکمل ہے۔ آنے والے 15 سال میں ان بچوں کا قد نارمل بچوں سے چھوٹا ہوگا۔ ان سنگین معاشی صورت حال کے باوجود اربوں روپے کا دفاعی بجٹ ہے۔ اس کے علاوہ 28.41 ارب روپے کا بجٹ ایف سی، رینجرز، وزارت داخلہ، اے ایس ایف، پی سی جی پر مختص کیا گیا ہے۔ ایٹمی پروگرام عوام کو بھوک اور محرومی سے نجات نہیں دلا سکتا۔ نہ ہی ان کو علاج، تعلیم، روزگار، بجلی، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات فراہم کرسکتا ہے۔ اسلحے کی پیداوار اور تجارت حکمرانوں کا ایک کاروبار ہے جس میں ہوش ربا منافع حاصل ہوتا ہے۔

حکمرانوں کی تجوریاں بھرتی ہیں ۔ لیکن کاروبار تو آخر کاروبار ہے۔ سرمایہ داری میں آزادی منڈی اور بیوپار کی ہوتی ہے انسان کی نہیں! انسانوں کی حقیقی آزادی یعنی خطرات کے خاتمے اور ضروریات کو پوری کرنے کی ہے۔ یہ تب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب پاکستان اور دنیا بھر کے عام شہری اور کارکنان ایسا انقلاب برپا کریں گے جو ریاستوں، اقتدار اور اختیارات کا خاتمہ کردے گا۔ ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی، مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ ایٹمی وار ہیڈ ہو، ایٹم بم ہو، پائلٹ ہو یا لوڈنگ، ان کی لوڈنگ کرنے والے مزدور، یہ سب محنت کش اور کارکنان ہیں۔ جب یہ تمام ذرایع پیداوار کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے تو ایٹم بموں کو بھی تباہ کرسکتے ہیں اور سب کو روٹی بھی مہیا کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں