نوحوں سے آگے…
محض سات، آٹھ برس میں چار ہزار سے زائد طالبات کا یونیورسٹی میں داخل ہونا معجزے سے کم نہیں۔
فریقِ مخالف جب ہر قسم کے اخلاق و اقدار سے عاری ہوکر پُرتشدد عمل پہ اترآئے تو ایک کمزور پڑتی ریاست میں اہلِ علم وفکر کا کردارکیا ہونا چاہیے؟
بلوچستان کی واحد ویمن یونیورسٹی کی بس پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ اور اس کے نتیجے میں ماری گئی چودہ طالبات کے دہلا دینے والے واقعے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سوال انٹیلیکچوئل ڈس کورس کا حصہ بن جاتا۔ لیکن جس سماج کے انٹیلیکچوئل کا تمام تر ڈس کورس فیس بک کی بے معنی و بے ہنگم سرگرمیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہو، وہاں شاید ایسی کوئی توقع عبث ہی رہے۔ سماج کی معمول کی بے حسی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اس غیرمعمولی واقعے کو معمول کے واقعات کی طرح کسی بریکنگ نیوز کی مانند بھلا دیا گیا۔ ابھی کوئٹہ کی فضاؤں میں ان بے گناہ طالبات کے لہو کی بو نہیں تھمی کہ ان کا نام و انجام تک محو ہو چکا۔
پاکستان بھر میں، بلوچستان کی اس اکلوتی ویمن یونیورسٹی کی طالبات پر ہوئے حملے کو محض اس ہمدردانہ تناظر میں دیکھا گیا جس میں معصوم طالبات کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی نہتی صنفِ نازک پر حملے کو بزدلانہ فعل تو گردانا گیا لیکن اس کے دیگر پہلوؤں پر گفتگو نہیں کی گئی جو اس واقعے کے بعد اس کے اثرات کی صورت میں ہمیں تادیرمتاثر کرتے رہیں گے۔بالخصوص اہلِ علم و دانش کو اس پہ غور کرنے کی اور محض غور کرنے کی نہیں،عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
اس واقعے کا خطرناک ترین اور دردناک پہلو یہ ہے کہ یہ نیم قبائلی اقدار والے بلوچستان میں خواتین کی تعلیم کے نیم وا دروازے کو مزید سختی سے بند کرنے کا باعث بنا ہے۔ بلوچستان جہاں خواتین کی تعلیمی شرح ابھی دوچار فیصد سے آگے نہیں جا سکی، وہاں دوردراز سے آنے والی بچیاں جنھیں یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم کا موقع مل جائے، اپنے اردگرد کی خواتین میں خوش قسمت ترین شمار ہوتی ہیں۔ ویمن یونیورسٹی کے قیام نے اُن والدین کے اعتراضات اور خدشات کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا جن کے لیے اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے گھروں سے نکالنا 'عزت' کا مسئلہ تھا۔
محض سات، آٹھ برس میں چار ہزار سے زائد طالبات کا یونیورسٹی میں داخل ہونا معجزے سے کم نہیں۔ بھاری بھرکم آبادی والے کسی علاقے میں بیٹھ کر اس 'کامیابی' کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چار ہزار نہیں، درحقیقت چار لاکھ کی تعداد ہے۔ محض ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے بلوچستان میں ان چار ہزار طالبات نے اعلیٰ تعلیم کے بعد سماج میں کہاں کہاں جا کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اردگرد کی کتنی بچیوں کے لیے سورس آف انسپائیریشن بننا تھا۔ اس لیے ان پر حملہ ، بلوچستان کی ہزاروں بچیوں کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اس سے اُن سب کی راہ کھوٹی ہوئی ہے۔ ہم سب کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند ہو چکی۔ ساتھ ہی بچیوں پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دروازے بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند ہو چکے۔ وہ بچیاں جنہوں نے عمر بھر کبھی ماں باپ کی جھڑکی نہ سہی، ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئیں۔ جن کے چہروں پہ ماں با پ نے کبھی ہلکی سی خراش نہ آنے دی، یوں بریدہ ہوئیں کہ ان کی شناخت کے لیے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اچھی تھیں جو ایک ہی لمحے میں شہید ہو چکیں، ان کے المیوں کا کیا ہو جنہوں نے اپنی ساتھیوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور اب رات رات بھر سو نہیں پاتیں۔ جاگتے میں بھی جنھیں اب لہو اور بارود دکھائی دیتا ہے۔کون سا مرہم اب ان کے زخموں کو ٹھنڈا کر سکے گا؟ کون سی طاقت انھیں ان کے خواب واپس دلا سکے گی!
یہ سوال بے معنی ہے کہ حملہ ایک مخصوص فرقے کی طالبات پر کیا گیا تھا، جس میں اتفاق سے چوک ہو گئی۔حالانکہ ان طاقتوں میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں کہ کم از کم اس غلطی پر ہی معافی مانگ لیتے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم معاملہ حملہ آوروں کی حکمت عملی کا ہے۔گزشتہ دو برسوں سے ہر بار انھوں نے ایک مختلف حکمتِ عملی کے ساتھ کامیاب حملے کیے ہیں اور سیکیورٹی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ریاست ایک معمولی سے گروہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی۔ بی ایم سی کمپلیکس میں محض ایک خود کش حملہ آور نے چار گھنٹے سکیورٹی اداروں کے کمانڈوز کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ اور اپنے متعین کردہ وقت پہ ہی خود کو پھاڑا۔سرکاری اہلکار سیکیورٹی اداروں کی بے بسی کا اعلان کر چکے۔
لیکن یہ سر پھرے ادارے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بھی جرأت نہیں رکھتے۔ ایک گریژن کی سی حیثیت رکھنے والے کوئٹہ کے ہر چوک اور چوراہے پر سیکیورٹی اداروں کی چوکیوں اور شہریوں کی جامع تلاشی کے باجود حملہ آور جب چاہیں ٹینکر میں بارود لے کر نکل جائیں، جب چاہئیں ریمورٹ کنٹرول سے جسے چاہیں اڑا دیں ۔ پھر ایسی حکومتوں سے ان عناصر کی بیخ کنی کی توقع ہی کیا کی جائے جو ہر انتہا پسند اور بنیاد پرست قوت کے ساتھ بات چیت کو ہمہ وقت آمادہ ہوں۔ بالخصوص امریکا بہادر کی جانب سے طالبان سے مذاکراتی عمل کے بعد تو انھیں گویا ہر بنیاد پرست قوت کے ساتھ مذاکرات کی سند مل چکی۔
صوبے کی پڑھی لکھی مڈل کلاس قیادت کی قائدانہ صلاحیتوں کا یہ عالم ہے کہ ایک ہفتہ گزر چکا، چھ بچیوں کی شناخت اور تدفین ہو چکی ،کسی نے بھی کسی ایک بچی کے گھر پہنچ کر ان کے لواحقین کے ساتھ دو لمحے نہیں گزارے۔ کاش وہ کسی کے سر پہ دستِ شفقت رکھ لیتے۔ کسی کی آنکھ کا اشک پونچھ لیتے۔ اپنائیت کا کوئی تو احساس دلاتے...بس وہ جو مڈل کلاس سے متعلق مارکس کا قولِ زریں یاد رکھتے ہیں، انھیں اِس پہ نہ کوئی حیرت ہوتی ہے نہ افسوس!
دوسری طرف ہماری دانش کی سطح تو یہ ہے کہ ہم میںسے اکثر اس بات پر چراغ پا نظر آئے کہ ایک ملالہ کے لیے آسمان سر پہ اٹھا لینے والے میڈیا نے ان بچیوں کے لیے اُس طرح آواز کیوں نہ اٹھائی۔ یہ ایک نہایت مضحکہ خیز اور افسوس ناک تقابل ہے۔ ملالہ کے ساتھ جو ہوا، اس پہ میڈیا کی آہ و بکا یقینا جائز تھی، اور یہ اُس بچی کا حق تھا۔ ویمن یونیورسٹی کی بچیوں کے معاملے کو کوریج نہ ملنا بھی اتنا ہی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میڈیا کی جانب سے ملالہ کو ملنے والی کوریج کا مضحکہ اڑا کا یہ تاثر دیا جائے کہ میڈیا نے ایسا کر کے غلط کیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا ہماری دانش کی سطح کو روز بروز کم تر کرتا نظر آتا ہے۔ یہ کیا ظلم ہے کہ ایسے اندوہناک واقعے پر لکھی جانے والی شاعری پہ بھی ''واہ، واہ، بہت اچھے، کیا کہنے'' جیسے 'مشاعرانہ کمنٹس' دیے جائیں۔ گویا ہم کرب کا اظہار تک کرنے سے عاری ہیں...احتجاج کا ڈھنگ تو دور کی بات ٹھہرا۔
بہرکیف، اس واقعے کی مذمت میں بہت اعلیٰ شاعری کی جا سکتی ہے (اور ہو رہی ہے)، اچھی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں(اور لکھی جا رہی ہیں)، مذمتی کالم لکھے جا سکتے ہیں(اور لکھے گئے) ، غم و الم میں ڈوبے پُر تاثیر نوحے لکھے جا سکتے ہیں( جن کی حقیقی نوحوں کے سامنے کوئی وقعت نہیں)...لیکن سچ تو یہ ہے کہ اب معاملہ شاعری سے، کہانیوں سے، کالموں اور تبصروں سے آگے کا ہے۔ وقت اب ہر باشعور فرد سے عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ نوحوں اور فریادوں سے دامن جھٹک کر سماجی عمل کی تبدیلی میں حصہ داری مانگتا ہے...اب محض آنکھ میں پانی بھر کر لانے سے جلتے شہر کو بجھانا ممکن نہیں رہا...بے گناہ مارے جانے والوں کی یاد میں آنکھیں پُر نم سہی، لیکن محض دعاؤں پہ قانع ہونٹوں کو اب نعرہ بنانا ہو گا...ناامیدی سے مَلتے ہاتھوں کو ایسی انسانی زنجیر کا روپ دینا ہو گا جو ہر نوع کی بنیاد پرستی کے خلاف اتحاد اور احتجاج کی علامت بن جائے۔