قائد اعظم نہیں رہے
پاکستان جسے ہم کو دنیا کے لیے مثال بنانا تھا اس پاکستان میں ہم نے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے ہزاروں بہانے ڈھونڈ لیے
پاکستان کی تاریخ کا سب سے تاریک دن گیارہ ستمبر 1948 کا تھا جب ہماری قوم کے قائد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ''قائد اعظم نہیں رہے'' والی سرخی کی خبر کے ساتھ ہونے والی صبح پاکستان کے لیے اس وجہ سے تاریکی سے بھری تھی کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح اپنے ساتھ پاکستان کے آگے بڑھنے کا ویژن لے گئے۔ پاکستان ایک سال کا تھا جب قائد اعظم نے یہ تو بتایا کہ وہ پاکستان کو بڑا ہوکر کیسا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پھر وہ خدا سے ملنے والی اپنی محدود سانسوں کو پورا کرکے دنیا کو الوداع کہہ کر چلے گئے اور پاکستان کو یتیم کرگئے۔
پاکستان بڑا ہونے لگا لیکن اسی طرح جس طرح بن باپ کا بچہ ٹھوکریں کھا کر ہوتا ہے۔ وہ پاکستان جسے ہم کو دنیا کے لیے مثال بنانا تھا اس پاکستان میں ہم نے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے ہزاروں بہانے ڈھونڈ لیے، ملک سنوارنا تو دور کی بات ہم نے اپنے گلی محلوں شہروں کو گندگی سے بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان میں آج ہماری سوچ صرف ''میں'' تک محدود رہ گئی ہے۔ پبلک پراپرٹی کا خیال رکھنا، سوسائٹی اور سسٹم کو سپورٹ کرنا ہماری سوچ کی ڈکشنری کا حصہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہم پارک، سڑکیں، جھیلیں، دریا، سمندر یہاں تک کہ جنگلات اور سرکاری عمارتوں کو ہم اس بے دردی سے استعمال کرتے ہیں جیسے ملک کے وجود میں آنے کا پبلک پراپرٹی سے بدلہ لے رہے ہوں۔ جس کو جتنا جیسا موقع مل رہا ہے پانی اور بجلی کی چوری کرتا ہے، ملازمین سے لے کر مسافروں تک پاکستان ریلوے ہو یا پی آئی اے سے جو ہوسکتا ہے چوری کر رہا ہے۔
عام آدمی، پولیس والا، بیوروکریٹ، سیاست دان کسی نہ کسی طرح قوم کو لوٹ رہا ہے، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے، سگنل پر رکی دو ہزار کی سائیکل ہو یا بیس لاکھ کی گاڑی جس کا جی چاہتا ہے سڑک پر کچرا پھینک دیتا ہے، دو لوگ سڑک پر حادثہ ہوجانے پر ایک دوسرے سے یہ تو ضرور پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ''کیا سڑک تمہارے باپ کی ہے؟'' لیکن اس باپ کی سڑک پر وہ کچرا گندگی پھینکتے ایک لمحے کو نہیں سوچتے۔
2012 ء میں ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کرپشن انڈکس میں پاکستان سو میں سے ستائیس پوائنٹس رکھتا ہے جو کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ یہ انڈیکس صرف اس لیے زیادہ نہیں ہے کہ ہم رشوت لیتے یا پھر ہر کام کو شارٹ کٹ سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے اوپر ہونے کی ایک اہم وجہ پاکستانیوں کا اپنی پبلک پراپرٹی کا خیال نہ رکھنا بتایا جاتا ہے۔
جو گورنمنٹ سرونٹ رشوت لیتا ہے وہ اتنا ہی قصوروار ہے جتنا وہ شخص جو اس گورنمنٹ آفس کی دیوار پر پان کی پیک تھوکتا ہے دونوں ہی پبلک کی پراپرٹی کے ساتھ غلط سلوک کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ اسکولز، ہاسپٹل اور دوسری پبلک بلڈنگوں میں بیشتر عمارتوں کی حالت خراب ہے اور وہ اس لیے نہیں کہ وہ پرانی ہیں اور ہر سال وہاں رنگ و روغن نہیں ہوتا بلکہ اس لیے کہ وہاں آنے والے اور کام کرنے والے ان جگہوں کا بالکل خیال نہیں رکھتے، پاکستان کی سڑکوں سے لے کر حکومت کی بلڈنگوں تک کوئی جگہ بین الاقوامی معیار صحت کا انسپکشن نہیں پاس کرسکتی یعنی اگر کوئی بھی بیرون ملک کا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ہماری سڑکوں اور بلڈنگوں کا معائنہ کرلے تو ان کے حساب سے اس جگہ کسی بھی موجود شخص کی صحت کو خطرہ ہوگا۔
کراچی کی آن وہاں کی سب سے اہم عمارت قائد اعظم کا مزار ہے اسے کچرا پھینک کر نہیں تو قوم دوسری طرح اس کا استحصال کر رہی ہے۔ ہر کچھ دن میں ایک مہم چلتی ہے جس میں پولیس غیر شادی شدہ جوڑوں کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہوتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامک اسٹیٹ ہے جہاں غیر شادی شدہ جوڑوں کا اکیلے جانا غیرقانونی ہے جس کا ہم سب کو اچھی طرح علم ہے لیکن پھر بھی ہماری قوم کا جوان اپنی ساری قوت ملک کو آگے بڑھانے میں لگانے کے بجائے اہم پبلک مقامات پر Dating کرکے اس کی بے حرمتی کرنے پر لگا رہا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت کے ایک پرانے گھر میں گزارے تھے جو 1892 میں برٹش گورنر جنرل کا موسم گرما میں رہنے کا بنگلہ تھا۔ قائد اعظم کے گزر جانے کے بعد اس جگہ کو قومی ملکیت قرار دے دیا گیا اور ''ریزیڈنسی'' کا لقب ملا۔
جون پندرہ 2013 کو کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے اس گھر کو آگ لگا دی۔ ملک بھر کے لوگوں کو اس سانحے پر بہت رنج ہے۔ سب بہت دکھ کا اظہار کر رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کے نام کو کوئی ڈرپوک صرف ایک خالی عمارت کو آگ لگا کر مٹا نہیں سکتا۔ وہ ڈرپوک جو رات کوسوا ایک بجے حملہ کرتا ہے اور ایک نہتے پولیس والے کو مار کر وہ ریزیڈنسی جلاتا ہے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ قائد اعظم سے اتنا ڈرتا ہے کہ اسے رات میں چوروں کی طرح حملہ کرنا پڑا۔
اگر ہم اپنے ملک قوم اور قائد اعظم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پبلک پراپرٹیز کا خیال رکھنا ہوگا ۔ قائد اعظم محمد علی اس چھوٹی سی ریزیڈنسی میں نہیں ہمارے دل میں رہتے ہیں۔ وہ جگہ جہاں سے کوئی انھیں مٹا نہیں سکتا۔ قائد اعظم کو اس آگ سے وہ تکلیف نہیں پہنچی ہوگی جو پوری قوم مل کر صبح شام پاکستانی پبلک پراپرٹی کو خراب کرکے انھیں پہنچا رہی ہے۔
وہ لوگ جو قائد اعظم کا نام مٹانا چاہتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں پہلی بار تین یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ دو سو یونیورسٹیوں میں شامل ہوئی ہیں اور ان میں سب سے اوپر یعنی 119 نمبر پر جو نام ہے وہ ہے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد۔ 2013 کی ورلڈ بیسٹ یونیورسٹیز میں قائد اعظم کا نام موجود ہے جہاں تم ایک نام کی تختی جلانا چاہتے تھے وہیں ہزاروں جگہ قائد اعظم کا نام پھر پھیلے گا۔
گیارہ ستمبر 1948 کو یہ خبر ضرور تھی کہ قائد اعظم نہیں رہے لیکن ایسے لوگ کہیں جاتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کوئی چھوٹی موٹی آگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
پاکستان بڑا ہونے لگا لیکن اسی طرح جس طرح بن باپ کا بچہ ٹھوکریں کھا کر ہوتا ہے۔ وہ پاکستان جسے ہم کو دنیا کے لیے مثال بنانا تھا اس پاکستان میں ہم نے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے ہزاروں بہانے ڈھونڈ لیے، ملک سنوارنا تو دور کی بات ہم نے اپنے گلی محلوں شہروں کو گندگی سے بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان میں آج ہماری سوچ صرف ''میں'' تک محدود رہ گئی ہے۔ پبلک پراپرٹی کا خیال رکھنا، سوسائٹی اور سسٹم کو سپورٹ کرنا ہماری سوچ کی ڈکشنری کا حصہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہم پارک، سڑکیں، جھیلیں، دریا، سمندر یہاں تک کہ جنگلات اور سرکاری عمارتوں کو ہم اس بے دردی سے استعمال کرتے ہیں جیسے ملک کے وجود میں آنے کا پبلک پراپرٹی سے بدلہ لے رہے ہوں۔ جس کو جتنا جیسا موقع مل رہا ہے پانی اور بجلی کی چوری کرتا ہے، ملازمین سے لے کر مسافروں تک پاکستان ریلوے ہو یا پی آئی اے سے جو ہوسکتا ہے چوری کر رہا ہے۔
عام آدمی، پولیس والا، بیوروکریٹ، سیاست دان کسی نہ کسی طرح قوم کو لوٹ رہا ہے، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے، سگنل پر رکی دو ہزار کی سائیکل ہو یا بیس لاکھ کی گاڑی جس کا جی چاہتا ہے سڑک پر کچرا پھینک دیتا ہے، دو لوگ سڑک پر حادثہ ہوجانے پر ایک دوسرے سے یہ تو ضرور پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ''کیا سڑک تمہارے باپ کی ہے؟'' لیکن اس باپ کی سڑک پر وہ کچرا گندگی پھینکتے ایک لمحے کو نہیں سوچتے۔
2012 ء میں ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کرپشن انڈکس میں پاکستان سو میں سے ستائیس پوائنٹس رکھتا ہے جو کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ یہ انڈیکس صرف اس لیے زیادہ نہیں ہے کہ ہم رشوت لیتے یا پھر ہر کام کو شارٹ کٹ سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے اوپر ہونے کی ایک اہم وجہ پاکستانیوں کا اپنی پبلک پراپرٹی کا خیال نہ رکھنا بتایا جاتا ہے۔
جو گورنمنٹ سرونٹ رشوت لیتا ہے وہ اتنا ہی قصوروار ہے جتنا وہ شخص جو اس گورنمنٹ آفس کی دیوار پر پان کی پیک تھوکتا ہے دونوں ہی پبلک کی پراپرٹی کے ساتھ غلط سلوک کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ اسکولز، ہاسپٹل اور دوسری پبلک بلڈنگوں میں بیشتر عمارتوں کی حالت خراب ہے اور وہ اس لیے نہیں کہ وہ پرانی ہیں اور ہر سال وہاں رنگ و روغن نہیں ہوتا بلکہ اس لیے کہ وہاں آنے والے اور کام کرنے والے ان جگہوں کا بالکل خیال نہیں رکھتے، پاکستان کی سڑکوں سے لے کر حکومت کی بلڈنگوں تک کوئی جگہ بین الاقوامی معیار صحت کا انسپکشن نہیں پاس کرسکتی یعنی اگر کوئی بھی بیرون ملک کا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ہماری سڑکوں اور بلڈنگوں کا معائنہ کرلے تو ان کے حساب سے اس جگہ کسی بھی موجود شخص کی صحت کو خطرہ ہوگا۔
کراچی کی آن وہاں کی سب سے اہم عمارت قائد اعظم کا مزار ہے اسے کچرا پھینک کر نہیں تو قوم دوسری طرح اس کا استحصال کر رہی ہے۔ ہر کچھ دن میں ایک مہم چلتی ہے جس میں پولیس غیر شادی شدہ جوڑوں کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہوتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامک اسٹیٹ ہے جہاں غیر شادی شدہ جوڑوں کا اکیلے جانا غیرقانونی ہے جس کا ہم سب کو اچھی طرح علم ہے لیکن پھر بھی ہماری قوم کا جوان اپنی ساری قوت ملک کو آگے بڑھانے میں لگانے کے بجائے اہم پبلک مقامات پر Dating کرکے اس کی بے حرمتی کرنے پر لگا رہا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت کے ایک پرانے گھر میں گزارے تھے جو 1892 میں برٹش گورنر جنرل کا موسم گرما میں رہنے کا بنگلہ تھا۔ قائد اعظم کے گزر جانے کے بعد اس جگہ کو قومی ملکیت قرار دے دیا گیا اور ''ریزیڈنسی'' کا لقب ملا۔
جون پندرہ 2013 کو کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے اس گھر کو آگ لگا دی۔ ملک بھر کے لوگوں کو اس سانحے پر بہت رنج ہے۔ سب بہت دکھ کا اظہار کر رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کے نام کو کوئی ڈرپوک صرف ایک خالی عمارت کو آگ لگا کر مٹا نہیں سکتا۔ وہ ڈرپوک جو رات کوسوا ایک بجے حملہ کرتا ہے اور ایک نہتے پولیس والے کو مار کر وہ ریزیڈنسی جلاتا ہے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ قائد اعظم سے اتنا ڈرتا ہے کہ اسے رات میں چوروں کی طرح حملہ کرنا پڑا۔
اگر ہم اپنے ملک قوم اور قائد اعظم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پبلک پراپرٹیز کا خیال رکھنا ہوگا ۔ قائد اعظم محمد علی اس چھوٹی سی ریزیڈنسی میں نہیں ہمارے دل میں رہتے ہیں۔ وہ جگہ جہاں سے کوئی انھیں مٹا نہیں سکتا۔ قائد اعظم کو اس آگ سے وہ تکلیف نہیں پہنچی ہوگی جو پوری قوم مل کر صبح شام پاکستانی پبلک پراپرٹی کو خراب کرکے انھیں پہنچا رہی ہے۔
وہ لوگ جو قائد اعظم کا نام مٹانا چاہتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں پہلی بار تین یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ دو سو یونیورسٹیوں میں شامل ہوئی ہیں اور ان میں سب سے اوپر یعنی 119 نمبر پر جو نام ہے وہ ہے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد۔ 2013 کی ورلڈ بیسٹ یونیورسٹیز میں قائد اعظم کا نام موجود ہے جہاں تم ایک نام کی تختی جلانا چاہتے تھے وہیں ہزاروں جگہ قائد اعظم کا نام پھر پھیلے گا۔
گیارہ ستمبر 1948 کو یہ خبر ضرور تھی کہ قائد اعظم نہیں رہے لیکن ایسے لوگ کہیں جاتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کوئی چھوٹی موٹی آگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔