ایک طرف
اگر کسی وجہ سے منگنی ٹوٹ جاتی ہے تو دونوں خاندانوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔
عدالت کے روبرو ایک بزرگ جوڑا تھا۔مرد کی عمر 80 سال تو خاتون تقریباً 75 برس کی ہوں گی۔ یہ کورٹ بچوں کی تحویل و بھلائی کی کورٹ تھی۔ میاں بیوی تقریباً رونے کے انداز میں اپنی گفتگو کر رہے تھے۔ خاتون جج کے علاوہ وکلاء اور عملہ بھی ان کی مظلومیت پر اداس لگ رہا تھا۔ اس دوران ایک تیس بتیس سال کا شخص عدالت کے روبرو پیش ہوا۔ جج صاحبہ نے پوچھا کہ آپ اس مقدمے میں کیا ہیں؟ اس شخص نے بتایا کہ وہ بچوں کا ماموں ہے۔ عدالت نے برہمی کے انداز میں کہا کہ آپ نے دونوں بچوں کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور ان کے دادا دادی سے نہیں ملوا رہے۔ اس نے کہا کہ مقدمے پر ہمارے وکیل صاحب بات کرینگے۔ عدالت نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ دوسری عدالت سے ابھی آرہے ہیں۔
کورٹ نے دس منٹ کا وقت دیا اس دوران دوسرے مقدمے نمٹائے گئے۔ تھوڑی دیر ہوئی تو وکیل صاحب آگئے۔ عدالت نے اپنا سوال دہرایا کہ ان کا جوان بیٹا فوت ہوگیا اور آپ ان بزرگوں کو ان کے پوتے پوتی سے نہیں ملوا رہے۔ وکیل صاحب نے کہا کہ یہ یکطرفہ صورتحال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے والدین دبئی میں کام کرتے تھے۔ انھوں نے پچیس تیس لاکھ کا فلیٹ لیا تھا۔ جب میاں بیوی اور بچے دبئی سے آتے تو ان کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ رہتے۔ فلیٹ کی ایک چابی ان بزرگوں کے پاس تھی۔ وہ اپنے بیٹے ، بہو اور پوتے پوتی کی آمد سے پہلے صفائی ستھرائی کرواتے۔ اچانک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ میت کی تدفین ان کے اسی فلیٹ سے ہوئی۔
تین دن بعد ان دونوں بزرگوں نے اپنے ایک بیٹے کی مدد سے بیوہ و یتیم بچوں کو فلیٹ سے نکال باہر کرکے بہو کو اس کی ماں کے گھر بھجوادیا۔ یہ تین برس قبل کی بات ہے۔ اس دوران وہ فلیٹ جو یتیموں کے باپ نے اپنی کمائی سے بنایا تھا ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو محروم کردیا۔ یہ بچے گزشتہ تین سال سے اپنی نانی کے گھر رہ رہے ہیں۔ تینوں کے تمام اخراجات ان کے نانا اور ماموں برداشت کر رہے ہیں۔ اب چند لاکھ روپے بقایا جات دبئی سے ملنے والے ہیں تو یہ بزرگوار پوتے پوتی کی محبت کا حق جتانے تین سال بعد عدالت میں آئے ہیں۔ صورت حال بالکل بدل گئی۔ جو بوڑھے مرد و خاتون مظلوم نظر آرہے تھے اب ان کی حیثیت ظالموں کی سی ہوگئی تھی۔ جب تک دوسرے فریق کا نقطہ نظر معلوم نہ کیا جائے تو ایک طرف کی بات سن کر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
جب منگنی ہوتی ہے تو دونوں خاندان بڑے خوش ہوتے ہیں۔ تحفوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور دعوتوں میں ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے منگنی ٹوٹ جاتی ہے تو دونوں خاندانوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔ رشتے کے ٹوٹنے کے بعد اب دونوں خاندانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کی دوسری جگہ منگنی جلدازجلد ہوجائے۔ ہم آگے نکل جائیں اور دوسرا فریق پیچھے رہ جائے۔ اس صورت حال میں دونوں فریقین دو دو محاذ پر لڑ رہے ہوتے ہیں۔ پہلا محاذ ایک دوسرے کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رشتہ دوسرے فریق کی خامی کی وجہ سے ٹوٹا ہے۔ ایسے میں زبانیں خطرناک ہتھیار بن جاتی ہیں۔ لڑکے کی آوارہ گردی اور بری صحبت کے تذکرے کیے جاتے ہیں، جس لڑکے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے اب اسے تمام برائیوں کا مرکز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکے کی مالی بد معاملگی کے قصے چھیڑے جاتے ہیں۔
دوسری طرف لڑکے والے لڑکی کی برائیاں زمانے کے سامنے پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہاں لڑکی کے کردار پر حملہ کیا جاتا ہے۔ یہ افواہیں اڑائی جاتی ہیں کہ اس کا کسی اور لڑکے کے ساتھ چکر تھا۔ زمانہ ایسے قصوں کو مرچ مصالحہ لگا کر بیان کرتا ہے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایک فریق کی بات سن کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یوں دو خاندان زبان، کانا پھوسی اور افواہوں کے اسلحوں سے لیس ہوکر دوسرے فریق کے کردار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے میں جس لڑکے، لڑکی کا رشتہ ٹوٹا ہوتا ہے اس کے بھائی بہن بھی حملوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ کوئی ان افواہوں کی سچائی نہیں تولتا۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ رشتہ ڈالنے سے پہلے آپ نے معلومات نہ کیں۔ لڑکے والے اس سوال پر لاجواب ہوسکتے ہیں لیکن کوئی ان سے سوال نہیں پوچھتا۔
لڑکی والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ رشتہ آنے کے بعد آپ نے تحقیقات نہ کیں۔ یوں دونوں طرف کے خاندان اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اپنے آپ کو سچا ثابت کرتے ہیں۔ اس افواہ سازی کا ایک اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس لڑکے و لڑکی کے لیے جب کسی اور جگہ سے رشتہ طے کرنے کا مرحلہ آئے تو ہم سچے ثابت ہوں۔ ماضی کی غلطی کی تلافی اور مستقبل میں اس بچے کے لیے اچھے رشتے کی خاطر اس جنگ کی ابتداء کی جاتی ہے۔ معاشرہ بالخصوص خواتین بغیر دماغ لڑائے ایک طرف کی بات سن کر بات کو آگے بڑھادیتی ہیں۔ خطرناک صورت حال پیش آتی ہے جب رشتہ نکاح و رخصتی میں بدلنے کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔ اس مرحلے پر الزامات کی شدت اور بھی سخت ہوتی ہے۔
نکاح کے بعد رخصتی ہو اور کچھ عرصے کی ناچاقی کے بعد لڑکی اپنی ماں کے گھر آجائے تو قریبی رشتے دار اور پڑوسی چہ میگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ Mind Your Business اسے کہا جاتا ہے جو سامنے کچھ کہہ رہا ہو۔ افواہ سازی علیحدہ ہونیوالے جوڑوں کے والدین اور بھائی بہنوں کے کان میں پہنچتی ہے۔ ایک کی دو کرنے والا معاشرے میں مرچ مصالحہ لگا کر اس کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ فریقین کی خاموشی اور سمجھداری دوسروں کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دیتی۔ نادانی بات کو بڑھاتی ہے۔ پہلی غلطی لڑکے لڑکی کے گھر والوں کی ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی خامیاں معاشرے کو بتا کر خود اپنے آپ کو تماشا بناتے ہیں۔ ایک طرف کی بات سن کر رائے قائم کرنے والا معاشرہ اس پر یقین کرکے بات آگے کو پھونک دیتا ہے، اب لڑکی کی لاپرواہی سستی اور کام پر توجہ نہ دینے کے الزامات ہوتے ہیں تو لڑکے پر توجہ نہ دینے، نہ کمانے یا کم کمانے کی داستان کے علاوہ طبی طور پر ان فٹ ہونے کی داستان بھی ہوتی ہے۔ اس الزام کی صحت اس وقت غلط ثابت ہوتی ہے جب لڑکا کسی دوسری جگہ شادی کرکے کئی بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ اسی لیے صرف تصویر کا ایک رخ دیکھ کر رائے قائم کرنے کی بجائے دوسرے فریق کی رائے سننی چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو ان واقعات سے رہنمائی لینی چاہیے۔
حضرت علیؓ نے جب دشمن کو پچھاڑ دیا تو اس نے ان کے منہ پر تھوک دیا۔ یہ گستاخی دیکھ کر وہ دشمن کے سینے سے ہٹ گئے اور اسے چھوڑ دیا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں تو اس سے اللہ کی خاطر لڑ رہا تھا۔ جب اس نے منہ پر تھوک دیا تو اس میں میرے جذبات بھی شامل ہوگئے۔ یہ واقعہ انسانی نفسیات کو بیان کرتا ہے کہ اچھے و برے سلوک اور قریبی رشتے داری کسی بھی شخص کو ایک طرف جھکنے پر مائل کرسکتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ کا ایک دوست آپ کو باکسنگ کے مقابلے کا ٹکٹ دیتا ہے اور اپنے ساتھ آپ کو لے جاتا ہے۔ یہ مقابلہ آپ کے دوست کے بھائی اور اس کے حریف کے درمیان ہورہا ہے۔ باکسنگ اور باکسرز سے ناواقفیت کے باوجود آپ چاہیں گے کہ آپ کے دوست کا بھائی جیت جائے۔ یہاں تک تو طرفداری ٹھیک ہے۔ جب آپ سے انصاف طلب کیا جائے یا آپ کی گفتگو کسی کو سچا یا جھوٹا ثابت کر رہی ہو تو صرف ایک فریق کی بات سن کر رائے قائم کرنا غیر مناسب ہوتا ہے۔ چاہے تجارت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا عدالت، یہ غیر مناسب ہے کہ ہم رائے قائم کریں بات سن کر ایک طرف کی۔
کورٹ نے دس منٹ کا وقت دیا اس دوران دوسرے مقدمے نمٹائے گئے۔ تھوڑی دیر ہوئی تو وکیل صاحب آگئے۔ عدالت نے اپنا سوال دہرایا کہ ان کا جوان بیٹا فوت ہوگیا اور آپ ان بزرگوں کو ان کے پوتے پوتی سے نہیں ملوا رہے۔ وکیل صاحب نے کہا کہ یہ یکطرفہ صورتحال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے والدین دبئی میں کام کرتے تھے۔ انھوں نے پچیس تیس لاکھ کا فلیٹ لیا تھا۔ جب میاں بیوی اور بچے دبئی سے آتے تو ان کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ رہتے۔ فلیٹ کی ایک چابی ان بزرگوں کے پاس تھی۔ وہ اپنے بیٹے ، بہو اور پوتے پوتی کی آمد سے پہلے صفائی ستھرائی کرواتے۔ اچانک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ میت کی تدفین ان کے اسی فلیٹ سے ہوئی۔
تین دن بعد ان دونوں بزرگوں نے اپنے ایک بیٹے کی مدد سے بیوہ و یتیم بچوں کو فلیٹ سے نکال باہر کرکے بہو کو اس کی ماں کے گھر بھجوادیا۔ یہ تین برس قبل کی بات ہے۔ اس دوران وہ فلیٹ جو یتیموں کے باپ نے اپنی کمائی سے بنایا تھا ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو محروم کردیا۔ یہ بچے گزشتہ تین سال سے اپنی نانی کے گھر رہ رہے ہیں۔ تینوں کے تمام اخراجات ان کے نانا اور ماموں برداشت کر رہے ہیں۔ اب چند لاکھ روپے بقایا جات دبئی سے ملنے والے ہیں تو یہ بزرگوار پوتے پوتی کی محبت کا حق جتانے تین سال بعد عدالت میں آئے ہیں۔ صورت حال بالکل بدل گئی۔ جو بوڑھے مرد و خاتون مظلوم نظر آرہے تھے اب ان کی حیثیت ظالموں کی سی ہوگئی تھی۔ جب تک دوسرے فریق کا نقطہ نظر معلوم نہ کیا جائے تو ایک طرف کی بات سن کر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
جب منگنی ہوتی ہے تو دونوں خاندان بڑے خوش ہوتے ہیں۔ تحفوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور دعوتوں میں ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے منگنی ٹوٹ جاتی ہے تو دونوں خاندانوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔ رشتے کے ٹوٹنے کے بعد اب دونوں خاندانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کی دوسری جگہ منگنی جلدازجلد ہوجائے۔ ہم آگے نکل جائیں اور دوسرا فریق پیچھے رہ جائے۔ اس صورت حال میں دونوں فریقین دو دو محاذ پر لڑ رہے ہوتے ہیں۔ پہلا محاذ ایک دوسرے کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رشتہ دوسرے فریق کی خامی کی وجہ سے ٹوٹا ہے۔ ایسے میں زبانیں خطرناک ہتھیار بن جاتی ہیں۔ لڑکے کی آوارہ گردی اور بری صحبت کے تذکرے کیے جاتے ہیں، جس لڑکے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے اب اسے تمام برائیوں کا مرکز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکے کی مالی بد معاملگی کے قصے چھیڑے جاتے ہیں۔
دوسری طرف لڑکے والے لڑکی کی برائیاں زمانے کے سامنے پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہاں لڑکی کے کردار پر حملہ کیا جاتا ہے۔ یہ افواہیں اڑائی جاتی ہیں کہ اس کا کسی اور لڑکے کے ساتھ چکر تھا۔ زمانہ ایسے قصوں کو مرچ مصالحہ لگا کر بیان کرتا ہے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایک فریق کی بات سن کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یوں دو خاندان زبان، کانا پھوسی اور افواہوں کے اسلحوں سے لیس ہوکر دوسرے فریق کے کردار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے میں جس لڑکے، لڑکی کا رشتہ ٹوٹا ہوتا ہے اس کے بھائی بہن بھی حملوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ کوئی ان افواہوں کی سچائی نہیں تولتا۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ رشتہ ڈالنے سے پہلے آپ نے معلومات نہ کیں۔ لڑکے والے اس سوال پر لاجواب ہوسکتے ہیں لیکن کوئی ان سے سوال نہیں پوچھتا۔
لڑکی والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ رشتہ آنے کے بعد آپ نے تحقیقات نہ کیں۔ یوں دونوں طرف کے خاندان اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اپنے آپ کو سچا ثابت کرتے ہیں۔ اس افواہ سازی کا ایک اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس لڑکے و لڑکی کے لیے جب کسی اور جگہ سے رشتہ طے کرنے کا مرحلہ آئے تو ہم سچے ثابت ہوں۔ ماضی کی غلطی کی تلافی اور مستقبل میں اس بچے کے لیے اچھے رشتے کی خاطر اس جنگ کی ابتداء کی جاتی ہے۔ معاشرہ بالخصوص خواتین بغیر دماغ لڑائے ایک طرف کی بات سن کر بات کو آگے بڑھادیتی ہیں۔ خطرناک صورت حال پیش آتی ہے جب رشتہ نکاح و رخصتی میں بدلنے کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔ اس مرحلے پر الزامات کی شدت اور بھی سخت ہوتی ہے۔
نکاح کے بعد رخصتی ہو اور کچھ عرصے کی ناچاقی کے بعد لڑکی اپنی ماں کے گھر آجائے تو قریبی رشتے دار اور پڑوسی چہ میگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ Mind Your Business اسے کہا جاتا ہے جو سامنے کچھ کہہ رہا ہو۔ افواہ سازی علیحدہ ہونیوالے جوڑوں کے والدین اور بھائی بہنوں کے کان میں پہنچتی ہے۔ ایک کی دو کرنے والا معاشرے میں مرچ مصالحہ لگا کر اس کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ فریقین کی خاموشی اور سمجھداری دوسروں کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دیتی۔ نادانی بات کو بڑھاتی ہے۔ پہلی غلطی لڑکے لڑکی کے گھر والوں کی ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی خامیاں معاشرے کو بتا کر خود اپنے آپ کو تماشا بناتے ہیں۔ ایک طرف کی بات سن کر رائے قائم کرنے والا معاشرہ اس پر یقین کرکے بات آگے کو پھونک دیتا ہے، اب لڑکی کی لاپرواہی سستی اور کام پر توجہ نہ دینے کے الزامات ہوتے ہیں تو لڑکے پر توجہ نہ دینے، نہ کمانے یا کم کمانے کی داستان کے علاوہ طبی طور پر ان فٹ ہونے کی داستان بھی ہوتی ہے۔ اس الزام کی صحت اس وقت غلط ثابت ہوتی ہے جب لڑکا کسی دوسری جگہ شادی کرکے کئی بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ اسی لیے صرف تصویر کا ایک رخ دیکھ کر رائے قائم کرنے کی بجائے دوسرے فریق کی رائے سننی چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو ان واقعات سے رہنمائی لینی چاہیے۔
حضرت علیؓ نے جب دشمن کو پچھاڑ دیا تو اس نے ان کے منہ پر تھوک دیا۔ یہ گستاخی دیکھ کر وہ دشمن کے سینے سے ہٹ گئے اور اسے چھوڑ دیا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں تو اس سے اللہ کی خاطر لڑ رہا تھا۔ جب اس نے منہ پر تھوک دیا تو اس میں میرے جذبات بھی شامل ہوگئے۔ یہ واقعہ انسانی نفسیات کو بیان کرتا ہے کہ اچھے و برے سلوک اور قریبی رشتے داری کسی بھی شخص کو ایک طرف جھکنے پر مائل کرسکتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ کا ایک دوست آپ کو باکسنگ کے مقابلے کا ٹکٹ دیتا ہے اور اپنے ساتھ آپ کو لے جاتا ہے۔ یہ مقابلہ آپ کے دوست کے بھائی اور اس کے حریف کے درمیان ہورہا ہے۔ باکسنگ اور باکسرز سے ناواقفیت کے باوجود آپ چاہیں گے کہ آپ کے دوست کا بھائی جیت جائے۔ یہاں تک تو طرفداری ٹھیک ہے۔ جب آپ سے انصاف طلب کیا جائے یا آپ کی گفتگو کسی کو سچا یا جھوٹا ثابت کر رہی ہو تو صرف ایک فریق کی بات سن کر رائے قائم کرنا غیر مناسب ہوتا ہے۔ چاہے تجارت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا عدالت، یہ غیر مناسب ہے کہ ہم رائے قائم کریں بات سن کر ایک طرف کی۔