آئی ایم ایف ایک عالمی ساہوکار…

آئی ایم ایف دراصل ایسا عالمی مالیاتی ادارہ ہے جس کا اندرونی نظام مالیاتی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔


شعیب واجد June 23, 2013

ان دنوں ایک حکومتی اقدام کابڑا چرچا ہے۔خاص طور پر معاشی حلقوں میں اس کا ذکر کافی زور شور سے ہورہا ہے۔اور وہ اقدام ہے، پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے رجوع،اور ایک بہت بڑا قرضہ لینے کی تیاری...

یوں تو آخری چند ماہ میں بین الاقوامی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستانی خزانے ، یعنی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ، ہر پاکستانی کو دہلائے دے رہی تھی ۔کیونکہ صرف ایک سال پہلے تک جو ذخائر سترہ ارب ڈالر تھے ۔وہ اب صرف ساڑھے گیارہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔

لیکن سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ان ذخائر میں کمی کی وجہ یہ نہیں، کہ یہ پیسہ کسی ترقیاتی منصوبے پر خرچ ہوا ہو، بلکہ یہ ساری کی ساری رقم قرضہ اتارنے پر خرچ ہوئی اور قرضہ بھی آئی ایم ایف ہی کا ، آئی ایم ایف اس بار نجانے کیوں پاکستانی حکومت سے خاصا قریب نظر آرہا ہے۔ آئی ایم ایف وفد کے سربراہ جیفری فرینک نے جب اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے پہلی ملاقات کی تو اس ملاقات کے بعد ان کا موڈ خاصا خوشگوار نظر آیا۔ موصوف کہتے ہیں کہ پاکستانی بجٹ میں تجویز کیے گئے اقدامات قابل اطمینان ہیں۔ انھوں نے حیرت انگیز طور پر مختلف شعبوں میں صارفین کو دی جانے والی سبسڈی پربھی اطمینان کا اظہار کیا۔ حالانکہ سبسڈی وہ اقدام ہے، جو آئی ایم ایف کی نیندیں اڑا دیتا ہے۔ پاکستان قوم کبھی نہیں بھول سکتی ، نوے کی دہائی کا وہ دور جب آئی ایم ایف کی شرائط مان مان کر ہم نے اپنی اقتصادیات کا بھٹہ بٹھا دیا تھا ۔


معاشیات کے طالب علموں کو اچھی طرح یاد ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہم نے درجنوں شعبوں سے سبسڈی ختم کرکے بوجھ پبلک پر ڈال دیا۔ ملکی اثاثوں کو پرائیویٹائزیشن کے نام پر اونے پونے فروخت کیا۔یہی نہیں آئی ایم ایف کی فرمائش پر ہی پاکستانی سرکاری اداروں میں وہ تاریخی چھانٹیاں بھی ہوئیں جن کی وجہ سے گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر لاکھوں ملازمین کی نوکریاں چھین لی گئیں۔

اس بار بھی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا چار پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ کا امدادی پیکیج، سمجھیں منظور ہو ہی چکا ہے ۔ لیکن اس کے بدلے عوام کو قربانی کیا دینی پڑے گی؟؟؟ یہ بات ابھی عوام کو نہیں بتائی جاسکتی ...سیکرٹ ہے !!

لیکن عوام آئی ایم ایف کو بھی جانتے ہیں اور پاکستان حکمرانوں کو بھی ...

عالمی معاشیات کی سمجھ رکھنے والوں کو پتا ہے کہ آئی ایم ایف اصل میں مالیاتی ادارہ نہیں بلکہ ایک عالمی ساہو کار ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو عالمی ساہوکار کیوں کہا جاتا ہے ۔

یہ جاننے کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے اسٹرکچرکے بارے میں جاننا ہوگا۔ آئی ایم ایف دراصل ایسا عالمی مالیاتی ادارہ ہے جس کا اندرونی نظام مالیاتی نہیں بلکہ سیاسی ہے اس بات کو ہم یوں مزید بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ آئی ایم کے اثاثے تین بڑے اقتصادی خطوں کی امداد پر منحصر ہیں یعنی آئی ایم ایف میں امریکا ،یورپی یونین اور جاپان کی فنڈنگ ہوتی ہے۔اس فنڈنگ میں سب بڑا حصہ امریکا کا ہے جو کہ پینتالیس فیصد کے لگ بھگ ہے یہاں ایک حیرت کی بات یہ بھی ہے سب سے بڑا حصے دار ہونے کی وجہ سے امریکا کے پاس آئی ایم ایف میں ویٹو کے رائٹس بھی سب سے زیادہ ہیں۔

آئی ایم کا یہ اسٹرکچر اس کی عالمی مالیاتی پالیسی بنانے کا ذمے دار ہے اور اس پالیسیوں میں امریکا کا رول سر فہرست ہوتا ہے اور اکثر آئی ایم ایف میں اپنے بڑے اثاثوں کی بنا پر امریکا باقی دونوں بڑے معاشی خطوں یعنی ،یورپی یونین اور جاپان کو بھی بائی پاس کرجاتا ہے ۔

آئی ایم ایف کا اس طرح کا اسٹرکچر اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں قرضے امریکا بہادر کی آشیر باد سے جاری ہوتے ہیں، قرضوں کے لیے بظاہر شرط میرٹ ہی ہوتی ہے لیکن کوئی ملک اگر امریکا بہادر کی گڈ بک میں نہ ہو تو پھر قرضے کی شرائط بھی اسی حساب سے طے ہوتی ہیں۔

پاکستانی عوام کو بھی آئی ایم ایف کے اس کردار کا بخوبی اندازہ ہے خاص طور پر انھیں یاد ہے کہ اسی کی دہائی کے اواخر میں جب پہلی بار پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا تو اس نے کیا کھویا تھا اس وقت ہم نے اپنی کرنسی کی آزادی کھوئی تھی۔ آئی ایم ایف کا ہم سے مطالبہ تھا کہ روپے کو اپنی قدر طے کرنے کے لیے فلوٹ کردیا جائے یعنی آزاد چھوڑ دیا جائے ، انیس سو نوے میں ہمیں روپے کو آخر کار فلوٹ کرناہی پڑگیا ، فلوٹ ہوتے ہی روپیہ اگلے بارہ گھنٹوں میں پندرہ فیصد ڈی ویلیو ہوگیا اور وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

نوے کی دہائی میں چار بار سیاسی حکومتیں بنیں اور چاروں ہی آئی ایم ایف کے پاس فریاد لے کر گئیں جس کا نتیجہ ہم نے سبسڈیز میں کمی ، ملازمین کی چھانٹی اور پرائیویٹائزیشن کی صورت میں دیکھا ۔

سن دوہزار کی آخری دہائی میں دور بدلا اور شوکت عزیز فوجی حکومت کے وزیرخزانہ بنے، شوکت عزیز عالمی مالیاتی اسٹیبلشمنٹ کا سرگرم کردار رہے ہیں، انھیں ان عالمی اداروں کی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کا پتا تھا۔

سن دو ہزار چار میں شوکت عزیز نے بطور اس وقت کے وزیر اعظم ، آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا فیصلہ کیا ، اس موقع پر آئی ایم ایف نے اپنی شرائط نرم کرنے کی بھی پیشکش کی لیکن دو ہزار پانچ میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو باقاعدہ طور پر بائے بائے کہہ دیا۔ مگر دو ہزار آٹھ میں دور بدلا اور پاکستان کو ایک بار پھر قرضے کی ضرورت پڑگئی۔ اس وقت حکومت نے آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ حاصل کیا۔ پانچ سال کے اس معاہدے کے تحت پاکستان نے ساڑھے گیارہ ارب ڈالر قرضہ لیا۔ اس قرضے کی سود سمیت ادائیگی پر ہم سالانہ بارہ سو ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے موقع پر پاکستان کی معاشی حالت نوے کی دہائی کے اواخر جیسے حالات سے بھی پست تھی اسی لیے بظاہر نظر یہ آرہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ کا ایک اور معاہدہ ناگزیر ہوچکا ہے ۔

قرضے لینا کوئی جرم نہیں،دنیا میں بڑے بڑے ملک قرضے لیتے ہیں اور اس رقم کو اپنے ملک کی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کبھی قرضوں سے کوئی تبدیلی آتی نہیں دیکھی گئی اس کی وجہ صاف ہے یعنی کڑی شرائط پر بھی قرض قبول کرلینا لیکن اس کے بعد اس قرض کے درست استعمال کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان۔

قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لینا کسی ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لیجاتا ہے لیکن قرضہ اچھی منصوبہ بندی کے لیے لیا جائے تو ملکی معیشت کو تقویت بھی پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک بار ملکی معیشت کو درست ٹریک پر ڈال دیا جائے اور اس کے لیے حکومت کو خلوص کے ساتھ سخت محنت کرنا ہوگی ۔اگر یہ موقع ہاتھ سے گیا تو پھر معیشت سنبھالنا آنے والے وقتوں میں مشکل ترین ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں