شبِ برأت

فضیلت و اہمیت اور مسنون اعمال


فضیلت و اہمیت اور مسنون اعمال فوٹو: فائل

ماہِ شعبان المعظم اور اس کی پندرھویں شب یعنی ''شب برات'' کی عظمت و فضیلت اور اہمیت امت مسلمہ میں ہمیشہ سے مُسلّمہ رہی ہے، کیوں کہ یہ عظیم الشان رات گناہ گاروں کی بخشش و مغفرت اور جہنم سے نجا ت کی رات ہوتی ہے۔

یہ رات ذکر و فکر، تسبیح و تلاوت، توبہ استغفار، کثرتِ نوافل، صدقات و خیرات، عجز و نیاز مندی اور مراقبہ و احتسابِ عمل کی رات ہے۔ جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کی بھی دو عیدیں آسمانوں پر ہیں اور ''شب برات'' وہ عظیم رات ہے، جسے آسمانوں میں فرشتوں کی '' عید'' کہا جاتا ہے۔

اس مبارک و مقدس رات کے بارے میں قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے : ''حم (حق کو واضح کر نے والی) کتاب (قرآن ) کی قسم! ہم نے اس کو با برکت رات میں نازل فرمایا ہے، ہم بر وقت خبردار کر دیا کر تے ہیں، اسی رات میں تمام حکمت والے کاموں کا فیصلہ کیا جا تا ہے، ہر حکم ہماری جانب سے صادر ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہم ہی (تمھاری طرف کتاب و رسول ) بھیجتے ہیں، تمھارے رب کی طرف سے سراسر رحمت ہے، بے شک وہی سب کچھ سننے والا اور بہت جا ننے والا ہے۔'' (الدخان:1-6)

شعبان کی پندرھویں شب کو ''شب برات'' اس لیے کہتے ہیں کہ ''برأت'' کا معنیٰ ہے: ''نجات پانا'' اور ''آزاد و بری ہو جانا''، چوں کہ اس عظیم رات میں اللہ تعالیٰ بے شمار گناہ گاروں کو جہنم سے نجات اور آزادی عطا فرما دیتا ہے، اس لیے اس رات کو ''شب برات'' کہتے ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں شعبان المعظم کی پندرھویں شب یعنی شب برات کے چار مشہور نام وارد ہوئے ہیں، جو حسب ِ ذیل ہیں:

۱۔ لیلۃ البرات یعنی نجات والی رات

۲۔ لیلۃ الرحمت یعنی رحمتوں والی رات

۳۔ لیلۃُ المبارک یعنی برکتوں والی رات

۴۔ لیلۃ الصک یعنی نجات کا چیک ملنے کی رات

شب برات کی برکتیں اور رحمتیں

شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو شب برات کہا جاتا ہے یعنی جہنم سے نجات اور آزادی کی رات، مغفرت و رحمت کی رات، یہ رات جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت ِ مسلمہ کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے۔ اس عظیم البرکت رات کی عظمت و فضیلت کو بیان کر تے ہوئے حضور نبی کریمؐ فرماتے ہیں : '' جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو قیام کرو (یعنی نمازیں پڑھو) جب کہ دن کو روزہ رکھو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس رات کو غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق عطا کروں۔ ہے کوئی گرفتارِ مصیبت کہ میں اس کو مصیبت سے نجات دے دوں۔ اسی طرح یہ صدائے عام برابر جا ری رہتی ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے۔'' (ابن ماجہ)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ''شعبان کی پندرھویں رات (یعنی شب برات) کو یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال کون کون آدمی پیدا ہوگا اور اس سال کون کون انتقال کرے گا اور اس رات کو بنی آدم کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے جاتے ہیں اور اس رات کو اُن کا رزق (اسباب کے ساتھ ) نازل کیا جاتا ہے (یعنی وہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ ہوتے ہیں، ا س رات میں لوحِ محفوظ سے علیحدہ کر کے متعلقہ فرشتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں، جس کی وہ سال بھر میں تعمیل کرتے ہیں) پھر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہو گا۔''

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میں نے نبی کریمؐ کو اپنے پاس نہیں پایا تو میں آپ کو تلاش کرنے نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ جنت البقیع (قبرستان) میں ہیں، اس حال میں کہ سر مبارک آسمان کی طرف کیے ہوئے ہیں، آپ نے (مجھے دیکھا تو) فرمایا: ''اے عائشہ! کیا تم اس با ت کا خوف رکھتی ہوکہ اللہ اور اس کے رسولؐ تمھارے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی نا انصافی کریں گے۔'' حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! ایسی تو کوئی بات نہیں، البتہ میں سمجھ رہی تھی کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتا ہے اور (قبیلہ) بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ (اپنے بندوں کی) بخشش فرما دیتا ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور سید عالمؐ نے فرمایا کہ : ''حضر ت جبرائیلؑ شعبان کی پندرھویں شب کو میرے پاس آئے اور کہا : ''اے محمدؐ! آسمان کی طرف اپنا سر اقدس اٹھائیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ کو ن سی رات ہے؟ حضرت جبرائیلؑ نے جواب دیا، یہ وہ رات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ رحمت کے دروازوں میں سے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جو مشرک نہ ہو البتہ جادو گروں، کا ہنوں، عادی شرابیوں، بار بار سود کھا نے والوں اور زنا کار کی بخشش نہیں ہوتی جب تک کہ وہ سچی توبہ نہ کریں۔ جب رات کا چوتھائی حصہ ہوا تو حضرت جبرائیلؑ نے دوبارہ عرض کی، اے اللہ کے رسولؐ اپنا سر اٹھائیں ۔ آپؐ نے اپنا سر انور اٹھا کر دیکھا تو جنت کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور پہلے دروزے پر ایک فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ اس رات کو رکوع کر نے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔

دوسرے دروازے پر کھڑا فرشتہ کہہ رہا تھا کہ آج سجدہ کر نے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔ تیسرے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا کہ اس رات دعا مانگنے وا لوں کے لیے خوش خبری ہے۔ چو تھے دروازے والے فرشتے کی ندا تھی، اس رات ذکر خداوندی کر نے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔ پانچویں دروازے پر فرشتے کی پکار تھی، اس رات اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔ چھٹے دروازے پر فرشتے کا کہنا تھا اس رات تمام (عبا دت گزار ) مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔

ساتویں دروازے پر موجود فرشتے کی آواز تھی، ہے کو ئی سائل جس کو سوال کے مطابق عطا کیا جائے۔ جب کہ آٹھویں دروازے والا فرشتہ کہہ رہا تھا، ہے کو ئی بخشش کا طلب گار جس کو بخش دیا جائے۔ حضور نبی اکرمؐ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے تو حضرت جبرائیلؑ نے کہا کہ یہ دروازے رات کے شروع ہونے سے طلوع فجر تک کھلے رہیں گے اور اس رات اللہ تعالیٰ (عرب کے مشہور) '' قبیلہ بنو کلب'' کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے۔''

(غنیۃ الطالبین)

شب برات بہت بابرکت اور عظمت والی رات ہے اور یہ رات عبادتِ خداوندی، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار، توبہ استغفار اور درود شریف پڑھنے کی رات ہے، لیکن کچھ ناسمجھ اور نادان لوگ اس رات آتش بازی اور پٹاخے پھوڑتے ہیں، حالاںکہ اس رات سے آتش بازی اور پٹاخوں کا کوئی تعلق اور کوئی نسبت نہیں ہے بلکہ اس با برکت رات میں آتش بازی کرنا یا پٹاخے پھوڑنا سراسر ناجائز، گناہِ کبیرہ اور شیطانی عمل ہے۔

کس قدر نادان ہیں وہ لوگ جو اس مقدس رات میں آتش بازی اور شیطانی عمل کرکے نہ صرف اپنی دولت کو آگ لگاتے ہیں بلکہ پٹاخوں کے شور اور ہنگاموں سے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ناجائز اذیت وتکلیف دے کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں، کیوںکہ مسلمانوں کو ناجائز تنگ اور پریشان کرنے اور انھیں کسی قسم کی اذیت و تکلیف دینے سے متعلق نبی اکرمؐ کا فرمان ہے کہ : '' (حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت وتکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔'' (بخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ: '' اللہ کی قسم وہ ایمان نہیں رکھتا۔'' پوچھا گیا: '' یا رسول اللہ ﷺ! کون ایمان نہیں رکھتا''؟ آپؐ نے فرمایا کہ: '' وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی (زبان اور ہاتھ کی) تکلیفوں (اور شر انگیزی) سے محفوظ نہ رہے۔'' جب کہ علامہ شرف الدین یحییٰ نووی کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ ارشاد ہے : ''جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا، جس کا پڑوسی اس کی شر انگیزی سے محفوظ نہیں۔'' (ریاض الصالحین)

نبی اکرمؐ نے اپنے متعدد ارشادات اور فرامین میں حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی۔ لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ایسے تمام افراد اور بچوں کو جو اس حرام اور ناجائز عمل میں ملوث ہوں، سختی سے روکیں تا کہ اس با برکت رات میں عبادت کرنے والے مسلمان خواتین و حضرات کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو اور وہ دل جمعی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں