سماجی سیاسی اور ثقافتی حقوق
کرپشن کے ہر کیس کی موثر تحقیقات کی جائے اور ذمے داران کو سزا دی جائے۔
ہمیں تو ارون دھتی رائے جیسے لوگ اچھے لگتے ہیں جو خود کو دنیا کا شہری کہتے ہیں ۔اقوام متحدہ بھی سارے انسانوں کو ایک کنبہ سمجھتی ہے، اگر ہم اس دنیا میں آزادی امن اور انصاف چاہتے ہیں تو ہمیں اس کنبے کے ہر فرد کی عزت نفس اور حقوق کا خیال رکھنا ہو گا ۔
ایک مثالی طور پر آزاد انسان وہ ہے جو خوف اور احتیاج سے نجات پا چکا ہو ۔ ظاہر ہے اس کے لیے ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس میں ہر انسان کو اس کے سماجی ، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کے ساتھ ساتھ سول اورسیاسی حقوق بھی حاصل ہوں ۔ دنیا بھرکے لوگوں کو حق خودارادیت حاصل ہے۔ وہ اپنے سیاسی مرتبہ کا تعین کرسکتے ہیں ۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ کے اس سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کے معاہدے کا رکن ہے۔
دیگر ممالک کی طرح اسے بھی اقوام متحدہ میں ان حقوق کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ جمع کرانا ہوتی ہے اور اقوام متحدہ کی کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد تجاویز دیتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان 2011ء میں معذوروں کے حقوق کے معاہدے پر دستخط کرچکا ہے۔
2010 میں اس نے سول اور سیاسی حقوق کے معاہدے ، ٹارچر اور دیگر غیرانسانی سلوک اور سزاؤں کے بارے میںکنونشن پر دستخط کیے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین بنانے پر پاکستان کو سراہا ہے لیکن کمیٹی کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان کے آئین میں اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو ایسے بنیادی حقوق نہیں سمجھا جاتا جو قابل داد رسی ہوں بلکہ انھیں صرف پالیسی گائیڈ لائنزکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے معاہدے میں شامل سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کو ملکی قوانین کا حصہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو ہر سطح پر ان کا اطلاق کرنا چاہیے۔ ججز، وکلا اور سرکاری افسران کو اس بارے میں تربیت دی جائے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزکے کچھ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں جن میں روزگار، سوشل سکیورٹی، ہاؤسنگ، ہیلتھ کییر اور تعلیم شامل ہے۔کمیٹی کو صوبائی حکومتوں کی مالیاتی اور انتظامی استعداد اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ کاری کے فقدان بارے میں تشویش ہے۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹیوں کی تجاویز پر عملدرآمد کرانے کے لیے سول سوسائٹی کے علاوہ انسانی حقوق کا قومی کمیشن بھی سر گرم عمل ہے۔اس کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان ہیں اور سندھ کی نمایندگی انیس ہارون کرتی ہیں۔پاکستان کے تیسرے یونیورسل پیریوڈک ریویو کے بعد دنیا بھر کی توجہ یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کی طرف مرکوز ہو گئی ہے۔ پاکستان کے لیے پیش کی جانیوالی چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
٭سزائے موت ختم کرنے کے نقطۂ نظر سے فی الحال اس کو قانونی طور پر التوا میں ڈالا جائے۔
٭توہین مذہب کے قوانین کا جائزہ لے کر انھیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنایا جائے۔
٭جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے بین الاقوامی معاہدے اور انسانی حقوق کے دیگر معاہدوں کی توثیق کی جائے۔
٭مذہبی اقلیتوں، انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والوں، صحافیوں اور خطرات سے دو چار دیگر گروہوںکے حقوق کے موثر تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
٭انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو مضبوط بنایا جائے۔
٭انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیق کی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
٭شادی کی کم سے کم قانونی عمر 18سال قرار دی جائے۔
٭عورتوں پر تشدد کی روک تھام کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
جہاں تک جبری گمشدگیوں کا تعلق ہے ،پاکستان نے ابھی تک اس بارے میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی کے ارکان نے اس کی توثیق کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے کریمنل کوڈ میں بھی جبری گمشدگی جرم کی حیثیت سے شامل نہیں ہے۔
٭حکومت پاکستان کو جبری گمشدگی سے تحفظ کے بین ا لاقوامی کنونشن کی توثیق کرنی چاہیے۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے انسانی حقوق کا قومی کمیشن قائم کر رکھا ہے لیکن اسے وہ اختیارات حاصل نہیں جو پیرس پرنسپلز کے مطابق ہونے چاہئیں۔ دو جون 2017 کو پاکستان کی وزارت انسانی حقوق اس کمیشن کو اقوام متحدہ میں اپنی خود مختارانہ رپورٹ جمع کرانے کا حق دینے سے انکار کر چکی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو کمیشن کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی کو انسانی حقوق خاص طور پر اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لیے لڑنے والوں کی گمشدگی اغوا اور ہلاکتوں پر تشویش ہے۔کچھ واقعات میں تو ریاستی ایجنٹوں کا ہاتھ رہا ہے۔کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ حکومت انسانی حقوق کے کارکنوں کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کا کمیشن بھی اپنے طور پر جبری گمشدگیو ں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور گمشدہ لوگوں کے مقدمات لڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان جن بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرتا ہے ان پر عملدرآمد کے لیے خاطرخواہ مالی وسائل فراہم نہیں کیے جاتے خاص طور پر روزگار ،سماجی تحفظ،ہاؤسنگ،پانی، صحت، صفائی، تعلیم کے حقوق کے لیے دفاعی اخراجات کے مقابلے میں بہت کم رقم رکھی جاتی ہے جب کہ بعض صوبوں میں تعلیم کے لیے مختص کی جانیوالی رقم کا بڑا حصہ خرچ ہی نہیں کیا جاتا۔
اگرچہ حکومت کرپشن کے خلاف کافی اقدامات کر رہی ہے مگر ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکااس لیے مزید اقدامات اورکرپشن کے خلاف آگاہی مہم چلانا ہو گی۔کرپشن کے ہر کیس کی موثر تحقیقات کی جائے اور ذمے داران کو سزا دی جائے۔
کرپشن کے متاثرین، ان کے وکلا اور متعلقہ عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔کمیٹی نے آئین کے آرٹیکلز 25, 27 کا از سر نو جائزہ لینے اور ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے پر زور دیا ہے بشمول رنگ، زبان، سیاسی یا دیگر رائے، سماجی یا قومی ماخذ، املاک، معذوری، جنسی رحجان اور صنفی شناخت یا دیگر اسٹیٹس، اس کے لیے ایک جامع عدم امتیاز کا قانون بنایا جائے۔
پاکستان کے قانون میں معذوری کی تعریف محدود انداز میں کی گئی ہے اسی وجہ سے ان کے حق میں موثر پالیسیاں نہیں بن سکتیں۔نہ ہی بین الاقوامی معاہدوں پر صحیح طور پر عمل ہو پاتا ہے۔افغان ریفیوجیز کو حالات ساز گار ہونے پر واپس بھیجا جائے اور اندرون ملک بے دخلی کا شکار ہونیوالوں کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔
عورتوں کو جنسی ہراسانی، زیادتی اور ٹریفکنگ کے خلاف تحفظ فراہم کیا جائے۔فیصلہ ساز پوزیشنزمیں عورتوں کی نمایندگی بڑھائی جائے۔ روزگار کے مواقعے بڑھائے جائیں اور صنفی تفاوت کوکم کیا جائے۔کم از کم اجرت کا تعین کیا جائے۔جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے۔کام کرنے کی جگہ کو محفوظ بنایا جائے۔
کارکنوں کو ٹریڈ یونین بنانے اور سوشل سیکیورٹی کا حق دیا جائے۔ شادی کی کم ازکم عمر اٹھارہ سال مقررکی جائے۔عورتوں پر تشدد اور گھریلو تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔پولیس کے محکمے میں خواتین پولیس افسران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔حکومت کو غربت کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بہتر بنانا چاہیے۔
ایک مثالی طور پر آزاد انسان وہ ہے جو خوف اور احتیاج سے نجات پا چکا ہو ۔ ظاہر ہے اس کے لیے ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس میں ہر انسان کو اس کے سماجی ، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کے ساتھ ساتھ سول اورسیاسی حقوق بھی حاصل ہوں ۔ دنیا بھرکے لوگوں کو حق خودارادیت حاصل ہے۔ وہ اپنے سیاسی مرتبہ کا تعین کرسکتے ہیں ۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ کے اس سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کے معاہدے کا رکن ہے۔
دیگر ممالک کی طرح اسے بھی اقوام متحدہ میں ان حقوق کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ جمع کرانا ہوتی ہے اور اقوام متحدہ کی کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد تجاویز دیتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان 2011ء میں معذوروں کے حقوق کے معاہدے پر دستخط کرچکا ہے۔
2010 میں اس نے سول اور سیاسی حقوق کے معاہدے ، ٹارچر اور دیگر غیرانسانی سلوک اور سزاؤں کے بارے میںکنونشن پر دستخط کیے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین بنانے پر پاکستان کو سراہا ہے لیکن کمیٹی کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان کے آئین میں اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو ایسے بنیادی حقوق نہیں سمجھا جاتا جو قابل داد رسی ہوں بلکہ انھیں صرف پالیسی گائیڈ لائنزکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے معاہدے میں شامل سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کو ملکی قوانین کا حصہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو ہر سطح پر ان کا اطلاق کرنا چاہیے۔ ججز، وکلا اور سرکاری افسران کو اس بارے میں تربیت دی جائے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزکے کچھ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں جن میں روزگار، سوشل سکیورٹی، ہاؤسنگ، ہیلتھ کییر اور تعلیم شامل ہے۔کمیٹی کو صوبائی حکومتوں کی مالیاتی اور انتظامی استعداد اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ کاری کے فقدان بارے میں تشویش ہے۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹیوں کی تجاویز پر عملدرآمد کرانے کے لیے سول سوسائٹی کے علاوہ انسانی حقوق کا قومی کمیشن بھی سر گرم عمل ہے۔اس کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان ہیں اور سندھ کی نمایندگی انیس ہارون کرتی ہیں۔پاکستان کے تیسرے یونیورسل پیریوڈک ریویو کے بعد دنیا بھر کی توجہ یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کی طرف مرکوز ہو گئی ہے۔ پاکستان کے لیے پیش کی جانیوالی چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
٭سزائے موت ختم کرنے کے نقطۂ نظر سے فی الحال اس کو قانونی طور پر التوا میں ڈالا جائے۔
٭توہین مذہب کے قوانین کا جائزہ لے کر انھیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنایا جائے۔
٭جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے بین الاقوامی معاہدے اور انسانی حقوق کے دیگر معاہدوں کی توثیق کی جائے۔
٭مذہبی اقلیتوں، انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والوں، صحافیوں اور خطرات سے دو چار دیگر گروہوںکے حقوق کے موثر تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
٭انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو مضبوط بنایا جائے۔
٭انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیق کی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
٭شادی کی کم سے کم قانونی عمر 18سال قرار دی جائے۔
٭عورتوں پر تشدد کی روک تھام کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
جہاں تک جبری گمشدگیوں کا تعلق ہے ،پاکستان نے ابھی تک اس بارے میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی کے ارکان نے اس کی توثیق کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے کریمنل کوڈ میں بھی جبری گمشدگی جرم کی حیثیت سے شامل نہیں ہے۔
٭حکومت پاکستان کو جبری گمشدگی سے تحفظ کے بین ا لاقوامی کنونشن کی توثیق کرنی چاہیے۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے انسانی حقوق کا قومی کمیشن قائم کر رکھا ہے لیکن اسے وہ اختیارات حاصل نہیں جو پیرس پرنسپلز کے مطابق ہونے چاہئیں۔ دو جون 2017 کو پاکستان کی وزارت انسانی حقوق اس کمیشن کو اقوام متحدہ میں اپنی خود مختارانہ رپورٹ جمع کرانے کا حق دینے سے انکار کر چکی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو کمیشن کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی کو انسانی حقوق خاص طور پر اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لیے لڑنے والوں کی گمشدگی اغوا اور ہلاکتوں پر تشویش ہے۔کچھ واقعات میں تو ریاستی ایجنٹوں کا ہاتھ رہا ہے۔کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ حکومت انسانی حقوق کے کارکنوں کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کا کمیشن بھی اپنے طور پر جبری گمشدگیو ں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور گمشدہ لوگوں کے مقدمات لڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان جن بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرتا ہے ان پر عملدرآمد کے لیے خاطرخواہ مالی وسائل فراہم نہیں کیے جاتے خاص طور پر روزگار ،سماجی تحفظ،ہاؤسنگ،پانی، صحت، صفائی، تعلیم کے حقوق کے لیے دفاعی اخراجات کے مقابلے میں بہت کم رقم رکھی جاتی ہے جب کہ بعض صوبوں میں تعلیم کے لیے مختص کی جانیوالی رقم کا بڑا حصہ خرچ ہی نہیں کیا جاتا۔
اگرچہ حکومت کرپشن کے خلاف کافی اقدامات کر رہی ہے مگر ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکااس لیے مزید اقدامات اورکرپشن کے خلاف آگاہی مہم چلانا ہو گی۔کرپشن کے ہر کیس کی موثر تحقیقات کی جائے اور ذمے داران کو سزا دی جائے۔
کرپشن کے متاثرین، ان کے وکلا اور متعلقہ عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔کمیٹی نے آئین کے آرٹیکلز 25, 27 کا از سر نو جائزہ لینے اور ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے پر زور دیا ہے بشمول رنگ، زبان، سیاسی یا دیگر رائے، سماجی یا قومی ماخذ، املاک، معذوری، جنسی رحجان اور صنفی شناخت یا دیگر اسٹیٹس، اس کے لیے ایک جامع عدم امتیاز کا قانون بنایا جائے۔
پاکستان کے قانون میں معذوری کی تعریف محدود انداز میں کی گئی ہے اسی وجہ سے ان کے حق میں موثر پالیسیاں نہیں بن سکتیں۔نہ ہی بین الاقوامی معاہدوں پر صحیح طور پر عمل ہو پاتا ہے۔افغان ریفیوجیز کو حالات ساز گار ہونے پر واپس بھیجا جائے اور اندرون ملک بے دخلی کا شکار ہونیوالوں کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔
عورتوں کو جنسی ہراسانی، زیادتی اور ٹریفکنگ کے خلاف تحفظ فراہم کیا جائے۔فیصلہ ساز پوزیشنزمیں عورتوں کی نمایندگی بڑھائی جائے۔ روزگار کے مواقعے بڑھائے جائیں اور صنفی تفاوت کوکم کیا جائے۔کم از کم اجرت کا تعین کیا جائے۔جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے۔کام کرنے کی جگہ کو محفوظ بنایا جائے۔
کارکنوں کو ٹریڈ یونین بنانے اور سوشل سیکیورٹی کا حق دیا جائے۔ شادی کی کم ازکم عمر اٹھارہ سال مقررکی جائے۔عورتوں پر تشدد اور گھریلو تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔پولیس کے محکمے میں خواتین پولیس افسران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔حکومت کو غربت کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بہتر بنانا چاہیے۔