کمپنیوں پر زیر زمین پانی کے استعمال پر ایک روپیہ فی لیٹر چارج عائد

کولڈ ڈرنکس پر ایک روپیہ چارج کے اطلاق کا جائزہ بعد میں لیاجائے گا، سپریم کورٹ


ویب ڈیسک November 13, 2018
واٹر کمپنیاں پانی چوری کر رہی ہیں، چیف جسٹس فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے بوتل بند پانی کمپنیوں پر زیر زمین پانی استعمال کرنے پر ایک روپیہ فی لیٹر چارج لگا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں منرل واٹر کمپنیوں سے زیر زمین پانی کی مد میں چارجز وصولی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک روپیہ فی لیٹر قیمت پر متفق ہیں۔
نجی مشروب ساز کمپنی کے نمائندے نے عدالت میں کہا کہ قوم آپ کو پانی کے معاملے پر ہمیشہ یاد رکھے گی، پانی کے معاملے پر قانون سازی عدالتی حکم پر ہوئی ، عوام کو پینے کے لیے صاف پانی فراہم کر رہے ہیں، پانی کی مناسب قیمت ہونی چاہئے، ایک روپے فی لیٹر کا مطلب 42 ملین فی کیوسک ہوگا، ہم زیر زمین پانی میں منرلز شامل کرتے ہیں۔ جس کا خرچہ 5 روپے فی لیٹر آتا ہے، بوتل کے پانی سے کئی صنعتیں جڑی ہوتی ہیں، عدالت سے گزارش ہے اتنا سخت فیصلہ نہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آپ کو 1 روپیہ فی لیٹر دینے نہیں لینے کی ضرورت ہے، عدالت کے کہنے پر ہی 25پیسے ادا ہو رہے ہیں، کیا قوم کا پانی مفت استعمال کرنے دوں،جس کمپنی کو ریٹ منظور نہیں وہ کام بند کر دے، آپ قوم کی فکر چھوڑ دیں، قوم ابلا ہوا پانی پی لے گی، کسی کے کاروبار بند ہونے کامسئلہ نہیں، اللہ سب کا رازق ہے، آج پانی کا مسئلہ حل نہ کیا تو آئندہ نسلیں معاف نہیں کریں گی، 30 سال بعد عوام کو پانی نہیں ملا توکیا جواب دیں گے۔ کسی کی کمپنی کے منافع کے لیے پوری قوم کو آگے نہیں لگا سکتا۔

جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ نجی کمپنی کے پانی کی رپورٹ ہم نے دیکھی ہے، بوتل کے پانی میں منرل پورے نہیں ہوتے، یہ پانی پینے سےکوئی فائدہ نہیں، بوتل والا پانی پینا چھوڑ چکا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 55 روپے لیٹر بوتل پر ایک روپیہ دینا کیا مسئلہ ہے، پانی کی قیمت سے جمع ہونے والا پیسہ بھی پانی پر ہی خرچ ہوگا، ڈیڑھ لیٹر کی بوتل پرکتنا کماتے ہیں، جس پر نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ ڈیڑھ لیٹر بوتل پر کوئی منافع نہیں۔ کمپنی نے گزشتہ سال 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، 1 روپیہ فی لیٹر قیمت ہونے سے 2 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے، چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ کیا فیکٹری مالکان پاگل ہیں جو بغیر منافع کام کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارس دیئے کہ منرل واٹر کمپنیاں پانی چوری کر رہی ہیں، فیکٹری مالکان صرف اپنے منافع کا سوچ رہی ہیں آپ کو چاہیے تھا کہ آج تک استعمال کیے گیے پانی کی رقم ڈیم فنڈ میں دیتے، کمپنیوں نے مفت میں اربوں روپے کما لیے، اربوں روپے کا پانی نکال کر فروخت کیا گیا، کمپنیاں کچھ نہ کچھ تو ادا کریں، کیا کمپنی کا حق ہے کہ زیر زمین پانی مفت استعمال کرے، قوم کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔

عملے کو پانی ٹیسٹ کرنا بھی نہیں آتا

عدالتی معاون سائنسدان ڈاکٹر احسن صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ انسان پانی کی ایک بوند بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ ایک کمپنی کا ایک پلانٹ ایک گھنٹے میں ایک لاکھ لیٹر پانی زمین سے نکال رہا ہے، بڑی کمپنی کے عملے کو پانی ٹیسٹ کرنا بھی نہیں آتا، کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح سو فٹ سے چار سو فٹ پر چلی گئی ہے، پانی کی کوئی کمپنی زیر زمین پانی کے استعمال پر ایک روپیہ بھی حکومت کو نہیں دے رہی، زیر زمین پانی سے صاف پانی حاصل کرنے کے بعد ویسٹ کو پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ اسے ٹریٹمنٹ پلانٹ میں جانا چاہیے کیونکہ ایسا ویسٹ زیر زمین پانی کو مزید آلودہ کر رہا ہے۔

دریائے سندھ کا پانی بوتل کے پانی سے اچھا

ڈاکٹر احسن صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ دریائے سندھ کا پانی فلٹر کے بعد منرل واٹر سے زیادہ اچھا ہے، دریائے سندھ کے پانی سے بیکٹیریا ختم کر دیا جائے تو یہ بوتلوں سے ہزار گنا بہتر پانی ہے، اس کے علاوہ اگر شہری 10 لیٹر پانی میں سوڈیئم ہائپو کلورائیڈ کے چار قطرے ملا دیں تو یہ بوتلوں کے پانی سے بہتر ہوجائے گا۔

بوتل پر نہیں نکالے گئے پانی پر ٹیکس

عدالتی معاون ظفر اقبال کلانوری ایڈووکیٹ نے تجویز دی کہ جب سے کمپنیاں زمین سے پانی نکال رہی ہیں تب سے ٹیکس وصول کیا جائے اور پانی کی بوتل کے بجائے زمین سے نکالے جانے والے فی لیٹر پانی پر ٹیکس عائد کیا جائے۔

آج پانی کل آکسیجن کی بات

دوران سماعت ایک نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ کل کو آکسیجن کے استعمال کی بات بھی کی جائے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آکسیجن کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے ہمیشہ بہتری چاہی ہے، کبھی تخریبی ذہن کے ساتھ نہیں بیٹھے۔

وکلا کو نصیحت

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کمپنیوں کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے میری ریٹائرمنٹ کے بعد آپ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیں گے لیکن وکلاء فیس لیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ موکل کو درست بات بتائیں۔

سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی استعمال کرنے پر ایک روپیہ چارج فی لیٹر لگا دیا تاہم کولڈ ڈرنکس پر ایک روپیہ چارج کے اطلاق کا جائزہ بعد میں لیاجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں