بھارت طوفانی بارشوں سیلاب سے اموات 1000 ہوگئیں 40 ہزار افراد اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں پھنس گئے
مرکز نے اتراکھنڈ کی تباہی کو قومی بحران قرار دیدیا، علاقے کی تعمیر نو کا پروگرام تیار کر رہے ہیں
بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ریاست میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء بھارت کی مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ کی تباہی کو 'قومی بحران' قرار دیا ہے۔ اتوار کی صبح خراب موسم اور بارش کی وجہ سے فضائی ریسکیو آپریشن متاثر رہا لیکن دوپہر کے بعد موسم میں بہتری آنے سے امدادی کام پھر سے شروع کردیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اب بھی ہزاروں افراد مختلف دور افتادہ مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں۔ حکام نے 600 سے زیادہ ہلاکتوں کی اب تک تصدیق کر دی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ابھی بھی40 ہزار سے زیادہ افراد اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس علاقے کے بارے میں طویل مدتی تعمیر نو کا پروگرام تیار کر رہی ہے لیکن فی الفور ترجیح پھنسے ہوئے لوگوں تک امداد پہنچانا ہے جو شدید موسم اور خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آنے والے دنوں میں بارش کی پیش گوئی کی جارہی ہے، امدادی کارروائیوں میں ٹیموں کی کمی آڑے آ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کو پہاڑی علاقوں کی جانب ضرورت مندوں کی امداد کے لیے روانہ کیا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ 60 برسوں کے ریکارڈ کے مطابق اس سال مون سون کے شروع میں ہونے والی بارشیں سب سے زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم نے اس قومی بحران سے نمٹنے کیلیے ایک ہزار کڑور کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں تقریباً ڈھیر سو کروڑ کی رقم فوری جاری کر دی گئی ہے۔
دوسری ریاستوں سے بھی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ وجے بہوگنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے کے اس دعوے کی تردید بھی کی ہے کہ امدادی کام میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ دریں اثناء ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ، کیدارناتھ سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا ہے اور مزید لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ سیلاب میں 1751 عمارتیں اور 147 پلوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ مختلف مقامات پر 1307 جگہ سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ ادھر ضلع رائے گڑھ کے علاقے چھتیس گڑھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 4 بچے ہلاک ہوگئے۔
دریں اثناء بھارت کی مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ کی تباہی کو 'قومی بحران' قرار دیا ہے۔ اتوار کی صبح خراب موسم اور بارش کی وجہ سے فضائی ریسکیو آپریشن متاثر رہا لیکن دوپہر کے بعد موسم میں بہتری آنے سے امدادی کام پھر سے شروع کردیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اب بھی ہزاروں افراد مختلف دور افتادہ مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں۔ حکام نے 600 سے زیادہ ہلاکتوں کی اب تک تصدیق کر دی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ابھی بھی40 ہزار سے زیادہ افراد اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس علاقے کے بارے میں طویل مدتی تعمیر نو کا پروگرام تیار کر رہی ہے لیکن فی الفور ترجیح پھنسے ہوئے لوگوں تک امداد پہنچانا ہے جو شدید موسم اور خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آنے والے دنوں میں بارش کی پیش گوئی کی جارہی ہے، امدادی کارروائیوں میں ٹیموں کی کمی آڑے آ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کو پہاڑی علاقوں کی جانب ضرورت مندوں کی امداد کے لیے روانہ کیا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ 60 برسوں کے ریکارڈ کے مطابق اس سال مون سون کے شروع میں ہونے والی بارشیں سب سے زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم نے اس قومی بحران سے نمٹنے کیلیے ایک ہزار کڑور کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں تقریباً ڈھیر سو کروڑ کی رقم فوری جاری کر دی گئی ہے۔
دوسری ریاستوں سے بھی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ وجے بہوگنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے کے اس دعوے کی تردید بھی کی ہے کہ امدادی کام میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ دریں اثناء ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ، کیدارناتھ سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا ہے اور مزید لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ سیلاب میں 1751 عمارتیں اور 147 پلوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ مختلف مقامات پر 1307 جگہ سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ ادھر ضلع رائے گڑھ کے علاقے چھتیس گڑھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 4 بچے ہلاک ہوگئے۔