’’عدم برداشت کا رجحان‘‘ … خطرہ ہی خطرہ
جو خود برہنہ ہو وہ کسی اور کا ستر کیسے ڈھانپ سکتا ہے؟
گزشتہ روز '' عدم برداشت کا رجحان اور ریاست کی ذمے داریاں'' کے عنوان پرایک سیمینار ہوا جس میں بہت سے معزز دوست احباب اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور راقم بھی بطور ''مقرر'' شریک تھا۔
اس سیمینار میں تمام مقررین نے بڑی خوبصورت باتیں کیں،بہرحال چند سوالات نے میرے ذہن میں گہرے نقوش چھوڑ دیے کہ ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے؟ مجرم کون ہے؟ملزم کون ہے؟ معاشرہ قوم بننے کے بجائے ہجوم کیوں بنتا جا رہا ہے؟ ہجوم کی اپنی سوچ کہاں کھوگئی؟ یہ ہجوم کسی اور کا تابع کیسے ہو گیا ہے؟ حب الوطنی اور قومیت کہاں کھو گئی ہے؟ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویے کہاں کھو گئے ہیں؟
دراصل جن معاشروں میں طوائف الملوکی ہوتی ہے وہاں قانون صرف کمزوروں کے لیے رہ جاتا ہے، ایسے معاشرے میں ہر طاقتور خود وکیل بھی ہے، دلیل بھی اور عدالت بھی ہے۔ دنیا سانحات سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے سانحات کو ہمارے دشمن زیادہ سرعت کے ساتھ دکھاتے بھی ہیں اور پھیلاتے بھی ہیں۔
حالیہ آسیہ کیس کا معاملہ ہو ، مشال قتل کیس ہو یا مانسہرہ میں بپھرے ہجوم کے ہاتھوں نوجوان کا قتل، یوحنا آباد میں گرجا گھروں یا مساجد میں خودکش حملے، روز روز ایک جیسے واقعات رپورٹ ہورہے ہوتے ہیں، بس نام اور پتہ مختلف ہوتا ہے، کراچی سے خیبر تک گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس منحوس چکر سے باہر آنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔
مہذب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم اب بھی پرانی ڈگر پر جی رہے ہیں، پتھر کا زمانہ ہزاروں برس پہلے گزر چکا مگر ہم پھر بھی ''اسٹون ایج'' میں گزر بسر کررہے ہیں۔آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جب ہم بھی مہذب دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا، خلاء کی سیر اور مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے۔ مگر ہم ابھی تک انسانیت بھی تلاش نہ کرسکے، آخر وجہ کیا ہے؟
آپ کسی سطح پر مذہبی بات کر کے دیکھ لیں جو دین کی الف ب بھی نہ جانتا ہوگا وہ آپ پر ٹوٹ پڑے گا، ایسے لگے گا جیسے اس شخص کے سر میں دماغ نہیں ہے یا یوں لگے گا کہ دماغ تو ہے مگر یہ شخص سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ عدم برداشت کا سب سے زیادہ شکار ہمارے مذہبی طبقوں کے افراد ہیں۔ ان سے جب مرضی پوچھ لو، جس دور میں بھی پوچھ لو ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔ ''اسلام خطرے میں ہے''، ''ملک خطرے میں ہے'' اگر ان سب چیزوں کو واقعی خطرہ ہے تو امن میں کون ہے؟
پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق براعظم امریکا کے علاوہ دنیا بھر میں مذہبی اختلافات کی بنیاد پر تشدد اور امتیازی رویوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
اس رپورٹ میں 198 ملکوں کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں سے ایک تہائی میں گزشتہ برس فرقہ وارانہ تشدد، دہشتگردی یا دھمکانے جیسے مذہبی جھگڑے بہت بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں ان میں سر فہرست پاکستان، انڈونیشیا، روس، مصر اور میانمار ہیں۔رپورٹ میں حیرت انگیز طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کے 30 فیصد ملکوں نے عبادت، تبلیغ یا مذہبی لباس کو قانونی حدود میں بند کر رکھا ہے اور وہاں پرتشدد واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب کہ آئیوری کوسٹ، سربیا، ایتھوپیا، قبرص اور رومانیہ میں مذہبی تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ وہاں موجود عوامی حکومتوں کا قیام ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا رپورٹس نے مجھے اپنے ملک میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی فضاء نے خوفزدہ کر دیا ہے ۔ اس کی سادہ سی وجوہات یہ ہیں کہ ہماری سیاسی، روحانی اور فکری رہنمائی کرنے والوں کی بھاری اکثریت خود کرپٹ اورذہنی کنگال ہے اور جس کے اپنے پلے کچھ نہ ہووہ کسی ا ور کو کیا دے سکتا ہے۔جو خود بھوکا ہو وہ لنگر تقسیم نہیں کرسکتا۔
جو خود برہنہ ہو وہ کسی اور کا ستر کیسے ڈھانپ سکتا ہے؟جس کے اپنے بازو کٹے ہوئے ہوں وہ کسی اور کو سہارا کیسے دے گا؟جس کی اپنی آنکھیں گروی پڑی ہوں،وہ کسی کو کیا دکھائے گا؟یہاں سیاست کاری غارت گری کا اسٹاک ایکسچینج ہے۔دانش وری، پیاز کے چھلکوں کی ڈھیری کا بیوپار۔ہماری جڑوں کو تیزاب سے سیراب کیا گیا اور اب وہ بری طرح گل سڑ رہی ہیں لیکن ہمارے رہنماؤں کا گلدستہ اپنی شاخیں بچانے کی فکر میں مبتلا ہے۔
یہ وہی رہنماء ہیں جو کسی کے اشارے پر بھی ملک کو ایندھن میں جھونک کر خود رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذااس قوم کو عدم برداشت کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ منافقت، جہالت اورتضاد بیانی کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف اقبال کو سر پر اٹھا رکھا ہے، دوسری طرف اس کے اقوال کو سرعام روندتے پھرتے ہیں اور یہ المیہ اقبال تک ہی محدود کہاں؟ذرا سننا تو سہی وہ کہتا کیا ہے؟
وہ مذہب مرداں خود آگاہ وخدامست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
حقیقت میں مذہب یا عام زندگی کے حوالے سے برداشت اور مستقل مزاجی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے، اگر نفسیاتی طور پر دیکھا جائے تو جس بندے میں برداشت ہوگی وہ بلا کا مستقل مزاج بھی ہوگا، برداشت کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے تو مستقل مزاجی وہ اڑن کھٹولہ ہے جس میں اڑ کر انسان بام عروج پر پہنچتا ہے۔ برداشت اور مستقل مزاجی کا یہ فارمولہ صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بھی نافذ ہوتا ہے، ماضی کا افیونچی چین آج دنیا بھر کا بے تاج بادشاہ بن بیٹھا ہے، برطانیہ سے ''اوپیم وار'' میں بری طرح پٹنے والے آج پوری دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں۔
مایوسیوں کی دلدل میں پھنسی قوم کو دور اندیش قیادت نصیب ہوئی تو چین کا چرچا پورے عالم میں ہوا، ماوزے تنگ نے ''ریڈ بک'' کے ذریعے اپنی قوم کو آگے بڑھنے کے لیے برداشت کی نصیحت کی، مستقل مزاجی اور اول العزمی کا درس دیا اور نئی صبح کی نوید دی۔امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ ''جو لوگ برداشت نہیں کر سکتے انھیں انقلاب لانے کا بھی حق نہیں''۔دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کیا ہمارے معاشرے کو صحت مند معاشرہ کہا جاسکتا ہے؟ کیا یہاں شر میں خیر کے پہلو ٹٹولے جاتے ہیں؟، تنقید میں تعمیر کے عنصر شامل ہیں؟ اختلاف کو خندہ پیشانی سے سہا جاتا ہے؟
کیا یہاں آئینوں کا کاروبار نابیناؤں کے ہاتھ میں نہیں؟، ہم شاید بھٹکی ہوئی قوم ہیں جسے ایک ایسے لیڈر کی تلاش ہے جو اس طوفاں خیز وقت میں اس قوم کا ہاتھ تھام لے اور مایوسی کے بجائے اُمید کے خواب دے۔لیکن افسوس ایک مخصوص طبقے نے اس قوم کو مذہب کے جال میں ایسا پھنسا دیا ہے کہ نکلنا محال لگتا ہے۔
سرسید احمد خان نے روحانیت کے ان ٹھیکیداروں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ''مسکینی اور انکسار ان کو آسمان پر چڑھاتی ہے،اس لیے یہ اور زیادہ مسکین و منکسر بنتے ہیں، سادہ لوحی پر لوگ فریفتہ ہوتے ہیں اس لیے یہ اور سادہ بنتے جاتے ہیں۔ دنیا سے نفرت ان کو دنیا دلاتی ہے اس لیے یہ دنیا سے زیادہ نفرت کرتے جاتے ہیں، بے طمعی، محنت کے بغیر درہم و دینار لاتی ہے اس لیے یہ اور زیادہ ''بے طمع'' ہوتے جاتے ہیں۔ لوگ ان کی ہر بات پر آمناو صدقنا کہتے ہیں اس لیے ان کے دلوں میں دوسروں کی ہر بات کی حقارت جمتی جاتی ہے''۔
حقیقت میں اس قسم کے سب لوگ''روحانی فیوڈلز'' ہیں جن کی اقتصادیات ان کی نام نہاد روحانیت اور جن کے مزارعے ان کے چیلے چانٹے اور مرید ہوتے ہیں۔جب تک ان سے جان نہیں چھٹتی، ہم ہر طرف سے خطرے میں ہیں، ہماری ہر شے خطرے میں۔ اسلام خطرے میں، ملک خطرے میں، خود مختاری خطرے میں، ہر طرف خطرہ ہی خطرہ۔بقول شاعر
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بڑی فکر سے الجھائی ہے