شرمندہ قوم
اونچے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگ ایک دوسرے کی خورد برد کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ منظم انداز میں ملک کو لوٹ رہے ہیں۔
غضب خدا کا چند دن نہیں گزرتے کہ ایک نیا عظیم المرتبت سیکنڈل سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان جب قائم قائم ہوا تھا تو کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی، اب ستر برس بعد اس ملک میں لگتا ہے کہ کرپشن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب بھی کہیں سے کچھ ذرا سا پردہ سرکتا ہے تو پیچھے سے کرپٹ لوگوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں۔
ہر دن ایک نیا سیکنڈل سامنے آتا ہے، آج سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ایک گھر سے اربوں روپے نقد پکڑے گئے جن کو گننے سے انسانی انگلیاں انکاری ہو گئیں اور مشینیں منگوانی پڑ یں۔کچھ ایسی ہی واردات لاہور میں ہوئی ہے، ریٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپے کی نقدی برآمد ہوئی ہے۔
دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ ایک معمولی سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپے نقد ملے ہیں، ہمارے جیسے متوسط طبقہ کے لوگ تو چوروں ڈاکوئوں کے ڈر سے اپنی محدود جمع پونجی بلکہ روزانہ کا خرچ بھی گھر میں رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن ایک چھوٹے افسر کے گھر سے کروڑوں روپے کی نقدی برآمد ہوئی ہے، دیدہ دلیری کی انتہا ہے جو لوگ کروڑوں روپے کی خردبرد کر سکتے ہیں وہ اس رقم کو گھر میں بھی رکھ سکتے ہیں یعنی وہ ان ڈاکوئوں سے بڑے ڈاکو ہیں جو کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے ہیں، یہ ڈاکو ملک لوٹتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ خبر میں احتسابی ادارے نے اس بڑے کرپٹ کا نام بتانے سے گریز کیا ہے حالانکہ ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صاحب کون ہے، ایسے لوگوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے اور ان کی شناخت کو چھپانے والے بھی میری نظر میں مجرم ہیں۔
اونچے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگ ایک دوسرے کی خورد برد کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ منظم انداز میں ملک کو لوٹ رہے ہیں، ان کی سرگرمیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ بے تابانہ اور بے اختیار اچھل اچھل کر باہر آرہی ہیں اور دیانتدار لوگوں کا منہ چڑا رہی ہیں جو کوئی کرپٹ نہیں ہے،خوش قسمتی سے اگر کہیں کوئی ایسا شخص موجود ہے تو وہ شرم کے مارے منہ چھپائے پھرتا ہے کہ اس کی حیثیت اس قدر کم ہو گئی ہے کہ وہ اپنی کم مائیگی کی وجہ سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
وطن عزیزمیں کرپشن کا آغاز تب سے ہوا جب ملک میں پہلی بار سیاسی حکومتیں ختم ہوئیں اور فوجی حکومتوں کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ سکندر مرزا جیسا مشہور حکمران جب جلا وطن کیا گیا تو وہ لندن کے ایک ہوٹل میں ملازم ہو گیا اور اس کی بیوی ناہید سکندر مرزا گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئی۔ سکندر مرزا جیسے بدنام شخص کا کسی غیر ملکی بینک کوئی اکائونٹ نہیں تھا، اسے سرکاری ٹکٹ پر جلا وطن کیاگیا اور اسے زندہ رہنے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔
سکندر مرزا سے بھی زیادہ بدنام ایک اور حکمران ملک غلام محمد تھا۔ اس قدر دبنگ کہ معذور ہونے کے باوجود حکمرانی کرتا رہا۔ اسے جب بہلا پھسلا کر بلکہ چکر دے کر ایوان اقتدار سے نکالنے کا فیصلہ ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں لے جایا جائے کیونکہ اس ملک میں جس کا وہ حکمران تھا اس کا کوئی گھر نہیں تھا چنانچہ اسے اس کی بیٹی کے گھر لے جایا گیا۔ ایک وزیر اعظم تھے چوہدری محمد علی وہ اپنے ہاں زیادہ مہمان نہیں بلاتے تھے کہ ان کے گھر میں اتنی گنجائش نہیں تھی اور گنجائش نہ ہونے کے علاوہ ایک مشکل یہ تھی کہ ان کی بیگم صاحبہ زیادہ مہمانوں کے لیے کھانا تیار نہیں کر سکتی تھیں۔
گورنرعبدالرب نشتر کابیٹا سائیکل پر اسکول جاتا تھا اور گورنر نواب ملک امیر محمد خان کے بیٹوں کو گورنر ہائوس آنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ان حکمرانوں کی ایسی ناداری اور کنجوسی کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ آج کے حالات دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ان سب کی جتنی یادیں ہیں لکھتا چلا جائوں۔
اس دور میں کوئی حکمران کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سیاسی چکر بہت چلتے تھے اس کی وجہ سے کسی سیاستدان سے اس کے ساتھی بہت ڈرتے تھے لیکن کوئی کسی پر الزام نہیں لگاتا تھا کہ وہ مال بنا رہا ہے۔
مشرقی پاکستان کے ایک سیاستدان مجھ سے کہنے لگے کہ میاں ممتاز دولتانہ سے ڈر لگتا ہے ورنہ وہ ملک چلا سکتا ہے۔ اس وقت کرپشن کو توہین سمجھا جاتا تھا اور باعزت لوگ اس سے بہت گھبراتے تھے۔ ممتاز دولتانہ اور نوابزدہ نصر اللہ خان جیسے کئی سیاستدان تھے جو اپنی زمینیں بیچ کر اپنی سیاست چمکاتے رہے۔ کسی الیکشن میں ان جاگیردار اور زمیندار سیاستدانوں کی زمین بکا کرتی تھی تب جا کر الیکشن کا خرچہ پورا ہوتا تھا۔ ایسی باتیں اب یاد کرنے سے بھی دکھ ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد عزت وقار کے ساتھ سیاست کرنے کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا وہ کچھ عرصہ پہلے تک کہیں نہ کہیں چلتا رہا مگر اب کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ لوگ ہی اس دنیا سے چلے گئے جو اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے تھے اور اپنے پیچھے سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل چھوڑ گئے جنکا کام ہی صرف اور صرف ملکی وسائل کی لوٹ مار ہے، ان کی دیکھا دیکھی چھوٹے ملازموں میں بھی اتنی جرات پیدا ہو گئی کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے شروع ہوئے اور اب بات نہانے تک پہنچ گئی ہے ۔
چھوٹے بڑے افسر جو کہ ان سیاستدان حکمرانوں کی ناک کا بال بن جاتے، ان کی کرپشن کی الگ داستانیں ہیں، ہم انکو سن رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں ان کے پروردہ حکمران تو شاید کسی نہ کسی سمجھوتے کے تحت ہمیشہ بچ بچا کرنکل جاتے ہیں مگر یہ افسر وعدہ معاف گواہی کے باوجود بھی احتساب کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں، ایسی ہی صورتحال آج کل بھی ان افسروںکو درپیش ہے ہماری اعلیٰ عدلیہ اور نیب ان کرپٹ لوگوں کا پیچھا کر رہی ہے اور قوم اپنی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم کو اگر اعتماد ہے تو اپنی عدلیہ پر کہ وہیں سے انکو اور ان کے ملک کو انصاف مل سکتا ہے اور کرپٹ لوگوں سے ملک کی لوٹی گئی دولت واپس مل سکتی ہے۔
عدلیہ سے یہ توقع اور امید کہ وہ ملک قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائے گی۔ عدلیہ کے سہارے ہم ایک بار پھر حالات بدلنے کی آس و امید میں ہیں۔ ہم دنیا میں اپنی کرپشن کی وجہ سے جتنے بدنام ہوئے ہیں وہ ہیں ہی لیکن ہم اپنے اندر جھانک کردیکھیں تو وہاں بھی شرمندگی کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہم اپنے آپ سے ایک شرمندہ قوم ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہی شرمندگی ہمیں کسی قومی اصلاح پر آمادہ کر دے۔
ہر دن ایک نیا سیکنڈل سامنے آتا ہے، آج سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ایک گھر سے اربوں روپے نقد پکڑے گئے جن کو گننے سے انسانی انگلیاں انکاری ہو گئیں اور مشینیں منگوانی پڑ یں۔کچھ ایسی ہی واردات لاہور میں ہوئی ہے، ریٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپے کی نقدی برآمد ہوئی ہے۔
دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ ایک معمولی سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپے نقد ملے ہیں، ہمارے جیسے متوسط طبقہ کے لوگ تو چوروں ڈاکوئوں کے ڈر سے اپنی محدود جمع پونجی بلکہ روزانہ کا خرچ بھی گھر میں رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن ایک چھوٹے افسر کے گھر سے کروڑوں روپے کی نقدی برآمد ہوئی ہے، دیدہ دلیری کی انتہا ہے جو لوگ کروڑوں روپے کی خردبرد کر سکتے ہیں وہ اس رقم کو گھر میں بھی رکھ سکتے ہیں یعنی وہ ان ڈاکوئوں سے بڑے ڈاکو ہیں جو کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے ہیں، یہ ڈاکو ملک لوٹتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ خبر میں احتسابی ادارے نے اس بڑے کرپٹ کا نام بتانے سے گریز کیا ہے حالانکہ ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صاحب کون ہے، ایسے لوگوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے اور ان کی شناخت کو چھپانے والے بھی میری نظر میں مجرم ہیں۔
اونچے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگ ایک دوسرے کی خورد برد کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ منظم انداز میں ملک کو لوٹ رہے ہیں، ان کی سرگرمیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ بے تابانہ اور بے اختیار اچھل اچھل کر باہر آرہی ہیں اور دیانتدار لوگوں کا منہ چڑا رہی ہیں جو کوئی کرپٹ نہیں ہے،خوش قسمتی سے اگر کہیں کوئی ایسا شخص موجود ہے تو وہ شرم کے مارے منہ چھپائے پھرتا ہے کہ اس کی حیثیت اس قدر کم ہو گئی ہے کہ وہ اپنی کم مائیگی کی وجہ سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
وطن عزیزمیں کرپشن کا آغاز تب سے ہوا جب ملک میں پہلی بار سیاسی حکومتیں ختم ہوئیں اور فوجی حکومتوں کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ سکندر مرزا جیسا مشہور حکمران جب جلا وطن کیا گیا تو وہ لندن کے ایک ہوٹل میں ملازم ہو گیا اور اس کی بیوی ناہید سکندر مرزا گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئی۔ سکندر مرزا جیسے بدنام شخص کا کسی غیر ملکی بینک کوئی اکائونٹ نہیں تھا، اسے سرکاری ٹکٹ پر جلا وطن کیاگیا اور اسے زندہ رہنے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔
سکندر مرزا سے بھی زیادہ بدنام ایک اور حکمران ملک غلام محمد تھا۔ اس قدر دبنگ کہ معذور ہونے کے باوجود حکمرانی کرتا رہا۔ اسے جب بہلا پھسلا کر بلکہ چکر دے کر ایوان اقتدار سے نکالنے کا فیصلہ ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں لے جایا جائے کیونکہ اس ملک میں جس کا وہ حکمران تھا اس کا کوئی گھر نہیں تھا چنانچہ اسے اس کی بیٹی کے گھر لے جایا گیا۔ ایک وزیر اعظم تھے چوہدری محمد علی وہ اپنے ہاں زیادہ مہمان نہیں بلاتے تھے کہ ان کے گھر میں اتنی گنجائش نہیں تھی اور گنجائش نہ ہونے کے علاوہ ایک مشکل یہ تھی کہ ان کی بیگم صاحبہ زیادہ مہمانوں کے لیے کھانا تیار نہیں کر سکتی تھیں۔
گورنرعبدالرب نشتر کابیٹا سائیکل پر اسکول جاتا تھا اور گورنر نواب ملک امیر محمد خان کے بیٹوں کو گورنر ہائوس آنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ان حکمرانوں کی ایسی ناداری اور کنجوسی کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ آج کے حالات دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ان سب کی جتنی یادیں ہیں لکھتا چلا جائوں۔
اس دور میں کوئی حکمران کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سیاسی چکر بہت چلتے تھے اس کی وجہ سے کسی سیاستدان سے اس کے ساتھی بہت ڈرتے تھے لیکن کوئی کسی پر الزام نہیں لگاتا تھا کہ وہ مال بنا رہا ہے۔
مشرقی پاکستان کے ایک سیاستدان مجھ سے کہنے لگے کہ میاں ممتاز دولتانہ سے ڈر لگتا ہے ورنہ وہ ملک چلا سکتا ہے۔ اس وقت کرپشن کو توہین سمجھا جاتا تھا اور باعزت لوگ اس سے بہت گھبراتے تھے۔ ممتاز دولتانہ اور نوابزدہ نصر اللہ خان جیسے کئی سیاستدان تھے جو اپنی زمینیں بیچ کر اپنی سیاست چمکاتے رہے۔ کسی الیکشن میں ان جاگیردار اور زمیندار سیاستدانوں کی زمین بکا کرتی تھی تب جا کر الیکشن کا خرچہ پورا ہوتا تھا۔ ایسی باتیں اب یاد کرنے سے بھی دکھ ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد عزت وقار کے ساتھ سیاست کرنے کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا وہ کچھ عرصہ پہلے تک کہیں نہ کہیں چلتا رہا مگر اب کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ لوگ ہی اس دنیا سے چلے گئے جو اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے تھے اور اپنے پیچھے سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل چھوڑ گئے جنکا کام ہی صرف اور صرف ملکی وسائل کی لوٹ مار ہے، ان کی دیکھا دیکھی چھوٹے ملازموں میں بھی اتنی جرات پیدا ہو گئی کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے شروع ہوئے اور اب بات نہانے تک پہنچ گئی ہے ۔
چھوٹے بڑے افسر جو کہ ان سیاستدان حکمرانوں کی ناک کا بال بن جاتے، ان کی کرپشن کی الگ داستانیں ہیں، ہم انکو سن رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں ان کے پروردہ حکمران تو شاید کسی نہ کسی سمجھوتے کے تحت ہمیشہ بچ بچا کرنکل جاتے ہیں مگر یہ افسر وعدہ معاف گواہی کے باوجود بھی احتساب کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں، ایسی ہی صورتحال آج کل بھی ان افسروںکو درپیش ہے ہماری اعلیٰ عدلیہ اور نیب ان کرپٹ لوگوں کا پیچھا کر رہی ہے اور قوم اپنی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم کو اگر اعتماد ہے تو اپنی عدلیہ پر کہ وہیں سے انکو اور ان کے ملک کو انصاف مل سکتا ہے اور کرپٹ لوگوں سے ملک کی لوٹی گئی دولت واپس مل سکتی ہے۔
عدلیہ سے یہ توقع اور امید کہ وہ ملک قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائے گی۔ عدلیہ کے سہارے ہم ایک بار پھر حالات بدلنے کی آس و امید میں ہیں۔ ہم دنیا میں اپنی کرپشن کی وجہ سے جتنے بدنام ہوئے ہیں وہ ہیں ہی لیکن ہم اپنے اندر جھانک کردیکھیں تو وہاں بھی شرمندگی کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہم اپنے آپ سے ایک شرمندہ قوم ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہی شرمندگی ہمیں کسی قومی اصلاح پر آمادہ کر دے۔