چھوٹا کام ہم کرتے نہیں بڑا کام ہمیں ملتا نہیں

محنت سے جی چراکر کامیابی کسی کی جھولی میں نہیں آئی، کامیابی وقت مانگتی ہے اور وقت تونوجوانوں کے پاس بالکل بھی نہیں

کامیابی کےلیے وژن اور مسلسل محنت کا سبق پڑھنا، آج کے پاکستانی نوجوان کےلیے پڑھنا اشد ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

برسوں پہلے ہمارے گاؤں کے ایک لڑکے نے کباڑ کا کام شروع کیا۔ چند ہزار روپے سے اس نے شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں خریدنا شروع کیں، وہ کئی سال تک اسی طرح پلاسٹک کے شاپر بھی لیتا رہا اور اِس کام کو معیوب سمجھے بغیر دل و جان سے کرتا رہا۔ یہ اس کی اپنے کام سے بے حد محبت کا ثبوت تھا۔ اور ہمیں اس کا یہ کام ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ہم نے اسے جب بھی دیکھا، کام میں جتا دیکھا۔ سردی، گرمی، خزاں، بہار کا فرق محسوس کیے بغیر وہ کاٹھ کباڑ، لوہا، پیپا، ردی پیپر لیتارہا۔ لوگوں کی باتیں، طعنے، طنزیہ فقروں سے بے نیاز، وہ اپنے کام سے محبت کرتا رہا۔ کچھ سال بعد اس کی محنت رنگ لائی اور کامیابی اس کی باندی بن کر اس کے در پر رہنے لگی۔ آج وہی لڑکا پلاسٹک کے برتنوں کا بہت بڑا ڈیلر ہے۔ ملک بھر میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔

ہمارے ہاں نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی جس طرح سے ناقدری کی جاتی ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس گناہ میں حکومت کی بے حسی تو ہے ہی، خود نوجوان بھی اپنے ہنر کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ زندگی بتدریج گزر رہی ہے اور اسے جیسے تیسے منزل کی طرف سفر جاری رکھنا ہے۔ وقت کی لہریں بار بار اعلان کرتی ہیں کہ کچھ کرلو! مگر نوجوان مغربیت کی بھیجی ہوئی، کئی اقسام کی قباحتوں میں گرفتار ہوکر اپنا سرمایہ فن و ہنر دفن کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج تک کسی ماہر استاد نے ایسا سبق، کسی سائنس دان نے ایسا فارمولا اورکسی طبیب نے ایسا نسخہ ایجاد نہیں کیا جسے پڑھ کر، تجربہ کرکے اور نسخہ کھا کر کوئی امیر یا دولت مند بنا ہو۔

شہرت، نیک نامی اور بے تحاشہ دولت کے ساتھ آج ہر نوجوان کی خواہش ہے کہ وہ زندگی کی تمام رعنائیاں اپنی مٹھی میں لے کر گھومے اور اس کےلیے وہ شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے۔ کبھی کسی کمپنی میں تو کبھی کسی آفس میں۔ اگر ایک بینک نے اسے دوسرے بینک سے اچھا آفر کیا تو ٹھک سے یہ نوجوان دوچار ہزار یا مہران گاڑی سے کرولا کی طرف اڑان بھرتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس میں کتنا ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے ہنر کو آزما کر اسی آفس، اسی بینک کے ذریعے محنت کرکے اپنے آپ کو، اپنے ہنر کو دریافت کرے۔

اسے بس اچھا لائف اسٹائل چاہیے؛ اچھے بنگلے کی خواہش، خوبصورت گاڑی کا دیمک اسے اندر سے ناکارہ کردیتا ہے۔


یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان آپ کو جگہ جگہ بے کار ملے گا۔ اس کے پاس نہ کام ہے نہ وژن۔ اگر اس کے پاس کام ہے تو وہ اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کےلیے اپنے ہنر اور قابلیت کو بھول چکا ہے۔ دنیا کے ہر کام میں محنت درکار ہوتی ہے؛ اور محنت صبر والا درخت ہے جس کا پھل برسوں بعد ملتا ہے۔ سفر جتنا طویل ہوگا، تھکن اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس لیے لمبا سفر کرنے کےلیے جگہ جگہ آنے والے بریکروں سے نہ گھبرائیے بلکہ تھوڑی سانس لیجیے، ایک کپ چائے، کافی پیجیے اور یہ کہتے ہوئے آگے کے سفر پر نکل کھڑے ہوں کہ ابھی کچھ نہیں کیا، ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اگر ہم بغور اپنے آس پاس حالات کا جائزہ لیں تو حیرت کے کوہ ہمالیہ ٹوٹ پڑیں گے کہ اس دور جدید کا نوجوان ایک صدی پیچھے کھڑا نظر آتا ہے؛ حالانکہ اس دور میں ترقی کے مواقع وہ اپنی جیب میں لے کر گھوم رہا ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس کے پاس کرنے کو سوائے نوکری کے کچھ نہیں۔ معاشرہ بھی اسی انسان کو کامیاب تصور کرتا ہے جس کے پاس نوکری ہو۔ جو روز صبح پتلون ٹائی پہن کر کام پر جاتا ہو، جسے مہینے کے آخر میں بیس پچیس ہزار روپے کا چیک ملتا ہو، بھلے بیس تاریخ کے بعد وہ ادھاری پر کیوں نہ چل رہا ہو۔ مگر معاشرے کی نظر میں وہ کامیاب ہے۔ اور جس کے پاس عزائم ہوں، حوصلہ ہو، نہ ہارنے اور دائمی محنت کا جوہر ہو، جو زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتا ہو اور دنیا کے سامنے پیش ہوکر رول ماڈل بننا چاہتا ہو، اسے دھتکار، حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نوجوان دنیا سے بے نام ہی چلا جاتا ہے اور اس کے خواب چکناچور ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ یا پھر لحد میں اس کے جسد کی طرح خاک بن جاتے ہیں۔

محنت سے جی چرا کر کامیابی کسی کی جھولی میں آج تک نہیں آئی۔ کامیابی وقت مانگتی ہے۔ اور وقت تو نوجوانوں کے پاس بالکل بھی نہیں۔ ہم دور کے زمانوں کے کامیاب لوگوں کی مثال نہ بھی لیں تو اسی صدی میں ہمیں کئی ایسے چہرے نظر آئیں گے جن کی زندگی کا سفر روڈ سے، ٹیوشن سینٹر چلانے سے، کسی بڑے صحافی کے جوتے سیدھے کرنے اور اس کےلیے جام بنانے سے شروع ہوا تھا اور آج ان کی جہد مسلسل، محنت نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ ہر شعبے میں ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں جن کا ماضی آج کے نوجوان کا مستقبل ہونا چاہیے۔

ان سے سیکھنے کا عمل شروع کرنا اور ان کے ''نکو'' بن کر ان سے کامیابی کا فلسفہ پڑھنا چاہیے۔ مگر جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ نوجوان کو کچھ دنوں کی چکاچوند میں تو لے جائے گا مگر اس میں کامیابی نہیں ہوگی۔ کام سے محبت، کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ لہذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا وژن بنائیں۔ ایک شعبہ مختص کریں اور اسی میں جی لگا کر کام میں لگ جائیں۔ ہر کام میں نامساعد حالات اور مشکلات آتی ہیں۔ ان سے ڈرے بغیر کام میں چستی جاری رکھیے، اور دوام برقرار رکھیے۔ اگر نوکری پیشہ ہیں تو بھی اپنے ہنر کو پہچان کر متعلقہ شعبے کی تعلیم جاری رکھیے؛ اور اگر اپنا کام ہے تو اس میں مزید بہتری کی کوشش کیجیے۔ آنے والا دور نوجوانوں کا ہے اس لیے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story