قابل تعریف اقدامات مگر نامناسب منصوبہ بندی
حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات قابل تعریف اور واقعی عوام کی بھلائی کےلیے ہیں مگرحکومت جلدبازی کا شکار نظر آرہی ہے
پاکستان تحریک انصاف نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، لگاتار مشکلات کا شکار ہے۔ الیکشن سے قبل برسراقتدار جماعت کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ شاید ایسے دعوئوں کو فی الفور عملی جامہ پہنچانا، صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کے قریب ترین ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ، مناسب منصوبہ بندی کے تحت، حکومت عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرسکتی ہے۔
برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں حکومت مشکلات سے دو چار ہے۔ وہیں اس میں حکومت کی اپنی ناتجربہ کاری اور گزشتہ حکومتوں کی نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ موجودہ حکومت کی ایمانداری پر عوام کو ابھی شک نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں مناسب منصوبہ بندی کا وقت دینا چاہیے۔ برسراقتدار حکومت لگاتار اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے جو واقعی قابل تعریف ہیں۔ جیسے کلین اینڈ گرین پاکستان، تجاوزات کا خاتمہ، ہاؤسنگ اسکیم، ٹریفک قوانین کی پابندی اور احتساب وغیرہ۔ تاہم سارے اقدامات نامناسب منصوبہ بندی اور جلد بازی کی نظر ہورہے ہیں۔
گزشتہ کئی روز سے یہ خبر گرم ہے کہ 20 اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون قابل استعمال نہیں رہیں گے۔ موبائل صارفین کو 8484 نمبر کی طرف سے پیغامات وصول ہو رہے ہیں کہ 20 اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون بند کر دیے جائیں گے۔ تفصیلات جاننے کےلیے 8484 پر اپنا IMEI نمبر بھیجیں۔ تاہم مختلف موبائل فونز کی طرف سے نمبر بھیجنے پر کوئی خاطر خواہ تفصیلات موصول نہیں ہوتیں۔ جواب موصول ہوتا ہے کہ، کوئی تفصیل موجود نہیں، براہ کرم دوبارہ کوشش کیجئے۔
یقین مانیے، حاکم وقت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے۔ تاہم اس اقدام کے پیچھے مناسب منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔ یہ اقدام بھی دوسرے اقدامات کی طرح جلد بازی کا شاخسانہ نظر آرہا ہے۔ لوگوں کو موبائل فون بند کرنے کے پیغامات تو بھیج دیئے گئے ہیں مگر چند چیزیں مد نظر نہیں رکھی گئیں۔ آیا حکومت یا متعلقہ ادارے کو، لوگوں میں پی ٹی اے، آئی ایم ای آئی نمبر وغیرہ کے بارے میں آگاہی نہیں دینی چاہیے؟ کیا متعلقہ ادارے کو پہلے ایسے ذرائع کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے جہاں سے پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل آتے ہیں؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا حکومت ایسے موبائل فونز کے امپورٹ پر پابندی لگاتی۔ لوگوں میں موبائل کی خریداری کے بارے میں آگاہی پھیلاتی۔ پہلے سے موجود لوگوں کے پاس موبائل فونز کو رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔ یقیناً یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے مگر عوام اس سے بے خبر کیوں ہے؟ کیا کوئی آگاہی اشتہار جاری نہیں کرنا چاہیے؟ فقط چند ویب سائٹس پر معلومات سے عام لوگوں تک خبر نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی معلومات کوسماجی ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر عام کرنا چاہیے۔ پھر جا کر کہیں موبائل فونز کی بندش کا عندیہ دیا جانا چاہیے تھا۔
حکومت اپنے ہر آغاز ہی کو اختتام گردانتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کیے گئے یک طرفہ اقدامات، جس میں عوام کو ہر صورت نقصان ہی پہنچے، یا پریشانی کا سبب بنے، کسی صورت قابل قبول نہیں۔ موبائل فونز کی بندش کے فوری اقتدامات پر حکومت کو نظرثانی کرنا ہوگی۔ اور ایسا کرنے سے پہلے آگاہی پھیلانا ہوگی۔ حکومت کو زمینی حقائق و مسائل اور عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ حکومت کا کام عوام کو سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ اپنے جارحانہ فیصلے ان پر مسلط کرنا۔
ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، پہلے آگاہی دی جاتی ہے، پھر اس پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔
حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے بڑے بڑے برجوں کو الٹ دیا ہے۔ عوام حکومت کے اس اقدام سے کافی خوش بھی ہے۔ واقعی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل تعریف ہے۔ مگر اس اقدام کی گہرائی میں بھی جایا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ بظاہر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے اور واقعی اس کے نتائج پاکستان کےلیے مفید ثابت ہوں گے۔ مگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کسی ترتیب کے تحت نہیں کیا جا رہا۔ کسی روز دائیں جانب دو کلومیٹر جا کر کوئی عمارت گرا دی جاتی ہے تو کسی روز بائیں جانب۔ اس غیر ترتیب شدہ آپریشن میں جہاں مال داروں کو وقت مل رہا ہے وہیں غریبوں کے سر پر کم وقت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر آپریشن کسی ترتیب کے تحت کیا جائے تو غریب لوگوں کو اپنی باری کا اندازہ ہو جائے اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے وہ اپنا بندوبست کر لیں۔ ایسے میں عوام کو بھی وقت مل جا ئے گا اور حکومت کا بھی وقت بچ جائے گا۔
اسی طرح پچاس لاکھ گھروں کی اسکیم میں بھی نامناسب منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور تفصیلات کچھ نظر آتی ہیں۔ تاہم اس حکومتی جلد سازی و فیصلے پر بعد میں بھی ردو بدل ہو سکتا ہے۔
حکومت کی نامناسب منصوبہ بندی کے تحت آج عوام سو پیاز اور سو جوتے بھی کھا رہی ہے۔ یعنی ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ غربت کی ماری عوام مہنگائی کے اس طوفان میں مزید پس رہی ہے۔ حکومت ایک طرف عوام پر مہنگائی کا طوفان مسلط کرکے دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے۔ اگر قرض ہی مانگنا تھا تو عوام کو پھر ریلیف کیوں نہیں دیا؟ مانتے ہیں کہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا پورا پورا قصور شامل ہے۔ مگر یاد رکھیے! کہ عوام کو نہ ہی دیا ہوا ریلیف بھولتا ہے اور نہ ہی مہنگائی۔
حکومتی وزراء کی طرف سی پیک جیسے منصوبے پر نامناسب بیان بازی نے اس مفید منصوبے کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ دوبارہ اسے سبوتاز کرنے کی تگ و دو کرہا ہے۔ آئی ایم ایف ہم سے سی پیک کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔ چائنہ ہم سے کترانہ شروع ہوگیا ہے۔ خطے میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔ حکومت کی یونہی ڈگمگاتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی ہرگز وطن کے مفاد میں نہیں۔
اسی طرح ٹریفک قوانین پر پابندی جو کہ نہایت ہی قابل تعریف اقدام ہے۔ صرف اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر مذاق بنا، کیوں کہ قوانین پر عملدرآمد سے پہلے ان کے بارے آگاہی نہیں دی گئی۔
حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے سارے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ اور واقعی خالص عوام کی بھلائی کےلیے ہیں۔ مگر حکومت اپنے ہر عمل میں جلد بازی کا شکار ہو رہی ہے۔ منصوبہ بندی کا فقدان حکومت کےلیے تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر منصوبہ مذاق بن رہا ہے اور عوام مایوس نظر آرہی ہے۔ حکومت کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وہ ایک سال یا دو سال کےلیے منتخب نہیں ہوئے۔ بلکہ عوام کی طرف پانچ سال کےلیے منتخب کیے گئے ہیں۔ اگر حکومت کا رویہ یونہی غیر سنجیدہ رہا۔ تو وہ دن دور نہیں جب انکا نام بھی گزشتہ روایتی حکومتوں کے ساتھ موجود ہوگا۔
حکومت پاکستان کو مناسب و دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں دانائی نظر آئے، جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔ جس سے عوام کو بھی ریلیف ملے۔ تنقیدی تبصروں سے نکل کر مناسب منصوبہ بندی کے تحت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
عوام کو بھی اپنی منتخب حکومت اور نمائندوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے منتخب کردہ نمائندوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ شکایات کی صورت میں ان سے رجوع کرنا چاہیے۔ بلاوجہ تنقید سے باز رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں حکومت مشکلات سے دو چار ہے۔ وہیں اس میں حکومت کی اپنی ناتجربہ کاری اور گزشتہ حکومتوں کی نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ موجودہ حکومت کی ایمانداری پر عوام کو ابھی شک نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں مناسب منصوبہ بندی کا وقت دینا چاہیے۔ برسراقتدار حکومت لگاتار اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے جو واقعی قابل تعریف ہیں۔ جیسے کلین اینڈ گرین پاکستان، تجاوزات کا خاتمہ، ہاؤسنگ اسکیم، ٹریفک قوانین کی پابندی اور احتساب وغیرہ۔ تاہم سارے اقدامات نامناسب منصوبہ بندی اور جلد بازی کی نظر ہورہے ہیں۔
گزشتہ کئی روز سے یہ خبر گرم ہے کہ 20 اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون قابل استعمال نہیں رہیں گے۔ موبائل صارفین کو 8484 نمبر کی طرف سے پیغامات وصول ہو رہے ہیں کہ 20 اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون بند کر دیے جائیں گے۔ تفصیلات جاننے کےلیے 8484 پر اپنا IMEI نمبر بھیجیں۔ تاہم مختلف موبائل فونز کی طرف سے نمبر بھیجنے پر کوئی خاطر خواہ تفصیلات موصول نہیں ہوتیں۔ جواب موصول ہوتا ہے کہ، کوئی تفصیل موجود نہیں، براہ کرم دوبارہ کوشش کیجئے۔
یقین مانیے، حاکم وقت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے۔ تاہم اس اقدام کے پیچھے مناسب منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔ یہ اقدام بھی دوسرے اقدامات کی طرح جلد بازی کا شاخسانہ نظر آرہا ہے۔ لوگوں کو موبائل فون بند کرنے کے پیغامات تو بھیج دیئے گئے ہیں مگر چند چیزیں مد نظر نہیں رکھی گئیں۔ آیا حکومت یا متعلقہ ادارے کو، لوگوں میں پی ٹی اے، آئی ایم ای آئی نمبر وغیرہ کے بارے میں آگاہی نہیں دینی چاہیے؟ کیا متعلقہ ادارے کو پہلے ایسے ذرائع کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے جہاں سے پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل آتے ہیں؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا حکومت ایسے موبائل فونز کے امپورٹ پر پابندی لگاتی۔ لوگوں میں موبائل کی خریداری کے بارے میں آگاہی پھیلاتی۔ پہلے سے موجود لوگوں کے پاس موبائل فونز کو رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔ یقیناً یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے مگر عوام اس سے بے خبر کیوں ہے؟ کیا کوئی آگاہی اشتہار جاری نہیں کرنا چاہیے؟ فقط چند ویب سائٹس پر معلومات سے عام لوگوں تک خبر نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی معلومات کوسماجی ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر عام کرنا چاہیے۔ پھر جا کر کہیں موبائل فونز کی بندش کا عندیہ دیا جانا چاہیے تھا۔
حکومت اپنے ہر آغاز ہی کو اختتام گردانتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کیے گئے یک طرفہ اقدامات، جس میں عوام کو ہر صورت نقصان ہی پہنچے، یا پریشانی کا سبب بنے، کسی صورت قابل قبول نہیں۔ موبائل فونز کی بندش کے فوری اقتدامات پر حکومت کو نظرثانی کرنا ہوگی۔ اور ایسا کرنے سے پہلے آگاہی پھیلانا ہوگی۔ حکومت کو زمینی حقائق و مسائل اور عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ حکومت کا کام عوام کو سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ اپنے جارحانہ فیصلے ان پر مسلط کرنا۔
ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، پہلے آگاہی دی جاتی ہے، پھر اس پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔
حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے بڑے بڑے برجوں کو الٹ دیا ہے۔ عوام حکومت کے اس اقدام سے کافی خوش بھی ہے۔ واقعی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل تعریف ہے۔ مگر اس اقدام کی گہرائی میں بھی جایا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ بظاہر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے اور واقعی اس کے نتائج پاکستان کےلیے مفید ثابت ہوں گے۔ مگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کسی ترتیب کے تحت نہیں کیا جا رہا۔ کسی روز دائیں جانب دو کلومیٹر جا کر کوئی عمارت گرا دی جاتی ہے تو کسی روز بائیں جانب۔ اس غیر ترتیب شدہ آپریشن میں جہاں مال داروں کو وقت مل رہا ہے وہیں غریبوں کے سر پر کم وقت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر آپریشن کسی ترتیب کے تحت کیا جائے تو غریب لوگوں کو اپنی باری کا اندازہ ہو جائے اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے وہ اپنا بندوبست کر لیں۔ ایسے میں عوام کو بھی وقت مل جا ئے گا اور حکومت کا بھی وقت بچ جائے گا۔
اسی طرح پچاس لاکھ گھروں کی اسکیم میں بھی نامناسب منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور تفصیلات کچھ نظر آتی ہیں۔ تاہم اس حکومتی جلد سازی و فیصلے پر بعد میں بھی ردو بدل ہو سکتا ہے۔
حکومت کی نامناسب منصوبہ بندی کے تحت آج عوام سو پیاز اور سو جوتے بھی کھا رہی ہے۔ یعنی ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ غربت کی ماری عوام مہنگائی کے اس طوفان میں مزید پس رہی ہے۔ حکومت ایک طرف عوام پر مہنگائی کا طوفان مسلط کرکے دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے۔ اگر قرض ہی مانگنا تھا تو عوام کو پھر ریلیف کیوں نہیں دیا؟ مانتے ہیں کہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا پورا پورا قصور شامل ہے۔ مگر یاد رکھیے! کہ عوام کو نہ ہی دیا ہوا ریلیف بھولتا ہے اور نہ ہی مہنگائی۔
حکومتی وزراء کی طرف سی پیک جیسے منصوبے پر نامناسب بیان بازی نے اس مفید منصوبے کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ دوبارہ اسے سبوتاز کرنے کی تگ و دو کرہا ہے۔ آئی ایم ایف ہم سے سی پیک کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔ چائنہ ہم سے کترانہ شروع ہوگیا ہے۔ خطے میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔ حکومت کی یونہی ڈگمگاتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی ہرگز وطن کے مفاد میں نہیں۔
اسی طرح ٹریفک قوانین پر پابندی جو کہ نہایت ہی قابل تعریف اقدام ہے۔ صرف اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر مذاق بنا، کیوں کہ قوانین پر عملدرآمد سے پہلے ان کے بارے آگاہی نہیں دی گئی۔
حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے سارے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ اور واقعی خالص عوام کی بھلائی کےلیے ہیں۔ مگر حکومت اپنے ہر عمل میں جلد بازی کا شکار ہو رہی ہے۔ منصوبہ بندی کا فقدان حکومت کےلیے تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر منصوبہ مذاق بن رہا ہے اور عوام مایوس نظر آرہی ہے۔ حکومت کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وہ ایک سال یا دو سال کےلیے منتخب نہیں ہوئے۔ بلکہ عوام کی طرف پانچ سال کےلیے منتخب کیے گئے ہیں۔ اگر حکومت کا رویہ یونہی غیر سنجیدہ رہا۔ تو وہ دن دور نہیں جب انکا نام بھی گزشتہ روایتی حکومتوں کے ساتھ موجود ہوگا۔
حکومت پاکستان کو مناسب و دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں دانائی نظر آئے، جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔ جس سے عوام کو بھی ریلیف ملے۔ تنقیدی تبصروں سے نکل کر مناسب منصوبہ بندی کے تحت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
عوام کو بھی اپنی منتخب حکومت اور نمائندوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے منتخب کردہ نمائندوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ شکایات کی صورت میں ان سے رجوع کرنا چاہیے۔ بلاوجہ تنقید سے باز رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔