معاشی استحکام کیلئے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد جیتنا لازمی ہوگا

اگر موجودہ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ٹشوپیپر سمجھا تو انکا مستقبل کی پاکستانی حکومتوں سے اعتبار بھی اٹھ جائے گا


یاسمین طٰہٰ November 15, 2018
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرکے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی تھی، اس صدمے سے پاکستانی اب تک باہر نہیں آسکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

1997 میں پاکستان کے نامساعد حالات اور قرضوں کے پیشِ نظر، اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ''قرض اُتارو، ملک سنوارو'' نامی اسکیم متعارف کروائی۔ اس اسکیم میں حکومت نے عوام سے دو سال کےلیے قرض حسنہ مانگا، دو سال کی مدت کےلیے لی گئی کروڑوں روپے کی رقم کا مبینہ طور پر بینکوں نے برسوں تک کوئی حساب نہیں دیا۔

اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان کو قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کے تحت 1997 میں ایک ارب 20 کروڑ اور فارن کرنسی کی مد میں 17 کروڑ 80 لاکھ ڈالر موصول ہوئے تھے۔ پاکستانیوں نے اس اسکیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آج کل عمران حکومت پر پاکستانیوں سے مدد مانگنے پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بہت تنقید کی جارہی ہے جبکہ چندہ مانگنے کی ابتداء نواز شریف کی حکومت سے ہی ہوئی، لیکن شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں کو شاید یہ بات معلوم ہی نہیں اس لیے وہ عمران خان کے ڈیم فنڈ کے حوالے سے کی گئی اپیل پر بڑھ چڑھ کر تنقید کررہے ہیں۔

یہ لوگ یہ بات بھی بھول گئے ہیں کہ انہی کے دور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرکے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی تھی، اس صدمے سے پاکستانی ابھی تک باہر نہیں آئے ہیں۔ اب عمران خان حکومت کی ایک بار پھر مالی مدد کےلیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر نظریں ہیں۔ کیا بیرون ملک مقیم پاکساتانی اس حکومت کےلیے زرمبادلہ بھجوانے کو تیار ہیں؟ کیا وہ اس بات پر بھروسہ کرسکیں گے کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہاتھوں میں ہوگا؟

بیرون ملک مقیم پاکستانی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ، ملکی معیشت کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی حکومت ملکی معیشت کے استحکام کےلیے ان کی طرف دیکھتی ہے؛ اور یہ لوگ بھی وطن کی ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے مسائل کو کسی بھی حکومت نے ترجیح نہیں دی۔ ہمیں یقین ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی، ملکی معیشت کی بہتری کےلیے اس حکومت کی آواز پر بھی لبیک کہتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کےلیے بڑھ چڑھ کر مالی مدد فراہم کریں گے۔

لیکن کیا عمران حکومت ان کے مسائل کے حل کےلیے کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کرے گی کہ ان کا اس حکومت پر اعتماد قائم ہوجائے۔ ان کے مسائل میں سرفہرست ان کی سرمایہ کاری پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے جس کی مثال کراچی میں مہران ٹاؤن میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اس اسکیم پر لینڈ مافیا مکمل طور پر قابض ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بھی اپنے لیڈر کی اس اسکیم کو قبضہ مافیا سے چھڑانے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا یہ اقدام کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت ان زمینوں کو بازیاب کرانے کےلیے اقدامات کرے گی؟ اس حکومت سے تمام پاکستانیوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں جن پر پورا اترنا عمران خان کےلیے ایک چیلنج ہے۔

اگر موجودہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے تو یہ لوگ موجودہ حکومت کےلیے مستقل زرمبادلہ کی فراہمی کا باعث ہوں گے، لیکن اگر موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح انہیں ٹشو پیپر سمجھا تو اوورسیز پاکستانیوں کا پاکستان کی مستقبل کی حکومتوں پر سے بھی اعتبار اٹھ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں