کمنیٹری باکس میں ذمہ داریاں نبھانے کا تجربہ بہت یادگار رہا مرینہ اقبال
کوشش ہے کہ اس شعبے میں بھی پاکستان کی پہچان بنوں، مرینہ اقبال
قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والی سابق کرکٹر مرینہ اقبال کا کہنا ہے کمنیٹری باکس میں ذمہ داریاں نبھانے کا تجربہ بہت یادگار رہا جب کہ کوشش ہے کہ اس شعبے میں بھی پاکستان کی پہچان بنوں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی مرینہ اقبال نے 2009 میں آئرلینڈ کے خلاف ون ڈے ڈبیو کیا اور قومی ٹیم کی جانب سے 36 ایک روزہ میچز میں 436 رنز بنانے کے ساتھ 8 وکٹیں حاصل کیے۔ اسی سال ان کو ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ مجموعی طورپر 42 ٹی ٹوئنٹی میچز میں ان کے رنز کی تعداد 340 رہی۔ 2015 میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹی ٹوئنٹی کھیلا جب کہ ون ڈے کرکٹ کو 2017 میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد خیر باد کہا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سابق کرکٹرمرینہ اقبال کمنٹیٹر بن گئیں
31 سالہ مرینہ اقبال کا کہنا ہے "پاکستان کی جانب سے گرین کیپ ملنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتی ہوں، تین ورلڈ ٹی ٹوِئنٹی اور ایک ورلڈکپ میں قومی ٹیم کا حصہ رہی، کیرئر کے دوران یوں تو بہت سے ایسے مواقع ہیں، جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاہم کوریا میں کھیلی گئیں 2014 ایشین گیمز میں پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کو ہراکر گولڈمیڈل جیتا، یہ میرے لیے بہت یادگار لمحات تھے، خود پر بہت فخر ہوا کہ ہماری وجہ سے پاکستان کی نیک نامی اور عزت میں بہت اضافہ ہوا۔"
مرینہ کہتی ہیں"کرکٹ کو بہت انجوائے کیا،نئی لڑکیوں کے لیے جگہ خالی کرنے کا فیصلہ کیا تو خواہش تھی کہ اسی کھیل کے ساتھ خود کو وابستہ رکھوں، اس لیے کمنٹیری کے شعبے میں صلاحیتوں کےا ظہار کا فیصلہ کیا، حال میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ملائیشیا میں کھیلی گئی سیریز میں بطور کمنٹیٹر ڈبیو کیا ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ، ساتھی کمنیٹیٹرز اور اپنی ٹی وی پروڈکشن ٹیم کی بہت مشکور ہوں، جن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت ذمہ داریاں بہت اچھے طریقے سے نبھانے میں کامیاب رہیں۔ "
مرینہ نے کہا کہ پہلی بار کسی بھی میدان میں جاکر خود کو اس کا اہل ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا،ہر شعبے کی اپنی اپنی ضروریات ہیں، شوق کی بہت اہمیت ہے، اگر یہ نہیں ہوگا تو پھرمشکل ہوتی ہے، والد کی ٹرافیوں اور میڈلز کو دیکھ کر کھیلنے کی امنگ پیدا ہوئَی کہ ان کی طرح میرا بھی ٹرافیوں والا ایک کمرہ ہو، جس کو فخر کے ساتھ دوسروں کو دکھاسکوں۔ الحمد اللہ، کرکٹ میں بہت محنت کی، لگن سچی تھی، کچھ کردکھانے کا عزم تھا، اس لیے ٹیم میں منتخب ہونے کے بعد جہاں تک ہوسکا، بہترین پرفارمنس سے ملک اور والدین کا نام روشن کرنے کی بہت کوشش کی۔
مرینہ اقبال کا کہنا تھا کہ اب کمنٹیٹری میں بھی اپنی محنت اور شوق کے ذریعے ایک اچھا مقام اور نام پاناخواب ہے۔اچھا کمنٹیٹر بنانے کے لیے کھیل کے قوانین سے مکمل واقفیت،تلفط، اعتماد اور دوسروں سے سیکھنے کی جستجو اور لگن ہو توتمام مشکلات آسانیاں میں بدل جاتی ہیں۔میری بھی کوشش ہے کہ اس شعبے میں جس قدر ممکن ہو، اپنا، والدین اور پاکستان کا نام روشن کروں۔"
لاہور سے تعلق رکھنے والی مرینہ اقبال نے 2009 میں آئرلینڈ کے خلاف ون ڈے ڈبیو کیا اور قومی ٹیم کی جانب سے 36 ایک روزہ میچز میں 436 رنز بنانے کے ساتھ 8 وکٹیں حاصل کیے۔ اسی سال ان کو ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ مجموعی طورپر 42 ٹی ٹوئنٹی میچز میں ان کے رنز کی تعداد 340 رہی۔ 2015 میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹی ٹوئنٹی کھیلا جب کہ ون ڈے کرکٹ کو 2017 میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد خیر باد کہا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سابق کرکٹرمرینہ اقبال کمنٹیٹر بن گئیں
31 سالہ مرینہ اقبال کا کہنا ہے "پاکستان کی جانب سے گرین کیپ ملنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتی ہوں، تین ورلڈ ٹی ٹوِئنٹی اور ایک ورلڈکپ میں قومی ٹیم کا حصہ رہی، کیرئر کے دوران یوں تو بہت سے ایسے مواقع ہیں، جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاہم کوریا میں کھیلی گئیں 2014 ایشین گیمز میں پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کو ہراکر گولڈمیڈل جیتا، یہ میرے لیے بہت یادگار لمحات تھے، خود پر بہت فخر ہوا کہ ہماری وجہ سے پاکستان کی نیک نامی اور عزت میں بہت اضافہ ہوا۔"
مرینہ کہتی ہیں"کرکٹ کو بہت انجوائے کیا،نئی لڑکیوں کے لیے جگہ خالی کرنے کا فیصلہ کیا تو خواہش تھی کہ اسی کھیل کے ساتھ خود کو وابستہ رکھوں، اس لیے کمنٹیری کے شعبے میں صلاحیتوں کےا ظہار کا فیصلہ کیا، حال میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ملائیشیا میں کھیلی گئی سیریز میں بطور کمنٹیٹر ڈبیو کیا ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ، ساتھی کمنیٹیٹرز اور اپنی ٹی وی پروڈکشن ٹیم کی بہت مشکور ہوں، جن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت ذمہ داریاں بہت اچھے طریقے سے نبھانے میں کامیاب رہیں۔ "
مرینہ نے کہا کہ پہلی بار کسی بھی میدان میں جاکر خود کو اس کا اہل ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا،ہر شعبے کی اپنی اپنی ضروریات ہیں، شوق کی بہت اہمیت ہے، اگر یہ نہیں ہوگا تو پھرمشکل ہوتی ہے، والد کی ٹرافیوں اور میڈلز کو دیکھ کر کھیلنے کی امنگ پیدا ہوئَی کہ ان کی طرح میرا بھی ٹرافیوں والا ایک کمرہ ہو، جس کو فخر کے ساتھ دوسروں کو دکھاسکوں۔ الحمد اللہ، کرکٹ میں بہت محنت کی، لگن سچی تھی، کچھ کردکھانے کا عزم تھا، اس لیے ٹیم میں منتخب ہونے کے بعد جہاں تک ہوسکا، بہترین پرفارمنس سے ملک اور والدین کا نام روشن کرنے کی بہت کوشش کی۔
مرینہ اقبال کا کہنا تھا کہ اب کمنٹیٹری میں بھی اپنی محنت اور شوق کے ذریعے ایک اچھا مقام اور نام پاناخواب ہے۔اچھا کمنٹیٹر بنانے کے لیے کھیل کے قوانین سے مکمل واقفیت،تلفط، اعتماد اور دوسروں سے سیکھنے کی جستجو اور لگن ہو توتمام مشکلات آسانیاں میں بدل جاتی ہیں۔میری بھی کوشش ہے کہ اس شعبے میں جس قدر ممکن ہو، اپنا، والدین اور پاکستان کا نام روشن کروں۔"