سوشل میڈیا یا ہائیڈ پارک
سماجی میل جول کی ویب سائٹ کوسماجی میل جول کےلیے ہی رہنے دیں،انہیں دشمنی کےلیے ہرگز استعمال نہ کریں،اسی میں بھلائی ہے
سماجی رابطے کی ویب سائٹس آج کل سماج کی تخریب کا کام کر رہی ہیں۔ شدت پسندی اور بداخلاقی ان پر عام ہے۔ جو سائٹ دیکھیں، اسی پر گالی گلوچ اور دشنام طرازی کی بھرمار نظر آتی ہے۔ ہر کوئی عقل کل بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ ہی عدم ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے نام جب اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بڑائی زمیں پر آ رہتی ہے۔ چینلز پر بیٹھ کر درس دینے والے بزعم خود دانشور جب کبھی عیاں ہوتے ہیں تو ان کی ساری دانشوری کی پول کھل جاتی ہے۔ کوئی کسی ویڈیو میں دوسروں کو گالیاں دیتا نظر آتا ہے تو کوئی محض آواز کا جادو جگا رہا ہوتا ہے۔ کچھ تو ساری حدیں ہی عبور کر جاتے ہیں اور ماں بہن کی گندی گالیاں تک دینے لگ جاتے ہیں۔
یہ ہائیڈ پارک جیسی صورت حال ہے کہ جو چاہے دوسرے کی پگڑی اچھالے مگر اسے کوئی کچھ بھی نہ کہے۔ ہم، آپ اور سب نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ یہ کام سیاسی کارکنوں نے شروع کیا۔ یہ نام نہاد سوشل میڈیا ٹیمیں جو تمام سیاسی پارٹیوں نے بنا رکھی ہیں، انہیں تو گویا یہی درس دیا گیا ہے کہ دوسروں کو گالیاں دو اور چپ کروا دو۔ ان ٹیموں کے سربراہان ہی گھٹیا اور گندا مواد سوشل میڈیا پر بھیجتے ہیں اور پھر ان کے باقی ارکان اسے شیئر کرتے جاتے ہیں؛ اور یوں یہ گند پورے ملک میں تو کیا، پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ہمسائے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔
آزادی اظہار یا آزادی رائے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ کچھ تقاضے ہیں۔ اگر آپ کسی کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں تو اسے گالیاں دے کر اس کی شخصیت کی کمزوریاں بیان کر کے اور اسے نیچا دکھا کر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسرے تک اپنی بات پہنچانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ ہر معاشرے میں اس کے کچھ اصول و ضوابط طے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں گالیوں سے لطف اندوز ہونا اور دوسروں کو لطف اندوز کرنا ہی سب سے بڑا اصول رہ گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو رکھ رکھاؤ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ باپ بیٹا بہن بھائی کے درمیان جو ایک جائز حد تھی وہ ختم ہو گئی ہے، ہر کوئی خود کو عظیم اور ارفع ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، مگر اس حق کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داری بھی ہے۔ جب ہماری لکھی ہوئی گالی اور گندی زبان دوسرا پڑھتا ہے تو اس سے ہماری شخصیت اس پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اگر ہم خود کو اچھا کہلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی اچھائی کا مان بھی رکھنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی عزت چاہتے ہیں تو ہمیں دوسرے کی عزت کرنا ہوگی۔ سیاسی اختلاف ہے تو کیا ہوا؟ کیا مخالف سیاستدان کسی اور ملک کا ہے؟ کیا مخالف ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہے؟ سماجی میل جول کی ویب سائٹ کو سماجی میل جول کے لئے ہی رہنے دیں، انہیں دشمنی کے لئے ہرگز استعمال نہ کریں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اسی میں ہماری عزت بھی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ ہائیڈ پارک جیسی صورت حال ہے کہ جو چاہے دوسرے کی پگڑی اچھالے مگر اسے کوئی کچھ بھی نہ کہے۔ ہم، آپ اور سب نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ یہ کام سیاسی کارکنوں نے شروع کیا۔ یہ نام نہاد سوشل میڈیا ٹیمیں جو تمام سیاسی پارٹیوں نے بنا رکھی ہیں، انہیں تو گویا یہی درس دیا گیا ہے کہ دوسروں کو گالیاں دو اور چپ کروا دو۔ ان ٹیموں کے سربراہان ہی گھٹیا اور گندا مواد سوشل میڈیا پر بھیجتے ہیں اور پھر ان کے باقی ارکان اسے شیئر کرتے جاتے ہیں؛ اور یوں یہ گند پورے ملک میں تو کیا، پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ہمسائے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔
آزادی اظہار یا آزادی رائے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ کچھ تقاضے ہیں۔ اگر آپ کسی کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں تو اسے گالیاں دے کر اس کی شخصیت کی کمزوریاں بیان کر کے اور اسے نیچا دکھا کر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسرے تک اپنی بات پہنچانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ ہر معاشرے میں اس کے کچھ اصول و ضوابط طے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں گالیوں سے لطف اندوز ہونا اور دوسروں کو لطف اندوز کرنا ہی سب سے بڑا اصول رہ گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو رکھ رکھاؤ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ باپ بیٹا بہن بھائی کے درمیان جو ایک جائز حد تھی وہ ختم ہو گئی ہے، ہر کوئی خود کو عظیم اور ارفع ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، مگر اس حق کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داری بھی ہے۔ جب ہماری لکھی ہوئی گالی اور گندی زبان دوسرا پڑھتا ہے تو اس سے ہماری شخصیت اس پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اگر ہم خود کو اچھا کہلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی اچھائی کا مان بھی رکھنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی عزت چاہتے ہیں تو ہمیں دوسرے کی عزت کرنا ہوگی۔ سیاسی اختلاف ہے تو کیا ہوا؟ کیا مخالف سیاستدان کسی اور ملک کا ہے؟ کیا مخالف ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہے؟ سماجی میل جول کی ویب سائٹ کو سماجی میل جول کے لئے ہی رہنے دیں، انہیں دشمنی کے لئے ہرگز استعمال نہ کریں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اسی میں ہماری عزت بھی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔