سیاسی مداخلت‘ اقربا پروری‘ وسائل کی بندربانٹ‘ فرسودہ نظام

کھیلوں میں بہتری کے لئے جادو کی چھڑی کہاں سے آئے گی؟

کھیلوں میں بہتری کے لئے جادو کی چھڑی کہاں سے آئے گی؟ (فوٹو : ایکسپریس)

کھیل کسی بھی معاشرے کی رگوں میں دوڑتے لہو کی مانند ہوتے ہیں' کھیلوں کی سرگرمیاں جذبے جوان اور زندگی میں آگے بڑھنے کی اُمید میں زندہ رکھنے کا ذریعہ ہیں' میدانوں کی ویرانی دراصل نوجوانوں کے ارمانوں کی قربانی ہے۔ بدقسمتی سے سپورٹس کا فروغ کبھی بھی ہماری قومی ترجیحات میں شامل نہیں رہا' ہمارے نام نہاد رہنما سیاست کو کھیل سمجھتے ہیں تو دوسری طرف کھیلوں میں سیاسی اثرورسوخ کا چلن عام ہے' اس رجحان کا نتیجہ ہے کہ سیاست میں عوام کے حقیقی خدمت گار کم اور جذبات سے کھیلنے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔کھیلوں میں سیاسی قلابازیاں اتنی ہیں کہ کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود اور کارکردگی پر توجہ دینے کا وقت باقی بچتا ہے' نہ کوئی اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

جب بھی کبھی طویل انتظار کے بعد جمہوریت قوم کی '' خدمت'' کیلئے اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوئی' کھیلوں کے فروغ کیلئے بھی '' خصوصی'' اقدامات ضرور اٹھائے گئے' سیاستدانوں نے اثرورسوخ استعمال کرنے کے بجائے براہ راست سپورٹس فیڈریشنز کے عہدوں پر قبضہ جمانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا' سابق کھلاڑی سیاسی رہنمائوں نے گویا اسے اپنا استحقاق سمجھ لیا' پارٹی کا حکومت میں ہاتھ ہو اور نامی گرامی کارکن ہی بے اختیار رہ جائیں' ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

نابالغ جمہوریت میں مخلوط یا اتحادی حکومتوں کی تشکیل کوئی نئی بات نہیں' اس طرح کے سیٹ اپ میں جتنی پارٹیاں' اتنے نخرے '' کچھ لو اور کچھ دو'' کا فارمولا اپنائے بغیر مصلحت کوش جمہوری عمل کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی' '' حصہ بقدر جثہ'' کے تحت پاکستان کرکٹ بورڈ سے لے کر چھوٹی موٹی سپورٹس فیڈریشنز اور علاقائی تنظیموں تک قدم قدم پر سیاسی تقرریوں اور فیصلوں کی بھرمار نظر آتی ہے' عہدیدار بظاہر کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں' مگر حقیقت میں تصویریں اتروانے اور اپنے بڑوں کی شان میں قصیدے چھپوانے کیلئے فکرمند نظر آتے ہیں' میڈیا کو مختلف سپورٹس اداروں کی طرف سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز میں کسی ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم یا عمدہ کھیل پیش کرنے والے کھلاڑیوں کا برائے نام بھی ذکر ہو نہ ہو' اختتامی تقریب میں تشریف لانے والے کسی موجودہ' سابق یا مستقبل کے رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیاستی گفتگو اور عوامی خدمات کی فہرست ضرور موجود ہوتی ہے۔

اچھے تعلقات اور ٹورنامنٹ آرگنائزر یا کھلاڑیوں کو دینے کیلئے چند ہزار روپے جیب میں ہوں تو سابق '' امیدوار برائے جنرل کونسل فلاں فلاں'' بھی مہمان خصوصی بن کر اپنے سیاسی عزائم نوجوانوں کے گوش گزار کر سکتے ہیں۔ آخر میں کھیلوں کے یہ قدر دان ایک جملہ ادا کرنا نہیں بھولتے '' جس قوم کے میدان آباد ہوں' اس کے ہسپتال ویران رہتے ہیں'' کوئی ان سے پوچھے کہ جس ملک کے نوجوانوں کی اکثریت کو لوڈشیڈنگ کے بخشے اندھیروں میں رات رات بھر مچھر کاٹیں' گرمی ستائے' صبح آنکھیں ملتے اور مقدر کا رونا روتے ہوئے سکولوں کالجوں میں جائیں' سخت حبس میں پانی نہ ہو' کبھی دوسرے' کبھی تیسرے روز نہائیں' بسوں' ویگنوں میں لٹکتے ہوئے گھروں کو آئیں' موبائل کی روشنی میں امتحانوں کی تیاری کے دوران لبوں پر ہوں بددعائیں' تو صحت مند جسم اور دماغ کہاں پروان چڑھیں گے۔


ان حالات کے باوجود اگر بی اے میں ٹاپ کرنے والے محمد محسن جیسے سپوت پیدا ہو جاتے ہیں تو یہ اس سخت جان قوم کی خوش قسمتی ہے' ورنہ ہمارے حال کے پہرے داروں نے تو مستقبل کے معماروں کو سوائے ڈراما بازی کے کچھ نہیں دیا۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا اصرار تھا کہ پاکستان کا نظام جو بھی ہے کم از کم کھیلوں میں تو سیاسی مداخلت ختم کر دی جائے' لندن گیمز سے باہر کرنے کی دھمکی بھی ملی' ہماری ٹال مٹول کی روایتی پالیسی کامیاب رہی' اولمپکس سے باہر ہونے کا خطرہ ٹل گیا' ہم پھر '' دوست نواز'' منصوبہ بندی اور عہدوں کی بندربانٹ کیلئے آزاد ہیں' اولمپکس ہر 4 سال بعد آتے ہیں' آئندہ میگا ایونٹ سے قبل پاکستان میں شاید کوئی سیاسی تبدیلی بھی آ چکی ہو' فرسودہ نظام میں کچھ پرانے چہرے نئے روپ میں نظر آ بھی گئے تو سپورٹس عہدوں پر من پسند افراد لانے کا سلسلہ شروع ہو گا' فنڈز لینے' دینے اور کھانے' بیرون ملک سیر سپاٹوں پر جانے والوں میں سے کچھ سازباز کر کے فیڈریشنز پر قابض رہیں گے' حکومت چند '' ناگزیر'' تبدیلیاں بھی ضرور کرے گی' مگر کھیلوں کی حالت سدھارنے کا خواب تعبیر سے محروم رہے گا۔

دنیا بھر سے آئے 10 ہزار 8 سو کے قریب اتھلیٹس میں سے ہر کوئی اولمپکس میڈل نہیں جیتا' تاہم بہت سارے ایسے تھے' جنہوں نے عمدہ کارکردگی سے دل جیت لئے' ہماری وائلڈ کارڈ انٹریز بھی مقابلوں میں چند سیکنڈ یا منٹ تک محدود تھیں' سب کیلئے آغاز ہی اختتام ثابت ہوا' باقی وقت گرین شرٹس نے دوسروں کی کامیابیوں پر تالیاں بجاتے گزارا' ہاکی سے موہوم سی امید تھی' مگر انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں بڑے مارجن سے شکستوں نے یہ خوش فہمی بھی دور کر دی۔ پاکستانیوں نے اپنی ٹی وی سکرینوں پر جمیکا جیسے 27 لاکھ آبادی والے ملک کے اُسین بولٹ کو 100 اور 200 میٹر ریس میں اعزاز کا دفاع کرتے دیکھا' دنیا کے تیز ترین اتھلیٹ کے 3 گولڈ سمیت اس چھوٹی سی قوم نے 4 طلائی' اتنے ہی نقرئی اور کانسی کے تمغے حاصل کئے۔ ایک طرف امریکی تیراک مائیکل فلپس نے سب سے زیادہ اولمپکس میڈل حاصل کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔

محمد فارا نے 5 ہزار اور 10 ہزار میٹر میں تاریخ رقم کی' قازغستان کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے' 7 گولڈ سمیت 13 میڈل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا۔ نیوزی لینڈ کی آبادی صرف 43 لاکھ ہے' اتھلیٹس نے 6 گولڈ سمیت 13 میڈل اپنی قوم کی جھولی میں ڈالے۔ 12 لاکھ افراد کے ملک سوئٹزر لینڈ نے 2 گولڈ' اتنے ہی سلور' 13 لاکھ آبادی والے ٹرینیڈاڈا اینڈٹوباکو نے ایک گولڈ اور 3 برانز میڈل حاصل کئے۔ 22 لاکھ نفوس پر مشتمل لسٹویا بھی ایک گولڈ' ایک برانز کا اعزاز پانے میں کامیاب رہا۔ صرف 3 لاکھ آبادی کا حامل بہاماس بھی ایک گولڈ میڈل لے اڑا اور تو اور گرینیڈا جیسا صرف ایک لاکھ افراد پر مشتمل معاشرہ بھی ایک گولڈ میڈلسٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

کویت' سلوینیا' بحرین' قطر جیسے ملک بھی خالی ہاتھ نہیں رہے' ہمسایہ ملک ایران نے 4 گولڈ' 5 سلور اور 3 برانز میڈلز کے ساتھ گیمز کا اختتام کیا' مگر ہمارے آفیشل مستقبل میں بہتر پلاننگ کرنے کے دعوئوں کے ساتھ منہ لٹکائے وطن واپس آ گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی مقابلوں کیلئے میڈل ونر اتھلیٹ کی تیاری کیلئے 10 سال کی محنت یا 10 ہزار گھنٹے کی ٹریننگ کے ساتھ مناسب سہولیات کی فراہمی ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے کرتا دھرتا عام انسانوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے مساوات کے اصولوں کا اطلاق ضروری نہیں سمجھتے تو کھیلوں میں بہتری لانے کی حکمت عملی پر کیا خاک توجہ دینگے' معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی' عوامی فلاح و بہبود جیسی ترجیحات جب تک عام نہیں ہوتیں' سپورٹس میں نمایاں کامیابیوں کے خواب دیکھنا فضول ہو گا۔ کروڑوں کے فنڈز عہدیداروں اور ان کی اقرباپروری سے سامنے آنے والے کھلاڑیوں کی چند روزہ تفریح کا سامان تو کر سکتے ہیں' ملکی وقار میں اضافہ کرنے والی کارکردگی سامنے نہیں آ سکتی۔

 
Load Next Story