احتساب صحیح سمت میں ہو رہا ہے مگر
آج زمینی حقائق یہی ہیں کہ ملک ایک صحیح سمت روانہ ہو چکا ہے۔
یہ جو آج کل مہنگائی ہے، مہنگائی بھی دراصل ''کرپشن''کے انڈوں بچوں میں سے ایک ہے اور ملکی معیشت کے گلے میں خوفناک قرضوں کی لعنت کا طوق بھی اسی''کرپشن'' کی ناجائز اولاد ہے۔اسی کرپشن کا آج احتساب ہو رہا ہے اور کھلے عام ہو رہا ہے۔
احتساب کے حساب کتاب میں ایک پہلو انتہائی اہم ہے کہ اس سلسلے میں ''عینی شہادتوں''کے بجائے ''واقعاتی شہادتوں'' پر انحصار کیا جائے کہ کوئی کرپٹ اپنی کرپشن کے ''ثبوت'' نہیں چھوڑتا اور حرام کا وجود ہی اس کے حرام ہونے کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔ اور اگر احتساب کے نام پر اندر خانے کوئی اور ہی حساب کتاب ہو، تو حکمران طبقہ جان لے کہ اس سے وقتی طور پر تو جان چھوٹ جائے گی لیکن انھیں جلد ہی اس امتحان سے گزرنا ہو گا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلا جائے گا کہ ''100 دن چور کے'' اور بعد میں ایک دن ''سادھ'' کا بھی آنا ہی ہوتا ہے۔
اس احتساب کے حوالے سے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ کیا احتساب صحیح ہو رہا ہے تو میں نے بلاججھک کہا کہ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ پھر وہ صاحب بولے کہ بڑے ''خادم'' صاحب باہر کب آ رہے ہیں تو میں جھٹ سے جواب دیا 56کمپنیوں میں ہر کمپنی کے لیے ایک ایک ہفتہ بھی اگر قید بنے تو اگلے ایک سال تک تو وہ باہر آنے سے رہے، پھر اُس نے کہا یہ پاکستان ہے یہاں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس بات پرمیں چپ ہوگیا کیوں کہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن آج زمینی حقائق یہی ہیں کہ ملک ایک صحیح سمت روانہ ہو چکا ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ جاری ہے۔
عمران خان کی حکومت سے عوام کو سب سے بڑی توقع یہی ہے کہ یہ حکومت اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردے گی، اب کوئی شخص چوری کے مال پر عزت دار نہیں بن سکے گا۔ اب کوئی وزیر آپ کو اپنی ''بولی'' لگاتا نظر نہیں آئے گا۔ اس لیے کرپشن میں اور بھی کمی واقع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ چیئرمین نیب چند روز میں شروع کرنے والے ہیں۔سنا ہے کہ پنجاب میں اینٹی کرپشن کے ڈی جی حسین اصغر بھی بڑے ایمان دار افسر ہیں اور پرانے تمام کیسز کو نئے سرے سے وزٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔تاکہ وہ لوگ جو گزشتہ حکومت میں اپنے تعلقات کی بدولت اپنے جرائم چھپانے میں کامیاب ہو گئے تھے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک فہرست کے مطابق نیب نے اب تک 65 سیاسی رہنماؤں اور سرکاری افسروں کے خلاف تحقیقات کی ہیں، ان میں سے 19 کا تعلق سندھ سے 19 کا خیبر پختونخوا سے 18 کا پنجاب سے اور 9 کا بلوچستان سے ہے۔ ان میں سے پیپلز پارٹی کے 16 مسلم لیگ ن کے 10 مسلم لیگ ق کے 5 ایم کیو ایم کے 4 تحریک انصاف مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی، اے این پی، بی این بی کا ایک ایک عہدیدار اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے، ان میں سے بعض پر غیر قانونی بھرتیوں، بعض پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے، فنڈز کی خورد برد، کرپشن، پلاٹوں کی ناجائز الاٹمنٹ، اختیارات سے تجاوز یا آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے الزامات ہیں۔ پارلیمنٹ اور سینیٹ میں تقریباً ہر روز نیب کے قوانین اور ان کے تحت کارروائی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ جو شور بپا ہے یہ حقیقت میں اور کچھ نہیں یہ اُن لوگوں کی چیخیں ہیں جنہوں نے غریبوں کا مال کھایا ہے۔بقول شاعر
اک عجب شور بپا ہے اندر
پھر سے دل ٹوٹ رہا ہے شاید
سندھ میں ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے 726 رہنماؤں اور کارکنوں کو طلبی کے نوٹس اور 4کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے سندھ کے تمام ترقیاتی منصوبوں کا 5 سالہ ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور ترقیاتی اسکیموں کے پروجیکٹ چارٹر، مخصوص بجٹ جاری رقوم اور اخراجات کی تفصیلات کے لیے چیف سیکریٹری کو خط لکھا ہے۔ الغرض پورے ملک میں احتساب کا عمل جاری ہے،کرپٹ افراد اور اداروں کا احتساب پوری قوم کی خواہش ہے ۔ کیوں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے قوم احتساب کے لیے پکار رہی ہے کیونکہ اس سے قبل کبھی اس قدر لوٹ مار کا غدر بپا نہیں ہوا جس قدر گزشتہ تیس برس میں دیکھا گیا۔
میرے مشاہدے کے مطابق لوٹ مار، خزانہ چوری اور کرپشن کا شور بپا کرنے اور عوام کے ذہنوں میں اس تاثر کو راسخ کرنے میں خود سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں نے اہم ترین کردار سرانجام دیا۔ غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور جنرل ضیاء الحق نے کئی بار حکومتیں ڈسمس کیں اور ہر بار ایک ہی الزام دہرایا کہ کرپشن نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ان تیس برسوں میں باری باری دو پارٹیاں اور دو خاندان برسر اقتدار آتے رہے اور دونوں ایک دوسرے پر نہ صرف ہمالیہ برابر کرپشن کا الزام لگاتے رہے بلکہ احتساب کا ڈرامہ بھی رچاتے رہے۔ ''احتساب الرحمان'' کا احتساب اس سلسلے کی اہم ترین اور آخری کڑی تھی۔ تین دہائیوں پر محیط اس مہم نے دیہات سے لے کر شہروں تک عوام کو یقین دلا دیا کہ ہمارے حکمران کرپشن سے لت پت ہیں اور انھی کی لوٹ مار دراصل قوم کی غربت کا سبب ہے۔
اخبارات، بیانات اور سیاسی مہمات کے ساتھ ساتھ افواہوں کی مہم بھی جاری رہی جس نے خاص طور پر زرداری کی حصول زر کی ایسی ایسی داستانوں کو جنم دیا جو سننے میں افسانوی لگتی تھیں لیکن جب سرے محل، نیویارک کے مہنگے ترین علاقے مین ہیٹن میں مہنگے ترین اپارٹمنٹ، سندھ میں نامی و بے نامی شوگر ملوں، فرانس اور یو اے ای میں محلات اور سوئٹزر لینڈ میں دولت کی داستانیں حقیقت بن کر سامنے آئیں تو افسانوں نے سچ کا روپ دھار لیا۔ اسی طرح میاں فیملی کی لندن کی جائیدادوں نے بھی کرپشن کے تاثر کو ہوا دی، تین دہائیوں کی کرپشن کی کہانیاں ہر شہری تک پہنچیں تو احتساب قوم کے دل کی آرزو بن گیا۔ دیکھنے والی نگاہیںدیکھ رہی تھیں کہ 2018ء کے انتخابات میں کرپشن سب سے بڑا ایشو ہو گا، لوٹی ہوئی دولت باہر سے واپس لانا رائے دہندگان کی سب سے بڑی آرزو ہو گی، لوٹ مار کرنے والوں کو سزا لوگوں کی دعا ہو گی۔
لیکن اس سارے معاملے میں پاناما لیکس کے حوالے سے جو شور مچا ہے کہ باقی افراد پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا۔ اس حوالے سے اسد عمر نے پاناما لیکس میں شامل پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کیں ہیں جن کے مطابق پاناما لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں جن میں سے دو سو چورانوے افراد کو نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔ جب کہ ایک سو پچاس افراد کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔پاناما لیکس میں شامل 12 افراد وفات پا چکے جب کہ چار پاکستانی شہریت چھوڑ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان چار سے زائد افراد جن کا نام پاناما لیکس میں آیا ان میں شریف خاندان میں بھی شامل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان پاناما کمپنیوں میں پاکستان سے 2500 ارب روپے لگائے گئے ہیں۔
ملک کو اس وقت پائی پائی کی ضرورت ہے جب کہ یہ 400 افراد ملک میں آسانی سے گھوم پھر رہے ہیں۔ کیس عدالتوں میں ہیں جب کہ رقم واپس لینے میں کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ لہٰذا پاناما لیکس کے ذمے داران خواہ وہ حکومت میں ہی کیوں نہ ہوں اُن کی پکڑ ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اگر موجودہ حکومت احتساب کرنے میں ناکام ہوگئی تو پھر یہ لوگ بھی اپنی جگہ تلاش کرنے کے لیے کام کریں۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں ناکام ہونا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ لوٹ مار کی کہانیاں سن سن کر قوم کے کان پک گئے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے احتساب کے نام پر قوم سے فراڈ کیا ہے۔ اب قوم تشویش میں مبتلا ہے کہ کہیں اس بار بھی احتساب کی آرزو فریب ہی ثابت نہ ہو۔ فریب آرزو؟؟ پروفیسر مرزا محمد منور کے بقول
آرزو سے ہے گرمی خاطر
آرزو ہے چراغ سینے کا
آرزو خام ہی سہی اے دوست
آرزو آسرا ہے جینے کا
بہرکیف احتساب شفاف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے تا کہ کسی سے زیادتی نہ ہو یہ تاثر ہر گز نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ کچھ لوگوں کو اس لیے پکڑا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے مخالف ہیں اور کچھ سے اس لیے چشم پوشی کی جا رہی ہے کہ وہ اس کے اپنے ہیں۔ احتساب کے عمل میں پسند و ناپسند کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، یہی نئے پاکستان کا تقاضا ہے۔