روحانی ’’ معالجہ ‘‘ کی تلاش

اب وہ بات بھی ہم مان چکے ہیں جو لوگ اکثر کرتے تھے کہ اور ہم نہیں مانتے تھے۔

barq@email.com

آپ تو جانتے ہیں کہ ہماری طبعیت بالکل امیرؔ مینائی کی سی ہے یہ تو پتہ نہیں کہ کس کی طبیعت کس پر گئی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ

برچھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر ؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

ہو سکتا ہے کچھ اور لوگ بھی ہمارے جیسے ہوں بلکہ یقینا ہیں اور ہمیں اپنے ہاں کے اینکروں تجزیہ نگاروں اور کالم نویس دانشوروں پر بھی شبہ ہے کہ شاید وہ بھی ہمارے اور امیرؔ مینائی کے ہم مرض ہوں کہ ہمیں اکثر ''ٹرمپ'' کی بھی فکر رہتی ہے کہ خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔

لیکن ہم چونکہ ذرا چھوٹے درجے کے ''فکری'' بھی ذرا نچلی سطح کے ہیں۔ مثلاً ہم ان دنوں ''میرا'' کے بارے میں بڑے فکر مند ہیں کہ سنا ہے بچاری کو ''کام'' نہیں مل رہا ہے۔ پڑوسی ملک کے ان خداماروں کی بھی فکر ہے کہ انھوں نے فلمسٹاروں کو جو اربوں روپے دیے ہیں۔ وہ رائیگاں جا رہے ہیں اور ان فلمسٹاروں کو ان کی ذرا بھر بھی چنتا نہیں ہے پریانکا چوپڑا الینا ڈی کروز، ایسا گپتا اورکئی دوسریوں نے ہندیوں کو ٹھوکر مارکر غیر ملکی سفید فاموں سے شایاں رچا لی ہیں کیونکہ ہند میں آج کل اپنی نسل کو ''سفید'' بنانے کا بڑا سخت فیور ہے۔ وہ جہاں سے بھی ہو جیسے بھی ہو اپنے آنے والی نسلوں کو ''کلوٹوں'' کے زمرے سے نکال کر گورے بنانے میں بری طرح لگے ہوئے کریموں پاؤڈروں اور صابنوں سے تو کوشش جاری ہے لیکن بات بن نہیں پا رہی ہے اس لیے صرف یہی راستہ بچا ہے کلوٹوں کو گورا بنانے کا۔

ہم بھی کس طرف چل پڑے ۔ بات ہر ''برچھی'' کو اپنے جگر میں محسوس کرنے کی ہو رہی تھی۔ اور اس سلسلے میں تازہ ترین گھاؤ جو ہمارے جگر کو لگا ہے وہ براڈپٹ سے متعلق اس خبر سے لگا ہے کہ اس نے انجیلینا جولی کے صدمے سے جانبر ہونے کے لیے اپنی روحانی معالجہ کے پاس پناہ لے لی ہے۔ خبر یہ ہے کہ براڈپٹ انجلینا جولی سے علیحدگی اور اپنی روحانی ''معالج'' کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے آگے تفصیلات اور بھی ہیں لیکن ہمیں تو ''روحانی معالج'' کو داد دینا ہے، روحانی معالج ہو تو ایسا ہو۔ مونچھیں ہوں تو نٹورلال جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں۔ اسے کہتے ہیں صحیح روحانی معالج یا معالجہ کہ اپنے مریض کے گھاؤ کا علاج اس دل دہی سے کر رہے ہیں کہ اس کے سارے گھاؤ اپنے جگر میں منتقل کر رہے ہیں۔

بخدا جب سے ہم نے یہ خبر سنی ہے۔ اپنی محرومی قسمت پر رونا آ رہا ہے کاش بلکہ قاش قاش کہ ہمیں بھی کوئی روحانی معالجہ ملی ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔ وہ کوئی کوئی خوش نصیب ہوتا ہے جسے ایسی روحانی معالجہ مل جاتی ہے اور اس کی ''نیا'' پار لگا دیتی ہے اور زخم زخم دل پر اپنی شفقت کے ''پھاہے'' رکھ دیتی ہے۔ کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے ہم نے چاہا تھا مگر کوئی ''معالج'' نہ ملا۔

در اصل یہ بھی قسمت قسمت کی بات ہے جو خوش نصیب ان کو روحانی معالج یا معالجات مل جاتی ہیں اور جو ہم جیسے محروم زماں اور مظلوم جہان ہوتے ہیں وہ یونہی یہاں وہاں ٹامک ٹوٹیاں مارتے ماتھے گھساتے تمام ہو جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر جیسے بادشاہ نے بھی یہی رونا رویا ہے کہ

خاکساری کے لیے اگر چہ بنایا ہے مجھے


کاش سنگ در جانانہ بنایا ہوتا

کوئی اتنی بڑی خواہش بھی نہیں تھی نہ شاہی مانگی تھی نہ نوکر شاہی یا افسر شاہی۔ بس ایک روحانی ''معالجہ '' مانگی تھی۔

'' روحانی معالجہ'' کو ہمارے ہاں عوامی زبان میں کچھ اور کہا جاتا ہے لیکن ہم وہ عامیانہ نام اس خصوصیانہ منصب کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہتے اور اب توبالکل بھی نہیں کر سکتے کہ کچھ امید ابھی باقی ہے شاید ہمیں بھی کوئی ڈھنگ کی روحانی معالجہ مل جائے۔

لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ امریکا پورپ اور پڑوسی ملک میں تو روحانی معالجائیں عام مل جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں معالج تو بہت ہیں معالجائیں کم ہیں کہیںکہیں خال خالی ہوتی ہیں اور وہ صرف قسمت والوں ہی کو ملتی ہیں یا ''بھاری شکرانہ'' کی استطاعت رکھنے والوں کو۔

کچھ عرصہ پہلے اپنے صوبے کی ایک بڑی شخصیت کے بارے میں سنا تھا کہ وہ ایک روحانی معالجہ سے چارہ گری حاصل کرتے ہیں بعوض پچاس ہزار سکۂ رائج الوقت بلکہ سکہ ٔ سرکار کیونکہ وہ اپنے سرکاری فنڈ سے یہ شکرانہ ادا کرتے تھے۔ بلکہ اس معالجہ کی اور بھی بہت ساری فرمائش پوری کرتے تھے جو کسی کو ٹھیکہ کسی کو ملازمت وغیرہ دینے کی صورت میں کرتی تھیں۔

ہمارے بس میں اتنا بھاری شکرانہ ہوتا ہے۔ توروحانی مریض ہی کیوں ہوتے گویا یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ کو ئی روحانی معالجہ مہرباں ہوتی۔

اصل میں یہ سارا قصور ہمارا اپنا ہی ہے کیونکہ ہم عقائد اور عقیدت کے معاملے میں کچھ منکر ٹائپ کے تھے۔ اس لیے پہلے خیال نہیں کیا۔ اور اب جب کہ ہم براڈپٹ اور دیگر کچھ واقعات کی وجہ سے روحانی معالجات کے قائل ہو چکے ہیں ''کوئی معالجہ'' نہیں مل رہی ہے یا ہم اس تک پہنچنے کے قابل نہیں ہیں۔

افسوس صد افسوس جب منہ میں دانت تھے تو ''چنے'' پسند نہیں تھے اور اب جب ہم ''چنوں'' کے شیدائی ہو چکے ہیں کوئی چنا دستیاب نہیں ہے۔

اب وہ بات بھی ہم مان چکے ہیں جو لوگ اکثر کرتے تھے کہ اور ہم نہیں مانتے تھے۔ کہ ہر کامیاب تندرست کے پیچھے کوئی نہ کوئی ''معالجہ'' ضرور ہوتی ہے بہر حال ہماری یہ آرزو ہے کہ خدا کوئی مناسب معالجہ عطا فرمائے اور ہمارے قارئین میں سے کسی کو ایسی حاذق روحانی معالجہ کا پتہ ہو تو ہمیں خبردار کر دیں کہ ہم بھی اپنے پا ش پاش، دریدہ دل اور چھید چھید دامن کو رفو کرنے کی سعادت حاصل کریں۔
Load Next Story