دو روز وادیٔ مہران میں
محفل موسیقی کا آغاز کیا ہوا گویا سفر کی تمام تھکان غائب ہوچکی تھی۔
ISLAMABAD:
ایک جانب اگر شاہ عنایت سندھ کے غیور و صدیوں سے جبر واستحصال کا شکار باسیوں کو یہ درس دے رہے تھے کہ زمین خدا کی ہے اور خدا کی زمین پر خدا کے تمام بندوں کا مساوی حق ہے، چنانچہ شاہ عنایت فرماتے ہیں جیکا کھیڑے سوکھائے (جو کھیت میں محنت کرے وہی کھائے) البتہ شاہ عنایت اسی باعث اس وقت کی حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے مگر ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی اگرچہ شاہ عنایت کو ابدی نیند سلانے سے قبل ان کے بھائی و بھتیجے کو ان کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
بعدازاں شاہ عنایت کو بھی شہید کردیا گیا اور وہ جھوک شریف میں استراحت فرما رہے ہیں یہ تذکرہ ہے کوئی تین سو برس قبل کا۔ البتہ یہ وہی زمانہ تھا جب سندھ دھرتی کے باسیوں کو ایک اور مرد قلندر انھیں انسان ہونے کا احساس دلا رہا تھا، وہ مرد قلندر تھا شاہ عبداللطیف بھٹائی جنھوں نے اپنی انسان دوست شاعری کے ذریعے سندھ دھرتی کے باسیوں کو یہ شعور دے رہے تھے کہ کیا مرد ؟ کیا زن ؟ سب انسان برابر ہیں اور تمام مرد و زن مساوی حقوق رکھتے ہیں گویا جو انسانی حقوق کے حوالے سے عصر حاضر میں باتیں ہوتی ہیں وہ آج سے 275 برس قبل قومی شاہراہ سے فقط تین کلو میٹر کی مسافت پر بھٹ شاہ میں ابدی نیند سونے والے شاہ سائیں نے طنبورہ و شاعری کو ذریعہ بناکر سماج کے کچلے ہوئے طبقات کو شعور اجاگر کرنے کے لیے کی تھیں۔ نومبر کی ایک سہ پہر ہمارا 12 رکنی وفد انھی شاہ سائیں کے درِ دولت پر حاضری دے رہے تھے۔ آخر کچھ تو تھا کہ جو ہزاروں لوگ قطار در قطار شاہ سائیں کے درِ دولت پر پروانہ وار امڈے چلے آرہے تھے اور اپنے تمام درد و الم شاہ سائیں کے گوشگزار کرکے اپنے سماجی مسائل کے خدا سے حل کے طالب تھے ۔
ہماری اگلی منزل تھی لاڑکانہ، وہی لاڑکانہ جس سے تعلق رکھنے والے بھٹو خاندان کے تذکرے کے بنا پاکستانی سیاست کا تذکرہ نامکمل ہے ،چنانچہ شب آٹھ بجے ہمارا وفد لاڑکانہ گیسٹ ہاؤس میں موجود جہاں قلیل ترین وقت میں تازہ دم ہوکر نوڈیرو روانہ ہوگئے۔ نوڈیرو شہر لاڑکانہ سے 19 کلومیٹر کی مسافت پر ہے نوڈیرو آرٹس کونسل میں سندھی زبان کے نامور شاعر و سماجی شخصیت منٹھار سولنگی مرحوم کی یاد میں ایک محفل موسیقی کا اہتمام تھا۔ محفل موسیقی سے قبل پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی تھا جس میں سندھ کے روایتی کھانوں سے ہمارے وفد کے ساتھ دیگر مہمانان گرامی کی تواضح کی گئی البتہ یہ حقیقت ہے کہ مہمان نوازی میں سندھ باسیوں سے کوئی مسابقت نہیں رکھتا۔
محفل موسیقی کا آغاز کیا ہوا گویا سفر کی تمام تھکان غائب ہوچکی تھی دو گھنٹے تک جاری رہنے والی محفل موسیقی میں تین مقامی گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ بڑی خوبصورتی سے کیا۔ ہمارے خیال میں سندھ کے لوک فنکاروں کی اگر مناسب سرپرستی کی جائے تو یہ غریب فنکار دنیا بھر میں شاہ سائیں کا محبت بھرا انسان دوست پیغام باآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ امید ہے سندھ حکومت ضرور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ 4 نومبر 2018 کو لاڑکانہ آرٹس کونسل میں انجمن ترقی پسند مصنفین صوبہ سندھ کا کنونشن دوپہر 11 بجے طے تھا جوکہ اپنے مقرر کردہ وقت پر شروع ہوگیا البتہ مہمانوں کی تعداد اس قدر تھی کہ ہال میں نشستیں کم پڑ گئیں۔
اسی باعث کثیر تعداد میں شرکا نے کھڑے ہوکر شرکت کی۔ درمیانی وقفے میں ظہرانے کا اہتمام تھا بعدازاں انجمن ترقی پسند مصنفین کے تنظیمی امور نمٹاتے ہوئے عہدے داروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا چنانچہ ریاض شاہد ڈایو کو دوسری مدت کے لیے صوبہ سندھ کا صدر ، خادم منگی کو سیکریٹری جنرل سندھ منتخب کیا گیا یہ انتخاب بلا مقابلہ عمل میں آیا جب کہ دیگر عہدیداروں کا انتخاب بھی عمل میں لایا گیا شام ڈھلے سے ذرا قبل یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ جب کہ اسی شب ایک اور محفل مشاعرہ میں شرکت لازمی کرنا تھی اور یہ محفل مشاعرہ منعقدہ ہونا قرار پائی تھی لاڑکانہ کی نامور سیاسی و سماجی شخصیت روشن کلہوڑو کے درِ دولت پر۔ شب 9 بجے محفل مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے دعوت کلام پر مظفر سائل عباسی کو جوکہ سامعین سے یوں ہمکلام ہوئے کہ:
اپنی دھن میں گم ہوں
نجانے کس کا غم ہوں
اویس قرنی:
اپنی تعبیر کے سفر میں رہا
عمر بھر خواب کے سفر میں رہا
شفقت اصلی:
اپنی درکار وضاحت ہے مجھے
اپنے آپ سے بغاوت ہے مجھے
جام جمالی سندھو:
کہیں جو حق کی بات ہوگی
میری شاعری قلب کی دلیل ہوگی
دیگر شعرائے کرام جنھوں نے اپنا کلام پیش کیا قیوم کمالی، خادم منگی، خوش دل چنا، ڈاکٹر صادق جونیجو، کاشف منٹھار، زیبا علوی، صبوحہ خان، طاہرہ سلیم، ہما بیگ جب کہ اس موقعے پر راحت سعید نے اپنے ساتھ آنے والے کراچی کے مہمانوں کا تعارف بڑے خوبصورت انداز میں کرایا جب کہ محفل مشاعرہ کے اختتام پر تمام مہمانوں کی تواضع انواع اقسام کے طعام سے کی گئی جب کہ اگلے روز روشن کلہوڑو کی جانب سے کراچی سے تشریف لانے والے مہمانوں کو سندھ کی روایتی اجرک پیش کی گئی۔
لاڑکانہ سے روانہ ہوئے تو ہماری اگلی منزل تھی 27 کلومیٹر کی مسافت پر موئن جو دڑو ، جوکہ آج سے کوئی پانچ ہزار برس ایک خوبصورت و جدید ترین سہولیات سے آراستہ شہر تھا جہاں درس گاہ کے ساتھ ساتھ نکاسی آب و آبی کنوئیں کثرت سے دریافت ہوئے ہیں ،البتہ تمام تر ضروریات کی اشیا دریافت ہونے کے ثبوت ہیں مگر کسی بھی نوع کے ہتھیار موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ سے دریافت نہیں ہوئے جب کہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ سندھ دھرتی کے باسی ہزاروں سال قبل بھی امن و آشتی کے دلدادہ تھے یوں بھی سندھ کی تاریخ یہ ہے کہ سندھ دھرتی کے باسی صوفیانہ مزاج کے حامل ہیں جنھوں نے کبھی کسی دوسرے ملک و ریاست پر حملہ نہیں کیا وادی مہران کی یہی تاریخ ہے ۔
جب ہم کراچی کے لیے عازم سفر ہوئے تو راستے میں سیہون شریف تھا جہاں پر مرد درویش علی عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری کا شرف حاصل ہوا البتہ ایک بات کا تذکرہ لازمی ہے کہ سندھ دھرتی کے باسی آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں افلاس جہالت بے روزگاری وڈیرہ شاہی جبر جیسے مسائل سے سندھ کے باسی دوچار ہیں۔ ہماری حکومت وقت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس دھرتی کے باسیوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور ان کی دورِ جدید کی ضروریات جوکہ عصر حاضر کا تقاضا ہے پوری کی جائیں اگر ایسا ہوا تو سندھ دھرتی مثالی دھرتی ہوگی جوکہ دنیا و آخرت دونوں جہاں میں باعث عزت و افتخار ہوگا۔