گارمنٹس جوتوں پر سیلزٹیکس عائدکرکے عام آدمی سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی ہے
وفاقی بجٹ سے قبل عام افراد اور تاجر برادری کو بہت سی امیدیں تھیں کہ نومنتخب حکومت ان کی مشکلات اور۔۔۔
وفاقی بجٹ سے قبل عام افراد اور تاجر برادری کو بہت سی امیدیں تھیں کہ نومنتخب حکومت ان کی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے بجٹ میں ایسے اقدامات کرے گی جن سے عام آدمی کو بھی ریلیف ملے گا اور کاروباری طبقہ بھی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے بوجھ سے نکل کر ملکی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
لیکن بجٹ کے آتے ہی عام آدمی کے ساتھ ساری تاجر برادری ذہنی صدمے کی کیفیت میں ہے کیونکہ عوام نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تقریباً دوگنا اضافے کا خدشہ ہے۔ خاص طور پر سیلز ٹیکس میں اضافے نے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔ بجٹ اقدامات میں حکومت نے جوتوں، کمبل کھلونوں اورپرانے کپڑوں کو بھی نہیں چھوڑا جو سفید پوش طبقے کیلیے بہت بڑی سہولت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسی حوالے سے تاجربرادری کے خیالات جاننے کیلیے کراچی میں ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے فورم میں جن خیالات اور تحفظات کا اظہار کیا اور جو تجاویز دیں، وہ نذر قارئین ہیں۔
شمیم فرپو
سینئر نائب صدر، کراچی چیمبر آف کامرس
کراچی چیمبر آف کامرس نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا سب سے بڑا ایوان تجارت ہے اورجوہر سال حکومت کو بجٹ سے قبل اپنی تجاویز دیتا ہے اور پھر حکومت کراچی چیمبر کے اکابرین کے ساتھ قبل ازبجٹ تجویز کردہ اقدامات سے متعلق صلاح مشورہ کرتی رہی ہے، یہ کراچی چیمبر کو فخر حاصل ہے کہ ہماری تقریباً80 فیصد تجاویز بجٹ میں شامل کی جاتی تھیں ۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ موجودہ حکومت کو تاجروں اور کاروباری طبقے کا زیادہ احساس ہوگا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بار شاید حکومت کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ حکومت نے سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے عام آدمی کے لیے مہنگائی کا سامان مہیا کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعدازبجٹ ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے اور مزید مہنگی ہوتی چلی جائیں گی جبکہ بجٹ میں درآمدہ گارمینٹس، جوتوں، کمبل کی اسمگلنگ کو بھی وسیع پیمانے پرفروغ حاصل ہوگا، وہ لوگ جو قانونی طور پر مختلف اشیا درآمد کیا کرتے تھے اب وہ بجٹ اقدامات کے بعد اسمگلنگ ریجیم میں داخل ہوجائیں گے یا پھرافغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب منتقل ہوجائیں گے۔
ابھی کچھ دن قبل ہی یہ خبریں آئی ہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ملک میں درآمد ہونے والے سیکڑوں کنٹینرز افغانستان پہنچے ہی نہیں بلکہ کراچی میں ہی کھل گئے ہیں۔ نئے وفاقی بجٹ میں گارمنٹس، جوتوں اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے سے حکومت کے ریونیو میں تواضافہ نہیں ہوگا لیکن ان اشیا کی قانونی درآمدات کا حجم انتہائی کم ہوجائے گا جبکہ اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا، کراچی چیمبر نے اپنے پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ سیمینار میںبجٹ سے متعلق ساری صورتحال کا جائزہ لیکر تجاویزمرتب کی ہیں جس میں لاتعداد بجٹ اناملیز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہم حکومت سے بار بار کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کو ضرور بڑھائیں لیکن ٹیکس ریٹ میں اضافہ نہ کیاجائے۔
بجٹ کا اعلان ہونے کے بعد کراچی چیمبر کے اکابرین پر مشتمل ایک ٹیم جس کی قیادت کراچی چیمبر کے صدرہارون اگرنے کی جبکہ دیگر اراکین میں زبیر موتی والا، ہارون فاروقی، جاوید بلوانی ، طاہر خالق اور ابراہیم قاسم شامل تھے نے اسلام آباد میں وفاقی میںوزیر خزانہ اسحق ڈار اور دیگر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کیں اورنئے بجٹ سے متعلق تاجربرادری کو لاحق تشویش سے آگاہ کیا۔ دوران ملاقات وفاقی وزیرخزانہ نے اناملیز دور کرنے کا وعدہ کرلیا ہے جس کے بعد ہم اس بات جائزہ لے رہے ہیں کہ وفاقی وزیرخزانہ کوہماری باتیں کتنی سمجھ میں آئیں اور وہ آنے والے وقت میں اس پر کیا ایکشن لیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ وہ ایسے فیصلے کریں گے جس سے کاروباری برادری اور عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کافی عرصے قبل ہی7 لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی کرچکی ہے جوانتہائی امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا طرز زندگی انتہائی شاہانہ ہے مگر نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر ایسے لوگوں سے ٹیکس وصولی نہیں کی جارہی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
اس کے علاوہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی لیکن ہماری حکومت اس پر عمل کرنے سے بھی جھجک رہی ہے۔ان پیسوں سے ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے پروجیکٹس شروع کیے جاسکتے ہیں، قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ حکومتیں ٹیکس پر چلتی ہیں لیکن جو ٹیکس دے رہا ہے، اس کے گرد ہی ٹیکس کا شکنجہ کسنا کہاں کا انصاف ہے؟۔
ہماری حکومت سے پرُزور اپیل ہے کہ کاروباری طبقے اور عوام کے خلاف اٹھائے گئے ناجائز اقدامات کو واپس لیا جائے۔اس بجٹ نے حکومت پر سے عوام کا اعتماد مجروح کیا ہے، حکمرانوں کو مثبت اور جامع پالیسیاں بنانا ہوں گی ورنہ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔حکمراں اس طرح ہی چلنا چاہ رہے ہیں جیسے بیوروکریٹس انھیں چلانا چاہتے ہیں، اب تو ملک کا یہ انداز بن گیا ہے کہ احتجاج کے بعد ہی فیصلے واپس لیے جاتے ہیں۔ بجٹ ایک گھر سے لیکر ایک ملک کیلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن موجودہ بجٹ میں حکمرانوں نے ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا۔
بہت سارے شعبے ایسے ہیں جن میں ہم مختلف ملکوںکا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن بیرون ملک سے آرڈر دینے والے اس وقت ہمیں بزنس دینے سے رک جاتے ہیں جب وہ امن و امان کی ناقص صورتحال، توانائی کے بحران اور ہڑتالوں کی خبریں سنتے ہیں، انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں آرڈر دیے تو شاید وہ بروقت مکمل نہ ہوسکیں۔
ہمیں اپنے انفرااسٹرکچر کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا، سائٹ ایریا سب سے زیادہ بزنس دینے والا علاقہ ہے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ وارداتیں بھی اسی علاقے میں ہوتی ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ سائٹ کی خراب سڑکیں ہیں۔ کراچی پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ، ہمیں یہ لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ شہر میں میٹرو بس چلے گی، سرکلر ریلوے کا نظام ہوگا لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمیں میٹرو نہیں بلکہ امن چاہیے۔ جو کام زیادہ ضروری ہے، اسے پہلے کیا جائے۔ میٹرو بس اور سرکلر ریلوے بھی اپنے وقت پر آجائیں گی۔
ارشد جمال
چیئرمین پاکستان اکانومی فورم، سینئر وائس چیئرمین آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن
بہت توقعات تھیں کہ بجٹ سے کاروباری طبقے کو فائدہ ہوگا، عام آدمی جو کافی عرصے سے پس رہا ہے، اسے بھی ریلیف ملے گا۔ لوگوں کو بہت امیدیں تھیں لیکن بجٹ میں عام آدمی کے استعمال کی اشیا جن میں گارمینٹس، جوتے، کمبل اور پرانے کپڑے شامل ہیں ان پر غیرمنصفانہ بنیادوں پر سیلز عائد کرکے سب کچھ الٹ کردیا گیا ہے۔ بجٹ ایسا ہونا چاہیے تھا جس سے لوگوںکو سکون ملتا۔ ٹیکسٹائل سیکٹرکی مصنوعات شروع سے ہی اسمگلنگ کا شکار ہیں جبکہ بجٹ اقدامات نے صورتحال کواب مزید خراب کردیا ہے۔
میاں نوازشریف نے اپنی پہلی حکومت کے دوران ایئرپورٹ پر لات مارکر گرین چینل کا خاتمہ کیا تھا لیکن اب انھوں نے ہی دوبارہ اسی گرین چینل کو اپنے بجٹ اقدامات کے ذریعے بحال کردیا ہے، یہ تضاد کیوں ؟ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ حکومت کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا بجٹ پیش کررہی ہے، ابھی تو عام لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس بجٹ میں سے ان کے لیے اور کیا
کیا مسائل ومشکلات نکلیں گے۔
نئے وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس ایس آراو نمبر 1125 اورایس آراونمبر میں ترامیم کرکے سیلزٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہیں ان منفی عوامل کے سبب درآمد کنندگان (امپورٹرز) کی ایک بڑی تعداد نے چین، متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اوردیگر ملکوں میں گارمنٹس، کمبلز، جوتوں، سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ ودیگر مصنوعات کے تیار کنسائمنٹس روک دیے ہیں کیونکہ مذکورہ ایس آراوز میں ترامیم کے بعد بیشتر اشیا پر عائد ٹیکسوں کا حجم دوگنا ہوگیا ہے، حکومت نے دونوں ایس آراوز کو چیک نہیں کیا ، لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسمگلنگ کی طرف مائل ہوں۔ جی ایس ٹی کے حوالے سے حکومت کو سوچنا چاہیے تھا کہ اس کا عام آدمی پر کیا اثر ہوگا۔
مجموعی طور پر تقریباً 905 آئٹمز مزکورہ ایس آراوزمیں کی گئی ترامیم کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جن کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائیں گی۔ وفاقی بجٹ میں تجویز کیے گئے سیلزٹیکس کی شرح بڑھانے سے تیار شدہ وہ درآمدہ آئٹمزجنھیں ہرعام آدمی استعمال کرتا ہے کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوجائے گا۔ اس اقدام نے ایک طرف تو عام آدمی کی کمر توڑدی ہے وہیں ایف بی آر اور اس کے ماتحت دیگر محکموں کے چند افسران اور ٹیکس چوروں کے سینڈیکیٹ کو مضبوط کرتے ہوئے انھیں قومی خزانہ مزیدلوٹنے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد کراچی کی بندرگاہوں پر کھڑے کلیرنس کے منتظرہر کنٹینر سے ڈیٹینشن اور ڈیمرجز کی مد میں یومیہ60 ڈالرفی کنٹینٹروصول کیا جارہا ہے۔ اس وقت گارمنٹس اور شوز کے مجموعی طور پر300 کنٹینر پر بندرگاہ پرکلیرنس کے منتظر ہیں جبکہ کمبل، سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ کے سینکڑوں کنٹینرز اس کے علاوہ ہیں۔
وفاقی بجٹ میں سیلزٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کا حقیقی مطلب2.5 فیصدکا اضافہ ہے کیونکہ یہ ایک ویلیو ایڈڈ ٹیکس ہے۔ ایس آراو نمبر1125 میں ترامیم سے قبل کمبل65روپے اور کپڑے88 روپے فی کلو گرام کے حساب سے کلیئر کیے جاتے تھے لیکن اب نئے بجٹ اقدامات کے نتیجے میںکمبل کی کلیئرنس130 روپے جبکہ کپڑوں کی کلیئرنس184 روپے فی کلوگرام کردی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ پروڈکٹس کی درآمدی لاگت میں تقریباً 45 فیصد کا اضاف ہوگیاہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے ریڈی میڈ گارمنٹس، لیڈیز لیس، پرس ، پرانے آئٹمز اور دیگر اشیاء کی قیمیتں دگنی کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 10 سال سے انفرااسٹرکچرل مسائل پانی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی امن وامان کی بدترین صورتحال جیسے عوامل کے سبب مقامی گارمنٹس انڈسٹری نہ تو اپنی پوری استعداد پر چل سکتی ہے اور نہ ہی مقامی انڈسٹری کم لاگت پر پروڈکٹس تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہی وہ وجوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے بیرونی ممالک سے سستی لاگت وقیمت پرریڈی میڈ گارمنٹس امپورٹ کیے جاتے ہیں جنھیں عام آدمی آسانی سے خریدلیتا ہے مگر بجٹ نے یہ سب آئٹمز بھی عوام کی دسترس سے باہر کردیے ہیں۔گارمنٹس پر پہلے 32 فیصد ٹیکس تھا جو بڑھ کر 59 فیصد ہوگیا ہے، مطلب یہ کہ جو کپڑا پہلے 100 روپے میں ملتا تھا وہ اب 200 کا ملے گا۔
اسی طرح کمبل عام آدمی کے استعمال کا آئٹم ہے لیکن ہمارے ملک میں کمبل بنانے کی انڈسٹری نہیں ہے صرف ایک مقامی انڈسٹری بے بی بلینکٹ ہی بناتی ہے، اب بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والے کمبل کی قیمت بھی1000 روپے کے بجائے 1500 روپے میں ملیں گے۔
بجٹ میں تجویز کردہ حکومتی اقدامات کے بعد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلیے بکنگ کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ حکومت کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایف بی آر کی ایما پرہرسال نہ پورے ہونے والے بجٹ اہداف کو آئندہ مدت کے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں وصولیوں اور برآمدکنندگان کے سیلزٹیکس ریفنڈز اور کسٹم ریبیٹ کی ادائیگیاں روک کربجٹ اہداف بلحاظ اعدادوشمار پورے کرتی رہی ہے، کسی بھی قسم کا ٹیکس لگانے سے قبل حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس دہندگان کو اعتماد میں لے۔
ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ 50 ہزار روپے سے زائد مالیت کے چیک پر عائد ڈیوٹی بھی ختم کی جائے کیونکہ ہم کسٹم ایجنٹس ماہانہ 3 ارب روپے کی اسپیڈ منی دیتے ہیں۔ ہر جگہ مافیا ہے، ایک مافیا نے محکمہ کسٹمزکے ویلیوایشن ڈپارٹمنٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ حکمراں کہتے ہیں کہ ایس آر او کلچر ختم کیا جائے گا تو پھرایس آراوز میں ترامیم کیوں کی گئیں؟ میری رائے میں نوازشریف حکومت ایس آراو کلچر کو ختم نہیں کرسکتی۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ایس ٹی ایس آراوز میں کی گئی ترامیم واپس لی جائیں، جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کرکے فکس ٹیکس لگایا جائے۔ تمام سیلز ٹیکس ریفنڈز اور ایڈجسٹمنٹ ختم کی جائیں اور ایف بی آر کو ہدایت کی جائے کہ وہ تمام متاثرہ شپمنٹس کو پرانے قانون کے مطابق فوری طور پر کلیئر کرے تاکہ درآمد کنندگان اضافی ڈیمرج اور کنٹینر رینٹ سے بچ سکیں۔
محمد ساجد
صدر گارمینٹس اینڈشوز امپورٹرز ایسوسی ایشن
حکومت نے نئے وفاقی بجٹ کے ذریعے گارمینٹس اور جوتوں کی درآمدات پرٹیکس شرح میں تقریباً 100 اضافہ کردیا ہے، ہم بچوں کے ملبوسات اور دیگر آئٹمزدرآمد کرکے بیچتے ہیں، ان اشیاء پر سیلز ٹیکس سے کاروبار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ وفاقی بجٹ میں گارمنٹس اور جوتوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی شرح4 فیصد سے بڑھاکر17 فیصد کردیا گیا ہے،
یہ بجٹ ہمارے شعبے کیلیے انتہائی ظالمانہ ہے جو لاکھوں چھوٹے تاجروں کے معاشی قتل کا باعث بنے گا ، پاکستان میں گارمنٹس اور جوتوں کے مجموعی طور پرسالانہ3 ہزار کنٹینرز کی درآمدات ہوتی ہیں جس کے ذریعے حکومت کو ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی کسٹم ڈیوٹی وٹیکسز حاصل ہوتے ہیں لیکن اب وفاقی بجٹ کے تحت جس طرح اس شعبے پرسیلزٹیکس شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے ان نئے اقدامات پر عمل درآمد کی صورت میں گارمینٹس اور جوتوں کی قانونی درآمدات صرف 30 فیصد تک محدود ہوجائے گی۔
کیونکہ اس شعبے سے وابستہ کاروباری اپنی70 فیصد ضروریات کو اسمگلنگ کے ذریعے منگوانا شروع کردیں گے۔ وفاقی بجٹ کے اقدامات کے بعد اسمگلروں نے کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں کے بیوپاریوں کو سوست بارڈر سے انتہائی کم لاگت واخراجات پر گارمینٹس، جوتے کمبل ودیگر آئٹمز لانے کی پیشکشیں دینا شروع کردی ہیں، اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر راستے بھی ہیں۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ٹیرف کم کیا جائے کیونکہ اسی طرح حکومت کومطلوبہ ریونیو کی وصولیوں میں بھی کامیابی ہوگی اور اس اقدام کے ذریعے اسمگلنگ کو بھی روکا جاسکے گا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 200 ارب روپے کی ریونیو کی چوری اسمگلنگ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ کپڑے کے ہر کنٹینر پر5 تا 7 لاکھ روپے ڈیوٹی ہوتی تھی جو اب نئے اقدامات کے باعث بڑھ کر فی کنٹینر 10 سے 12 لاکھ ہوجائے گی۔اسی طرح جوتے کے ایک کنٹینر پر 3تا 4 لاکھ روپے ڈیوٹی دی جاتی تھی جو اب 7لاکھ تک تجاوز کرجائے گی۔سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کاروباری طبقہ پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار تھا ، موجودہ حکومت نے 17 فیصد جی ایس ٹی اور3فیصد ایڈیشنل جنرل سیلز ٹیکس کے ذریعے کاروباری طبقے پر خودکش حملہ کیا ہے۔
حکومتی اقدامات سے اسمگلنگ کا طوفان آجائے گا اور حکومت کو ٹیکس وصولیوں کی مد میں بھی بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ ایس آر او 1125 کو اس کی سابقہ شکل میں بحال کرے تاکہ ملک کے لاکھوں افرادکی معاشی پریشانیوں کا ازالہ کسی حد تک کیا جاسکے۔رمضان المبارک کی آمد ہے اور رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کیلیے خریداری کرتے ہیں ، کاروباری طبقہ بھی اسی حوالے سیاپنے آرڈرز بک کراتا ہے لیکن ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے سے سب کی خوشیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
وفاقی بجٹ کے ان خودکش اقدامات کی بدولت ایف بی آر کو صرف گارمینٹس جوتوں، کمبل اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ سیکٹر کے درآمدی شعبے سے ریونیو کی وصولیوں کا حجم 1.54 ارب روپے سے گھٹ کر75 کروڑ روپے تک محدود ہوجائے گا لہٰذا پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق سے آگاہی کے بعد اپنے بجٹ اقدامات پر نظرثانی کریں۔
شہزادمبین
برانڈڈ شوز امپورٹر و ریٹیلرز، چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی کراچی چیمبر آف کامرس
ہمارا سب سے اہم مطالبہ تو یہ ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈکو روکا جائے، اس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ نومنتخب حکومت نے آتے ہی ایسا بجٹ دیا ہے کہ ہر کوئی پریشان ہے۔ گارمنٹس، جوتوں کمبل ودیگر اشیائے ضروریہ پرسیلزٹیکس کی شرح بڑھانے سے تاجر برادری کوشدید تحفظات ہیں، اگر موجودہ فیصلے واپس نہ لیے گئے تو ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوجائے گی۔
مثال کے طور پر ہم جو پروڈکٹ ایک ہزار روپے کی بیچ رہے ہیں وہ 2 ہزار کی ہوجائے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت گارمینٹس، جوتوں کمبل اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلز ٹیکس کی پرانی شرح کو بحال کرنے کے احکامات جاری کرے تاکہ ملک میں قانونی تجارت ودرآمدات کو فروغ مل سکے اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
صغیر قریشی
نائب صدر کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن
اسمگلنگ کو فروغ دینے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے۔آج بھی پرانے کپڑے خریدنے والے لنڈا بازاروں میں جاتے ہیں لیکن بہت سوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تو موچی اور گدھا گاڑی چلانے والا بھی ٹیکس دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں گارمنٹس، جوتوں کمبل اور پرانے کپڑوں پر سیلزٹیکس کی شرح بڑھاکرعوام سے سر کی چادر، تن کے کپڑے اور پاؤں کے جوتے تک چھیننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
نئی حکومت نے آتے ہی جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کاروباری برادری کو بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔ سیلزٹیکس میں اضافے سے تمام اشیائے ضرورت عوام کی خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔ حکومت سے ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر ریٹیلر اور امپورٹر ہی ٹیکس وصولی کرکے حکومت کو دیں تو پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اتنے زیادہ عملے کی کیا ضرورت ہے؟ ان اقدامات کے بعد ایف بی آر کو بند کردیا جائے، نئے وفاقی بجٹ میں گارمینٹس جوتوں سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلزٹیکس کی شرح بڑھانے کے بعد حکومت یہ تصور ختم کردے کہ ملک میں ان اشیا کی قانونی درآمدات برقراررہیں گی اور محصولات کے حجم میں اضافہ ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان شعبوں سے ملنے والا موجودہ ریونیو کا حجم بھی گھٹ جائے گا جو میاں نوازشریف کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی، یہ وہ آئٹمز ہیں جنہیں ملک کے ہرطبقے کے شہری بالخصوص چھوٹے ودرمیانے درجے اور غریب طبقہ استعمال کرتا ہے۔
جلال محمود خان
سیکریٹری جنرل گارمنٹس اینڈ شوز امپورٹرز ایسوسی ایشن
پاکستان میں درآمد ہونے والے ٹیکسٹائل میڈاپ میں چین کا حصہ 90 فیصد ہے ،جس کے بعد3 فیصد حصہ تھائی لینڈ کا ہے اور باقی ماندہ 5 فیصد حصہ ملائیشیا،کوریا اور ویت نام کا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر سے ملک کو بڑی آمدنی ہوتی تھی مگر حکومتی سطح کے منفی اقدامات کا سلسلہ برقرار رہا تو صورتحال انتہائی پریشان کن ہوجائے گی بلکہ ہورہی ہے۔ پاکستان میں مستقل بنیادوں پر منظم اسمگلنگ کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سال کے 9 مہینے سوست بارڈر میں اسمگلروں کاآپریشن جاری رہتا ہے، پنجاب و خیبرپختونخوا میں موسم سرما کے تمام کپڑے اسی بارڈر سے آتے ہیں۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ نئی حکومت سابقہ حکمرانوں سے بہتر ہوگی اور زیادہ بہتر اقدامات کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ بجٹ کے بعد ہمارا یہ بھی تجزیہ ہے کہ میاں صاحب کو مس گائیڈ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں حکومت نے جو اقدامات تجویز کیے، ان سے بزنس کمیونٹی کے سر پر بڑی مصیبت آگئی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت کو کسی نے بجٹ اسکرپٹ فراہم کیا جو نئے وزیرخزانہ نے اسمبلی میں پڑھ دیا ہے اس طرح سے میاں نوازشریف مس گائیڈ ہوگئے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں 5زیروریٹڈ سیکٹر کو سیلزٹیکس ریجیم میں لائے جانے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس شعبے سے وابستہ برآمدی صنعتوں کا وجود خطرے میں پڑجائے گا، ہم کراچی چیمبر کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمارا ہر موقع پر ساتھ دیا۔
محمد اسلم بھٹی
چیئرمین طارق روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن
گذشتہ چند برسوں میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ جو شخص پہلے 4 یا 5 سوٹ خریدتا تھا، وہ آہستہ آہستہ 2 سوٹ پر آگیا اور اب بجٹ کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی شاید ایک سوٹ بھی نہ خرید پائے۔ لوگوں کی قوت خرید صفر ہوگئی ہے، عام آدمی ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے۔
ہماری شٹر پاور نے 8 سے 10 سال تک کراچی چیمبر کے ساتھ مل کر ایف بی آر کی کوششوں کو روکا لیکن حکومت نے بیوروکریسی، ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر من پسند فیصلہ کرلیا۔ اس بار حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔ حکمرانوں کو عوام اور تاجربرادری کا سوچنا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے؟۔ ایک فیصد سیلز ٹیکس کا مطلب ایک فیصد نہیں بلکہ وہ ڈھائی فیصد ہے۔
10 لاکھ دکانوں سے ٹی وی فیس کی مد میں 50 روپے فی دکان وصول کیے جارہے ہیں، یہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ جو بھی کنٹینر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلیے جاتے ہیں ان پر بھی اتنی ہی ڈیوٹی لگائی جائے جتنی پاکستان میں ان لوڈ ہونے والے کنٹینروں سے وصول کی جاتی ہے، پھر وہ ڈیوٹی بے شک افغان حکومت کو دے دی جائے کہ وہ اسے جیسا چاہے استعمال کرے۔ اس طرح بھی اسمگلنگ کی روک تھام ہوگی اور جب ٹیکس یکساں ہوگا تو صورتحال بھی تبدیل ہوجائے گی۔
لیکن بجٹ کے آتے ہی عام آدمی کے ساتھ ساری تاجر برادری ذہنی صدمے کی کیفیت میں ہے کیونکہ عوام نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تقریباً دوگنا اضافے کا خدشہ ہے۔ خاص طور پر سیلز ٹیکس میں اضافے نے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔ بجٹ اقدامات میں حکومت نے جوتوں، کمبل کھلونوں اورپرانے کپڑوں کو بھی نہیں چھوڑا جو سفید پوش طبقے کیلیے بہت بڑی سہولت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسی حوالے سے تاجربرادری کے خیالات جاننے کیلیے کراچی میں ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے فورم میں جن خیالات اور تحفظات کا اظہار کیا اور جو تجاویز دیں، وہ نذر قارئین ہیں۔
شمیم فرپو
سینئر نائب صدر، کراچی چیمبر آف کامرس
کراچی چیمبر آف کامرس نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا سب سے بڑا ایوان تجارت ہے اورجوہر سال حکومت کو بجٹ سے قبل اپنی تجاویز دیتا ہے اور پھر حکومت کراچی چیمبر کے اکابرین کے ساتھ قبل ازبجٹ تجویز کردہ اقدامات سے متعلق صلاح مشورہ کرتی رہی ہے، یہ کراچی چیمبر کو فخر حاصل ہے کہ ہماری تقریباً80 فیصد تجاویز بجٹ میں شامل کی جاتی تھیں ۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ موجودہ حکومت کو تاجروں اور کاروباری طبقے کا زیادہ احساس ہوگا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بار شاید حکومت کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ حکومت نے سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے عام آدمی کے لیے مہنگائی کا سامان مہیا کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعدازبجٹ ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے اور مزید مہنگی ہوتی چلی جائیں گی جبکہ بجٹ میں درآمدہ گارمینٹس، جوتوں، کمبل کی اسمگلنگ کو بھی وسیع پیمانے پرفروغ حاصل ہوگا، وہ لوگ جو قانونی طور پر مختلف اشیا درآمد کیا کرتے تھے اب وہ بجٹ اقدامات کے بعد اسمگلنگ ریجیم میں داخل ہوجائیں گے یا پھرافغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب منتقل ہوجائیں گے۔
ابھی کچھ دن قبل ہی یہ خبریں آئی ہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ملک میں درآمد ہونے والے سیکڑوں کنٹینرز افغانستان پہنچے ہی نہیں بلکہ کراچی میں ہی کھل گئے ہیں۔ نئے وفاقی بجٹ میں گارمنٹس، جوتوں اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے سے حکومت کے ریونیو میں تواضافہ نہیں ہوگا لیکن ان اشیا کی قانونی درآمدات کا حجم انتہائی کم ہوجائے گا جبکہ اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا، کراچی چیمبر نے اپنے پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ سیمینار میںبجٹ سے متعلق ساری صورتحال کا جائزہ لیکر تجاویزمرتب کی ہیں جس میں لاتعداد بجٹ اناملیز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہم حکومت سے بار بار کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کو ضرور بڑھائیں لیکن ٹیکس ریٹ میں اضافہ نہ کیاجائے۔
بجٹ کا اعلان ہونے کے بعد کراچی چیمبر کے اکابرین پر مشتمل ایک ٹیم جس کی قیادت کراچی چیمبر کے صدرہارون اگرنے کی جبکہ دیگر اراکین میں زبیر موتی والا، ہارون فاروقی، جاوید بلوانی ، طاہر خالق اور ابراہیم قاسم شامل تھے نے اسلام آباد میں وفاقی میںوزیر خزانہ اسحق ڈار اور دیگر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کیں اورنئے بجٹ سے متعلق تاجربرادری کو لاحق تشویش سے آگاہ کیا۔ دوران ملاقات وفاقی وزیرخزانہ نے اناملیز دور کرنے کا وعدہ کرلیا ہے جس کے بعد ہم اس بات جائزہ لے رہے ہیں کہ وفاقی وزیرخزانہ کوہماری باتیں کتنی سمجھ میں آئیں اور وہ آنے والے وقت میں اس پر کیا ایکشن لیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ وہ ایسے فیصلے کریں گے جس سے کاروباری برادری اور عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کافی عرصے قبل ہی7 لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی کرچکی ہے جوانتہائی امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا طرز زندگی انتہائی شاہانہ ہے مگر نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر ایسے لوگوں سے ٹیکس وصولی نہیں کی جارہی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
اس کے علاوہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی لیکن ہماری حکومت اس پر عمل کرنے سے بھی جھجک رہی ہے۔ان پیسوں سے ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے پروجیکٹس شروع کیے جاسکتے ہیں، قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ حکومتیں ٹیکس پر چلتی ہیں لیکن جو ٹیکس دے رہا ہے، اس کے گرد ہی ٹیکس کا شکنجہ کسنا کہاں کا انصاف ہے؟۔
ہماری حکومت سے پرُزور اپیل ہے کہ کاروباری طبقے اور عوام کے خلاف اٹھائے گئے ناجائز اقدامات کو واپس لیا جائے۔اس بجٹ نے حکومت پر سے عوام کا اعتماد مجروح کیا ہے، حکمرانوں کو مثبت اور جامع پالیسیاں بنانا ہوں گی ورنہ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔حکمراں اس طرح ہی چلنا چاہ رہے ہیں جیسے بیوروکریٹس انھیں چلانا چاہتے ہیں، اب تو ملک کا یہ انداز بن گیا ہے کہ احتجاج کے بعد ہی فیصلے واپس لیے جاتے ہیں۔ بجٹ ایک گھر سے لیکر ایک ملک کیلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن موجودہ بجٹ میں حکمرانوں نے ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا۔
بہت سارے شعبے ایسے ہیں جن میں ہم مختلف ملکوںکا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن بیرون ملک سے آرڈر دینے والے اس وقت ہمیں بزنس دینے سے رک جاتے ہیں جب وہ امن و امان کی ناقص صورتحال، توانائی کے بحران اور ہڑتالوں کی خبریں سنتے ہیں، انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں آرڈر دیے تو شاید وہ بروقت مکمل نہ ہوسکیں۔
ہمیں اپنے انفرااسٹرکچر کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا، سائٹ ایریا سب سے زیادہ بزنس دینے والا علاقہ ہے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ وارداتیں بھی اسی علاقے میں ہوتی ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ سائٹ کی خراب سڑکیں ہیں۔ کراچی پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ، ہمیں یہ لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ شہر میں میٹرو بس چلے گی، سرکلر ریلوے کا نظام ہوگا لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمیں میٹرو نہیں بلکہ امن چاہیے۔ جو کام زیادہ ضروری ہے، اسے پہلے کیا جائے۔ میٹرو بس اور سرکلر ریلوے بھی اپنے وقت پر آجائیں گی۔
ارشد جمال
چیئرمین پاکستان اکانومی فورم، سینئر وائس چیئرمین آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن
بہت توقعات تھیں کہ بجٹ سے کاروباری طبقے کو فائدہ ہوگا، عام آدمی جو کافی عرصے سے پس رہا ہے، اسے بھی ریلیف ملے گا۔ لوگوں کو بہت امیدیں تھیں لیکن بجٹ میں عام آدمی کے استعمال کی اشیا جن میں گارمینٹس، جوتے، کمبل اور پرانے کپڑے شامل ہیں ان پر غیرمنصفانہ بنیادوں پر سیلز عائد کرکے سب کچھ الٹ کردیا گیا ہے۔ بجٹ ایسا ہونا چاہیے تھا جس سے لوگوںکو سکون ملتا۔ ٹیکسٹائل سیکٹرکی مصنوعات شروع سے ہی اسمگلنگ کا شکار ہیں جبکہ بجٹ اقدامات نے صورتحال کواب مزید خراب کردیا ہے۔
میاں نوازشریف نے اپنی پہلی حکومت کے دوران ایئرپورٹ پر لات مارکر گرین چینل کا خاتمہ کیا تھا لیکن اب انھوں نے ہی دوبارہ اسی گرین چینل کو اپنے بجٹ اقدامات کے ذریعے بحال کردیا ہے، یہ تضاد کیوں ؟ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ حکومت کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا بجٹ پیش کررہی ہے، ابھی تو عام لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس بجٹ میں سے ان کے لیے اور کیا
کیا مسائل ومشکلات نکلیں گے۔
نئے وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس ایس آراو نمبر 1125 اورایس آراونمبر میں ترامیم کرکے سیلزٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہیں ان منفی عوامل کے سبب درآمد کنندگان (امپورٹرز) کی ایک بڑی تعداد نے چین، متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اوردیگر ملکوں میں گارمنٹس، کمبلز، جوتوں، سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ ودیگر مصنوعات کے تیار کنسائمنٹس روک دیے ہیں کیونکہ مذکورہ ایس آراوز میں ترامیم کے بعد بیشتر اشیا پر عائد ٹیکسوں کا حجم دوگنا ہوگیا ہے، حکومت نے دونوں ایس آراوز کو چیک نہیں کیا ، لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسمگلنگ کی طرف مائل ہوں۔ جی ایس ٹی کے حوالے سے حکومت کو سوچنا چاہیے تھا کہ اس کا عام آدمی پر کیا اثر ہوگا۔
مجموعی طور پر تقریباً 905 آئٹمز مزکورہ ایس آراوزمیں کی گئی ترامیم کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جن کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائیں گی۔ وفاقی بجٹ میں تجویز کیے گئے سیلزٹیکس کی شرح بڑھانے سے تیار شدہ وہ درآمدہ آئٹمزجنھیں ہرعام آدمی استعمال کرتا ہے کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوجائے گا۔ اس اقدام نے ایک طرف تو عام آدمی کی کمر توڑدی ہے وہیں ایف بی آر اور اس کے ماتحت دیگر محکموں کے چند افسران اور ٹیکس چوروں کے سینڈیکیٹ کو مضبوط کرتے ہوئے انھیں قومی خزانہ مزیدلوٹنے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد کراچی کی بندرگاہوں پر کھڑے کلیرنس کے منتظرہر کنٹینر سے ڈیٹینشن اور ڈیمرجز کی مد میں یومیہ60 ڈالرفی کنٹینٹروصول کیا جارہا ہے۔ اس وقت گارمنٹس اور شوز کے مجموعی طور پر300 کنٹینر پر بندرگاہ پرکلیرنس کے منتظر ہیں جبکہ کمبل، سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ کے سینکڑوں کنٹینرز اس کے علاوہ ہیں۔
وفاقی بجٹ میں سیلزٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کا حقیقی مطلب2.5 فیصدکا اضافہ ہے کیونکہ یہ ایک ویلیو ایڈڈ ٹیکس ہے۔ ایس آراو نمبر1125 میں ترامیم سے قبل کمبل65روپے اور کپڑے88 روپے فی کلو گرام کے حساب سے کلیئر کیے جاتے تھے لیکن اب نئے بجٹ اقدامات کے نتیجے میںکمبل کی کلیئرنس130 روپے جبکہ کپڑوں کی کلیئرنس184 روپے فی کلوگرام کردی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ پروڈکٹس کی درآمدی لاگت میں تقریباً 45 فیصد کا اضاف ہوگیاہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے ریڈی میڈ گارمنٹس، لیڈیز لیس، پرس ، پرانے آئٹمز اور دیگر اشیاء کی قیمیتں دگنی کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 10 سال سے انفرااسٹرکچرل مسائل پانی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی امن وامان کی بدترین صورتحال جیسے عوامل کے سبب مقامی گارمنٹس انڈسٹری نہ تو اپنی پوری استعداد پر چل سکتی ہے اور نہ ہی مقامی انڈسٹری کم لاگت پر پروڈکٹس تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہی وہ وجوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے بیرونی ممالک سے سستی لاگت وقیمت پرریڈی میڈ گارمنٹس امپورٹ کیے جاتے ہیں جنھیں عام آدمی آسانی سے خریدلیتا ہے مگر بجٹ نے یہ سب آئٹمز بھی عوام کی دسترس سے باہر کردیے ہیں۔گارمنٹس پر پہلے 32 فیصد ٹیکس تھا جو بڑھ کر 59 فیصد ہوگیا ہے، مطلب یہ کہ جو کپڑا پہلے 100 روپے میں ملتا تھا وہ اب 200 کا ملے گا۔
اسی طرح کمبل عام آدمی کے استعمال کا آئٹم ہے لیکن ہمارے ملک میں کمبل بنانے کی انڈسٹری نہیں ہے صرف ایک مقامی انڈسٹری بے بی بلینکٹ ہی بناتی ہے، اب بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والے کمبل کی قیمت بھی1000 روپے کے بجائے 1500 روپے میں ملیں گے۔
بجٹ میں تجویز کردہ حکومتی اقدامات کے بعد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلیے بکنگ کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ حکومت کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایف بی آر کی ایما پرہرسال نہ پورے ہونے والے بجٹ اہداف کو آئندہ مدت کے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں وصولیوں اور برآمدکنندگان کے سیلزٹیکس ریفنڈز اور کسٹم ریبیٹ کی ادائیگیاں روک کربجٹ اہداف بلحاظ اعدادوشمار پورے کرتی رہی ہے، کسی بھی قسم کا ٹیکس لگانے سے قبل حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس دہندگان کو اعتماد میں لے۔
ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ 50 ہزار روپے سے زائد مالیت کے چیک پر عائد ڈیوٹی بھی ختم کی جائے کیونکہ ہم کسٹم ایجنٹس ماہانہ 3 ارب روپے کی اسپیڈ منی دیتے ہیں۔ ہر جگہ مافیا ہے، ایک مافیا نے محکمہ کسٹمزکے ویلیوایشن ڈپارٹمنٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ حکمراں کہتے ہیں کہ ایس آر او کلچر ختم کیا جائے گا تو پھرایس آراوز میں ترامیم کیوں کی گئیں؟ میری رائے میں نوازشریف حکومت ایس آراو کلچر کو ختم نہیں کرسکتی۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ایس ٹی ایس آراوز میں کی گئی ترامیم واپس لی جائیں، جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کرکے فکس ٹیکس لگایا جائے۔ تمام سیلز ٹیکس ریفنڈز اور ایڈجسٹمنٹ ختم کی جائیں اور ایف بی آر کو ہدایت کی جائے کہ وہ تمام متاثرہ شپمنٹس کو پرانے قانون کے مطابق فوری طور پر کلیئر کرے تاکہ درآمد کنندگان اضافی ڈیمرج اور کنٹینر رینٹ سے بچ سکیں۔
محمد ساجد
صدر گارمینٹس اینڈشوز امپورٹرز ایسوسی ایشن
حکومت نے نئے وفاقی بجٹ کے ذریعے گارمینٹس اور جوتوں کی درآمدات پرٹیکس شرح میں تقریباً 100 اضافہ کردیا ہے، ہم بچوں کے ملبوسات اور دیگر آئٹمزدرآمد کرکے بیچتے ہیں، ان اشیاء پر سیلز ٹیکس سے کاروبار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ وفاقی بجٹ میں گارمنٹس اور جوتوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی شرح4 فیصد سے بڑھاکر17 فیصد کردیا گیا ہے،
یہ بجٹ ہمارے شعبے کیلیے انتہائی ظالمانہ ہے جو لاکھوں چھوٹے تاجروں کے معاشی قتل کا باعث بنے گا ، پاکستان میں گارمنٹس اور جوتوں کے مجموعی طور پرسالانہ3 ہزار کنٹینرز کی درآمدات ہوتی ہیں جس کے ذریعے حکومت کو ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی کسٹم ڈیوٹی وٹیکسز حاصل ہوتے ہیں لیکن اب وفاقی بجٹ کے تحت جس طرح اس شعبے پرسیلزٹیکس شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے ان نئے اقدامات پر عمل درآمد کی صورت میں گارمینٹس اور جوتوں کی قانونی درآمدات صرف 30 فیصد تک محدود ہوجائے گی۔
کیونکہ اس شعبے سے وابستہ کاروباری اپنی70 فیصد ضروریات کو اسمگلنگ کے ذریعے منگوانا شروع کردیں گے۔ وفاقی بجٹ کے اقدامات کے بعد اسمگلروں نے کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں کے بیوپاریوں کو سوست بارڈر سے انتہائی کم لاگت واخراجات پر گارمینٹس، جوتے کمبل ودیگر آئٹمز لانے کی پیشکشیں دینا شروع کردی ہیں، اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر راستے بھی ہیں۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ٹیرف کم کیا جائے کیونکہ اسی طرح حکومت کومطلوبہ ریونیو کی وصولیوں میں بھی کامیابی ہوگی اور اس اقدام کے ذریعے اسمگلنگ کو بھی روکا جاسکے گا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 200 ارب روپے کی ریونیو کی چوری اسمگلنگ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ کپڑے کے ہر کنٹینر پر5 تا 7 لاکھ روپے ڈیوٹی ہوتی تھی جو اب نئے اقدامات کے باعث بڑھ کر فی کنٹینر 10 سے 12 لاکھ ہوجائے گی۔اسی طرح جوتے کے ایک کنٹینر پر 3تا 4 لاکھ روپے ڈیوٹی دی جاتی تھی جو اب 7لاکھ تک تجاوز کرجائے گی۔سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کاروباری طبقہ پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار تھا ، موجودہ حکومت نے 17 فیصد جی ایس ٹی اور3فیصد ایڈیشنل جنرل سیلز ٹیکس کے ذریعے کاروباری طبقے پر خودکش حملہ کیا ہے۔
حکومتی اقدامات سے اسمگلنگ کا طوفان آجائے گا اور حکومت کو ٹیکس وصولیوں کی مد میں بھی بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ ایس آر او 1125 کو اس کی سابقہ شکل میں بحال کرے تاکہ ملک کے لاکھوں افرادکی معاشی پریشانیوں کا ازالہ کسی حد تک کیا جاسکے۔رمضان المبارک کی آمد ہے اور رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کیلیے خریداری کرتے ہیں ، کاروباری طبقہ بھی اسی حوالے سیاپنے آرڈرز بک کراتا ہے لیکن ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے سے سب کی خوشیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
وفاقی بجٹ کے ان خودکش اقدامات کی بدولت ایف بی آر کو صرف گارمینٹس جوتوں، کمبل اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ سیکٹر کے درآمدی شعبے سے ریونیو کی وصولیوں کا حجم 1.54 ارب روپے سے گھٹ کر75 کروڑ روپے تک محدود ہوجائے گا لہٰذا پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق سے آگاہی کے بعد اپنے بجٹ اقدامات پر نظرثانی کریں۔
شہزادمبین
برانڈڈ شوز امپورٹر و ریٹیلرز، چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی کراچی چیمبر آف کامرس
ہمارا سب سے اہم مطالبہ تو یہ ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈکو روکا جائے، اس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ نومنتخب حکومت نے آتے ہی ایسا بجٹ دیا ہے کہ ہر کوئی پریشان ہے۔ گارمنٹس، جوتوں کمبل ودیگر اشیائے ضروریہ پرسیلزٹیکس کی شرح بڑھانے سے تاجر برادری کوشدید تحفظات ہیں، اگر موجودہ فیصلے واپس نہ لیے گئے تو ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوجائے گی۔
مثال کے طور پر ہم جو پروڈکٹ ایک ہزار روپے کی بیچ رہے ہیں وہ 2 ہزار کی ہوجائے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت گارمینٹس، جوتوں کمبل اور سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلز ٹیکس کی پرانی شرح کو بحال کرنے کے احکامات جاری کرے تاکہ ملک میں قانونی تجارت ودرآمدات کو فروغ مل سکے اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
صغیر قریشی
نائب صدر کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن
اسمگلنگ کو فروغ دینے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے۔آج بھی پرانے کپڑے خریدنے والے لنڈا بازاروں میں جاتے ہیں لیکن بہت سوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تو موچی اور گدھا گاڑی چلانے والا بھی ٹیکس دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں گارمنٹس، جوتوں کمبل اور پرانے کپڑوں پر سیلزٹیکس کی شرح بڑھاکرعوام سے سر کی چادر، تن کے کپڑے اور پاؤں کے جوتے تک چھیننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
نئی حکومت نے آتے ہی جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کاروباری برادری کو بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔ سیلزٹیکس میں اضافے سے تمام اشیائے ضرورت عوام کی خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔ حکومت سے ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر ریٹیلر اور امپورٹر ہی ٹیکس وصولی کرکے حکومت کو دیں تو پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اتنے زیادہ عملے کی کیا ضرورت ہے؟ ان اقدامات کے بعد ایف بی آر کو بند کردیا جائے، نئے وفاقی بجٹ میں گارمینٹس جوتوں سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ پر سیلزٹیکس کی شرح بڑھانے کے بعد حکومت یہ تصور ختم کردے کہ ملک میں ان اشیا کی قانونی درآمدات برقراررہیں گی اور محصولات کے حجم میں اضافہ ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان شعبوں سے ملنے والا موجودہ ریونیو کا حجم بھی گھٹ جائے گا جو میاں نوازشریف کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی، یہ وہ آئٹمز ہیں جنہیں ملک کے ہرطبقے کے شہری بالخصوص چھوٹے ودرمیانے درجے اور غریب طبقہ استعمال کرتا ہے۔
جلال محمود خان
سیکریٹری جنرل گارمنٹس اینڈ شوز امپورٹرز ایسوسی ایشن
پاکستان میں درآمد ہونے والے ٹیکسٹائل میڈاپ میں چین کا حصہ 90 فیصد ہے ،جس کے بعد3 فیصد حصہ تھائی لینڈ کا ہے اور باقی ماندہ 5 فیصد حصہ ملائیشیا،کوریا اور ویت نام کا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر سے ملک کو بڑی آمدنی ہوتی تھی مگر حکومتی سطح کے منفی اقدامات کا سلسلہ برقرار رہا تو صورتحال انتہائی پریشان کن ہوجائے گی بلکہ ہورہی ہے۔ پاکستان میں مستقل بنیادوں پر منظم اسمگلنگ کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سال کے 9 مہینے سوست بارڈر میں اسمگلروں کاآپریشن جاری رہتا ہے، پنجاب و خیبرپختونخوا میں موسم سرما کے تمام کپڑے اسی بارڈر سے آتے ہیں۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ نئی حکومت سابقہ حکمرانوں سے بہتر ہوگی اور زیادہ بہتر اقدامات کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ بجٹ کے بعد ہمارا یہ بھی تجزیہ ہے کہ میاں صاحب کو مس گائیڈ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں حکومت نے جو اقدامات تجویز کیے، ان سے بزنس کمیونٹی کے سر پر بڑی مصیبت آگئی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت کو کسی نے بجٹ اسکرپٹ فراہم کیا جو نئے وزیرخزانہ نے اسمبلی میں پڑھ دیا ہے اس طرح سے میاں نوازشریف مس گائیڈ ہوگئے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں 5زیروریٹڈ سیکٹر کو سیلزٹیکس ریجیم میں لائے جانے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس شعبے سے وابستہ برآمدی صنعتوں کا وجود خطرے میں پڑجائے گا، ہم کراچی چیمبر کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمارا ہر موقع پر ساتھ دیا۔
محمد اسلم بھٹی
چیئرمین طارق روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن
گذشتہ چند برسوں میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ جو شخص پہلے 4 یا 5 سوٹ خریدتا تھا، وہ آہستہ آہستہ 2 سوٹ پر آگیا اور اب بجٹ کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی شاید ایک سوٹ بھی نہ خرید پائے۔ لوگوں کی قوت خرید صفر ہوگئی ہے، عام آدمی ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے۔
ہماری شٹر پاور نے 8 سے 10 سال تک کراچی چیمبر کے ساتھ مل کر ایف بی آر کی کوششوں کو روکا لیکن حکومت نے بیوروکریسی، ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر من پسند فیصلہ کرلیا۔ اس بار حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔ حکمرانوں کو عوام اور تاجربرادری کا سوچنا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے؟۔ ایک فیصد سیلز ٹیکس کا مطلب ایک فیصد نہیں بلکہ وہ ڈھائی فیصد ہے۔
10 لاکھ دکانوں سے ٹی وی فیس کی مد میں 50 روپے فی دکان وصول کیے جارہے ہیں، یہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ جو بھی کنٹینر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلیے جاتے ہیں ان پر بھی اتنی ہی ڈیوٹی لگائی جائے جتنی پاکستان میں ان لوڈ ہونے والے کنٹینروں سے وصول کی جاتی ہے، پھر وہ ڈیوٹی بے شک افغان حکومت کو دے دی جائے کہ وہ اسے جیسا چاہے استعمال کرے۔ اس طرح بھی اسمگلنگ کی روک تھام ہوگی اور جب ٹیکس یکساں ہوگا تو صورتحال بھی تبدیل ہوجائے گی۔