نواز شریف کی تیسری حکومت کا پہلا بجٹ

12 جون کو قیامت خیز گرمی اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ سے بلبلاتے ہوئے غریب عوام پر مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت کا...


Shakeel Farooqi June 25, 2013
[email protected]

KHIPRO: 12 جون کو قیامت خیز گرمی اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ سے بلبلاتے ہوئے غریب عوام پر مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت کا سالانہ بجٹ برق تپاں بن کر گرا اور بے چارے عام آدمی کو مکمل بے بسی کے عالم میں یہی کہنا پڑا کہ:

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

اس سے انکار نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ ہوئے تھے کہ قومی بجٹ پیش کرنے کی بڑی بھاری ذمے داری اس کے کندھوں پر آن پڑی، مگر اس سے مفر ممکن نہ تھا کیونکہ:

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

گستاخی معاف یہ وہی گھسا پٹا روایتی قسم کا بجٹ تھا جسے ہماری گھاگر بیورو کریسی نے پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا اور جسے آخری وقت میں نوک پلک سنوار کر اور سرخی پاؤڈر لگاکر ہمارے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ وزیر خزانہ کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔ ماضی میں پیش کیے جانے والے دیگر بجٹوں کی طرح یہ بجٹ بھی محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہی کہا جاسکتا ہے۔

اس بجٹ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ Structural نوعیت کا ہے جس کے تحت اس میں ان ہی لوگوں پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ٹیکس کی بنیادوں کو وسیع کیا جاتا جوکہ اس مسئلے کی جڑ ہے۔ دراصل ہمارا ٹیکسوں کا نظام غیر حقیقت پسندانہ اور فرسودہ ہے۔ جب تک اس نظام کو اچھی طرح تبدیل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہماری معیشت بیمار ہی رہے گی۔

یہ نظام غیر مساویانہ بھی ہے اور غیر منصفانہ بھی جس کے نتیجے میں سارے کا سارا ملبہ مسلسل معیشت کے رسمی شعبے (Formal Sector) پر ہی گرتا چلا جارہا ہے اور جس کے باعث غیر دستاویزی معیشت کا سائز متواتر بڑھ رہا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کی تمام حکومتوں میں سے کسی نے بھی اس فرسودہ نظام کو بدلنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس کی بنیادوں کو وسیع کیا جائے، بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے براہ راست ٹیکسوں کے نظام کو فروغ دیا جائے اور بڑی بڑی مچھلیوں کو ٹیکس کے جال میں لایا جائے۔ ٹیکسوں کی براہ راست وصولیابی کی موجودہ شرح جی ڈی پی کا صرف 3.5 فیصد ہے۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے تقریباً 70 فیصد ارکان پارلیمان ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی بھی اطمینان بخش نہیں پائی گئی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 9 ماہ کے عرصے میں اس کے سات چیئرمین تبدیل کیے گئے۔ بار بار کے تبادلوں اور مسلسل سیاسی مداخلت نے اس کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور اب نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس انتہائی اہمیت کے ادارے کا قبلہ درست کیا جائے۔

وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ اس ادارے کا سربراہ کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جو نہ صرف پوری طرح سے اہل ہو اور جو ایمان داری اور دیانت داری کے لحاظ سے بھی بے داغ کردار کا مالک ہو۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہو اور اس کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت بھی نہ ہو۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اس جانب فوری توجہ فرمائیں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہوگی جس کے مثبت اثرات ہماری قومی معیشت پر یقینا مرتب ہوں گے۔

ہماری دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے حکمراں اور اعلیٰ اہلکار سرکاری خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کرنے کی پرانی روش ترک کردیں اور بذات خود سادگی اختیار کرکے خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس سلسلے میں کسی پس و پیش کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کیونکہ حضرت عمرؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی روشن اور قابل تقلید مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں بہت پہلے سے موجود ہیں۔

بجٹ 2013-14 کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے اہداف غیر حقیقی ہیں مثلاً اس میں ریونیو گروتھ کو 20 فیصد پلس رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں موجودہ بجٹ کے بعد کئی منی بجٹ آنے کا امکان باقی رہتا ہے۔ اس میں تضاد کا عنصر موجود ہے کیونکہ دولت ٹیکس FED اور میوچل فنڈ اور پنشن کی سرمایہ کاری کے نظام کی پیچیدگیوں کے باعث بچتوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

انکم ٹیکس پر نظر ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ موجودہ بجٹ کی تان ان ہی لوگوں پر جاکر ٹوٹ رہی ہے جن کی تعداد 30,000 ہے اور جن کی آمدنی 7 ملین روپے ہے اور ٹیکس گزار ہیں جب کہ 30 لاکھ افراد ایسے ہیں جو بڑے امیروکبیر ہیں اور ٹیکس کی بندش سے قطعی آزاد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی پاکستان کے بعض سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے اربوں ڈالر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع ہیں جب کہ صدر زرداری کا معاملہ تو اظہرمن الشمس ہے اور ان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا اور نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ سانپ گزر چکا اور اب لکیر پیٹنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اس ملک میں Multinational کمپنیوں کی ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے بھی موجودہ بجٹ میں کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے۔

اسی طرح صنعتوں کے ملک سے مسلسل فرار کو روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب اسمگلنگ کی روک تھام اور کھیپوں کو ٹیکس کے جال میں لانے کے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ انکم سپورٹ لیوی کے تحت ٹیکس ادائیگی کے لیے بینکوں میں جمع شدہ رقم پر بھی ٹیکس لگا دینے کے نتیجے میں جائز آمدنی کما کر بینکوں میں جمع کرانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ بہتر ہوتا کہ ٹیکس پر ٹیکس لگاکر معیشت کو سدھارنے کی ناکام کوشش کے بجائے کرپشن اور ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے۔

اندیشہ یہی ہے کہ نئے ٹیکس اقدامات کے نتیجے میں ٹیکس وصول کرنے والی کرپٹ مشنری کی کرپشن کے لیے مزید دروازے کھل جائیں گے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کی پرانی روش کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ قارئین کرام! بجٹ 2013-14 کی آمد سے قبل تمام تر توجہ ٹیکس نیٹ بڑھانے پر مرکوز کی جارہی تھی لیکن بجٹ میں شامل اقدامات کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ میں آنے کے خوف میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے بہت سی مچھلیاں جال سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کی حکمت عملی مفید اور موثر ثابت ہونے کے بجائے Back Fire کرے گی اور فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا اور Tax Erosion میں مزید اضافہ ہوگا۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ٹیکس پالیسی اور حکمت عملی ابھی تک Employees Centric ہے جس کا سب سے بڑا ٹارگٹ ملازمت پیشہ لوگ، بالخصوص سرکاری ملازمین ہیں۔ چناں چہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے موجودہ بجٹ میں سب سے پہلے سرکاری ملازمین کے پیٹ پر ہی لات ماری اور انھیں تنخواہوں میں حسب معمول اضافے سے محروم کرنے کی کوشش کی جن میں وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کے ملازمین کو اصل نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ وزیر اطلاعات کے بیان کے مطابق ان ملازمین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

وزیر خزانہ کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف جب متاثرہ ملازمین نے واویلا اور احتجاج کیا تو بادل ناخواستہ سرکاری ملازمین کو محض 10 فیصد اضافے پر ٹرخا دیا جوکہ کمر توڑ گرانی کے مدنظر سراسر ناانصافی اور ظلم وستم کی انتہا کے مترادف اور جلتی پر تیل چھڑکنے کے مصداق ہے۔ اس سے بھی زیادہ ظلم ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ پنشن میں 10 فیصد اضافے کی صورت میں کیا گیا ہے جن کی محدود اور ناکافی پنشن میں مہنگائی کے موجودہ دور میں باعزت گزارہ تو درکنار یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کرنا بھی بہت مشکل ہے اور بے چارے پنشنرز کی حالت یہ ہے کہ ''ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا''۔

ہماری خوف خدا رکھنے والے وزیر اعظم نواز شریف سے شرافت اور انسانی ہمدردی کے نام پر پرزور اپیل ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کریں تاکہ وہ اور ان کے ہم نوا مظلوموں کی آہ اور بددعا سے محفوظ رہیں اور ماضی کی طرح آیندہ بھی کسی برے انجام سے محفوظ رہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہماری یہ گزارش یا سفارش رائیگاں نہیں جائے گی اور میاں صاحب اس ناخوشگوار صورت حال کا ذاتی طور پر نوٹس لے کر ازالہ کریں گے اور بجٹ کا خسارہ بحیثیت وزیر اعظم اپنے اخراجات اور اپنے وزیروں کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی اور ایسے ہی دیگر اقدامات کے ذریعے پورا کریں گے۔

تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے گریز یا اس کارخیر میں تاخیر کا مطلب یہ ہوگا کہ انھیں مظلوم سرکاری ملازمین کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ امید واثق ہے کہ وزیر اعظم اس معاملے میں فوری اور موثر قدم اٹھائیں گے اور ہوش ربا گرانی کے ستائے ہوئے بے زبان سرکاری ملازمین کی محض اشک شوئی نہیں بلکہ فرخدلانہ داد رسی کریں گے۔ انشاء اللہ!

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں