پاکستان کا ایک گمنام بزرگ
پاکستان دشمنوں کو امید تھی کہ پیپلز پارٹی کی کرپٹ حکومت نے پاکستان کو اس قدر لاچار کر دیا ہے کہ وہ اب اٹھ نہیں سکے...
پاکستان دشمنوں کو امید تھی کہ پیپلز پارٹی کی کرپٹ حکومت نے پاکستان کو اس قدر لاچار کر دیا ہے کہ وہ اب اٹھ نہیں سکے گا اور وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا ہر شہر سقوط ڈھاکہ کی تصویر پیش کرے گا۔ پاکستان کے لیے الیکشن کس قدر ضروری تھے اس کا بار بار اظہار ہمارے تجربہ کار اور بزرگ شہری جناب چیف الیکشن کمشنر نے کیا اور صاف صاف کہا کہ الیکشن نہ ہوئے تو ملک باقی نہیں رہے گا۔
ہمارے سیاستدان بھی دلوں میں کچھ امیدیں لے کر الیکشن پر تیار ہو گئے۔ اگرچہ عمران کی اچانک بیماری نے الیکشن کی رونق ماند کر دی اور وہ گہما گہمی نہ رہی جو عمران کے ساتھ ایک احمقانہ واقعہ کی وجہ سے دیکھنے کو نہ ملی لیکن پھر بھی الیکشن بھرپور ہوئے جس کی جتنی قسمت تھی اس کو اس کا حصہ مل گیا، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ ن لیگ نے میدان زیادہ ہی مار لیا اور اس کی حکومت بن گئی جو ایک جائز جمہوری حکومت تھی۔ میرے خیال میں اس حکومت کا ملک کو سب سے بڑا فائدہ بلوچستان میں ہوا جہاں دشمن نے کامیابی کے بہت سے مرحلے طے کر لیے تھے لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے یہاں دشمن کو پسپا کر دیا اور صوبہ کی ایک منتخب حکومت بن گئی، میرے خیال میں ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس کے پیچھے بڑی سوجھ بوجھ فراست اور ہمت کارفرما تھی۔ لیکن دشمنوں کے سامنے میدان جنگ بلوچستان سے زیادہ وسیع تھا۔
درجن بھر سیاحوں کا قتل بھارت کی ایک کامیابی تھی۔ جس نے پاکستان کو ہلا کررکھ دیا اور نئی حکومت کو میدان جنگ میں کھڑا کر دیا۔ بڑے ہی دکھ کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں میں بھارت کے بارے میں وہ جذبہ کارفرما نہیں جو اس قوم کو تحریک پاکستان سے ورثے میں ملا تھا اور جس پر ہماری خود مختاری آزادی اور قومی عزت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے سادہ مزاج اور حالات کو سرسری انداز میں لینے کی وجہ سے بعض اوقات ان کی زبان سے ایسے الفاظ سننے میں آتے ہیں جن کو سن کر ایک پاکستانی کا دل درد سے بھر جاتا ہے۔ کیا آج کی مسلم لیگ یہی ہے۔ کیا وہ تحریک پاکستان بھول گئی۔
پاکستان کی خود مختاری اور آزادی پر دشمن نے جو حملہ کیا ہے، وہ ایک کھلی جنگ کا اعلان ہے جس کا جواب ہماری حکومت کو دینا ہے، کسی اور کو نہیں۔ میرے خیال میں ہمارا کوئی اتحادی ایسا نہیں ہے جو دل سے ہمارا ساتھ دے گا لیکن ہماری قوم اس قدر خود دار اور بہادر ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکتی ہے اور دفاع کرنے کی اہل ہے۔ میں عرض کروں گا کہ میاں صاحب نے جہاں بلوچستان میں سیاسی اتحاد جیسا کارنامہ سر انجام دیا ہے وہاں وہ مقروض قوم کے سامنے اپنی کفایت شعاری کا ثبوت بھی دیں، یہ نہیں کہ جہاں قدم رکھا اسے سرکاری رہائش گاہ قرار دے دیا اور بے حد غریب قوم کو اس کی غریبی یاد دلا دی۔
فوجیوں کا مشہور مقولہ ہے کہ جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے اور پاکستانی قوم نے فوج کو کبھی مایوس نہیں کیا، قوم اس غربت اور ناقابل برداشت غربت میں بھی لڑے گی لیکن ہمارے حکمران غریب بے شک نہ بنیں اپنی دولت سے خوب لطف اندوز ہوں لیکن قوم کو ساتھ لے کر چلیں اسے مسترد نہ کریں۔ اس موضوع پر ہمارے جیسے باہر کے آدمی کو مزید کچھ عرض نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت جو پالیسی اختیار کرے گی اس پر گفتگو ہوگی۔ ہم نہ وزیر نہ جرنیل، ایک عام شہری حالات کو دیکھتاہے تو اپنے آپ کو حالات کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی فکر کرتا ہے اور خود کو تیار کرتا ہے۔
ہمارے وزراء کرام بے وقوف نہیں ہیں، وہ عام زندگی میں نہائت سلجھے ہوئے آدمی لگتے ہیں لیکن بعض اوقات سرکاری معاملات میں بونگی مار جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سلسلے میں وزیر نے کہا کہ ہم اس معاملے میں قوم کی عزت اور وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور بھی بہت کچھ کہا، ایک طرف تو قرض لینا اور پھر اس پر نخرے بھی کرنا۔ ہمارا ایک اعوان بھائی غریب ہو گیا اور تنگ آ کر کسی دور کے شہر گداگری کرنے جا پہنچا لیکن اعوان تھا، اپنی ٹہر تو رکھنی تھی۔ اس نے ایک ڈانگ لی، اس کے آگے لوٹا باندھا اور اس طرح بھیک لینے کے لیے ڈانگ والا لوٹا سامنے کر دیتا۔
اپنے آپ کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اس ڈانگ کے زور پر خیرات لے رہا ہے۔ ہم بھی ایسے دلچسپ قرض خواہ ہیں جو عزت بچا کر قرض مانگتے ہیں، ہمیں ناقابل بیان حد تک کہ مقروض کر دیا گیا ہے، ہمیں اس رض میں سے کسی نہ کسی طرح باہر آنا ہے ورنہ قرض خواہ ہمیں کھا جائیں گے۔ اب تو حکومت بیرونی اداروں سے قرض مانگ رہی ہے جن کا مقصد ہی قرض دینا اور حکومت کرنا ہے، ہماری حکومت نے ملک سنوارنے کے لیے اپنی قوم سے قرض اور امداد لینے کا پروگرام بنایا اور قوم بینکوں پر ٹوٹ پڑی۔ جتنی کچھ کسی کی توفیق تھی وہ اس نے پیش کر دی، ایک بینک میں طویل قطار لگی تھی، اس میں ایک بزرگ بھی کھڑے تھے، میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا کہ آپ بیٹھ جائیں میں آپ کی رقم جمع کرا کے رسید لے آتا ہوں، اس پر اس بزرگ نے مجھے دعا دی اور کہا کہ میں اس قطار میں کھڑے ہونے کو ثواب سمجھتا ہوں۔ میں بے حد جذباتی انداز میں پیچھے ہٹا اور بینک میں اپنا کام چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
بینک کی بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر میں سوچتا رہا کہ جس قوم کے بزرگ ایسے ہوں وہ کیسے بھوکی مر سکتی ہے۔ بعد میں اس قومی چندے اور امداد کے ساتھ کیا ہوا، یہ کہانی اس بزرگ سے زیادہ جذبات انگیز ہے۔ حکمرانوں کو قطعاً یہ علم نہیں کہ وہ ایک مقروض اور قرض خواہ ملک کے حکمران ہیں اور انھیں ذاتی طور پر اپنے سرکاری اخراجات بہت ہی محدود کر دینے چاہئیں بلکہ وہ تو سب ذاتی طور پر اتنے مالدار ہیں کہ انھیں سرکاری خزانے سے ایک پیسہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ بہر حال انھیں حکمرانوں اور ان کے رہنما ووٹروں کے ساتھ گزارہ کرنا ہے جو کیے جا رہے ہیں اور کرتے جائیں گے۔
ہمارے سیاستدان بھی دلوں میں کچھ امیدیں لے کر الیکشن پر تیار ہو گئے۔ اگرچہ عمران کی اچانک بیماری نے الیکشن کی رونق ماند کر دی اور وہ گہما گہمی نہ رہی جو عمران کے ساتھ ایک احمقانہ واقعہ کی وجہ سے دیکھنے کو نہ ملی لیکن پھر بھی الیکشن بھرپور ہوئے جس کی جتنی قسمت تھی اس کو اس کا حصہ مل گیا، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ ن لیگ نے میدان زیادہ ہی مار لیا اور اس کی حکومت بن گئی جو ایک جائز جمہوری حکومت تھی۔ میرے خیال میں اس حکومت کا ملک کو سب سے بڑا فائدہ بلوچستان میں ہوا جہاں دشمن نے کامیابی کے بہت سے مرحلے طے کر لیے تھے لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے یہاں دشمن کو پسپا کر دیا اور صوبہ کی ایک منتخب حکومت بن گئی، میرے خیال میں ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس کے پیچھے بڑی سوجھ بوجھ فراست اور ہمت کارفرما تھی۔ لیکن دشمنوں کے سامنے میدان جنگ بلوچستان سے زیادہ وسیع تھا۔
درجن بھر سیاحوں کا قتل بھارت کی ایک کامیابی تھی۔ جس نے پاکستان کو ہلا کررکھ دیا اور نئی حکومت کو میدان جنگ میں کھڑا کر دیا۔ بڑے ہی دکھ کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں میں بھارت کے بارے میں وہ جذبہ کارفرما نہیں جو اس قوم کو تحریک پاکستان سے ورثے میں ملا تھا اور جس پر ہماری خود مختاری آزادی اور قومی عزت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے سادہ مزاج اور حالات کو سرسری انداز میں لینے کی وجہ سے بعض اوقات ان کی زبان سے ایسے الفاظ سننے میں آتے ہیں جن کو سن کر ایک پاکستانی کا دل درد سے بھر جاتا ہے۔ کیا آج کی مسلم لیگ یہی ہے۔ کیا وہ تحریک پاکستان بھول گئی۔
پاکستان کی خود مختاری اور آزادی پر دشمن نے جو حملہ کیا ہے، وہ ایک کھلی جنگ کا اعلان ہے جس کا جواب ہماری حکومت کو دینا ہے، کسی اور کو نہیں۔ میرے خیال میں ہمارا کوئی اتحادی ایسا نہیں ہے جو دل سے ہمارا ساتھ دے گا لیکن ہماری قوم اس قدر خود دار اور بہادر ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکتی ہے اور دفاع کرنے کی اہل ہے۔ میں عرض کروں گا کہ میاں صاحب نے جہاں بلوچستان میں سیاسی اتحاد جیسا کارنامہ سر انجام دیا ہے وہاں وہ مقروض قوم کے سامنے اپنی کفایت شعاری کا ثبوت بھی دیں، یہ نہیں کہ جہاں قدم رکھا اسے سرکاری رہائش گاہ قرار دے دیا اور بے حد غریب قوم کو اس کی غریبی یاد دلا دی۔
فوجیوں کا مشہور مقولہ ہے کہ جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے اور پاکستانی قوم نے فوج کو کبھی مایوس نہیں کیا، قوم اس غربت اور ناقابل برداشت غربت میں بھی لڑے گی لیکن ہمارے حکمران غریب بے شک نہ بنیں اپنی دولت سے خوب لطف اندوز ہوں لیکن قوم کو ساتھ لے کر چلیں اسے مسترد نہ کریں۔ اس موضوع پر ہمارے جیسے باہر کے آدمی کو مزید کچھ عرض نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت جو پالیسی اختیار کرے گی اس پر گفتگو ہوگی۔ ہم نہ وزیر نہ جرنیل، ایک عام شہری حالات کو دیکھتاہے تو اپنے آپ کو حالات کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی فکر کرتا ہے اور خود کو تیار کرتا ہے۔
ہمارے وزراء کرام بے وقوف نہیں ہیں، وہ عام زندگی میں نہائت سلجھے ہوئے آدمی لگتے ہیں لیکن بعض اوقات سرکاری معاملات میں بونگی مار جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سلسلے میں وزیر نے کہا کہ ہم اس معاملے میں قوم کی عزت اور وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور بھی بہت کچھ کہا، ایک طرف تو قرض لینا اور پھر اس پر نخرے بھی کرنا۔ ہمارا ایک اعوان بھائی غریب ہو گیا اور تنگ آ کر کسی دور کے شہر گداگری کرنے جا پہنچا لیکن اعوان تھا، اپنی ٹہر تو رکھنی تھی۔ اس نے ایک ڈانگ لی، اس کے آگے لوٹا باندھا اور اس طرح بھیک لینے کے لیے ڈانگ والا لوٹا سامنے کر دیتا۔
اپنے آپ کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اس ڈانگ کے زور پر خیرات لے رہا ہے۔ ہم بھی ایسے دلچسپ قرض خواہ ہیں جو عزت بچا کر قرض مانگتے ہیں، ہمیں ناقابل بیان حد تک کہ مقروض کر دیا گیا ہے، ہمیں اس رض میں سے کسی نہ کسی طرح باہر آنا ہے ورنہ قرض خواہ ہمیں کھا جائیں گے۔ اب تو حکومت بیرونی اداروں سے قرض مانگ رہی ہے جن کا مقصد ہی قرض دینا اور حکومت کرنا ہے، ہماری حکومت نے ملک سنوارنے کے لیے اپنی قوم سے قرض اور امداد لینے کا پروگرام بنایا اور قوم بینکوں پر ٹوٹ پڑی۔ جتنی کچھ کسی کی توفیق تھی وہ اس نے پیش کر دی، ایک بینک میں طویل قطار لگی تھی، اس میں ایک بزرگ بھی کھڑے تھے، میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا کہ آپ بیٹھ جائیں میں آپ کی رقم جمع کرا کے رسید لے آتا ہوں، اس پر اس بزرگ نے مجھے دعا دی اور کہا کہ میں اس قطار میں کھڑے ہونے کو ثواب سمجھتا ہوں۔ میں بے حد جذباتی انداز میں پیچھے ہٹا اور بینک میں اپنا کام چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
بینک کی بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر میں سوچتا رہا کہ جس قوم کے بزرگ ایسے ہوں وہ کیسے بھوکی مر سکتی ہے۔ بعد میں اس قومی چندے اور امداد کے ساتھ کیا ہوا، یہ کہانی اس بزرگ سے زیادہ جذبات انگیز ہے۔ حکمرانوں کو قطعاً یہ علم نہیں کہ وہ ایک مقروض اور قرض خواہ ملک کے حکمران ہیں اور انھیں ذاتی طور پر اپنے سرکاری اخراجات بہت ہی محدود کر دینے چاہئیں بلکہ وہ تو سب ذاتی طور پر اتنے مالدار ہیں کہ انھیں سرکاری خزانے سے ایک پیسہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ بہر حال انھیں حکمرانوں اور ان کے رہنما ووٹروں کے ساتھ گزارہ کرنا ہے جو کیے جا رہے ہیں اور کرتے جائیں گے۔