مابعد جدیدیت اور نیا عالمی سیاسی نظام
ترقی پسند ادب یا ترقی پسند ادیبوں کے لیے سیاست اور ادب کے درمیان گہرے تعلق پر اصرار کوئی انہونی بات نہیں اور...
ترقی پسند ادب یا ترقی پسند ادیبوں کے لیے سیاست اور ادب کے درمیان گہرے تعلق پر اصرار کوئی انہونی بات نہیں اور نہ ہی ''ادب برائے ادب'' کے وکلاء کے لیے اس نظریے کی مخالفت۔ اچھا ادب ہر دو نظریوں کے ادیبوں ہی نے تخلیق کیا ہے۔ نظریہ خواہ کوئی بھی ہو اچھے ادب پارہ کے لیے نظر کی اہمیت بنیادی ہی ہے اور جب نظریہ اور نظر ایک ساتھ یکجا ہوجائیں تو پھر تخیل کی ندرت اور محاسن بیان کی باری آتی ہے۔ یہ وہ شرائط ہیں جو نظریہ کے وکلاء اور مخالفین دونوں ہی پر صادق آتی ہیں۔ ان دنوں مابعد جدیدیت کے حوالے سے خاصی دلچسپ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ویسے تو مابعد جدیدیت بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں یعنی 1966 کے بعد ہی سے (مصوری، شاعری، مجسمہ سازی) کے توسط کے لیے موضوع بحث ہے۔
ٹیری ایگلیٹن (Terry Eagleton) کی Marxist Literary Theory سے ذرا پہلے، ایگلیٹن نے Jeffery Hartman جیوفری ہارٹمین کی کتاب The Fateful Questeion of Culture پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ 60 کی دہائی (یعنی مابعد جدیدیت کی پیدائش کے ساتھ ہی) سے ''کلچر'' منفرد اکائی یا گروپ کے تشخص کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ جو قومی، علاقائی، صنفی (Gender) تشخص کے لیے مستعمل ہوگیا ہے، یعنی یکسر مختلف معنوں میں، پہلے یہ اتفاق رائے کی اصطلاح تھی اب اختلاف اور تفریق کی اصطلاح ہے، کلچر اب غالباً ایلیٹ کے دور کا ذیلی کلچر ہے، یعنی کلچر مابعد جدیدیت کے دور میں اقلیتی گروہوں کی ثقافت سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے، اب یہ سیاست کی غیر موثر سی ضد بن کر رہ گیا ہے یا پھر مختلف قسم کی سیاست کی ایک اور توسیع۔ آپ اسے آزاد مارکیٹ کی معاشی قوتوں اور مقامی اختلافات سے پر فزوں تر اصرار کے درمیان ملحق بحث سمجھ سکتے ہیں۔
مابعد جدیدیت کے تازہ ترین نظریہ کا اصرار ہے کہ اب کل حقائق موجود نہیں ہیں اور ان کی جگہ اب صرف مختلف النوع حقائق کی تعبیرات باقی رہ گئی ہیں۔ جدیدیت شاید اسٹیفن اسپینڈر (Stephen Sphender) کے لیے واحد متکلم کا دور تھا، اجتماع کوشی پر ناک بھوں چڑھانے کا دور تھا۔ یہ نظریہ اور نظریہ سازی پر ہنسنے ہنسانے کا دور تھا۔ یہ موجودیت یا وجودیت کا عبثیت پر اصرار کا دور تھا۔ ساختیات نے اجتماع کوشی اور متکلم کے متحارب داعیوں کے ساتھ تاریخ اور نقطہ نظر ہی کو رد کردیا۔ متن Content کے مستقل بالذات معنوں کا بطلان کیا گیا۔
ایک متن کے ہزار قارئین کے لیے ہزار متن ممکن سمجھے گئے۔ مابعد جدیدیت کا نظریہ اس لحاظ سے ضرور قابل ادراک ہے بلکہ یہ ساختیاتی داعیہ سے زیادہ قابل قبول ہے کہ یہ نقطہ نظر کی واپسی کا اعلان کرتا ہے۔ یہ کسی ایک نظریہ کی حقانیت پر اصرار نہیں کرتا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے، زیادہ جمہوری کلچر، یعنی انفرادیت اور غیر اہم ثقافتی اکائیوں کے تحفظ کا دم بھرتا ہے، اگر دیکھا جائے تو گیٹ G.A.T.T اور عالمی تجارتی ادارہ (W.T.O) کے عالمی سطح پر نافذالعمل ضوابط کے دور میں نظریاتی آزادی کی بات کرتا ہے تاکہ اختلاف رائے کے حق کی پاسداری کے ذریعے عالمی سطح پر معاشی یکسانیت اور مغربی پارلیمانی نظام کا بہتر طور پر دفاع کیا جاسکے۔
عالمی ادب میں مابعد جدیدیت ایک بین الاقوامی میڈیا سوسائٹی کے قیام کے لیے تحریک کو تقویت دینے کا دوسرا نام ہے اور اس لیے فکری اور ادبی طور پر مختلف نقطہ ہائے نظر کے وجود کا اثبات Plurality of View کی دوڑ میں طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو ''اپنی نحیف آواز ''برقرار رکھنے کا تسلسل ہے۔ اس طرح مابعد جدیدیت کے مطالعے کے لیے دو زاویے سامنے آتے ہیں ایک جدیدیت کے حامیوں کے لیے جنھیں تہذیبی اور نظریاتی اکائیوں کی حیثیت تسلیم کرنی پڑے گی خواہ وہ کثیر اللسانی، کثیرالقومی اشتراکی معیشت کی وکالت ہی پر کیوں نہ منتج ہو اور دوسرا زاویہ یہ ہوگا کہ ترقی پسند بھی نقطہ نظر کی کثرت پسندیPlurality of View کی حقیقت تسلیم کریں اور مملکت کے اختیارات تسلیم کروانے کے بجائے فرد کے حقوق پر زور دیں۔
نہ صرف یہ بلکہ ترقی پسند سماج اپنی معاشی ترقی کی آزادانہ ترقی اور ''اپنے ملک میں اپنا راج'' کے نظریے سے دستبردار ہوجائے تاکہ دوسرے مکاتب فکر پر اس نظریہ کی زد نہ پڑسکے۔ مابعد جدیدیت سیاست کی طرح ادب اور فنون میں بھی ہر فرد، گروہ اور ادارے کو مکمل آزادی دے کر اس فرد، معاشرے اور ملک کی آزادی کی تجدید کے لیے کام کرنے کا ایسا نظریہ ہے جو امریکا میں صدر رونالڈ ریگن کے زمانے میں غالباً (Supply Side Economics) کی پرزور وکالت سے شروع ہوتا ہے اور آج دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر ہر اقسام کی چیزوں کی شاپنگ ممکن ہوسکنے سے یا بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے Pricing اور سرمایہ کی آزادانہ منتقلی نے ملکی اقتدار اعلیٰ کا وہ نظریہ بھی کالعدم قرار دے دیا جو جنگ عظیم دوئم کے بعد نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اس کے بعد تک قائم رہا۔
ادب میں مابعد جدیدیت کے مباحث اس وقت تک ناقابل ادراک رہیں گے جب تک بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے ادبی اور فکری محاذ کا مطالعہ نہ کیا جائے، دراصل مابعد جدیدیت اصولاً جبر و اکراہ کے خلاف ہے اور یہ نظریہ ہی تمام نظریوں کے احترام کا قائل ہے اور وہ غالباً اس لیے بھی کہ یہ معاشی محاذ پر غیرلچکدار ہونے کی وجہ سے ثقافتی محاذ میں لچک اور نرمی کو ممکن بنانا چاہتا ہے، اس لیے ترقی پسند فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ''اپنی معیشت اپنا راج'' کے نعرے کے ساتھ جدیدیت کے سابق وکلاء کی طرف سے مابعد جدیدیت کے نظریے کے تحت ترقی پسند ادب اورثقافت کے لیے جس کشادگی نظر کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اسے یکسر نظرانداز کردینا مناسب نہیں ہوگا۔
عالمی ادارے ہم سے کسی نوع کی مطابقت چاہتے ہیں لیکن ہمارے اختیار میں کچھ نہ ہونے پر بھی اپنی آزادانہ فکر پر کاربند رہنے کا اختیار موجود رہنا چاہیے۔ خاص طور پر ایک ایسی صورت حال میں جب کمزور
اور پس ماندہ طبقات کی وکالت اور اس طبقہ کی کفالت کا داعیہ G.A.T.T کی زد پر ہے، اور اسے غالباً غیر پیداواری سمجھ کر شمارکیا جارہا ہے ۔
ٹیری ایگلیٹن (Terry Eagleton) کی Marxist Literary Theory سے ذرا پہلے، ایگلیٹن نے Jeffery Hartman جیوفری ہارٹمین کی کتاب The Fateful Questeion of Culture پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ 60 کی دہائی (یعنی مابعد جدیدیت کی پیدائش کے ساتھ ہی) سے ''کلچر'' منفرد اکائی یا گروپ کے تشخص کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ جو قومی، علاقائی، صنفی (Gender) تشخص کے لیے مستعمل ہوگیا ہے، یعنی یکسر مختلف معنوں میں، پہلے یہ اتفاق رائے کی اصطلاح تھی اب اختلاف اور تفریق کی اصطلاح ہے، کلچر اب غالباً ایلیٹ کے دور کا ذیلی کلچر ہے، یعنی کلچر مابعد جدیدیت کے دور میں اقلیتی گروہوں کی ثقافت سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے، اب یہ سیاست کی غیر موثر سی ضد بن کر رہ گیا ہے یا پھر مختلف قسم کی سیاست کی ایک اور توسیع۔ آپ اسے آزاد مارکیٹ کی معاشی قوتوں اور مقامی اختلافات سے پر فزوں تر اصرار کے درمیان ملحق بحث سمجھ سکتے ہیں۔
مابعد جدیدیت کے تازہ ترین نظریہ کا اصرار ہے کہ اب کل حقائق موجود نہیں ہیں اور ان کی جگہ اب صرف مختلف النوع حقائق کی تعبیرات باقی رہ گئی ہیں۔ جدیدیت شاید اسٹیفن اسپینڈر (Stephen Sphender) کے لیے واحد متکلم کا دور تھا، اجتماع کوشی پر ناک بھوں چڑھانے کا دور تھا۔ یہ نظریہ اور نظریہ سازی پر ہنسنے ہنسانے کا دور تھا۔ یہ موجودیت یا وجودیت کا عبثیت پر اصرار کا دور تھا۔ ساختیات نے اجتماع کوشی اور متکلم کے متحارب داعیوں کے ساتھ تاریخ اور نقطہ نظر ہی کو رد کردیا۔ متن Content کے مستقل بالذات معنوں کا بطلان کیا گیا۔
ایک متن کے ہزار قارئین کے لیے ہزار متن ممکن سمجھے گئے۔ مابعد جدیدیت کا نظریہ اس لحاظ سے ضرور قابل ادراک ہے بلکہ یہ ساختیاتی داعیہ سے زیادہ قابل قبول ہے کہ یہ نقطہ نظر کی واپسی کا اعلان کرتا ہے۔ یہ کسی ایک نظریہ کی حقانیت پر اصرار نہیں کرتا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے، زیادہ جمہوری کلچر، یعنی انفرادیت اور غیر اہم ثقافتی اکائیوں کے تحفظ کا دم بھرتا ہے، اگر دیکھا جائے تو گیٹ G.A.T.T اور عالمی تجارتی ادارہ (W.T.O) کے عالمی سطح پر نافذالعمل ضوابط کے دور میں نظریاتی آزادی کی بات کرتا ہے تاکہ اختلاف رائے کے حق کی پاسداری کے ذریعے عالمی سطح پر معاشی یکسانیت اور مغربی پارلیمانی نظام کا بہتر طور پر دفاع کیا جاسکے۔
عالمی ادب میں مابعد جدیدیت ایک بین الاقوامی میڈیا سوسائٹی کے قیام کے لیے تحریک کو تقویت دینے کا دوسرا نام ہے اور اس لیے فکری اور ادبی طور پر مختلف نقطہ ہائے نظر کے وجود کا اثبات Plurality of View کی دوڑ میں طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو ''اپنی نحیف آواز ''برقرار رکھنے کا تسلسل ہے۔ اس طرح مابعد جدیدیت کے مطالعے کے لیے دو زاویے سامنے آتے ہیں ایک جدیدیت کے حامیوں کے لیے جنھیں تہذیبی اور نظریاتی اکائیوں کی حیثیت تسلیم کرنی پڑے گی خواہ وہ کثیر اللسانی، کثیرالقومی اشتراکی معیشت کی وکالت ہی پر کیوں نہ منتج ہو اور دوسرا زاویہ یہ ہوگا کہ ترقی پسند بھی نقطہ نظر کی کثرت پسندیPlurality of View کی حقیقت تسلیم کریں اور مملکت کے اختیارات تسلیم کروانے کے بجائے فرد کے حقوق پر زور دیں۔
نہ صرف یہ بلکہ ترقی پسند سماج اپنی معاشی ترقی کی آزادانہ ترقی اور ''اپنے ملک میں اپنا راج'' کے نظریے سے دستبردار ہوجائے تاکہ دوسرے مکاتب فکر پر اس نظریہ کی زد نہ پڑسکے۔ مابعد جدیدیت سیاست کی طرح ادب اور فنون میں بھی ہر فرد، گروہ اور ادارے کو مکمل آزادی دے کر اس فرد، معاشرے اور ملک کی آزادی کی تجدید کے لیے کام کرنے کا ایسا نظریہ ہے جو امریکا میں صدر رونالڈ ریگن کے زمانے میں غالباً (Supply Side Economics) کی پرزور وکالت سے شروع ہوتا ہے اور آج دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر ہر اقسام کی چیزوں کی شاپنگ ممکن ہوسکنے سے یا بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے Pricing اور سرمایہ کی آزادانہ منتقلی نے ملکی اقتدار اعلیٰ کا وہ نظریہ بھی کالعدم قرار دے دیا جو جنگ عظیم دوئم کے بعد نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اس کے بعد تک قائم رہا۔
ادب میں مابعد جدیدیت کے مباحث اس وقت تک ناقابل ادراک رہیں گے جب تک بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے ادبی اور فکری محاذ کا مطالعہ نہ کیا جائے، دراصل مابعد جدیدیت اصولاً جبر و اکراہ کے خلاف ہے اور یہ نظریہ ہی تمام نظریوں کے احترام کا قائل ہے اور وہ غالباً اس لیے بھی کہ یہ معاشی محاذ پر غیرلچکدار ہونے کی وجہ سے ثقافتی محاذ میں لچک اور نرمی کو ممکن بنانا چاہتا ہے، اس لیے ترقی پسند فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ''اپنی معیشت اپنا راج'' کے نعرے کے ساتھ جدیدیت کے سابق وکلاء کی طرف سے مابعد جدیدیت کے نظریے کے تحت ترقی پسند ادب اورثقافت کے لیے جس کشادگی نظر کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اسے یکسر نظرانداز کردینا مناسب نہیں ہوگا۔
عالمی ادارے ہم سے کسی نوع کی مطابقت چاہتے ہیں لیکن ہمارے اختیار میں کچھ نہ ہونے پر بھی اپنی آزادانہ فکر پر کاربند رہنے کا اختیار موجود رہنا چاہیے۔ خاص طور پر ایک ایسی صورت حال میں جب کمزور
اور پس ماندہ طبقات کی وکالت اور اس طبقہ کی کفالت کا داعیہ G.A.T.T کی زد پر ہے، اور اسے غالباً غیر پیداواری سمجھ کر شمارکیا جارہا ہے ۔