جرم کیا تھا

یااللہ ! اس شہر بے اماں میں کون محفوظ ہے؟ جب اظفر رضوی جیسا شخص گولیوں سے بھون دیا جائے...

یااللہ ! اس شہر بے اماں میں کون محفوظ ہے؟ جب اظفر رضوی جیسا شخص گولیوں سے بھون دیا جائے، خون میں نہلادیا جائے، جو۔۔۔۔اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے، کے فارمولے پر چلنے اور عمل کرنے والا انسان تھا تو پھر دوسروں کا کون پرسان حال ہوگا؟

اس جمعے کی شب ایک چینل پر اچانک نظر پڑی تو چلتی ہوئی کلپ پر اظفر رضوی کا نام نظر آیا۔ ''اظفر رضوی فائرنگ میں جاں بحق' ان کا ڈرائیور شدید زخمی۔''

''نہیں۔۔۔۔!'' بے ساختہ منہ سے نکلا۔ ''یہ درست خبر نہیں ہے، اسے بھلا کون مارے گا؟ اس کا کسی سے کیا لینا دینا؟ نہ وہ تین میں نہ تیرہ میں، کسی سیاسی یا تنظیمی گروہ سے اس کا دور سے بھی واسطہ نہیں۔''

مگر جب میری بے چین انگلی دیگر چینلوں کو ریموٹ کنٹرول سے کھنگالنے لگی تو ہر جگہ وہی دلخراش خبر میرے دل و دماغ پر کچوکے لگا رہی تھی۔ میرے یقین اور میری سوچ کی نفی کر رہی تھی۔ وہ رات اور اگلا دن میرے لیے کتنا کربناک تھا میں بتا نہیں سکتا۔ رات جیسے انگاروں پر لوٹتے گزری۔ اور دن بھر وہ بے چینی کا عالم تھا کہ کچھ نہ پوچھیے۔ (یہ بے کلی اور بے چینی اب تک قائم ہے)۔

اظفر رضوی، میرا کوئی عزیز، رشتے دار یا دوست نہیں تھا۔ اس سے تو میرا بس وہی ناتا تھا جو ہر اچھے انسان سے ہوتا تھا۔ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح، میں بھی اس کی بہت سی اچھائیوں سے واقف تھا۔ اس کی یہ خوبیاں ہی تھیں، جنہوں نے مجھے اپنے چاہنے والوں کی صف میں شمار کرلیا تھا۔ وہ ادیب نہیں تھا، شاعر نہیں تھا، مگر ادیبوں، شاعروں سے محبت کرتا تھا، ان کی عزت و تکریم کے لیے ادبی محفلیں سجایا کرتا تھا، اس نے دائرہ ادب و ثقافت انٹرنیشنل کے نام سے جو ادارہ قائم کیا تھا اس کے تحت اس نے نامور ادیبوں، شاعروں اور دیگر اہم شخصیتوں کے ساتھ شامیں منائیں۔ جن میں ڈاکٹر عشرت العباد خان، گلشن آراسید، حمایت علی شاعر، تابش دہلوی، خالد علیگ، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر ابوالخیرکشفی، شوکت صدیقی، آفاق صدیقی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔

شاموں کے علاوہ اس نے معاشرے کے سلگتے ہوئے موضوعات پر سیمینارز اور مذاکروں کا بھی انعقاد کیا۔ جن کے موضوعات کچھ اس طرح کے تھے ''کاروکاری کا خاتمہ اور اہل قلم کی ذمے داریاں''۔ ''اسلامی
اقدار کے فروغ میں ادب کا کردار''۔ ''پاک بھارت تعلقات اور اہل قلم کی ذمے داریاں''۔ ''عالمی امن میں اہل قلم کا کردار''۔ ''تحریک پاکستان میں اہل قلم کا کردار'' ۔ ''اردو اور عصری تقاضے''۔ ''ادب اور صحافت کا معاشرے کی تشکیل میں کردار''۔

ادیب و شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ادب و ثقافت سے اتنا گہرا لگاؤ اس لیے تھا کہ اس کا تعلق ایک بڑے علمی خانوادے سے تھا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ علامہ تمنا عمادی، اظفر رضوی کے نانا تھے۔

برصغیر کے مسلمانوں میں بے شمار بلند پایا عالم، مفسر، محدث، فقیہ، محقق، ناقد، مختلف زبانوں کے ماہر، شاعر ، ادیب، مصنف، مبلغ، واعظ اور صاحب اخلاق و تقویٰ ہوئے۔ کوئی ایک شخص جو، ان تمام صفات و کمالات کا جامع ہو، سوائے علامہ تمنا عمادی کے اور کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ ہر علم وفن میں بے مثال و منفرد تھے۔ عربی، فارسی اور اردو پر یکساں ماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے سو سے زیادہ نہایت اہم اور گراں قدر کتابیں لکھیں۔

جب کہ اس کے دادا پٹنہ (بہار) کے معروف حکیم اور ادبی شخصیت تھے۔ والد محترم سید احمد رضوی بھی صاحب طرز شاعر تھے۔

علامہ تمنا عمادی کے ادبی، لسانی اور علم و دانش کے معترف نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر عندلیب شادمانی اورماہر القادری کے علاوہ بہت سے جید ادباء اور شعراء تھے۔ ایسے نابغہ روزگار ادیب و شاعر کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ادب و ثقافت سے رغبت ایک فطری بات تھی۔ اس نے اپنی تعمیروترقی کے لیے قلم نہیں سنبھالا مگر قلم کاروں کی خدمت اور ادب و ثقافت کی آبیاری کو اپنی زندگی کا مشن ضرور بنایا۔


علامہ تمنا عمادی 1969 میں اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی آگئے تھے۔ جب کہ اظفر رضوی ڈھاکہ ہی میں رہ گئے تھے۔ وہ 15 اپریل 1974 کو کراچی آئے۔

28 مارچ 1958 کو سید احمد رضوی کے گھر ڈھاکہ میں جنم لینے والے سید اظفر رضوی اپنے دس بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر میں تھے۔ اس کے والد ڈی سی اور ایس ڈی ایم بھی رہے۔ ان کو بھی علم و ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ اظفر رضوی نے پرائمری جماعتیں عظیم پورہ کے جی اسکول ڈھاکہ سے پاس کیں۔ جب کہ نیو گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد انٹرمیڈیٹ کے لیے ڈھاکا کالج میں داخلہ لیا۔ مگر وہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکے کیونکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد کچھ لوگ ان کی جان کے دشمن بن گئے تھے۔ کراچی آنے کے بعد اظفر رضوی نے گورنمنٹ نیشنل کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا جب کہ جامعہ کراچی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا۔ اس کے بعد کالج آف مینجمنٹ سائنسز لندن سے شعبہ ایجوکیشن میں ڈپلومہ کیا۔

سید اظفر رضوی جب ڈھاکہ سے کراچی آئے تو ان کی جیب میں صرف دس روپے تھے۔ جب کہ ان کے کاندھوں پر مسائل کا بے پناہ بوجھ تھا۔ اپنی تعلیم کے علاوہ گھر والوں کی فکر، بہنوں کی شادیوں کی ذمے داری، اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی تمنائیں کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے دل و دماغ کو سکون ملے۔

کہتے ہیں کہ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ اظفر رضوی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کی جانب سے ہر حال میں جدوجہد جاری رہی اور مولاکریم اس کی مشکلیں آسان کرتا گیا۔ وہ اپنی اور اپنے گھروالوں کی ذمے داریوں ہی سے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برا نہیں ہوا، اپنے لیے ایک معزز اور معتبر ذریعہ معاش اپنانے میں بھی کامیاب ہوا۔ مگر اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں۔ اس نے دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ لگن اور جستجو ہی تھی کہ اس نے انجمن ترقی اردو، اردو یونیورسٹی اور آرٹس کونسل کے علاوہ کئی اداروں کے لیے اپنی خدمات وقف کر رکھی تھیں۔ علاوہ ازیں علم وادب کی آبیاری کے لیے اپنے ادارہ (دائرہ ادب انٹرنیشنل) کے ذریعے ادب و ثقافت کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ اظفر رضوی کی اس کامیابی کے پیچھے ان کی بیگم کا بھی ہاتھ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ حسینہ رضوی نے قدم قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ ان کی شادی 11 فروری 1983 کو ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب اظفر پڑھ رہے تھے۔ حسینہ بھی اس وقت میٹرک کی طالبہ تھیں۔ دونوں کی ملاقات ایک اسکول میں ہوئی اور بات شادی تک جاپہنچی۔ اظفر رضوی اس وقت پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی کرتے تھے۔ ان دنوں ان کے حالات اتنے خراب تھے کہ بیگم کو منہ دکھائی میں دینے کے لیے انگوٹھی بھی ادھار لی تھی۔ شادی کے بعد ہی دونوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ حسینہ رضوی نے ریگولر اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے ہی تعلیم مکمل کی۔

ان دونوں کے چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹیوں کے نام، شاہین رضوی، سعدیہ رضوی، ام کلثوم رضوی، اور عمارہ رضوی ہیں جب کہ بیٹے سید حسنین رضوی اور سید سبطین رضوی ہیں۔ تمام بچوں کو انھوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے۔

اللہ نے جب انھیں خوش حال کیا تو انھوں نے اپنے سیروسیاحت کا شوق بھی پورا کیا۔ امریکا، اسپین، اٹلی، متحدہ عرب امارات، بھارت، قطر، بحرین، ایران، سنگاپور، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سری لنکا کے علاوہ بھی کئی ممالک کے دورے کیے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اظفر رضوی نے کچھ دنوں تک ایک کالج میں پڑھایا پھر اپنا ذاتی تعلیمی ادارہ بناکر اس کی سرپرستی کرتے رہے۔ شہر قائد میں اظفر رضوی نے علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے میں جو نمایاں کردار ادا کیا وہ انھیں موت کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

اس کا ہر چاہنے والا یہی سوال کرتا ہے کہ ایسا شخص جو سب سے پیار کرتا تھا، سب کے کام آتا تھا، جو علم کی روشنی بکھیرتا تھا، جو مذہبی اور سماجی رواداری کے فروغ کے لیے مثبت اور تعمیری اقدام کیا کرتا تھا، جو انتہائی خوش اخلاق اور خوش اقدار تھا، جو دوستوں کا دوست تھا اور کسی کا بدخواہ نہیں تھا، جو شفیق استاد تھا اور محب وطن پاکستانی تھا، اسے آخر کس جرم میں، اور کس نے اپنی سفاک گولیوں کا نشانہ بنایا؟

میرا ایک شعر ہے:
بے سبب ہوتا نہیں جی کا زیاں
کہ ہے کوئی شخص پس پردہ نہاں

تو اس اندوہناک سانحے کا بھی ایک سبب ہے۔ ایک وجہ ہے اور وجہ ہے پرچی۔ جی ہاں بھتہ مافیا کی طرف سے بھیجی گئی پرچی۔ اب اس میں کہاں تک صداقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر یہ بات قرین قیاس ہے کیونکہ جن لوگوں کا دین دھرم پیسہ ہوتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا ٹارگٹ کون ہے۔
Load Next Story