بدعنوانی کے خلاف جنگ
آج اگر ہم کرپشن کے خلاف جاری جنگ میں شکست کھاتے ہیں، تو پھر ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کی امید کھو بیٹھیں گے۔
اُس رقم کا حساب کتاب کرنے کے لیے، جو پاکستانی عوام کے منتخب نمایندوں نے لوٹی، ان سرکاری ملازمین نے لوٹی، جن کے ذمے اس رقم کی حفاظت تھی، اور اِن صاحبان کے اہل خانہ، رشتے داروں اور دوستوں نے لوٹی، اور اس سے لطف اندوز ہوئے، نیب پنجاب کے روبرو بڑے کیسز کی ایک جامع فہرست موجود ہے۔
اس فہرست میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ ان میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز اور ان کے خاندان کے افراد، اسحاق ڈار، میاں منظوروٹو، علیم خان، مونس الٰہی'پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت سمیت کئی دیگر معروف سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں، احدچیمہ جیسے کئی سرکاری افسر بھی ہیں اور ایڈن اور پیرا گون سوسائٹی سمیت دیگر معروف بلڈرز اور رئیل اسٹیٹ گروپوں کے مالکان کے نام بھی شامل ہیں۔
سن 2017ء سے اب تک نیب کی جانب سے جو 1533 وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، ان میں سے 1074میں گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ 1958ء میں سے 1754 انکوائریز نمٹائی گئیں۔اسی عرصے میں 1125 میںسے 1064 انویسٹی گیشنز نمٹائی جاچکی ہیں، جب کہ دائر کیے جانے والے 723ریفرنسز میں سے 345 کا فیصلہ ہوا۔سزا کی شرح 74 فی صد رہی اور گزشتہ دو برس میں 3184 ملین ری کور کیے گئے۔جب کہ سن 2000ء سے 2016ء کے درمیان، یعنی سولہ برس میں ریکور ہونے والی رقم 1874.59 ملین تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ آج اگر ہم کرپشن کے خلاف جاری جنگ میں شکست کھاتے ہیں، تو پھر ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کی امید کھو بیٹھیں گے۔ پاکستانی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر گئی ہے۔یہی سبب ہے کہ جب کبھی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے، بدعنوان عناصر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ بے شک وہ اپنی کرپشن چھپانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔کیوں کہ اگر ان کی بدعنوانی عوام کی سامنے آگئی، تو وہ سیاسی عہدوں اور اپنے منافع بخش کاروبار سے، جس کے پس پردہ کرپشن ہی ہے،محروم ہوجائیں گے۔
ایسے میں جو افراد احتساب کے ذمے دار ہیں، ان کی کردار کشی ان حضرات کا پسندیدہ ہتھیارہے۔ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دراصل مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف پر عائد الزامات کی تفتیش نے پارٹی کی قیادت کو بوکھلا دیا۔ نواز شریف کے جانے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز شریف بھی پارٹی قیادت سے محروم ہوجائیں۔
تو ایسے میں موزوں ہتھکنڈا یہی ہے کہ تفتیش کار کی، جس کا کردار اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد پر کوئی دو رائے نہیں، بھرپور کردار کشی کی جائے۔شہزاد سلیم، جو اس وقت اپنی ساکھ کے لیے برسرپیکار ہیں،عوام میں گئے، جو ان کا بہ طور شہری حق ہے اور انھوں نے اپنے اوپر عائد الزامات کا مختلف ٹی وی چینلز پر دفاع کیا۔ اس دوران انھوں نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں جھوٹے الزامات عائد کرکے نیب کی انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نیب کے پاس شہباز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے خاصا مواد ہے اور یہ مرحلہ نومبر کے آخر تک طے ہوجائے گا۔
شہباز شریف کے خلاف جاری نیب کی تفتیش اور شہزاد سلیم کے ڈگری سے متعلق کیس کا جو بھی نتیجہ آئے، جن پر الزام ہے، وہ اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کے سامنے جانے کا بھی اختیار ہے۔شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے پہل کی، جسے میڈیا میں قبول کیا گیا، اس سے سلیم کے لیے بھی ردعمل دینے کی راہ کا تعین ہوگیا۔اگر ان کیسز کو پیش نظر رکھا جائے، جن کی تفتیش مستقبل قریب میں ہونی ہے، تو یوں لگتا ہے کہ یہ کردار کشی اور الزامات کی بوچھاڑ فقط ابتدا ہے۔
اس طرح کی صورت حال میں بدعنوانی کی تفتیش کرنے والے افراد کادفاع ضروری ہوجاتاہے۔جھوٹے الزامات ملکی واسلامی قوانین کے تحت قابل گرفت ہیں۔ دروغ بیانی کے خلاف قانونی طریقہ کار اختیار کیا جاناچاہے۔ ساتھ ہی کالم نگاروں کے معاملے میں بھی مجسٹریٹ کے سامنے حلف کا کوئی طریقہ وضع ہونا چاہیے، تاکہ دورغ بیانی کا سلسلہ تھمے۔ جو لوگ جھوٹے الزات عائد کر رہے ہیں، ان کے خلاف ٹھوس اور جامع کارروائی ضروری ہے، تاکہ ان افراد کا دفاع کیا جاسکے، جو کرپشن کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
سپریم کرٹ کے ذمے پاکستانی عوام کی حفاظت ہے، ان طور طریقوں سے، جسے منتخب افراد استعمال کر رہے ہیں اپنی بدعنوانی اور وہ غیرقانونی دولت چھپانے کے لیے جو انھوں نے عوام ہی سے لوٹی۔یہ رقم میڈیا، افسران اور سیاستدانوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان، جنھیں اپنی شان دار کارکردگی کے لیے خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے، اور جن کا راقم معترف ہے، انھوں نے ایک جگہ ملزمان کی عزت و احترام کا ذکر کیا۔بصد احترام، میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ وہ جن کے خلاف بادی النظر میں مقدمات قائم ہوگئے ہیں، ان کے معاملات کو عوام سے دور نہیں رکھنا چاہیے، تاکہ وہ باثر افراد جن کے کیس زیر تفتیش ہیں، اُن کے خلاف شکایات اور شواہد رکھنے والے افراد سامنے آسکیں۔
بدعنوان عناصر ہر ممکن طریقے سے، احتساب کے عمل میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں۔ شہزاد سلیم ہمارے سامنے اس کی مثال ہے کہ ہمیں ان عناصر کو کیوں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
(فاضل مصنف ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)
اس فہرست میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ ان میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز اور ان کے خاندان کے افراد، اسحاق ڈار، میاں منظوروٹو، علیم خان، مونس الٰہی'پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت سمیت کئی دیگر معروف سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں، احدچیمہ جیسے کئی سرکاری افسر بھی ہیں اور ایڈن اور پیرا گون سوسائٹی سمیت دیگر معروف بلڈرز اور رئیل اسٹیٹ گروپوں کے مالکان کے نام بھی شامل ہیں۔
سن 2017ء سے اب تک نیب کی جانب سے جو 1533 وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، ان میں سے 1074میں گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ 1958ء میں سے 1754 انکوائریز نمٹائی گئیں۔اسی عرصے میں 1125 میںسے 1064 انویسٹی گیشنز نمٹائی جاچکی ہیں، جب کہ دائر کیے جانے والے 723ریفرنسز میں سے 345 کا فیصلہ ہوا۔سزا کی شرح 74 فی صد رہی اور گزشتہ دو برس میں 3184 ملین ری کور کیے گئے۔جب کہ سن 2000ء سے 2016ء کے درمیان، یعنی سولہ برس میں ریکور ہونے والی رقم 1874.59 ملین تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ آج اگر ہم کرپشن کے خلاف جاری جنگ میں شکست کھاتے ہیں، تو پھر ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کی امید کھو بیٹھیں گے۔ پاکستانی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر گئی ہے۔یہی سبب ہے کہ جب کبھی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے، بدعنوان عناصر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ بے شک وہ اپنی کرپشن چھپانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔کیوں کہ اگر ان کی بدعنوانی عوام کی سامنے آگئی، تو وہ سیاسی عہدوں اور اپنے منافع بخش کاروبار سے، جس کے پس پردہ کرپشن ہی ہے،محروم ہوجائیں گے۔
ایسے میں جو افراد احتساب کے ذمے دار ہیں، ان کی کردار کشی ان حضرات کا پسندیدہ ہتھیارہے۔ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دراصل مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف پر عائد الزامات کی تفتیش نے پارٹی کی قیادت کو بوکھلا دیا۔ نواز شریف کے جانے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز شریف بھی پارٹی قیادت سے محروم ہوجائیں۔
تو ایسے میں موزوں ہتھکنڈا یہی ہے کہ تفتیش کار کی، جس کا کردار اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد پر کوئی دو رائے نہیں، بھرپور کردار کشی کی جائے۔شہزاد سلیم، جو اس وقت اپنی ساکھ کے لیے برسرپیکار ہیں،عوام میں گئے، جو ان کا بہ طور شہری حق ہے اور انھوں نے اپنے اوپر عائد الزامات کا مختلف ٹی وی چینلز پر دفاع کیا۔ اس دوران انھوں نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں جھوٹے الزامات عائد کرکے نیب کی انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نیب کے پاس شہباز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے خاصا مواد ہے اور یہ مرحلہ نومبر کے آخر تک طے ہوجائے گا۔
شہباز شریف کے خلاف جاری نیب کی تفتیش اور شہزاد سلیم کے ڈگری سے متعلق کیس کا جو بھی نتیجہ آئے، جن پر الزام ہے، وہ اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کے سامنے جانے کا بھی اختیار ہے۔شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے پہل کی، جسے میڈیا میں قبول کیا گیا، اس سے سلیم کے لیے بھی ردعمل دینے کی راہ کا تعین ہوگیا۔اگر ان کیسز کو پیش نظر رکھا جائے، جن کی تفتیش مستقبل قریب میں ہونی ہے، تو یوں لگتا ہے کہ یہ کردار کشی اور الزامات کی بوچھاڑ فقط ابتدا ہے۔
اس طرح کی صورت حال میں بدعنوانی کی تفتیش کرنے والے افراد کادفاع ضروری ہوجاتاہے۔جھوٹے الزامات ملکی واسلامی قوانین کے تحت قابل گرفت ہیں۔ دروغ بیانی کے خلاف قانونی طریقہ کار اختیار کیا جاناچاہے۔ ساتھ ہی کالم نگاروں کے معاملے میں بھی مجسٹریٹ کے سامنے حلف کا کوئی طریقہ وضع ہونا چاہیے، تاکہ دورغ بیانی کا سلسلہ تھمے۔ جو لوگ جھوٹے الزات عائد کر رہے ہیں، ان کے خلاف ٹھوس اور جامع کارروائی ضروری ہے، تاکہ ان افراد کا دفاع کیا جاسکے، جو کرپشن کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
سپریم کرٹ کے ذمے پاکستانی عوام کی حفاظت ہے، ان طور طریقوں سے، جسے منتخب افراد استعمال کر رہے ہیں اپنی بدعنوانی اور وہ غیرقانونی دولت چھپانے کے لیے جو انھوں نے عوام ہی سے لوٹی۔یہ رقم میڈیا، افسران اور سیاستدانوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان، جنھیں اپنی شان دار کارکردگی کے لیے خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے، اور جن کا راقم معترف ہے، انھوں نے ایک جگہ ملزمان کی عزت و احترام کا ذکر کیا۔بصد احترام، میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ وہ جن کے خلاف بادی النظر میں مقدمات قائم ہوگئے ہیں، ان کے معاملات کو عوام سے دور نہیں رکھنا چاہیے، تاکہ وہ باثر افراد جن کے کیس زیر تفتیش ہیں، اُن کے خلاف شکایات اور شواہد رکھنے والے افراد سامنے آسکیں۔
بدعنوان عناصر ہر ممکن طریقے سے، احتساب کے عمل میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں۔ شہزاد سلیم ہمارے سامنے اس کی مثال ہے کہ ہمیں ان عناصر کو کیوں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
(فاضل مصنف ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)