ای چالان کا ڈنڈا
ڈرائیوروں کو ڈسپلن پر مجبور کرنے کے لیے ای چالان نقطہ آغاز ہے۔
ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر ای چالان جب سے گھروں میں آنے شروع ہوئے ہیں لاہور کی سڑکوں پر کاریں اور موٹر سائیکلیں چلانے والے قدرے ڈسپلن میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔
آپ رات کے تین بجے بھی کسی سڑک سے گزریں تو یہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ لال بتی پر ڈرائیور اپنی گاڑیوں کو زیبرا کراسنگ سے بھی کہیں پیچھے کھڑی کر کے اطمینان سے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب تک ای چالان کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ڈرائیور حضرات دن دہاڑے بھی اشارہ توڑنے کی واردات کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ زیبرا کراسنگ کو پیدل افراد کے لیے خالی چھوڑنا تو ان کی سرشت میں سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔
وہ کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈنڈے سے بڑا ''پیر'' کوئی نہیں ہے۔ سزا کا خوف نہ ہو تو قانون کی پاسداری کون کرے گا۔ الیکٹرانک چالان سے پہلے اگر کبھی رات کو کسی ریڈ سگنل پر گاڑی روکنے کی ''غلطی'' ہوتی تو پیچھے سے آنے والے ہارن بجا کر آپ کی مت مار دیتے تھے۔
اب یوں لگتا ہے کہ وہ لوگ شاید شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ چند دن پہلے ایک دوست ملاقات کے لیے آیا تو کہنے لگا یار رنگ روڈ پر بھی اوور اسپیڈنگ کی غلطی نہ کرنا۔ میں نے اس سے کہا ظاہر ہے وہاں پولیس والے کیمرے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے احتیاط تو کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے، رنگ روڈ پر جو کیمرے لگے ہوئے ہیں وہی کافی ہیں۔ اس کا اپنا چالان انھی کیمروں کی وجہ سے ہو چکا ہے اس لیے مجھے چوکنا کرنا ضروری سمجھا۔
ای چالان کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو مجھے آسٹریا کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میرے ایک دوست آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے 100کلومیٹر دور Horn''ہارن'' شہر میں رہتے ہیں۔ ''ہارن'' شہر چیک ریپبلک کی سرحد سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ تین سال پہلے میں بیگم کے ساتھ ان کی فیملی سے ملاقات کے لیے وہاں گیا تھا۔ ان کے ہاں قیام کے بعد جب مجھے ویانا واپس آنا تھا تو انھوں نے ہم دونوں کو اپنی کار میں بٹھایا اور گھر سے 100کلومیٹر دور ایئرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے چل پڑے۔ ''ہارن'' چونکہ زیادہ ترقی یافتہ شہر نہیں ہے اس لیے جب ہم وہاں سے نکلے تو ایک سنگل سڑک تھی جس پر ٹریفک دونوں طرف سے آ جا رہی تھی۔ سڑک اگرچہ سنگل تھی مگر نظارے اتنے ہی خوبصورت تھے جتنے یورپ کے دیگر علاقوں میں ہوتے ہیں۔
سرسبز اونچے پہاڑ، درختوں کے جھنڈ اور گندم کی فصل، سب کچھ جیسے ایک ترتیب سے چل رہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ کافی اونچے پہاڑ پر ایک پختہ مکان نظر آیا۔ مکان صرف ایک ہی تھا اس لیے مجھے پوچھنا پڑا کہ اتنے اونچے پہاڑ پر الگ فیملی کس طرح گزارا کرتی ہو گی۔ حافظ نعیم مسکرایا اور اس نے کہا کہ فیملی ایک ہو یا زیادہ اسے کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔ اس نے بتایا کہ اس طرح کے مکان میں تب تک فیملی شفٹ نہیں ہوتی جب تک اسے تمام سہولیات سرکار نے مہیا نہیں کر دی ہوں گی۔
ان سہولیات میں بجلی، پانی، گیس، سیوریج، فون حتیٰ کی وائی فائی بھی شامل ہیں۔ تب مجھے اپنے بڑے بڑے شہروں کے وہ پسماندہ علاقے یاد آئے جہاں سرے سے کوئی سہولت موجود ہی نہیں۔ مگر لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان قسمت کے ماروں کی نسبت یورپ میں جانور زیادہ آرام دہ ماحول میں رہتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم ہمیشہ یورپ کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ ان کے پیشرو بھی لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے کرتے کرتے نیب کی تحویل میں چلے گئے۔ یورپ والوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر علاقے کو اس کی ضرورت کے مطابق ترقی دیتے ہیں۔
''ہارن'' سے ہم سنگل سڑک پر چلنا شروع ہوئے تھے کیونکہ وہاں ٹریفک کم تھی۔ سفر کٹتا گیا اور جیسے ہی ٹریفک میں کچھ اضافہ ہوا روڈ ڈبل ہو گئی۔ پہلے اکا دکا گاڑیاں تھیں، اب ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔ 25، تیس کلومیٹر کے بعد ہماری گاڑی اچانک موٹر وے پر چڑھ گئی۔ تب مجھے خیال آیا کہ کوئی ٹال پلازہ تو آیا نہیں جہاں پر پے منٹ کرنا پڑی ہو تو پھر یہ کس قسم کی موٹر وے ہے۔ میں نے بے اختیار پوچھ لیا، یار یہاں موٹر وے پر پیسے نہیں دینے پڑتے۔
میرا دوست میری جہالت پر ایک بار پھر مسکرایا۔ اس نے ونڈ اسکرین کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ دیکھویہاں ایک اسٹکر چسپاں ہے۔ وہاں واقعی ایک اسٹکر لگا ہوا تھا۔ وہ اسٹکر لگوانے کے لیے سال بھر کے 60یورو دینا پڑتے ہیں۔ اگر کوئی کار اس اسٹکر کے بغیر موٹر وے پر چڑھے تو اسے 600 یورو جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ سال کے 60یورو دینا ٹھیک ہے یا نہ دے کر دس گنا جرمانہ ادا کرنا درست۔ معاشرہ کوئی بھی ہو، اس میں بسنے والی قوم جو بھی ہو اسے قانون پر عملدرآمد پر اسی طرح مجبور کیا جا سکتا ہے۔
ڈرائیوروں کو ڈسپلن پر مجبور کرنے کے لیے ای چالان نقطہ آغاز ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن مبین شہید نے لائن اور لین کی پابندی کرانے کے لیے بڑی محنت کی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ لاہور میں ٹریفک کے مسائل سے جان چھڑائی جائے۔ وہ زندہ ہوتے تو آج اس تھوڑی بہت بہتری پر یقیناً بہت خوش ہوتے۔ درختوں کی قربانی دے کر سڑکیں کشادہ کرنے یا ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھرمار سے ٹریفک بہتر نہیں کی جا سکتی۔
ابھی لین اور لائن کی خلاف ورزی اور اووراسپیڈنگ پر بھی ای چالان کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ای چالان سے تو تو، میں میں کی تکرار ختم ہوئی اور رشوت کا بازار بھی بند ہو گیا۔ یہ سلسلہ پورے ملک تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لاہور سے آغاز ہو گیا، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کو بھی یہ ''سہولت '' دینے کی ضرورت ہے۔ ای چالان کا کمال سب جگہ پہنچنا چاہیے۔
ای چلان ایک ایسا ڈنڈا ہے جو نظر تو نہیں آتا مگر اس کا وار بہت کاری ہے۔
آپ رات کے تین بجے بھی کسی سڑک سے گزریں تو یہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ لال بتی پر ڈرائیور اپنی گاڑیوں کو زیبرا کراسنگ سے بھی کہیں پیچھے کھڑی کر کے اطمینان سے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب تک ای چالان کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ڈرائیور حضرات دن دہاڑے بھی اشارہ توڑنے کی واردات کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ زیبرا کراسنگ کو پیدل افراد کے لیے خالی چھوڑنا تو ان کی سرشت میں سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔
وہ کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈنڈے سے بڑا ''پیر'' کوئی نہیں ہے۔ سزا کا خوف نہ ہو تو قانون کی پاسداری کون کرے گا۔ الیکٹرانک چالان سے پہلے اگر کبھی رات کو کسی ریڈ سگنل پر گاڑی روکنے کی ''غلطی'' ہوتی تو پیچھے سے آنے والے ہارن بجا کر آپ کی مت مار دیتے تھے۔
اب یوں لگتا ہے کہ وہ لوگ شاید شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ چند دن پہلے ایک دوست ملاقات کے لیے آیا تو کہنے لگا یار رنگ روڈ پر بھی اوور اسپیڈنگ کی غلطی نہ کرنا۔ میں نے اس سے کہا ظاہر ہے وہاں پولیس والے کیمرے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے احتیاط تو کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے، رنگ روڈ پر جو کیمرے لگے ہوئے ہیں وہی کافی ہیں۔ اس کا اپنا چالان انھی کیمروں کی وجہ سے ہو چکا ہے اس لیے مجھے چوکنا کرنا ضروری سمجھا۔
ای چالان کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو مجھے آسٹریا کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میرے ایک دوست آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے 100کلومیٹر دور Horn''ہارن'' شہر میں رہتے ہیں۔ ''ہارن'' شہر چیک ریپبلک کی سرحد سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ تین سال پہلے میں بیگم کے ساتھ ان کی فیملی سے ملاقات کے لیے وہاں گیا تھا۔ ان کے ہاں قیام کے بعد جب مجھے ویانا واپس آنا تھا تو انھوں نے ہم دونوں کو اپنی کار میں بٹھایا اور گھر سے 100کلومیٹر دور ایئرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے چل پڑے۔ ''ہارن'' چونکہ زیادہ ترقی یافتہ شہر نہیں ہے اس لیے جب ہم وہاں سے نکلے تو ایک سنگل سڑک تھی جس پر ٹریفک دونوں طرف سے آ جا رہی تھی۔ سڑک اگرچہ سنگل تھی مگر نظارے اتنے ہی خوبصورت تھے جتنے یورپ کے دیگر علاقوں میں ہوتے ہیں۔
سرسبز اونچے پہاڑ، درختوں کے جھنڈ اور گندم کی فصل، سب کچھ جیسے ایک ترتیب سے چل رہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ کافی اونچے پہاڑ پر ایک پختہ مکان نظر آیا۔ مکان صرف ایک ہی تھا اس لیے مجھے پوچھنا پڑا کہ اتنے اونچے پہاڑ پر الگ فیملی کس طرح گزارا کرتی ہو گی۔ حافظ نعیم مسکرایا اور اس نے کہا کہ فیملی ایک ہو یا زیادہ اسے کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔ اس نے بتایا کہ اس طرح کے مکان میں تب تک فیملی شفٹ نہیں ہوتی جب تک اسے تمام سہولیات سرکار نے مہیا نہیں کر دی ہوں گی۔
ان سہولیات میں بجلی، پانی، گیس، سیوریج، فون حتیٰ کی وائی فائی بھی شامل ہیں۔ تب مجھے اپنے بڑے بڑے شہروں کے وہ پسماندہ علاقے یاد آئے جہاں سرے سے کوئی سہولت موجود ہی نہیں۔ مگر لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان قسمت کے ماروں کی نسبت یورپ میں جانور زیادہ آرام دہ ماحول میں رہتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم ہمیشہ یورپ کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ ان کے پیشرو بھی لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے کرتے کرتے نیب کی تحویل میں چلے گئے۔ یورپ والوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر علاقے کو اس کی ضرورت کے مطابق ترقی دیتے ہیں۔
''ہارن'' سے ہم سنگل سڑک پر چلنا شروع ہوئے تھے کیونکہ وہاں ٹریفک کم تھی۔ سفر کٹتا گیا اور جیسے ہی ٹریفک میں کچھ اضافہ ہوا روڈ ڈبل ہو گئی۔ پہلے اکا دکا گاڑیاں تھیں، اب ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔ 25، تیس کلومیٹر کے بعد ہماری گاڑی اچانک موٹر وے پر چڑھ گئی۔ تب مجھے خیال آیا کہ کوئی ٹال پلازہ تو آیا نہیں جہاں پر پے منٹ کرنا پڑی ہو تو پھر یہ کس قسم کی موٹر وے ہے۔ میں نے بے اختیار پوچھ لیا، یار یہاں موٹر وے پر پیسے نہیں دینے پڑتے۔
میرا دوست میری جہالت پر ایک بار پھر مسکرایا۔ اس نے ونڈ اسکرین کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ دیکھویہاں ایک اسٹکر چسپاں ہے۔ وہاں واقعی ایک اسٹکر لگا ہوا تھا۔ وہ اسٹکر لگوانے کے لیے سال بھر کے 60یورو دینا پڑتے ہیں۔ اگر کوئی کار اس اسٹکر کے بغیر موٹر وے پر چڑھے تو اسے 600 یورو جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ سال کے 60یورو دینا ٹھیک ہے یا نہ دے کر دس گنا جرمانہ ادا کرنا درست۔ معاشرہ کوئی بھی ہو، اس میں بسنے والی قوم جو بھی ہو اسے قانون پر عملدرآمد پر اسی طرح مجبور کیا جا سکتا ہے۔
ڈرائیوروں کو ڈسپلن پر مجبور کرنے کے لیے ای چالان نقطہ آغاز ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن مبین شہید نے لائن اور لین کی پابندی کرانے کے لیے بڑی محنت کی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ لاہور میں ٹریفک کے مسائل سے جان چھڑائی جائے۔ وہ زندہ ہوتے تو آج اس تھوڑی بہت بہتری پر یقیناً بہت خوش ہوتے۔ درختوں کی قربانی دے کر سڑکیں کشادہ کرنے یا ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھرمار سے ٹریفک بہتر نہیں کی جا سکتی۔
ابھی لین اور لائن کی خلاف ورزی اور اووراسپیڈنگ پر بھی ای چالان کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ای چالان سے تو تو، میں میں کی تکرار ختم ہوئی اور رشوت کا بازار بھی بند ہو گیا۔ یہ سلسلہ پورے ملک تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لاہور سے آغاز ہو گیا، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کو بھی یہ ''سہولت '' دینے کی ضرورت ہے۔ ای چالان کا کمال سب جگہ پہنچنا چاہیے۔
ای چلان ایک ایسا ڈنڈا ہے جو نظر تو نہیں آتا مگر اس کا وار بہت کاری ہے۔