مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ سیکریٹری داخلہ درج کرائینگے
خصوصی عدالت3 ججز پر مشتمل ہوگی، ہائی ٹریژن ایکٹ کے تحت سزا موت یا عمر قید ہے، اے کے ڈوگر
نواز شریف حکومت کی جانب سے آئین توڑنے کے الزام میں پہلی بارقانون توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کے فیصلے سے آئین کا آرٹیکل 6پہلی بار عملی طور پر متحرک ہوا ہے۔
، ابھی تک اس پر نظریاتی ، آئینی ، قانونی اور سیاسی بحث ہوتی رہی ہے اور خود ہائی ٹریژن ایکٹ1973 (غداری کی دفعات) میں اسے 23مارچ1956 سے موثرقراردیا گیا ہے ، وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ میں اعلان اور اٹارنی جنرل پاکستان منیر اے ملک کی جانب سے سپریم کورٹ میں حکومت کا موقف پیش کیے جانے کے بعد پہلی بار آئین کے آرٹیکل6کے عملی اطلاق کے راستے کھلے ہیں، مختلف ماہرین آئین وقانون کا موقف ہے کہ غداری کے اس مقدمے کی سماعت کیلیے وفاقی سیکریٹری داخلہ کی جانب سے شکایت درج کرائی جائیگی ۔
جس کی بنیاد پر متعلقہ عدالت اس مقدمے کی سماعت کا آغاز کریگی ، اٹارنی جنرل منیر اے ملک کی جانب سے خصوصی غیر جانبدارانہ پراسیکیوشن اور تفتیشی ایجنسی کے بارے میں بھی اظہار خیال کیاگیا ہے ، تاہم ہائی ٹریژن (پنشمنٹ ) ایکٹ 1973میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق کوئی عدالت اس جرم کے بارے میں کارروائی نہیں کرسکتی جب تک وفاقی حکومت اپنی جانب سے نامزدکردہ شخص تحریری شکایت نہ کرے ، ایکٹ کی اس عبارت میں سیکریٹری داخلہ کواس سلسلے میں مخصوص نہیں کیاگیا،اسی طرح ماہرین کے مطابق کسی آزادانہ ایجنسی کے بجائے ایف آئی اے ہی اس مقدمے میں تفتیش کا اختیار رکھتی ہے ، بعض ماہرین کا موقف ہے کہ غداری کے اس مقدمے کی سماعت کیلیے خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا جائیگا، تاہم ممتازماہر قانون رشید اے رضوی کا موقف ہے کہ قواعدکے مطابق ایسا جرم جس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہووہ کیس سیشن عدالت کے دائرہ کارمیں آتا ہے ،ہائی ٹریژن ایکٹ میں اس جرم کی سزا پھانسی یا عمر قید مقررکی گئی ہے۔
اس لیے جنرل پرویز مشرف کیخلاف غداری کے اس مقدمے کی شکایت وفاقی حکومت کے نامزد کردہ شخص کی مدعیت میں سیشن جج اسلام آباد میں درج کرائی جائیگی،یہ بنیادی قاعدہ ہے ، تاہم غیرمعمولی حالات میں اعلیٰ عدالتیں بعض مقدمات کو براہ راست سننے کا بھی اختیار رکھتی ہیں جیسا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ہواتھا ، تاہم یہ بنیادی قواعد سے ہٹ کرغیر معمولی اقدام ہوتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار1973کے آئین تخلیق کرنے والوں کی مرضی اور منشا کے مطابق آرٹیکل6کے اطلاق کا موقع بالآخرآ گیا ہے۔ اتفاق رائے سے منظور ہونے والے پاکستان کے منشور کا مقصد جمہوریت کا تحفظ تھا جو بوجوہ نہ ہو پایا اور ایک کے بعد دوسرا آمر آرٹیکل6کی موجودگی کے باوجود آئین کو پس پشت ڈالتا گیا۔
لیکن اس آرٹیکل کے اطلاق کا آغاز واحد زندہ ڈکٹیٹر پرویزمشرف سے ہو نے جارہا ہے۔ آرٹیکل6 کے تحت آئین کو توڑنے، معطل کرنے یا ختم کرنے کے الزام میں مقدمہ، سنگین غداری کے قانون مجریہ1973 کے تحت درج ہوگا اور اسکے ٹرائل کے لیے اسپیشل کورٹ ایکٹ مجریہ 1976کے تحت خصو صی عدالت بنے گی۔ حکومت1994کے نوٹیفکیشن کے مطابق سیکریٹری داخلہ کو مستغیث کی حثیت سے شکایت کا اندارج کرانے کاکہے گی، گوکہ بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کیلیے طریقہ کارکے بارے وکلا میں اختلاف پا یا جاتا ہے تاہم آئینی معاملات میں عبور رکھنے والے اکثریتی وکلا کاموقف ہے کہ سنگین غداری میں مقدمہ چلانے کیلیے قانون اور طریقہ کار موجود ہے اور پارلیمنٹ کو اس بارے مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں۔
بغاوت کیس میں درخواست گزاروں کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا ہے پارلیمنٹ نے غداری کے ملزم کیخلاف قانونی چارہ جوئی کیلیے1973میں ہائی ٹریژن ایکٹ کے نام سے قانون منظور کیا ہے جس میں غداری کے مجرم کے لیے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اے کے ڈوگر نے ایکسپریس کو بتایا پارلیمنٹ نے 1976میں اسپیشل کورٹ ایکٹ کے نام سے ایک اور قانون منظور کیا جس کے تحت بغاوت کے ملزم کے ٹرائل کے لیے ایک خصو صی عدالت بنے گی، یہ عدالت ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ہوگی اسپیشل کورٹ کے جج کسی ایک یا مختلف ہائی کورٹوں کے ہوسکتے ہیں اور ان کی تقرری وفاقی حکومت کرے گی۔ انھوں نے مزید بتایا حکومت نے 1994میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی سیکریٹری داخلہ کوغداری کے ملزم کے خلاف شکایت کے اندارج کااختیار دیا ہے وہ مجاز اتھارٹی کی حثیت سے مستغیث کے طور پر شکایت درج کریں گے۔ اے کے ڈوگر نے بتایا اسپیشل کورٹ ملزم کو طلب کرے گی اور شہادتوںکوریکارڈ کریگی۔
انھوں نے بتایا پرویز مشرف کیخلاف شہادتیں ریکارڈ کرنے کا مرحلہ نہیں آئے گا کیونکہ3 نومبر کو انھوں نے آئین معطل کرکے 3 اعلامیے جاری کیے ہیں اور سپریم کورٹ نے اس اقدام کوغیرآئینی قرار دیا ہے اس لیے اسپیشل کورٹ عدالت عظمی کا فیصلہ نطرانداز نہیں کرسکتی۔ حشمت علی حبیب ایڈووکیٹ نے اس سے مختلف رائے دیتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری میں ٹرائل کا طریقہ کار اور سزا پارلیمنٹ طے کرے گی کیونکہ ہائی ٹریژن ایکٹ کے تحت کارروائی ریاست کے باغی کیخلاف ہوتی ہے آئین کے باغی کیخلاف نہیں، انھوں نے کہا سپریم کورٹ نے اس لیے حکومت سے پرویزمشرف کیخلاف ٹرائل کے طریقہ کارکے بارے جواب طلب کیا ہے۔
، ابھی تک اس پر نظریاتی ، آئینی ، قانونی اور سیاسی بحث ہوتی رہی ہے اور خود ہائی ٹریژن ایکٹ1973 (غداری کی دفعات) میں اسے 23مارچ1956 سے موثرقراردیا گیا ہے ، وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ میں اعلان اور اٹارنی جنرل پاکستان منیر اے ملک کی جانب سے سپریم کورٹ میں حکومت کا موقف پیش کیے جانے کے بعد پہلی بار آئین کے آرٹیکل6کے عملی اطلاق کے راستے کھلے ہیں، مختلف ماہرین آئین وقانون کا موقف ہے کہ غداری کے اس مقدمے کی سماعت کیلیے وفاقی سیکریٹری داخلہ کی جانب سے شکایت درج کرائی جائیگی ۔
جس کی بنیاد پر متعلقہ عدالت اس مقدمے کی سماعت کا آغاز کریگی ، اٹارنی جنرل منیر اے ملک کی جانب سے خصوصی غیر جانبدارانہ پراسیکیوشن اور تفتیشی ایجنسی کے بارے میں بھی اظہار خیال کیاگیا ہے ، تاہم ہائی ٹریژن (پنشمنٹ ) ایکٹ 1973میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق کوئی عدالت اس جرم کے بارے میں کارروائی نہیں کرسکتی جب تک وفاقی حکومت اپنی جانب سے نامزدکردہ شخص تحریری شکایت نہ کرے ، ایکٹ کی اس عبارت میں سیکریٹری داخلہ کواس سلسلے میں مخصوص نہیں کیاگیا،اسی طرح ماہرین کے مطابق کسی آزادانہ ایجنسی کے بجائے ایف آئی اے ہی اس مقدمے میں تفتیش کا اختیار رکھتی ہے ، بعض ماہرین کا موقف ہے کہ غداری کے اس مقدمے کی سماعت کیلیے خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا جائیگا، تاہم ممتازماہر قانون رشید اے رضوی کا موقف ہے کہ قواعدکے مطابق ایسا جرم جس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہووہ کیس سیشن عدالت کے دائرہ کارمیں آتا ہے ،ہائی ٹریژن ایکٹ میں اس جرم کی سزا پھانسی یا عمر قید مقررکی گئی ہے۔
اس لیے جنرل پرویز مشرف کیخلاف غداری کے اس مقدمے کی شکایت وفاقی حکومت کے نامزد کردہ شخص کی مدعیت میں سیشن جج اسلام آباد میں درج کرائی جائیگی،یہ بنیادی قاعدہ ہے ، تاہم غیرمعمولی حالات میں اعلیٰ عدالتیں بعض مقدمات کو براہ راست سننے کا بھی اختیار رکھتی ہیں جیسا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ہواتھا ، تاہم یہ بنیادی قواعد سے ہٹ کرغیر معمولی اقدام ہوتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار1973کے آئین تخلیق کرنے والوں کی مرضی اور منشا کے مطابق آرٹیکل6کے اطلاق کا موقع بالآخرآ گیا ہے۔ اتفاق رائے سے منظور ہونے والے پاکستان کے منشور کا مقصد جمہوریت کا تحفظ تھا جو بوجوہ نہ ہو پایا اور ایک کے بعد دوسرا آمر آرٹیکل6کی موجودگی کے باوجود آئین کو پس پشت ڈالتا گیا۔
لیکن اس آرٹیکل کے اطلاق کا آغاز واحد زندہ ڈکٹیٹر پرویزمشرف سے ہو نے جارہا ہے۔ آرٹیکل6 کے تحت آئین کو توڑنے، معطل کرنے یا ختم کرنے کے الزام میں مقدمہ، سنگین غداری کے قانون مجریہ1973 کے تحت درج ہوگا اور اسکے ٹرائل کے لیے اسپیشل کورٹ ایکٹ مجریہ 1976کے تحت خصو صی عدالت بنے گی۔ حکومت1994کے نوٹیفکیشن کے مطابق سیکریٹری داخلہ کو مستغیث کی حثیت سے شکایت کا اندارج کرانے کاکہے گی، گوکہ بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کیلیے طریقہ کارکے بارے وکلا میں اختلاف پا یا جاتا ہے تاہم آئینی معاملات میں عبور رکھنے والے اکثریتی وکلا کاموقف ہے کہ سنگین غداری میں مقدمہ چلانے کیلیے قانون اور طریقہ کار موجود ہے اور پارلیمنٹ کو اس بارے مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں۔
بغاوت کیس میں درخواست گزاروں کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا ہے پارلیمنٹ نے غداری کے ملزم کیخلاف قانونی چارہ جوئی کیلیے1973میں ہائی ٹریژن ایکٹ کے نام سے قانون منظور کیا ہے جس میں غداری کے مجرم کے لیے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اے کے ڈوگر نے ایکسپریس کو بتایا پارلیمنٹ نے 1976میں اسپیشل کورٹ ایکٹ کے نام سے ایک اور قانون منظور کیا جس کے تحت بغاوت کے ملزم کے ٹرائل کے لیے ایک خصو صی عدالت بنے گی، یہ عدالت ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ہوگی اسپیشل کورٹ کے جج کسی ایک یا مختلف ہائی کورٹوں کے ہوسکتے ہیں اور ان کی تقرری وفاقی حکومت کرے گی۔ انھوں نے مزید بتایا حکومت نے 1994میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی سیکریٹری داخلہ کوغداری کے ملزم کے خلاف شکایت کے اندارج کااختیار دیا ہے وہ مجاز اتھارٹی کی حثیت سے مستغیث کے طور پر شکایت درج کریں گے۔ اے کے ڈوگر نے بتایا اسپیشل کورٹ ملزم کو طلب کرے گی اور شہادتوںکوریکارڈ کریگی۔
انھوں نے بتایا پرویز مشرف کیخلاف شہادتیں ریکارڈ کرنے کا مرحلہ نہیں آئے گا کیونکہ3 نومبر کو انھوں نے آئین معطل کرکے 3 اعلامیے جاری کیے ہیں اور سپریم کورٹ نے اس اقدام کوغیرآئینی قرار دیا ہے اس لیے اسپیشل کورٹ عدالت عظمی کا فیصلہ نطرانداز نہیں کرسکتی۔ حشمت علی حبیب ایڈووکیٹ نے اس سے مختلف رائے دیتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری میں ٹرائل کا طریقہ کار اور سزا پارلیمنٹ طے کرے گی کیونکہ ہائی ٹریژن ایکٹ کے تحت کارروائی ریاست کے باغی کیخلاف ہوتی ہے آئین کے باغی کیخلاف نہیں، انھوں نے کہا سپریم کورٹ نے اس لیے حکومت سے پرویزمشرف کیخلاف ٹرائل کے طریقہ کارکے بارے جواب طلب کیا ہے۔