منی پاکستان کوامن واستحکام کی ضرورت

ارباب اختیار کو غور کرنا چاہیے کہ بدامنی اور قتل و غارت کے محرکات اور اسباب کیا ہیں؟

بڑھتی ہوئی بد امنی نے شہر کو تباہ کردیا ہے۔ فوٹو فائل

KARACHI:
کراچی ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ اگرچہ ہلاکتوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے اور نامعلوم مسلح افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے گھنائونی وارداتیں کرتے چلے آرہے ہیں تاہم اس مرتبہ ان دہشت گردوں نے ماہ صیام کے تقدس، جمعۃ الوداع کی فضیلت اور القدس کی پُرامن ریلیوں کو بھی در خور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنی بے رحمانہ کارروائیاں جاری رکھیں جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ہم بارہا عرض کر چکے ہیں کہ وہ گمراہ قوتیں جو دین اسلام کے پُرامن پیغام کا چہرہ اور اس کی روح کو مسخ کرنے پر کمربستہ ہیں اب ہوش کے ناخن لیں، خلق خدا کو ناحق قتل کرنے کا انھیں کس نے لائسنس دے رکھا ہے؟

جہاں تک کراچی کا تعلق ہے وہ بڑا کاروباری حب ہے، اسے غریب نواز شہر کا درجہ حاصل ہے ملک بھر کے لاکھوں محنت کش ہم وطنوں نے جسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ نچھاور کیا' اس کی صورت گری کی ہے۔ منی پاکستان کو تمام ہم وطنوں نے اپنے خوابوں کا مسکن بنایا ہے اور جو دہشت گرد کراچی کی تباہی چاہتے ہیں ان کا راستہ روکنے کے لیے درست اور جرات مندانہ حکمت عملی سے کام لینا ہو گا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے، ایسا میکانزم بنانے پر توانائی صرف کرنا چاہیے جس کے تحت کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گرد اور ملک دشمن طاقتیں ریاستی مشینری اور حکومتی رٹ کے سامنے سرنڈر کریں۔

ارباب اختیار کو غور کرنا چاہیے کہ بدامنی اور قتل و غارت کے محرکات اور اسباب کیا ہیں؟ کراچی جیسا اہم تجارتی مرکز بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور قبضہ مافیائوں کے نرغے میں کیسے آیا وہ محبت، یگانگت، اخوت اور مروت کہاں گئی جو منی پاکستان کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی تھی۔ ادھر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلح مافیائوں کے سامنے ناکام و بے دست و پا نظر آتے ہیں۔ ڈکیتی کی وارداتیں کھلے عام ہو رہی ہیں اور بسوں، کوچز اور بازاروں میں شہریوں کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل و غارت اور اس سے پیدا شدہ بدامنی کی تازہ لہر نے شہر میں امن و امان کے قیام کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے، پولیس اور رینجرز حکام کی کوئی کوشش سود مند ثابت نہ ہو سکی، قانون شکن عناصر، گینگ وار کارندے اور دہشت گرد لسانی منافرت، فرقہ وارانہ کشیدگی، سیاسی مخاصمت اور ذاتی انتقام کی آڑ میں جو چاہے کر لیتے ہیں۔


حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ملکی سالمیت کے خلاف ملک بھر میں دہشت گرد تنظیموں نے ایک گھنائونے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے خونیں کھیل شروع کر دیا ہے اور کامرہ حملہ میں ملوث ملزمان نے جس دہشتگردی کا مظاہرہ کیا اس کے مضمرات اور نتائج کو دہشت گردی کی جملہ وارداتوں کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو منی پاکستان سمیت پورے ملک میں رونما ہو رہی ہیں۔ ان واقعات کے پس پردہ ایسی قوتیں سرگرم عمل ہیں جن کے مملکت خداداد کے خلاف مذموم عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں مگر سب سے بنیادی خطرہ اہل وطن کو داخلی ریشہ دوانیوں، تخریب کاری، انتشار، بدامنی سے ہے جو قانون کی بے توقیری کے بطن سے پیدا ہوا ہے جس پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت کے اتحادیوں کو منی پاکستان کی مسلسل بگڑتی ہوئی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورتحال کا کوئی مداوا کرنا چاہیے جب کہ قتل و غارتگری میں ملوث عناصر کی سرکوبی کے لیے اپنے فروعی سیاسی اور گروہی اختلافات بھلا کر قیام امن کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

جب بدامنی شہر کی تہذیبی، سیاسی، تمدنی، سماجی حیثیت اور شناخت کو چاٹ رہی ہو تو بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے یا انتخابی فہرستوں میں تصحیح سے زیادہ اہم مسئلہ امن و امان کا قیام اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ اس اندوہناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ شہر کی بدامنی کسی المناک منظرنامہ کی طرف مراجعت کا ایک کھلا عندیہ ہے۔ اگر دہشتگرد ایک منظم سازش کے تحت شہر اور ملک میں انارکی، بے چینی، عدم استحکام اور خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں تو پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کس مرض کی دوا ہیں؟۔ دہشت گردوں کو اس کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ریاستی اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے پھریں، جسے چاہیں جب چاہیں اور جہاں چاہیں جوش انتقام میں نشانہ بنائیں۔ ایسا تو کسی مہذب جمہوری ملک میں نہ ہوا اور نہ منی پاکستان میں ہونا چاہیے۔

یہ سارے حقائق حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، شہر قائد کے سٹیک ہولڈرز خود اس کی تحقیقات کریں کہ کون سی درپردہ اور نادیدہ قوتیں منی پاکستان سے انتقام لینے پر تلی ہوئی ہیں۔ دریں اثنا پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے جمعرات کو گلگت بلتستان جانے والی بسوں سے پچیس (25) افراد کو نکال کر قتل کرنے اور کوئٹہ میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔ کمیشن نے ایک بیان میں حکام سے سوال کیا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے کیا منصوبہ بندی کی ہے۔ کمیشن کی یہ تشویش بلاجواز نہیں ہے کہ دہشت گرد ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان جانے والے مسلمانوں کو بغیر کسی مشکل کے نشانہ بنانے میں کس طرح کامیاب ہو گئے۔ بلاشبہ یہ ہلاکتیں انھی لوگوں کا کام ہے جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، مگر مجرموں کو پکڑنے اور سزا دینے میں ناکامی بھی اس مقصد کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے چنانچہ حکمرانوں کو اب امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ امن قائم ہو گا تبھی جمہوریت مضبوط ہو گی اور شہر قائد محفوظ و مامون ہو سکے گا۔
Load Next Story