فضائی آلودگی کا خاتمہحکومت کے لیے چیلنج

ہمیں حکومتی سطح پر بھارت سرکار سے بات کرکے اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہیے۔

ہمیں حکومتی سطح پر بھارت سرکار سے بات کرکے اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس میں کہا ہے کہ اسموگ کے باعث بھٹوں کی بندش سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ڈاکٹر پرویز حسن نے تین رکنی بنچ کو بتایا کہ ماحولیاتی مسائل یکدم حل نہیں ہوسکتے، بھٹوں کو ماحول دوست ٹیکنالوجی پر تبدیل کرنے کا فی بھٹہ پچیس لاکھ خرچہ ہوگا ۔

یہ بات توسچ ہے کہ وطن عزیز میں ماحولیاتی آلودگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اسی طرح موسمیاتی تبدیلیاں بھی تیزی سے رونما ہورہی ہیں اور عالمی ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

دنیا بھرکے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور اس مسئلے کی شدت کو کم کرنے کے لیے سوچ وبچارکے ساتھ اقدامات پر بھی غورکررہے ہیں، لیکن ہماری حال وماضی کی تمام حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس مسئلے کوکبھی سیریس لیا ہی نہیں، یہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا ، جو اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے۔ فضائی آلودگی کے بڑے اسباب میں کارخانوں اور بھٹوں کی چمنیوں سے اٹھتا مضر صحت دھواں ہے، انسانی بنیادوں پر سوچا جائے تو لاکھوں بھٹہ مزدور اس پیشے سے وابستہ ہیں،حکومت کا بیک جنبش قلم ان کو بے روزگار کردینا کہاں کا انصاف ہے؟


اس بنیادی انسانی مسئلے کو تدبیر سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ لاہور سمیت صوبہ پنجاب کے تقریبا تمام شہر اور اب بشمول کراچی بھی اسموگ کی زد میں ہیں۔ اسموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیزکو نقصان پہنچاتی ہے۔ انسانوں کو سانس لینے میں دشواری،کھانسی یا گلے میں سوزش ، سینے میں جلن پیدا کرتی ہے۔

دمہ کے مریضوں کے لیے بھی یہ انتہائی خطرناک ہے، اسموگ میں موجود زہریلے مادے آنکھوں میں جلن اور چبھن پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک بارشیں نہیں ہوتیں ، یا مصنوعی بارش نہیں کرائی جاتی تب تک گرد آلود دھند ختم نہیں ہوگی، یہ اسموگ ٹریفک حادثات کا سبب بھی بن رہی ہے اب تک موٹر وے اور دوسری شاہراہوں پرکئی حادثات پیش آچکے ہیں ان حادثات کی وجہ سے ہرسال متعدد افراد زخمی و جاں بحق ہوچکے ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق بھارتی پنجاب میں کسانوں کی جانب سے جلائی جانے والی فصلوں کی باقیات اورگھاس پھوس نذرِ آتش کرنے سے کثیف دھواں فضا میں جاتا ہے جو سرد موسم میں منجمند ہوکر آلودہ دھویں یا اسموگ کی صورت میں بھارت اور پاکستان پر چھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس میں زرعی فضلے مثلاً چاول کے پھوگ کو لگائی جانے والی آگ بھی شامل ہے۔

ہمیں حکومتی سطح پر بھارت سرکار سے بات کرکے اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہیے ۔اسموگ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ، ٹرینیں اور پروازیں لیٹ ہوجاتی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم درخت لگانے اور سبزے کی مقدارکو بڑھانا ہوگا تاکہ ہمیں آکسیجن مل سکے۔ حکومت اور میڈیا عوام میں شعور اجاگرکرنے میں اپنا اہم کردارکرسکتے ہیں تاکہ ملک سے فضائی آلودگی کا خاتمہ ہو اور اقوام عالم میں ہماری شناخت ماحول دوست قوم کے طورپرہو۔
Load Next Story