پولیس افسر کا قتل قوم سوگوار

کم از کم طاہر داوڑ کے سنگین قتل پر ارباب اختیار کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائیں۔


Editorial November 17, 2018
کم از کم طاہر داوڑ کے سنگین قتل پر ارباب اختیار کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائیں۔ فوٹو:فائل

ایس پی طاہر داوڑ کے سفاکانہ قتل نے پاک افغان تعلقات اور زمینی و معروضی حقائق کے منظر نامے کو تشویش ناک بنادیا ہے۔ طورخم بارڈر پر میت دینے میں افغان حکام کے سنگدلانہ تاخیری حربے، لیت ولعل اور سفارت کاری کے باب میں حقارت آمیز برتاؤ کی انتہائی حد یہ تھی کہ جسد خاکی جرگے کے حوالے کیا گیا۔ میت وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے وصول کی۔

وزیراعظم عمران خان نے ایس پی طاہر داوڑ کے بہیمانہ قتل کا نوٹس لے لیا ہے اور اپنے ایک ٹویٹ میں طاہر داوڑ کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ وہ اس معاملے کو خود دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی کی سربراہی میں خیبر پختونخوا حکومت کو اسلام آباد پولیس کے ساتھ مل کر تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل کسی دہشتگرد تنظیم کا کام نہیں لگتا، بادی النظر میں اس دل گداز واقعہ کے تناظر میں پاکستان سے مخاصمت کی انتہا کی گئی ہے، افغان حکام نے طاہر داوڑ کی افغان سرزمین پر قتل کی اخلاقی ذمے داری کے ادراک سے ماورا غیر انسانی واردات میں ملوث عناصر کے سامنے سرنڈر کرنے کا تاثر دیا ہے جو اہل پاکستان اور ارباب سیاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے، پاک افغان دو طرفہ تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان ایس پی کی شہادت پر افغان حکومت کے طرز عمل کو نامناسب ، غیر دوستانہ جب کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے دانستہ گریز اور دلآزاری پر ہی محمول کریگا۔

اگر قتل کسی دہشتگرد تنظیم کی کارستانی نہیں ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی داخلی خودمختاری کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ بی بی سی کے مطابق خراسانی ولایہ کی طرف سے قتل کی ذمے داری کا اعلان پاکستان کے برادارنہ اور مصالحانہ رویے کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، اور یہ ایک ایسے پڑوسی ملک کی انسان دوستی ، ہمدردی اور افغان مہاجرین کی مہمان نوازی ، بے لوث خدمت اور دردمندی کا ظالمانہ جواب ہے جسے پاکستان کے عوام بے مہری کا ایک دردناک سیاسی اور انسانی تجربہ قراردیں تو بے جا نا ہوگا۔

طاہر داوڑ کے قتل کے حوالے سے ارباب اختیار کو بلاتاخیر اپنی خارجہ پالیسی میں پیراڈائم شفٹ لانا چاہیے، خطے میں امن کے کلیدی کردار کے حامل پاکستان کے ایک محب وطن پولیس افسر کا اسلام آباد سے اغوا اورافغانستان میں قتل بربریت اور درندگی کی انتہائی ہولناک واردات ہے، افغان حکام کو اس کڑے وقت میں اغوا اور قتل میں ملوث طاقتوں اور قانون شکن عناصر کو افغان آئین و قانون کے شکنجے میں جکڑنے کی اولین کارروائی کرنی چاہیے۔

شہید طاہر داوڑ کے قاتل کسی طور بچ نہ سکیں اور آیندہ دشمن طاقتیں پاک افغان تعلقات اس قسم کی بزدلانہ وارداتوں سے بلڈوز نہ کرسکیں، عالمی برادری کو بھی جنگ و بربادی سے دوچار افغان عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی تدبیر کرنی چاہیے ۔

پاکستان نے افغان امن عمل کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، پاکستان کو داوڑ شہید کے حوالے سے افغان حکام سے بہت سارے تلخ اور ضروری سوالوں کے جواب درکار ہونگے مگر بنیادی سوال افغان امن عمل اور خطے میں سلامتی کا ہے، جس کے لیے پاکستان کی افغان دوستی ، اسٹرٹیجک تعلقات اور خیر سگالی پر مبنی پالیسی کا صلہ مسلسل تغافل ، الزام تراشی، مداخلت بے جا اور تحریک طالبان پاکستان کے ماسٹر مائنڈز ، کمانڈرز اور دہشتگردوں کی سرپرستی کی شکل میں ملا ، طاہر داوڑ کی شہادت سے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی اور سرحد پار دہشتگردی کے مسئلے کے پائیدار اور دائمی حل کی کوششوں کو منطقی انجام تک پہنچائے۔

افغان حکومت کو ادراک کرنا ہوگا کہ ایک پولیس افسر کا قتل کہیں تاریخی تعلقات کے بھس میں چنگاری نہ بھڑکائے، طاہر داوڑ کے قتل نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور داخلی خود مختاری کے دشمنوں نے اپنی سازشوں کے تانے بانے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ پھیلا رکھے ہیں لیکن وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، پاکستان کی امن کوششوں کا غلط مطلب بھی نہ لیا جائے، کم از کم طاہر داوڑ کے سنگین قتل پر ارباب اختیار کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائیں، پاکستان دشمنوں نے جمہوری رویے ، پر امن بقائے باہمی اور ہمسائیگی کی عالمی اور مقامی روایات کو قتل کیا ہے،اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات اور اغواکا معاملہ سفارتی سطح پر اٹھایا جائے جب کہ افغان حکومت کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے ایک فرض شناس سپوت کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں قتل قابل مذمت ہے، پاکستان ایک بہادر پولیس آفیسر سے محروم ہوگیا ہے، طاہر داوڑ کا اغوا، ان کی افغانستان منتقلی اور قتل اور افغان حکام کا رویہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے ، ادھر اے این پی نے ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے خلاف تحریک التواجمع کرادی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے طاہر داوڑ کے بزدلانہ قتل کی شدید مذمت کی ہے۔

وزیر مملکت داخلہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے شہید ایس پی طاہر داوڑ کا جسد خاکی پاکستان کے حوالے کرنے میں انتہائی نامناسب رویہ اپنایا جب کہ اغوا کے بعد طاہر داوڑ کو افغانستان پہنچانا اور ان کا بیدردی سے قتل بھی کئی سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے جس کو افغانستان کے ساتھ بھرپور طریقے سے ریاستی سطح پر اٹھایا جائے گا، شہید کے بھائی احمد الدین نے مطالبہ کیا کہ ان کے بھائی کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرتے ہوئے سزادی جائے کیونکہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کی حفاظت کرنا اداروں کی ذمے داری تھی ، یہ افسوس ناک واقعہ ہے یہ اداروں کے لیے بھی سرپرائز تھا کہ وہ اسے ٹریس نہیں کر سکے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بریفنگ میں ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان سے شدید احتجاج کیا اور لاش کی حوالگی میں تاخیر پر افغان ناظم الامور کو دفترخارجہ میں دو بار طلب کیا گیا جب کہ کابل میں بھی پاکستانی سفارتخانہ نے لاش کی حوالگی میں تاخیر پر افغان حکام سے سخت احتجاج ریکارڈکرایا۔ افغان سفیر عمر زاخیلوال نے کہا ہے طاہر داوڑ کے پراسرار قتل پر بہت افسوس ہے۔ افغان حکومت طاہر داوڑ کے افغانستان میں ہونیوالے قتل کی مکمل تحقیقات کریگی۔

دریں اثنا دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے دہشتگردی کے سیاق و سباق میں کہا ہے کہ 2001 میں امریکی حملہ کے بعد افغانستان میں اب تک 5 لاکھ 7 ہزار جب کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار و سویلین جاں بحق ہوئے ہیں اور اربوں ڈالر کے اقتصادی نقصانات الگ ہیں۔ یہ چم کشا حقائق ہیں۔

اب ایک آخری بات ، ایک خبر کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی کوشش سے 5ایرانی مغوی گارڈز کو بازیاب کرایا گیا جن کو ایرانی حکام کے حوالے کیا جارہا ہے۔یہ جرات مندانہ کارروائی ہے ۔کیا طاہر داوڑ کی بازیابی کے لیے ایسی آل آؤٹ کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بہر حال ایک بہادر اور فرض شناس پولیس افسر کا بہیمانہ قتل پوری قوم کو سوگوار کرگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں