یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا ۔۔۔
وقت سے پہلے معلوم ہوجانا آگ ہے، جو بھڑک جائے تو پھر ٹھنڈی نہیں ہوتی۔
قسط نمبر 21
کیسے کیسے لوگ ہیں اس رنگا رنگ دنیا میں، مجھے تو بہت ملے ہیں اور ملتے رہتے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا اور ذہنی طور پر تیار بھی تھا کہ مجھ سے میرے متعلق کچھ پوچھا جائے گا، سوالات کیے جائیں گے، پھر ان کے جوابات کا تجزیہ کیا جائے گا، انہیں سچ ،جھوٹ یا مبالغہ آرائی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ لیکن عجب لوگ تھے، ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا، کچھ بھی تو نہیں، کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ میں کون ہوں۔ کیا کسی انسانی سماج میں ایسا ممکن ہے، یقین تو نہیں آتا لیکن میں اپنے تجربے کو کیسے جھٹلاؤں، ایسا ہی ہوا۔
میں خود بھی عجیب ہوں، میں کسی کی بات، کسی کی بھی، کو پرکھے بنا نہیں مانتا، مان ہی نہیں سکتا، ہزار سوالات اٹھاتا ہوں اور وہاں بھی جہاں سوال کرنا جُرم ہے۔ میں اپنے پرتعیش مکان سے بھی سوال اٹھانے کے جُرم میں ہی بے دخل کردیا گیا تھا اور اس جرم کی قیمت بھی میں نے بہ خوشی ادا کی تھی، بل کہ اب تک کر رہا ہوں۔ انہوں نے تو کوئی سوال نہیں کیا اور میرے سوالات نے انہیں ہلکان کیے رکھا۔ لیکن سوچتا ہوں کہ اگر وہ یہ معلوم کرلیتے کہ میں کون ہوں، تو میں انہیں کیسے بتاتا، میں تو خود اس سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا، بل کہ اب تک جاننا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور کیوں آیا ہوں۔
پہلا دن تو بس گپ شپ میں گزر گیا۔ لیکن اس دن سے میں مسجد میں اذان دینے اور صفائی کرنے لگا۔ اب فجر اور عشاء کی نماز بھی مسجد میں باجماعت ادا ہونے لگی تھی۔ چند بوڑھے ہی تھے جو مسجد میں آتے تھے، ان سے حکیم بابا نے بس اتنا کہا: یہ میرا بیٹا ہے، اور وہ بھی عجب لوگ تھے کہ اچھا جی، کہہ کر خاموش ہوگئے۔ کسی پر یقین کا یہ عالم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جو کہے سب بلا چوں چرا اس کی بات مان لیں اور بس تسلیم کرلیں۔ لیکن کیسے ہوتا ہے یہ، کیسے ممکن ہے یہ، انسان تو تجسس میں گُندھا ہوا ہے، شَک اس کی سرشت میں ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی سوال ہی نہ کرے، بحث ہی نہ کرے اور بس تسلیم کرلے۔ کیا اس کے پیچھے اُس شخص کی پوری زندگی ہوتی ہے جو اسے یہ مقام عطا کرتی ہے کہ وہ جو کہے سب اس کی بات پر آمنّا و صدّقنا کہیں۔
عجب ہے یہ معمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے میری غیر موجودی میں حکیم بابا سے معلوم بھی کیا ہو، لیکن میرے سامنے کبھی کسی نے میرے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ مجھے ویسی ہی شفقت ملی جو حکیم بابا کے حقیقی بیٹے کو ملتی، لیکن یہ نسبت کا کرشمہ ہے بس کہ وہ لوگ حکیم بابا پر اعتماد و یقین رکھتے تھے، جو انہوں نے کہا بس مان لیا۔ خود حکیم بابا کی شخصیت بھی غیر معمولی تھی، سرخی مائل سپید رنگت، کشادہ پیشانی، پُرنور چہرہ، روشن اور چمکتی ہوئی آنکھیں، جن میں ذہانت و فراست جھلکتی تھی۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ بتایا گیا ہے مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔
ایسے تھے حکیم بابا، دریا دل، ہم درد، ایثار کیش، ملن سار، خوددار۔ شہرعلمؐ کے در جناب علیؓ نے بتایا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے، اور یہ بھی بتایا کہ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ تو بس حق ہے یہ سچ ہے، آپ خود بھی اس کا مشاہدہ کرلیں۔ حکیم بابا مومن تھے، لقمۂ حلال سے اپنی اور اپنے اہل کی کفالت کرنے والے۔ ان کے آبا و اجداد کشمیری تھے، وہ وہیں سے یہاں آئے تھے، ماں جی ان کی ماموں زاد تھیں، اسی لیے وہ یہاں کے مقامی لوگوں سے یک سر مختلف نظر آتے تھے۔ حکیم بابا کوئی مستند حکیم نہیں تھے، انہوں نے ایک وید کے پاس رہتے ہوئے جڑی بوٹیوں سے علاج کرنا سیکھا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان کے پاس آتے اور شفایاب ہوتے تھے۔
طبیب کے پاس اگر میٹھی زبان ہو اور وہ مریض کے درد کو اپنا درد سمجھے تو شفا مل ہی جاتی ہے۔ بل کہ اگر طبیب اپنے مریض کی بات ہی خندہ پیشانی اور توجہ سے سن لے تو مریض آدھا صحت یاب تو اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اور پھر مومن کی دعا کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔ حکیم بابا کے ساتھ رہتے ہوئے میں بھی کچھ جڑی بوٹیوں کے خواص جان پایا۔ وہ اجلا اور بے داغ لباس پہنتے، مسکراتے ہوئے ہر ایک کی بات توجہ سے سنتے اور پھر اس کے کاندھے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے: دیکھو پریشان مت ہونا، چھوٹا موٹا مرض تو خدا کی دین ہے، بس اُس سے آس لگاؤ، دوا لو تو بھلے چنگے ہوجاؤ گے، اچھا تو چلو اب مسکراؤ۔ کیا خوب طریقہ علاج تھا اُن کا۔ ماں جی بس قرآن حکیم پڑھی ہوئی تھیں اور مکمل خاتون خانہ تھیں۔
محلے بھر میں وہ ایک شفیق باجی مشہور تھیں اور اکثر خواتین ان سے مشورہ لینے آیا کرتی تھیں۔ ویسے تو جنّت میں نے نہیں دیکھی لیکن اپنی ماؤں کو دیکھتا ہوں تو جان پاتا ہوں کہ جنّت کیسی ہوگی۔ گھر کا ماحول جنّت سے کم نہیں تھا، سب مطمئن، ہنستے مسکراتے، اک دوجے کا خیال رکھنے والے، کیا خوب گھرانا تھا جی۔ مجھے میری بہنوں اور حکیم بابا نے بتایا تھا کہ بس ایک بیٹے کی کمی نے ماں جی کو نڈھال کر رکھا تھا اور وہ اکثر خاموش رہتی تھیں، میرے آنے سے وہ کمی بھی پوری ہوگئی تھی۔ رات کو میرا ہاتھ پکڑ کر سونا ان کا معمول تھا اور پھر تو میں بھی اس کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ مجھے ویسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ ماں جی کو میرا ماں جی کہنا ہی اتنا پسند تھا کہ وہ کسی اور سے باتیں کرتی ہوئی اکثر کہتیں: میرے بیٹے نے کہا ماں جی آپ بہت اچھی ہیں، گفت گُو کیسی بھی اور کسی سے بھی ہورہی ہو، اس میں میرا تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ ماں جی کو سویٹر بُننے میں کمال حاصل تھا اور انہوں نے میری سب بہنوں کو بھی سلائی کڑھائی میں کمال عطا کیا تھا، میرے پاس ان کے شفیق اور محبت بھرے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سویٹر اور ٹوپیاں اب بھی موجود ہیں، اور ان میں ماں جی کی خوش بُو روزِ اوّل کی طرح اب بھی تازہ ہے۔
مجھے یہاں آئے ہوئے نصف ماہ گزر چکا تھا، میں صبح حکیم بابا کے ساتھ ان کے مطب جاتا اور ان کی مدد کرتا، دوپہر کو ہم ساتھ ہی گھر واپس آتے۔ مجھے اس معمے نے پریشان کیا ہوا تھا کہ پورے گاؤں میں مجھے کوئی نوجوان نظر ہی نہیں آتا تھا، کچھ نوجوان نظر آتے تھے وہ بھی کسی اور گاؤں سے کسی کے کام سے آتے اور واپس چلے جاتے تھے، آخر ایسا کیوں تھا، کیوں نہیں تھے نوجوان، کیا یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا، آخر ایسا کیوں تھا، نوجوان لڑکیاں تو یہاں تھیں لیکن لڑکے۔۔۔۔۔۔ ؟
آخر ایک دن میں نے حکیم بابا سے دریافت کر ہی لیا۔ مسکرائے اور کہا: بہت دیر کردی تم نے یہ سوال کرنے میں، حیران تھا کہ تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا، کیسے ہضم کیے رکھا یہ سوال۔ خیر اس گاؤں کا نہیں آس پاس کے قصبوں کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے، یہاں کے اکثر نوجوان یورپ چلے جاتے ہیں جہاں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے یورپ میں جاکر آباد ہوگئے تھے، وہاں بسنے کے بعد بھی وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے جُڑے رہے ہیں، انہوں نے دولت تو کمائی ہے لیکن اپنی اصل شناخت سے دست بردار نہیں ہوئے، اب ان کے بھی وہاں بیٹے بیٹیاں ہیں تو وہ اپنے داماد یہیں سے منتخب کرتے ہیں، اور اپنے لیے بہوئیں بھی۔ وہاں رہنے کے بعد بھی وہ اتنے روشن خیال نہیں ہوئے، اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوجائے تو بس سمجھو وہ یورپ ہی جائے گا، بہت چھوٹی عمر میں رشتے طے کر لیے جاتے ہیں اور پھر جیسے ہی کوئی لڑکا پاسپورٹ بنانے کی عمر کو پہنچتا ہے وہ باہر چلا جاتا ہے، اس لیے تمہیں یہاں کوئی نوجوان نظر نہیں آتا۔ اوہو حکیم بابا تو یہ وجہ ہے۔ لیکن پھر ان کے والدین تو تنہا رہ جاتے ہوں گے، تو بڑھاپے میں وہ کیسے گزارا کرتے ہوں گے، میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔
دیکھو بات تو تمہاری درست ہے، لیکن تنہائی تو نہیں ہے یہاں، سب ایک دوجے کے رشتے دار ہیں، دولت کی کوئی کمی نہیں ہے، ہاں بس بڑھاپا ہے تو اس کا علاج تو کہیں بھی ممکن نہیں ناں، کچھ لوگ اپنے بچوں کے پاس یورپ گئے بھی تھے، لیکن اکتا کر واپس چلے آئے، اس لیے کہ وہاں تو کوئی ان کی باتیں سننے کے لیے فارغ نہیں بیٹھا ہوا ناں، وہاں تو سب کام کرتے ہیں، بیٹا ہر چیز کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو انہوں نے بھی اس دولت کی قیمت اپنے بیٹے بیٹیوں سے جدائی سے ادا کی ہے۔ ہاں یہ بات تو ہے، میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ لیکن حکیم بابا آپ نے مجھ سے ابھی کہا تھا کہ آپ اس بات پر حیران تھے کہ میں نے یہ سوال پہلے کیوں نہیں اٹھایا، لیکن بابا آپ نے بل کہ ماں جی اور میری بہنوں نے بھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کیوں آیا ہوں، اور تو اور یہاں کے کسی شخص نے بھی مجھ سے کچھ نہیں دریافت کیا، کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
حکیم بابا پہلے بہت دیر خاموش رہے اور پھر کہا: کیا یہ ضروری ہے کہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیا جائے اور کیا یہ بھی ضروری ہے کہ فوری دیا جائے۔ میں سننا چاہتا ہوں بابا، میں نے کہا۔ تُو کیا کیا سننا چاہتا ہے، کیوں سننا چاہتا ہے، تسلیم کیوں نہیں کرلیتا آخر، کہ تسلیم کرلینے میں ہی عافیت ہے۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے۔
لیکن بابا سوال اٹھانا میری فطرت میں ہے، کسی بھی واقعہ کو بِنا کوئی سوال اٹھائے خاموشی سے بس مان لینا میرے لیے ممکن نہیں، اور پھر یہ بھی کہ سوال غلط ہوسکتا ہے، ضرور ہوسکتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کسی غلط سوال کا کوئی جواب نہ ہو، ایسا کیسے ممکن ہے، میرا سوال پھر ان کے رُو بہ رُو تھا۔ آج بہت دن کے بعد میں اپنے رنگ میں آیا تھا، ماں جی اور میری بہنیں حیرت اور خاموشی سے مجھے دیکھ اور سُن رہی تھیں، اس طرح بات کرتے ہوئے انہوں نے مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ حکیم بابا پھر سے شاید مراقبے میں چلے گئے تھے اور میں ان کے جواب کا منتظر تھا۔ آخر انہوں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: دیکھو کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جواب انسان کو فوری نہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ہی ملتا ہے، اس لیے انسان کو صبر سے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
یہ کیا بات ہوئی بابا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں کوئی سوال نہ کروں، بس خاموشی سے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں، مشکل ہے یہ میرے لیے، میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ دیکھو بیٹا یہ جو لاعلمی ہوتی ہے ناں، یہ بھی رب تعالی کی ایک نعمت ہے، ہر بات کی ٹوہ لینا گناہ ہے، رب تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔ کیا مطلب، یعنی انسان کو لاعلم رہنا چاہیے، اور بابا رب تعالی نے کسی اور کی ٹوہ لینے سے منع فرمایا ہے یہ خود کو ڈھونڈنے، اپنی ٹوہ لینے سے کب منع کیا ہے، مجھے بچپن میں حافظ طاہر درویش نے بتایا تھا کہ کائنات کی ہر شے سمجھ میں آسکتی ہے بہ شرطے آپ اسے جاننا چاہیں، انہوں نے ہی مجھے کہا تھا رب کی باتیں رب سے پوچھو، مجھ سے تو بس میرے متعلق پوچھو۔ بابا پھر خاموش تھے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جانتے ہیں لیکن بتا نہیں رہے۔
دیکھو بیٹا سوال سے سوال پیدا ہوتا ہے، تم درست کہہ رہے ہو کہ ان کا جواب جاننا انسان کی سرشت میں ہے، لیکن ہر شے کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت سے پہلے کچھ معلوم ہوجانا آگ ہے، جو بھڑک جائے تو پھر ٹھنڈی نہیں ہوتی، انسان کو جلائے رکھتی ہے، اسے سولی پر چڑھائے رکھتی ہے تو بس صبر سے جواب کا انتظار کرنے کا کہا گیا ہے، سوچنے سے منع نہیں کیا گیا، عجلت سے منع کیا گیا ہے اور تم بہت زیادہ عجلت کا شکار ہو، تمہیں صبر سے انتظار کرنا ہوگا اس وقت کا جب تمہارے سوالات کے جوابات تمہیں مل جائیں۔ بابا یہ کہہ کر پھر خاموش ہوگئے۔
حکیم بابا میں نے خود کو نہیں بنایا، خالق نے مجھے ایسا بنایا ہے، بے صبرا، آپ نہیں جانتے میں چھوٹا تھا جب میں نے اپنا مکان انہی سوالات کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ پھر میرے ساتھ کیا کیا ہوا، میں زندہ ہوتے ہوئے قبرستان کا ہوگیا، ایک بابا جی نے تو مجھے زندہ ہی قبر کے حوالے کردیا تھا، انہوں نے ہی مجھے حکم دیا کہ میں کسی ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں مجھے کوئی جانتا ہی نہ ہو، آپ مجھے نہیں جانتے بابا، نہیں جانتے آپ، جس آگ کا آپ کہہ رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ میری مٹی اسی آگ میں تپائی گئی ہے، میں کچھ جانتا نہیں ہوں اور جو جانتے ہیں وہ بتاتے نہیں ہیں، عجب زندگی ہے میری، مجھے کچھ بھی تو سمجھ نہیں آتا، بس میں اتنا جان پایا ہوں کہ اوپر رب تعالیٰ ہے اور نیچے میں بے کار، بس اس نے مجھے گود لیا ہوا ہے، میں بس اس سے ہی سب کچھ پوچھتا رہتا ہوں، میں اس سے لڑتا رہتا ہوں لیکن اس نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اور مجھے یہ بھی یقین ہے، بل کہ یقین کامل کہ وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ۔۔۔۔۔۔۔ بس کرو بیٹا، بس کرو، ہاں میں کچھ نہیں جانتا، بس اب کچھ نہیں بولنا، ہم کسی اور وقت میں یہ باتیں کر لیں گے، بس اب کچھ نہیں بولنا۔ حکیم بابا نے مجھے خاموش ہوجانے کا حکم دیا، میں شاید پھٹ پڑا تھا اور نہ جانے کیا کیا بولے جارہا تھا۔
بہنیں بالکل خاموش تھیں، لیکن ماں جی مجسم حیرت بنی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھیں، پھر میری حالت دیکھ کر وہ بے چین ہوگئیں اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر رونے لگیں، کیا کہہ رہا تھا بیٹا، کیا ہوگیا میرے بیٹے کو، کیسی کیسی باتیں کر رہا تھا تُو میرے بچے۔ مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا، مجھے سب کے سامنے یہ سب کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا، میں ہوں ہی جاہل، جہاں خاموش رہنا تھا، وہیں بول بیٹھا تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا ہے، سمجھایا گیا ہے کہ بات کرنے سے پہلے وقت دیکھوں، سامعین کو دیکھوں، ہر کس و ناکس کے سامنے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے مجھے، خلوت کی باتیں، خلوت میں ہی زیبا ہیں، لیکن مجھ بے عقل کو کبھی سمجھ نہیں آیا، بہت مار بھی کھائی اور نہ جانے کیا کیا، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، اب تو تِیر کمان سے نکل چکا تھا، حکیم بابا کی مجھے کوئی فکر نہیں تھی، لیکن میں نے اپنی معصوم بہنوں اور جنت جیسی ماں جی کو پریشان ہی نہیں آزردہ کردیا تھا، اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، پچھتاوے کے ساتھ ندامت میری آنکھوں سے برسنے لگی۔ کچھ نہیں ہوا ماں جی، بس ویسے ہی کبھی کبھی مجھ پر دورہ پڑجاتا ہے اور مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا، میری باتوں کو نظر انداز کیجیے، مجھے معاف کر دیجیے، بھول جائیے کہ میں نے کچھ کہا بھی تھا۔ ماں جی مجھے دلاسا دیتی رہیں اور پھر مجھے کچھ پتا نہیں چلا، میں سو چکا تھا۔
کیسے کیسے لوگ ہیں اس رنگا رنگ دنیا میں، مجھے تو بہت ملے ہیں اور ملتے رہتے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا اور ذہنی طور پر تیار بھی تھا کہ مجھ سے میرے متعلق کچھ پوچھا جائے گا، سوالات کیے جائیں گے، پھر ان کے جوابات کا تجزیہ کیا جائے گا، انہیں سچ ،جھوٹ یا مبالغہ آرائی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ لیکن عجب لوگ تھے، ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا، کچھ بھی تو نہیں، کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ میں کون ہوں۔ کیا کسی انسانی سماج میں ایسا ممکن ہے، یقین تو نہیں آتا لیکن میں اپنے تجربے کو کیسے جھٹلاؤں، ایسا ہی ہوا۔
میں خود بھی عجیب ہوں، میں کسی کی بات، کسی کی بھی، کو پرکھے بنا نہیں مانتا، مان ہی نہیں سکتا، ہزار سوالات اٹھاتا ہوں اور وہاں بھی جہاں سوال کرنا جُرم ہے۔ میں اپنے پرتعیش مکان سے بھی سوال اٹھانے کے جُرم میں ہی بے دخل کردیا گیا تھا اور اس جرم کی قیمت بھی میں نے بہ خوشی ادا کی تھی، بل کہ اب تک کر رہا ہوں۔ انہوں نے تو کوئی سوال نہیں کیا اور میرے سوالات نے انہیں ہلکان کیے رکھا۔ لیکن سوچتا ہوں کہ اگر وہ یہ معلوم کرلیتے کہ میں کون ہوں، تو میں انہیں کیسے بتاتا، میں تو خود اس سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا، بل کہ اب تک جاننا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور کیوں آیا ہوں۔
پہلا دن تو بس گپ شپ میں گزر گیا۔ لیکن اس دن سے میں مسجد میں اذان دینے اور صفائی کرنے لگا۔ اب فجر اور عشاء کی نماز بھی مسجد میں باجماعت ادا ہونے لگی تھی۔ چند بوڑھے ہی تھے جو مسجد میں آتے تھے، ان سے حکیم بابا نے بس اتنا کہا: یہ میرا بیٹا ہے، اور وہ بھی عجب لوگ تھے کہ اچھا جی، کہہ کر خاموش ہوگئے۔ کسی پر یقین کا یہ عالم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جو کہے سب بلا چوں چرا اس کی بات مان لیں اور بس تسلیم کرلیں۔ لیکن کیسے ہوتا ہے یہ، کیسے ممکن ہے یہ، انسان تو تجسس میں گُندھا ہوا ہے، شَک اس کی سرشت میں ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی سوال ہی نہ کرے، بحث ہی نہ کرے اور بس تسلیم کرلے۔ کیا اس کے پیچھے اُس شخص کی پوری زندگی ہوتی ہے جو اسے یہ مقام عطا کرتی ہے کہ وہ جو کہے سب اس کی بات پر آمنّا و صدّقنا کہیں۔
عجب ہے یہ معمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے میری غیر موجودی میں حکیم بابا سے معلوم بھی کیا ہو، لیکن میرے سامنے کبھی کسی نے میرے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ مجھے ویسی ہی شفقت ملی جو حکیم بابا کے حقیقی بیٹے کو ملتی، لیکن یہ نسبت کا کرشمہ ہے بس کہ وہ لوگ حکیم بابا پر اعتماد و یقین رکھتے تھے، جو انہوں نے کہا بس مان لیا۔ خود حکیم بابا کی شخصیت بھی غیر معمولی تھی، سرخی مائل سپید رنگت، کشادہ پیشانی، پُرنور چہرہ، روشن اور چمکتی ہوئی آنکھیں، جن میں ذہانت و فراست جھلکتی تھی۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ بتایا گیا ہے مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔
ایسے تھے حکیم بابا، دریا دل، ہم درد، ایثار کیش، ملن سار، خوددار۔ شہرعلمؐ کے در جناب علیؓ نے بتایا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے، اور یہ بھی بتایا کہ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ تو بس حق ہے یہ سچ ہے، آپ خود بھی اس کا مشاہدہ کرلیں۔ حکیم بابا مومن تھے، لقمۂ حلال سے اپنی اور اپنے اہل کی کفالت کرنے والے۔ ان کے آبا و اجداد کشمیری تھے، وہ وہیں سے یہاں آئے تھے، ماں جی ان کی ماموں زاد تھیں، اسی لیے وہ یہاں کے مقامی لوگوں سے یک سر مختلف نظر آتے تھے۔ حکیم بابا کوئی مستند حکیم نہیں تھے، انہوں نے ایک وید کے پاس رہتے ہوئے جڑی بوٹیوں سے علاج کرنا سیکھا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان کے پاس آتے اور شفایاب ہوتے تھے۔
طبیب کے پاس اگر میٹھی زبان ہو اور وہ مریض کے درد کو اپنا درد سمجھے تو شفا مل ہی جاتی ہے۔ بل کہ اگر طبیب اپنے مریض کی بات ہی خندہ پیشانی اور توجہ سے سن لے تو مریض آدھا صحت یاب تو اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اور پھر مومن کی دعا کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔ حکیم بابا کے ساتھ رہتے ہوئے میں بھی کچھ جڑی بوٹیوں کے خواص جان پایا۔ وہ اجلا اور بے داغ لباس پہنتے، مسکراتے ہوئے ہر ایک کی بات توجہ سے سنتے اور پھر اس کے کاندھے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے: دیکھو پریشان مت ہونا، چھوٹا موٹا مرض تو خدا کی دین ہے، بس اُس سے آس لگاؤ، دوا لو تو بھلے چنگے ہوجاؤ گے، اچھا تو چلو اب مسکراؤ۔ کیا خوب طریقہ علاج تھا اُن کا۔ ماں جی بس قرآن حکیم پڑھی ہوئی تھیں اور مکمل خاتون خانہ تھیں۔
محلے بھر میں وہ ایک شفیق باجی مشہور تھیں اور اکثر خواتین ان سے مشورہ لینے آیا کرتی تھیں۔ ویسے تو جنّت میں نے نہیں دیکھی لیکن اپنی ماؤں کو دیکھتا ہوں تو جان پاتا ہوں کہ جنّت کیسی ہوگی۔ گھر کا ماحول جنّت سے کم نہیں تھا، سب مطمئن، ہنستے مسکراتے، اک دوجے کا خیال رکھنے والے، کیا خوب گھرانا تھا جی۔ مجھے میری بہنوں اور حکیم بابا نے بتایا تھا کہ بس ایک بیٹے کی کمی نے ماں جی کو نڈھال کر رکھا تھا اور وہ اکثر خاموش رہتی تھیں، میرے آنے سے وہ کمی بھی پوری ہوگئی تھی۔ رات کو میرا ہاتھ پکڑ کر سونا ان کا معمول تھا اور پھر تو میں بھی اس کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ مجھے ویسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ ماں جی کو میرا ماں جی کہنا ہی اتنا پسند تھا کہ وہ کسی اور سے باتیں کرتی ہوئی اکثر کہتیں: میرے بیٹے نے کہا ماں جی آپ بہت اچھی ہیں، گفت گُو کیسی بھی اور کسی سے بھی ہورہی ہو، اس میں میرا تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ ماں جی کو سویٹر بُننے میں کمال حاصل تھا اور انہوں نے میری سب بہنوں کو بھی سلائی کڑھائی میں کمال عطا کیا تھا، میرے پاس ان کے شفیق اور محبت بھرے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سویٹر اور ٹوپیاں اب بھی موجود ہیں، اور ان میں ماں جی کی خوش بُو روزِ اوّل کی طرح اب بھی تازہ ہے۔
مجھے یہاں آئے ہوئے نصف ماہ گزر چکا تھا، میں صبح حکیم بابا کے ساتھ ان کے مطب جاتا اور ان کی مدد کرتا، دوپہر کو ہم ساتھ ہی گھر واپس آتے۔ مجھے اس معمے نے پریشان کیا ہوا تھا کہ پورے گاؤں میں مجھے کوئی نوجوان نظر ہی نہیں آتا تھا، کچھ نوجوان نظر آتے تھے وہ بھی کسی اور گاؤں سے کسی کے کام سے آتے اور واپس چلے جاتے تھے، آخر ایسا کیوں تھا، کیوں نہیں تھے نوجوان، کیا یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا، آخر ایسا کیوں تھا، نوجوان لڑکیاں تو یہاں تھیں لیکن لڑکے۔۔۔۔۔۔ ؟
آخر ایک دن میں نے حکیم بابا سے دریافت کر ہی لیا۔ مسکرائے اور کہا: بہت دیر کردی تم نے یہ سوال کرنے میں، حیران تھا کہ تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا، کیسے ہضم کیے رکھا یہ سوال۔ خیر اس گاؤں کا نہیں آس پاس کے قصبوں کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے، یہاں کے اکثر نوجوان یورپ چلے جاتے ہیں جہاں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے یورپ میں جاکر آباد ہوگئے تھے، وہاں بسنے کے بعد بھی وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے جُڑے رہے ہیں، انہوں نے دولت تو کمائی ہے لیکن اپنی اصل شناخت سے دست بردار نہیں ہوئے، اب ان کے بھی وہاں بیٹے بیٹیاں ہیں تو وہ اپنے داماد یہیں سے منتخب کرتے ہیں، اور اپنے لیے بہوئیں بھی۔ وہاں رہنے کے بعد بھی وہ اتنے روشن خیال نہیں ہوئے، اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوجائے تو بس سمجھو وہ یورپ ہی جائے گا، بہت چھوٹی عمر میں رشتے طے کر لیے جاتے ہیں اور پھر جیسے ہی کوئی لڑکا پاسپورٹ بنانے کی عمر کو پہنچتا ہے وہ باہر چلا جاتا ہے، اس لیے تمہیں یہاں کوئی نوجوان نظر نہیں آتا۔ اوہو حکیم بابا تو یہ وجہ ہے۔ لیکن پھر ان کے والدین تو تنہا رہ جاتے ہوں گے، تو بڑھاپے میں وہ کیسے گزارا کرتے ہوں گے، میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔
دیکھو بات تو تمہاری درست ہے، لیکن تنہائی تو نہیں ہے یہاں، سب ایک دوجے کے رشتے دار ہیں، دولت کی کوئی کمی نہیں ہے، ہاں بس بڑھاپا ہے تو اس کا علاج تو کہیں بھی ممکن نہیں ناں، کچھ لوگ اپنے بچوں کے پاس یورپ گئے بھی تھے، لیکن اکتا کر واپس چلے آئے، اس لیے کہ وہاں تو کوئی ان کی باتیں سننے کے لیے فارغ نہیں بیٹھا ہوا ناں، وہاں تو سب کام کرتے ہیں، بیٹا ہر چیز کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو انہوں نے بھی اس دولت کی قیمت اپنے بیٹے بیٹیوں سے جدائی سے ادا کی ہے۔ ہاں یہ بات تو ہے، میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ لیکن حکیم بابا آپ نے مجھ سے ابھی کہا تھا کہ آپ اس بات پر حیران تھے کہ میں نے یہ سوال پہلے کیوں نہیں اٹھایا، لیکن بابا آپ نے بل کہ ماں جی اور میری بہنوں نے بھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کیوں آیا ہوں، اور تو اور یہاں کے کسی شخص نے بھی مجھ سے کچھ نہیں دریافت کیا، کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
حکیم بابا پہلے بہت دیر خاموش رہے اور پھر کہا: کیا یہ ضروری ہے کہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیا جائے اور کیا یہ بھی ضروری ہے کہ فوری دیا جائے۔ میں سننا چاہتا ہوں بابا، میں نے کہا۔ تُو کیا کیا سننا چاہتا ہے، کیوں سننا چاہتا ہے، تسلیم کیوں نہیں کرلیتا آخر، کہ تسلیم کرلینے میں ہی عافیت ہے۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے۔
لیکن بابا سوال اٹھانا میری فطرت میں ہے، کسی بھی واقعہ کو بِنا کوئی سوال اٹھائے خاموشی سے بس مان لینا میرے لیے ممکن نہیں، اور پھر یہ بھی کہ سوال غلط ہوسکتا ہے، ضرور ہوسکتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کسی غلط سوال کا کوئی جواب نہ ہو، ایسا کیسے ممکن ہے، میرا سوال پھر ان کے رُو بہ رُو تھا۔ آج بہت دن کے بعد میں اپنے رنگ میں آیا تھا، ماں جی اور میری بہنیں حیرت اور خاموشی سے مجھے دیکھ اور سُن رہی تھیں، اس طرح بات کرتے ہوئے انہوں نے مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ حکیم بابا پھر سے شاید مراقبے میں چلے گئے تھے اور میں ان کے جواب کا منتظر تھا۔ آخر انہوں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: دیکھو کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جواب انسان کو فوری نہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ہی ملتا ہے، اس لیے انسان کو صبر سے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
یہ کیا بات ہوئی بابا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں کوئی سوال نہ کروں، بس خاموشی سے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں، مشکل ہے یہ میرے لیے، میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ دیکھو بیٹا یہ جو لاعلمی ہوتی ہے ناں، یہ بھی رب تعالی کی ایک نعمت ہے، ہر بات کی ٹوہ لینا گناہ ہے، رب تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔ کیا مطلب، یعنی انسان کو لاعلم رہنا چاہیے، اور بابا رب تعالی نے کسی اور کی ٹوہ لینے سے منع فرمایا ہے یہ خود کو ڈھونڈنے، اپنی ٹوہ لینے سے کب منع کیا ہے، مجھے بچپن میں حافظ طاہر درویش نے بتایا تھا کہ کائنات کی ہر شے سمجھ میں آسکتی ہے بہ شرطے آپ اسے جاننا چاہیں، انہوں نے ہی مجھے کہا تھا رب کی باتیں رب سے پوچھو، مجھ سے تو بس میرے متعلق پوچھو۔ بابا پھر خاموش تھے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جانتے ہیں لیکن بتا نہیں رہے۔
دیکھو بیٹا سوال سے سوال پیدا ہوتا ہے، تم درست کہہ رہے ہو کہ ان کا جواب جاننا انسان کی سرشت میں ہے، لیکن ہر شے کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت سے پہلے کچھ معلوم ہوجانا آگ ہے، جو بھڑک جائے تو پھر ٹھنڈی نہیں ہوتی، انسان کو جلائے رکھتی ہے، اسے سولی پر چڑھائے رکھتی ہے تو بس صبر سے جواب کا انتظار کرنے کا کہا گیا ہے، سوچنے سے منع نہیں کیا گیا، عجلت سے منع کیا گیا ہے اور تم بہت زیادہ عجلت کا شکار ہو، تمہیں صبر سے انتظار کرنا ہوگا اس وقت کا جب تمہارے سوالات کے جوابات تمہیں مل جائیں۔ بابا یہ کہہ کر پھر خاموش ہوگئے۔
حکیم بابا میں نے خود کو نہیں بنایا، خالق نے مجھے ایسا بنایا ہے، بے صبرا، آپ نہیں جانتے میں چھوٹا تھا جب میں نے اپنا مکان انہی سوالات کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ پھر میرے ساتھ کیا کیا ہوا، میں زندہ ہوتے ہوئے قبرستان کا ہوگیا، ایک بابا جی نے تو مجھے زندہ ہی قبر کے حوالے کردیا تھا، انہوں نے ہی مجھے حکم دیا کہ میں کسی ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں مجھے کوئی جانتا ہی نہ ہو، آپ مجھے نہیں جانتے بابا، نہیں جانتے آپ، جس آگ کا آپ کہہ رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ میری مٹی اسی آگ میں تپائی گئی ہے، میں کچھ جانتا نہیں ہوں اور جو جانتے ہیں وہ بتاتے نہیں ہیں، عجب زندگی ہے میری، مجھے کچھ بھی تو سمجھ نہیں آتا، بس میں اتنا جان پایا ہوں کہ اوپر رب تعالیٰ ہے اور نیچے میں بے کار، بس اس نے مجھے گود لیا ہوا ہے، میں بس اس سے ہی سب کچھ پوچھتا رہتا ہوں، میں اس سے لڑتا رہتا ہوں لیکن اس نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اور مجھے یہ بھی یقین ہے، بل کہ یقین کامل کہ وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ۔۔۔۔۔۔۔ بس کرو بیٹا، بس کرو، ہاں میں کچھ نہیں جانتا، بس اب کچھ نہیں بولنا، ہم کسی اور وقت میں یہ باتیں کر لیں گے، بس اب کچھ نہیں بولنا۔ حکیم بابا نے مجھے خاموش ہوجانے کا حکم دیا، میں شاید پھٹ پڑا تھا اور نہ جانے کیا کیا بولے جارہا تھا۔
بہنیں بالکل خاموش تھیں، لیکن ماں جی مجسم حیرت بنی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھیں، پھر میری حالت دیکھ کر وہ بے چین ہوگئیں اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر رونے لگیں، کیا کہہ رہا تھا بیٹا، کیا ہوگیا میرے بیٹے کو، کیسی کیسی باتیں کر رہا تھا تُو میرے بچے۔ مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا، مجھے سب کے سامنے یہ سب کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا، میں ہوں ہی جاہل، جہاں خاموش رہنا تھا، وہیں بول بیٹھا تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا ہے، سمجھایا گیا ہے کہ بات کرنے سے پہلے وقت دیکھوں، سامعین کو دیکھوں، ہر کس و ناکس کے سامنے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے مجھے، خلوت کی باتیں، خلوت میں ہی زیبا ہیں، لیکن مجھ بے عقل کو کبھی سمجھ نہیں آیا، بہت مار بھی کھائی اور نہ جانے کیا کیا، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، اب تو تِیر کمان سے نکل چکا تھا، حکیم بابا کی مجھے کوئی فکر نہیں تھی، لیکن میں نے اپنی معصوم بہنوں اور جنت جیسی ماں جی کو پریشان ہی نہیں آزردہ کردیا تھا، اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، پچھتاوے کے ساتھ ندامت میری آنکھوں سے برسنے لگی۔ کچھ نہیں ہوا ماں جی، بس ویسے ہی کبھی کبھی مجھ پر دورہ پڑجاتا ہے اور مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا، میری باتوں کو نظر انداز کیجیے، مجھے معاف کر دیجیے، بھول جائیے کہ میں نے کچھ کہا بھی تھا۔ ماں جی مجھے دلاسا دیتی رہیں اور پھر مجھے کچھ پتا نہیں چلا، میں سو چکا تھا۔