ملاعمرکانہیں قائد اعظم کاپاکستان

میں ایسے قلم کاروں کو جانتا ہوں جو پاکستان سے زیادہ دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں اور اپنی اس رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

latifch910@yahoo.com

کامرہ ایئربیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے 14 اگست کو کاکول اکیڈمی میں خطاب کے کچھ حصے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ پاک فوج کی اسٹرٹیجی کے آئینہ دار ہیں ''اپنی ناقص رائے مسلط کرنے کے لیے کوئی بندوق کا سہارا لے تو یہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج کی نہیں سب کی ہے''۔ ایک جملہ کچھ یوں ہے' انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ حق بجانب ہے' اپنی رائے کو حتمی سمجھنا انتہا پسندی ہے''۔ ان جملوں میں جو اشارے چھپے ہوئے ہیں، یہ ان قوتوں پر پوری طرح آشکار ہیں جنھیں پیغام دیا گیا ہے۔

ان کا خطاب دراصل اپنے گھر کی تصویر کشی ہے' جہاں سرد جنگ میں تیار ہونے والے نام نہاد جہادیوں نے تباہی مچا رکھی ہے اور ان سے پیار کرنے والے بھی اسی گھر میں مقیم ہیں۔یہ خودساختہ مجاہدین اس ملک پر حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنے ناقص اور مبہم نظریات کو آئین اور قانون کا درجہ دے کر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ بے گناہوں کے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج ہے، اگر وہ خدا نخواستہ اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پورا ملک ان کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آن گرے گا۔

یہ خطرناک کھیل مادر وطن کو ایسے موڑ پر لے آیا ہے جہاں ایک راستہ زندگی اور دوسرا موت کی طرف جاتا ہے۔ ہم نے ان میں سے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ آرمی چیف نے چودہ اگست کے خطاب میں واضع پیغام دیا ہے کہ ریاست کسی متوازی نظام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ناقص اور نامکمل رائے کو سب پر نافذ کرنا دہشت گردی ہے اور جو آدمی خود کو عقل کل سمجھے اور اپنا فیصلہ حرف آخر جانے تو یہ بنیاد پرستی ہوتی ہے۔ آرمی چیف کی ان باتوں کو سامنے رکھیں تو کامرہ ایئربیس پر حملے کی سمجھ آ جاتی ہے اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسی کون سی قوتیں ہیں جو ان کی ہمدرد یا پشت پناہ ہو سکتی ہیں۔

میں ایسے قلم کاروں کو جانتا ہوں جو پاکستان سے زیادہ دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں اور اپنی اس رائے کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاک فوج پر جب بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ کراچی، لاہور یا ملک کے کسی شہر میں کوئی خود کش دھماکا ہو تو وہ یہ برملا کہتے ہیں کہ جب پاکستان افغانستان میں مقیم نیٹو فوج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرے گا تو پھر ایسا تو ہو گا۔ انھیں شاید معلوم نہیں کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کو حامد کرزئی اینڈ کمپنی نے بلایا ہے۔


انھیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد ملا عمر اور ان کے مصاحبین جان بوجھ کر اڑتے ہوئے تیر کے آگے کھڑے ہو گئے تھے۔ یوں امریکا کو دعوت دی گئی کہ وہ آئے اور افغانوں کو تباہ کرے۔ سنا ہے کہ اب ملا عمر امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں اور افغانستان کے اقتدار میں شراکت چاہتے ہیں، اس پر مجھے پنجابی کی شہرہ آفاق فلم مولا جٹ کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے، جس میںنوری نت(مصطفی قریشی) ملک حاکو (الیاس کشمیری) کو طعنہ دیتا ہے، ''دوہترے تے پوترے مروا کے ہن مولوی بن گیا ایں، جھوٹھیا ملکا'' (نواسے اور پوتے قتل کرا کے اب شریف بن گئے ہو! جھوٹے ملک) ملا عمر اور ان کے ساتھی نائن الیون کے فوراً بعد ہی امریکا سے معاملہ طے کر لیتے تو انھیں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کابل سے فرار ہونا پڑتا نہ ہی پاکستان کو یہ دن دیکھنے پڑتے۔ ادھر پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

ابھی چند روز پہلے شیخ رشید نے ملا عمر کو امیرالمومنین کے خطاب سے پکارا اور ان سے اپیل کی کہ وہ جنوبی وزیرستان میں عمران خان کے استقبال کا حکم جاری کریں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ملا عمر ہی امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کو طعنہ کس بات کا۔ کیا ان شخصیات کو سمجھ نہیں آ رہی کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے۔

پاکستان کے حساس اور کڑی سیکیورٹی والے مقامات پر ایک بار نہیں کئی بار حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک جی ایچ کیو پر حملہ تھا، اس کے بعد کراچی میں مہران بیس کو نشانہ بنا یا گیا اور وہاں پاک نیوی کے اورین طیاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب کامرہ میں پاک فضائیہ کی ایئربیس پر حملہ کیا گیا۔ اس سے قبل تین بار اس بیس کو نشانہ بنانے کی کوشش ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو متحد رکھنے کی بنیادی اکائی اس کی مسلح افواج ہوتی ہیں۔ یہ ملک کی سپریم طاقت ہوتی ہے۔ ہر قسم کی شورش، بدامنی، بغاوت یا باہمی جنگ و جدل پر قابو پانے کے لیے یہ طاقت ہی کام آتی ہے۔

کسی ملک میں فوج کمزور پڑ جائے یا تقسیم ہو جائے تو اس کا قائم رہنا ممکن نہیں رہتا، مختلف اسلحہ بند گروہ مختلف علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں۔ صومالیہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ ملک وار لارڈز کے کنٹرول میں ہے اور اس کے ساحلوں پر بحری قزاقوں کا قبضہ ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں فوج کے بعد اگر کوئی مسلح قوت ہے تو وہ دہشت گرد تنظمیں ہیں۔ پولیس یا خاصہ دار فورس وغیرہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ جنوبی وزیرستان میں بیت اﷲ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان نے باقاعدہ اقتدار حاصل کر لیا تھا۔

میں کئی ایسے حضرات کو ملا ہوں جو جنوبی وزیرستان کو امارات اسلامیہ وزیرستان کہتے تھے۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ لڑاکا فورس تھی ، اس فورس سے صرف پاکستان آرمی ہی لڑ سکتی تھی۔ پاکستان آرمی نے ان کی کمر توڑ دی اور جنوبی وزیرستان کو ان کے قبضے سے آزاد کرا لیا۔ جنوبی وزیرستان میں میں نے اپنی آنکھوں سے وہ مورچے اور غاریں دیکھیں ہیں جو جنگجوئوں کی کمین گاہیں تھیں۔ جنوبی وزیرستان ہو یا شمالی وزیرستان، اگر وہ پاکستان کا علاقہ ہے، وہاں کے باشندے پاکستان کے وسائل پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں، تو انھیں اس کے آئین و قانون کا پابند ہونا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کے اداروں پر حملے ہوتے رہیں، پاکستانی شہری قتل ہوتے رہیں، کوئی یہ کہتا رہے کہ کسی علاقہ غیر میں آپریشن نہیں ہونا چاہیے، ہمیں ملا عمر کا افغانستان نہیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے، جہاں ہر شہری اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہو۔

Recommended Stories

Load Next Story