چین کی ہوش رُبا ترقی کا راز چینی زبان پر مکمل انحصار ہے
چینی دنیا کی واحد زبان ہے جس میں ایک ہی لفظ کو ’’اونچا‘‘ دھیما اور تیز بولنے سے مفہوم بدل جاتا ہے.
BERLIN:
قسط نمبر : 5
'' ـ زبانِ یارمن چینی و من چینی نمی دانم'' اس ضرب المثل کی حقیقت اُس وقت ہم پر عیاں ہوئی جب نئے نئے چین پہنچے اور چینی لوگوں سے ہم کلامی کی ضرورت پیش آئی۔ حالت یہ تھی کہ ہم چینی زبان سے نا آشنا اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت کو انگلش سے نا بلد پایا۔ یوں ہماری گفتگو ابتداء میںنی ہاو اور ہیلو ہائے سے آگے نہ بڑھی۔ویسے چین جا کر جو سب سے پہلا لفظ سیکھا وہ ''نی ہاو'' ہی تھا جس کامطلب السلام علیکم سے ملتا جلتا ہے۔
جب ہم مارکیٹ میں جاکر چینی دکانداروں کو نی ہاو بولتے تو وہ بہت خوش ہوتے مگر ان کی یہ خوشی لمحاتی ثابت ہوتی کیونکہ جب وہ مزید گفتگو چینی میں جاری رکھنا چاہتے تو ہم خاموش ہوجاتے۔ چین میں معیشت و معاشرت کے ضوابط، سائنس و ٹیکنالوجی کے اسرار ورموز، پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی ہدایات، بینکنگ کے معاملات ، دفتری و عدالتی امور ، عوامی سہولیات سے استفادے کے حوالے سے معلومات سبھی کچھ چینی زبان میں ہے۔ چین کی تمام ترترقی ان کی اپنی زبان کی مرہونِ منت ہے۔
چینی زبان کے مختلف لہجے ہیں جو کہ چین بھر میں بولے جاتے ہیں۔شمالی چین اور جنوبی چین میں بولی جانے والی چینی میں بڑا واضح فرق ہے۔جنوبی چین میںبولی جانے والی زبان کینٹونیز (Cantonese) کہلاتی ہے۔انیس سوتیس سے چین میں جو سرکاری زبان رائج ہے اس کو مندرین (Mandarin) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک اور نام پُوتنگخواہ (Putonghua)بھی ہے جس کا مطلب کامن سپیچ یا عام گفتگو ہے۔ویسے تو چینی زبان کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے مگر ہم اس میں بیسوی صدی میں ہونے والی ارتقائی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کریںگے۔
لسانی ماہرین نے چینی زبان کولہجے کے اعتبار سے سات سے دس گروپس میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سب سے بڑا لہجہ مندرین (Mandarin) ہے ۔ اس کے بعد وُو(Wu)، من (Min) یو ای (Yue)گن(Gan)، شیانگ (Xiang) اور ہکا (Hakka)ہیں۔ اگر دیکھا جائے کہ کو نسا لہجہ یا ڈائیلیکٹ کہاں کہاں اور کتنے لوگ بولتے ہیں تو سب سے بڑا لہجہ یا ڈائیلیکٹ مندرین (Mandarin)ہے جو کہ چین کے پورے شمال اور جنوب مغرب میں بولا جاتا ہے اس کو بولنے والی آبادی کا تناسب 71.5فیصد ہے ۔اس کے علاوہ چین کے مختلف علاقوں اور شہروں کے مقامی لہجے بھی ہیں۔ چینی زبان کی ایک نمایاں اور امتیازی خاصیت اس کی چار ٹونزTones) ہیں۔اس کی جانکاری کا سبب بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ہم اپنی دیسی عادات سے مجبور دودھ، دہی کی تلاش میں تھے۔
اُردو سروس کی ایک چینی ساتھی وانگ (اُردو نام مسرت) سے دودھ اور دہی کے چینی الفاظ سیکھے اور سٹور پر جا پہنچے لیکن دکاندار کو ہماری بات پلے نہ پڑی۔ بعد میں دفتر آکر اس تجربے کو چینی ساتھیوں سے شیئر کیا تو پہلے تو وہ مسکرائے اور بتایا کہ چینی زبان کی چار ٹونز ہوتی ہیں۔ ایک فلیٹ (Flat)، ایک رائزنگ (Rising) ، ایک فالنگ اور رائزنگ (FallingandRising)اور ایک فالنگ (Falling)ہے۔ ایک چینی شہری ہی دوسرے چینی شہری کے الفاظ کے اتار چڑھاو سے تبدیل ہونے والا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔تب ہمیں معلوم ہوا کہ دکاندار ہماری بات سمجھنے سے اس لیے قاصر تھا کہ ہماری چینی الفاظ کی ادائیگی درست نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ ہمارا مدعا سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
چینی زبان کے کچھ تیکنیکی پہلووں کی گرہ ڈاکڑ ظفر حسین کے گھر کھلیں۔ڈاکٹر ظفر حسین ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور چین میں مقیم ہیں اور اُس وقت پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلا لیا۔وطن سے دور پاکستانی کھانے اور وہ بھی گھر میں روایتی انداز سے تیارکردہ ۔کھانے کالطف ہی دو بالا ہو گیا ۔ ان کے گھر جا کر یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی پاکستانی فیمیلیز بھی بیجینگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز تھیں۔کھانے کے دوران چینی معاشرے اور زبان کا موضوع چھڑگیا تو معلو م ہوا کہ ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بشری ظفر چینی زبان میں گریجویشن کی ڈگری کی حامل ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا "چینی زبان کے کیریکٹرز میں Strokes بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
بنیادی Strokes آٹھ ہیں۔دراصل دو یا اس سے زیادہ Strokes جو کہ باہمی طور پر جڑے ہوتے ہیںاور ایک مجموعے یا سیٹ کی صو رت میں ہوتے ہیںان کی کل تعداد 29 ہے اور 39 قسم کے مختلف Strokes سے چینی کیریکٹرز تشکیل پاتے ہیں۔چینی کیریکٹرز کو لکھنے کے کچھ متفقہ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو چین میں صدیوں سے اپنایا جا رہا ہے اور ان میں سڑوکس کی ترتیب نمایاں اور بڑی واضح ہوتی ہے۔چینی کیریکٹرز کو چارا اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم شیانگ شنگ (Xiangxings) ہے ۔ اس کا مطلب تصاویر کے ذریعے چینی کیریکٹرز کا اظہار ہے۔اس طرح کی علامات ان اشیاء کی خصوصیت سے ملاپ رکھتی ہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا میں موجود اشیاء کا عکس ہوتی ہیں۔مثلاً کھیت،سورج اور پہاڑ کی چینی زبان میں علامات ۔ شیانگ شنگ اصولوں کی بنیاد پر چینی علامتوں یا کیریکٹرز کے پہلے یا ابتدائی سیٹ کو ترتیب دیا گیا ہے۔ دوسری قسم ذی شی (ZhiShi) علامات جو ازخود وضاحت والی ہوتی ہیں۔
تصویری علامتوں یا کیریکٹرز کے برعکس وہ کسی بھی چیز کی جسمانی ساخت سے مطابق نہیں رکھتیں تاہم ان میں کچھ اشارے موجود ہوتے ہیں مثلاً اوپر یا نیچے کی طرف کا اشارہ یا علامت۔ تیسری قسم ہوئی ای (Huiyi) علامات یا کیریکٹرز میں باہمی ربط قائم کرنے والے مجموعے ہوتے ہیں۔یہ زیادہ تر دو یا اس سے زیادہ کیریکٹرز یکجا کرکے کسی چیز کا مطلب سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چوتھی قسم شنگ شینگ (Xingsheng) کیریکٹرز ہیں جن کو تصویر اور صوت والے کیریکٹرز بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح کے کیریکٹرز میں کم از کم دو علامات جڑی ہوتی ہیں۔ایک علامت کا مطلب اظہار ہوتا ہے جب کہ دوسری سے مراد آواز ہوتی ہے۔چینی زبان کے زیادہ تر کیریکٹرز شنگ شینگ (Xingsheng) ہیں۔''
بشری ظفر کے گیا ن سے فیض یاب ہوئے تو چینی زبان میں دلچسپی اور بڑھ گئی۔ایسے ہی ایک روز بیجینگ کی سب وے میں سفر کرتے ایک غیر ملکی کو چینی زبان میں روانی سے فون پر گفتگو کرتے سنا۔ چہرے مہرے سے ایشیائی دکھائی دیے تو سوچا کہ بات کر ہی لی جائے۔ ان کو اپنا ہم وطن پا کر خوشی دو با لا ہوگئی۔ پوچھا حضرت اس قدر روانی سے چینی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا۔ فرمانے لگے کہ چین میں آٹھ سالوں سے مقیم ہوں اورچینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے(HSK) کا اعلی ترین لیول سکس (Six) پاس کیا ہوا ہے۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ ہم بہت مرعوب ہوئے اورا ن سے چینی زبان سیکھنے کے متعلق بہت سوالات کیے۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں اونچا بولنے، دھیما بولنے اورتیز بولنے سے مفہوم بدل جاتا ہے۔ ان کی یہ بات سن کر ہمیں اپنی دودھ، دہی والی غلطی یا د آگئی۔ ان سے باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ ان کا سٹاپ آگیا اور وہ اترنے کی تیاری کرنے لگے۔
اس وقت مجھے احسا س ہوا کہ چینی زبان کی باتوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے اس چیز کا احساس ہی نہ رہا کہ ان کا نام پوچھ لیتے۔تو جب وہ اترنے لگے تو ان سے ان کا نام پوچھا اور جلدی سے وی چیٹ شیئر کیا تو یوں اظہر سعیدخان سے آئندہ ملاقات کے وعدے پر یہ گفتگو تمام ہوئی۔چینی زبان کی انہی ٹونز کی وجہ سے ہی چین میں نئے آنے والے غیر ملکیوں کے لیے ابتدا ء میں چین کے دو صوبوں Shanxi اور Shaanxi کے ناموں میں فرق و امتیاز برتنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
دونوں صوبوں کا تلفظ اور ادائیگی بظاہر ایک سی دکھائی دیتی ہے مگر چینی شہری ان دوصوبوں کے ناموں کے درمیان فرق ان کے نام بولتے وقت مخصوص ٹون کا استعمال کر کے با آسانی کرلیتے ہیں۔اسی طرح کا کچھ معاملہ چین کے ایک صوبے اور اسی صوبے کے ایک شہر کے نام کے درمیان ہے جس میں ابتدائی سطح پر فرق روا رکھنا بظاہر غیر ملکیوں کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔چین کے ایک صوبے کا نام Guandong ہے جبکہ اسی صوبے کے ایک شہر کا نام Dongguan ہے۔اب یہ دونوں نام بظاہر ملتے جلتے ہیں۔مگر چینی شہری ان میں با آسانی تمیز کر سکتے ہیں۔ ہمارا چینی زبان سے استوار ہونے والا الفت کا رشتہ اپنے رنگ دکھا رہا تھااور ہم ہر روز کچھ نہ کچھ اس کے متعلق پڑھتے رہتے یا دوستوں سے پوچھتے رہتے۔ اسی تناظر میں چینی زبان پر ایک ریڈیو پروگرام کی تیاری کے دوران اس زبان کے حوالے سے جو معلومات اکٹھی کیں ۔ وہ بھی کافی دلچسپ ہیں۔
چینی زبان کو سادہ بنانے اور پورے ملک میں اس کو یکساں سطح پر اختیار کرنے اور اس کے نفاذ کی کوششیںعوامی جمہوریہ چین کے قیام کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئیں تھیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے ابتداء ہی سے مینڈرین کو قومی زبان بنانے کے متعلق سوچ رہی تھی تاکہ شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا جاسکے۔انیس سو پچپن میں کمیونسٹ پارٹی نے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میٹنگ کا مقصدمینڈرین کی بنیاد پر ایک Alphabetic سسٹم ترتیب دینا تھا۔چین کے وزیراعظم چو این لائی نے چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو اس کام کے لیے نامزد کیا۔ چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بنیادی طور پر ماہرِمعیشت تھے مگر انہیں لسانیات اور لسانی امور سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ چین کے اعلی سطح کے معاشی اداروں سے وابستہ رہے اور ایک چینی معاشی ادارے کے امریکہ میںنما ئندے کے طور پر تین سال تک کام کرتے رہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد وہ چین واپس آئے اور شنگھائی کی ایک یونیورسٹی میں معیشت پڑھانے لگے۔
ان کی چین کے وزیراعظم سے شناسائی چھانگ چھنگ میں قیام کے دوران ہوئی۔چھانگ چھانگ ایک زمانے میں چین کا جنگی دارالحکومت تھا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب جاپان نے چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے چین پر حملہ کیا۔ اس دورمیں چو این لائی کمیونسٹ پارٹی کے ایک نمایاں رہنما تھے اور وہ دانشوروں ، ادیبوں اور پڑھے لکھے افراد سے باقاعدگی سے بات چیت کیا کرتے تھے۔انہی دانشوروں میں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بھی شامل تھے جو کہ چھانگ چھنگ میںایک معاشی ادارے سے وابستہ تھے مگر باقاعدگی سے ان دانشوروں کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے اور لسانی امور میں اپنے شوق کی وجہ سے چواین لائی کی نظروں میں آ گئے۔بعد میں جب چو این لائی وزیراعظم بنے تو انہیں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) اپنی لسانی شوق کی وجہ سے یاد تھے۔
اس لیے انہوں نے اِن کو ایک قومی زبان کو تشکیل دینے کے لیے نامزد کیا۔ نامزدگی کے بعدانہوں نے بہت عذر تراشے کہ میں تو ماہرِ معیشت ہوں مگر چونکہ وزیراعظم ان کی لسانی امور میں مہارت اور ان کے شوق کو جانتے تھے اس لیے ان کی ایک نہ چلی اور انہوں نے ان کو اس کام کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ یہ ایک فیصلہ چین میں بہت دوررس نتائج کی بنیاد ثابت ہوا۔چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو چین میں فادر آف پِھنین(Father of Pinyin) کو بھی کہا جاتا ہے۔لسانی امور کی نزاکتوں اور تیکنیکی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کو وقتی طور پر نظرا نداز کرتے ہوئے عام آدمی کی تفہیم کے لیے سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے پِھنین (Romanized Spelling System) ہے۔اس سسٹم نے چین کی قدیم زبان کو جدید عہد سے ملادیا۔ پِھنین سسٹم کی ایجادسے پہلے یہ ایک عمومی مسئلہ تھا کہ چینی زبان کے کیریکٹرز براہ راست آواز سے ہم آہنگ نہیں تھے۔
پِھنین کے Phonetic Alphabetسسٹم سے الفاظ کو گفتگو سے ہم آہنگ کرنے میںآسانی ہوئی۔اس سے چین کی شرحِ خواندگی میں نمایا ں اضافہ ہوا اور چینی زبان میں آسانی پیداہوئی۔کہا جاتا ہے کہ انیس سو پچاس میں چین کی شرحِ خواندگی آٹھ فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر نوے فیصد سے زائد ہے۔اسی سسٹم کی وجہ سے Pekingکو Beijing کہا جانے لگا۔ چین کا جنگی دور کا دارالحکومت Chungkingتبدیل ہو کر Chongqing کہلایا جانے لگا اور چین کے بانی رہنما کا نام MaoTse Tung سے تبدیل ہو کرong Mao Zed لکھا جانے لگا۔
چو یوگوانگ اوران کے ساتھیوں کو یہ سسٹم بنانے میں تین سال کا عرصہ لگا۔چین میں گیارہ فروری انیس سو اٹھاون کو اس سسٹم کو اپنایا گیا اور International Organization For Standardization نے انیس سو بیاسی میں اس کو اختیار کیااقوامِ متحدہ نے اس کو انیس سو چھیاسی میں اپنایا۔ اسی سسٹم سے نابینا افراد کو پڑھنے میں آسانی پیدا ہوئی اور ان کے لیے بریل(Braille)بنی۔ اب چین کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو ابتداء سے ہی پِھنین پڑھائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ چینی کیریکٹرز بھی پڑھتے ہیں۔چین میں سمارٹ فونز اور دیگر سمارٹ گیجٹس میں یہی پھنین استعمال ہوتی ہے۔ موبائل فون پر ٹیکسٹ پیغامات لکھنے اور بھیجنے، ای میلز، انٹر نیٹ اورسوشل میڈیا پر بلاگز لکھنے کے لیے یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ترقی کی وجہ سے چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں نمایا ں اضافہ ہو اہے۔
چین میں قیام کے دوران بہت سے غیر ملکی طلباء سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان میں اپنے ہم وطن بھی تھے اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ اکثر سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ طلباء کی ایک کثیر تعداد چینی زبان پڑھنے اور سیکھنے یہاں آئی ہوئی ہے۔ چینی زبان سیکھنے والے ایک پاکستانی طالب علم فہد بقا سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ چین میں انگلش زبان میں مہارت کے امتحان IELTS اور TEFL کی مانند ایک ٹیسٹ HSK (Hanyu Shuiping Kaoshi) ہے جو کہ غیر ملکیوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ لیتا ہے۔
اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم چینی شہریوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ بھی اسی ٹیسٹ سے لیاجاتا ہے۔ اس کے ایک سے لیکر چھ تک لیولز ہیں۔ ہر لیول پر مہارت کا معیار مختلف ہے۔ یہ لیولز چینی حروف تہی کی پہچان اور اِن کے استعمال سے لے کر چینی زبان میں ہر طرح کی معلومات کو سمجھ کر زبانی اور تحریری اظہار خیال کی صلاحیت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر لیول کے کل تین سو مارکس ہوتے ہیں۔ جبکہ پاس کرنے کے لیے ایک سو اسی مارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔یوں ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرنے والا کامیاب قرار پاتا ہے۔ اس امتحان میں بھی Listening, Reading, Writing, Speaking کے مراحل ہوتے ہیں۔ اس کا ہر ماہ ٹیسٹ ہوتا ہے ۔ یوںسال میں بارہ مرتبہ اس کا انعقاد ہوتا ہے۔طالب علم دو ہفتوں کے بعد آن لائن اپنا رزلٹ چیک کر سکتا ہے اور چالیس دن بعد اس کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔اس ٹیسٹ کا دورانیہ ایک گھنٹہ تیس منٹ ہوتا ہے۔ٹیسٹ کی ایکسپا ئری کا دورانیہ دو سال ہے۔سی آر آئی میں کام کرنے والے ایک چینی ساتھی لی ہانگ (Li Hong) کے مطابق چینی زبان کے کیریکٹرز کے تعداد اسی ہزار سے زائد ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ تعداد 91251 ہے۔ روزمرہ استعمال میں آنے والے الفاظ کی تعداد 3500 ہے۔
چین میں ہائی سکول( ہمارے ہاں کا میڑک سمجھ لیں) کے طلباء کے لیے 3500-4000 کیریکٹرز کا مطالعہ ضروری ہے۔جبکہ 5000-6000 کیریکٹرز یونیورسٹی طلباء کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔چینی زبان کو سیکھنے والے غیر ملکیوں کی چینی زبان کے کیریکٹرز کی ووکیبلری عمومی طور پر 6000-7000 تک محدود ہوتی ہے۔ کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ ، بیجینگ میں زیر تعلیم ایک پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر ظفر حسین نے بتایا کہ ان کی جامعہ کی ایک چینی خاتون ٹیچر چین (Chen) جن کا انگلش نام Julia ہے وہ واشنگٹن یونیورسٹی اور دیگر غیر ملکی اداروں اور جامعات میں چینی زبان پڑھاتی رہی ہیں۔ان کا شمار چین کے صف اول کے اساتذہ میں ہوتا ہے انہیں بیس ہزار چائینز کیریکٹرز آتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی کیریکٹرز کا علم مخصوص شعبہ جات کے حوالے سے تبدیل ہوتار ہتا ہے۔چینی شعراء اور ادیب زیادہ کیریکٹر ز جانتے ہوتے ہیں۔عمومی طور پر پڑھے لکھے افراد کو بارہ ہزار تک کیریکٹرز آتے ہیں۔ایچ ایس کے ٹیسٹ کا انعقاد Hanban کرتا ہے جوکہ چین کی وزارتِ تعلیم کا ایک ادارہ ہے۔ ایچ ایس کے کے سپیکنگ (Speaking) ٹیسٹ بھی منعقد ہوتے ہیں۔اس کے بھی تین لیولز ہیں۔ پرائمری، انٹر میڈیٹ لیول اور ایڈوانسڈ لیول ۔
چین اپنی زبان کی ترویج وترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات اپنا رہا ہے۔چین میں نہ صرف مختلف تعلیمی ادارے، دیگر حکومتی اداے چینی زبان کی تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپس فراہم کرتے ہیں بلکہ چین کے نشریاتی اداروں میں بھی اس حوالے سے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اردو سروس نے چینی زبان کی اشاعت کے حوالے سے کتابیں بھی شائع کروائی ہوئی ہیں۔
ان میں اردو کی مدد سے چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ چینی زبان سکھانے کا ایک پروگرام سی آر آئی کی تامل سروس سے بھی ہفتے میں پانچ دن پیش کیا جاتا ہے۔ ہندی سروس سے بھی ـ چینی بھاشا سیکھیں کے نام سے روزانہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی اور پشتو سروس سے بھی اسی نوعیت کے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ چین کی ایک نیوز ایپ چائنہ پلس(China Plus) پر چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔چین دنیا بھر سے طالب علموں کو چینی زبان سیکھنے کے لیے سکالرشپس فراہم کرتا ہے ۔چین کے دارالحکومت بیجینگ میں موجود ایک یو نیورسٹی بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing
Language andCultre University) چین بھر میں چینی زبان کی تدریس کے حوالے سے ایک معروف جامعہ ہے۔ اس جامعہ کو 1962میںچین کے وزیراعظم چو این لائی کی رہنمائی میںقائم کیا گیا تھا۔1964میں اس کو بیجینگ لینگوئج انسٹیوٹ کا نام دیا گیا جبکہ انیس سو چھیانوے میں اس کو اس کا موجودہ نام دیا گیا۔اسی کو منی یونائیٹیڈ نیشنز (Mini United Nations)بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا بھر سے طالب علم یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان سے بھی طلباء کاایک گروپ بھی یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے موجود ہے ۔
اسے پنجاب کے سابق وزیراعلی کے ایک پروگرام کے تحت یہاں بھیجا گیا تھا۔کل پانچ سو طلباء کو اس پروگرام کے تحت بھیجا جانا ہے۔ پہلا گروپ چھیاسٹھ طلباء و طالبات پر مشتمل تھا۔ اس میں پنجاب بھر سے اور گلگت بلتستان سے بھی کچھ طلباء شامل تھے۔ یہ دو سال تک چینی زبان پڑھتے رہے اور ان کو چینی زبان کا ایک ڈپلومہ دیا گیا ہے۔ ان طلباء کے آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ، وہاں قیام وطعام،ٹیوشن فیس، کتابوں اور دیگر تعلیمی اخراجات سب کے سب مفت تھے۔اس کے علاوہ ان طلباء کو ماہانہ اٹھائیس سو یوان وظیفہ بھی دیا جاتارہا۔ان کو چینی زبان میں مہارت کا ایچ ایس کے فائیو لیول کا امتحان بھی پاس کرنا ہوگا۔پہلا گروپ بیجینگ میں ہی رہا جبکہ بعد میں آنے والے طلباء کو چین کے مختلف شہروں شنگھائی، ووہان، چھینگ تاو، انر منگولیا اور چین کے صوبے حہ بے (Hebei)کے دارالحکومت شی جیاز ہوانگ (Shijiazhuangمیں واقع مختلف جامعات میں بھیجا گیا۔
چین میں بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing Language and Culture University) کے علاوہ بھی چین کی کم وبیش ہر جامعہ میں چینی زبان سکھانے کا باقاعدہ اہتمام بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نجی اداروں کی جانب سے اور آن لائن بھی چینی زبان کی تدریس کی سہولیات موجود ہیں۔جامعات کے ذریعے چینی زبان کی تدریس کے علاوہ دنیا بھر میں چین کا ایک ادارہ کنفیوشس سینٹر بھی چینی زبان و ثقافت کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہا ہے۔چین کا کنفیوشس سینٹر دنیا کے دیگر ممالک کی اپنی زبان وثقافت کے فروغ کے اداروں کی طرح کام کررہا ہے۔ اس کا قیام دو ہزار چار میں ہوا۔دنیا بھر میں اس کے تحت ادارے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کنفیوشس سینٹر نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کراچی یونیورسٹی میں قائم ہے۔جب ہم نے چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس کو اگست دوہز ار پندرہ میں جوائن کیا تو اس وقت ہمارا تعارف چن شیانگ (Chen Xiang) جن کا پاکستانی نام شاہین ہے سے بھی ہوا کہ وہ اردو سروس کے ایک سینئر ساتھی تھے اور ہمارے استقبالیہ کھانے کی دعوت میں شریک بھی ہوئے تھے۔بعد میں وہ دفتر آتے اورخاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ۔ بعدازاں وہ جنوری 2016ء میں سی آر آئی کنفیوشس کلاس روم پاکستان کے ڈائریکٹر تعینات کر دیئے گئے۔
ایک پاکستانی پوسٹ ڈاک (Post Doc)ڈاکٹر شاہد حسین ان دنوں چین کے ایک شہر نانجنگ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھار ہے ہیں۔ ان کا بنیادی شعبہ فزکس ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسین نے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاک چین ہی سے کی مگر انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں مہارت حاصل کرنے پر بھی محنت کی جس کی وجہ سے انہیں کئی بہتر مواقع میسر آئے۔ ڈاکٹر شاہد حسین کو دورانِ تعلیم بہترین ریسرچ کا ایک چینی حکومتی ایوارڈ بھی ملا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی یونیورسٹی میں ان کی جاب کے وقت ان کی تعلیمی کارکردگی اور چینی حکومتی ایوارڈ کے باوجود ان کی چینی زبان میں مہارت نے بڑی مدد کی۔جاب کے انٹرویو کے وقت ان کی چینی زبان میں چینی طلباء کو پڑھانے کی صلاحیت بہت کام آئی۔
اس کے علاوہ ان کاکہنا تھا کہ چینی زبان آنے کی وجہ سے انہیں سائنس وٹیکنالوجی کے فورمز، ایکسپوز، تعلیمی کانفرنسز، سیمینارز اورماہرین کے ساتھ با ت چیت میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اور انہیں چین میں اس طرح کے فورمز میں جانے یا ان کے ادارے کی جانب ان کو ان میں نامزد کیے جانے کے حوالے سے کبھی تامل نہیں ہوا۔ ایک او ر نوجوان پاکستانی پی ایچ ڈی ڈاکٹر محمد سعید (Animal Nutritionsit) Northwest Agriculture and Forestry University سے وابستہ ہیں اور چین کے شہر یانگ لنگ میں ہوتے ہیںاور پولٹری کی ریسرچ سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بھی چینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے فور پاس کیا ہوا ہے۔
ان کا بھی کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران لیب میں ٹیکنیکل اشیاء کے بہتر استعمال،اپنے چینی اساتذہ اور لیب میٹس کے ساتھ بہتر کمیونیکیشن میں انہیں چینی زبان کی وجہ سے بہت آسانی ہوئی۔ بیجینگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی (Beijing Foreign Studies University) بیجینگ میںاردو کی تدریس سے وابستہ اور چینی زبان میں ماہر ایک پاکستانی خاتون بشریٰ ظفر بھی ہیں ۔جن کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ چین کے صدر شی جن پھنگ سے ان کی بالمشافہ ملاقات ہے۔چین کے صدر سے ان کو ملاقات کے لیے منتخب کیے جانے کی بنیادی اور اہم وجہ ان کی چینی زبان میںمہارت تھی۔ یہ ملاقات بیجینگ کے گریٹ ہال میں دو ہزار بارہ میں ہوئی تھی جب وہ پہلی مر تبہ صدر منتخب ہوئے تھے ۔
صدر شی جن پھنگ سے ملاقات کے لیے چین میں مقیم مختلف ممالک کے دس فارن ایکسپرٹس کو منتخب کیا گیا تھا۔ان دس ایکسپرٹس میں بشری ظفر واحد پاکستانی تھیں۔ملاقات کا مقصد غیرملکیوں کے خیالات اور رائے جاننا،چین کی اصلاحات وپالیسیوں سے انہیں آگاہ کرنا،اور غیرملکیوں کو درپیش مشکلات اور ان کے کام کے حوالے سے موجود سہولیات اور شعبہ جاتی ترقی وپیش رفت کا جائزہ لینا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں ان کی سلیکشن میںدیگر عوامل کے علاوہ ان کی چینی زبان میں مہارت ہی ان کی بطور اردو ٹیچر کے سلیکشن میں کام آئی۔ایک مرتبہ بیجینگ میں ہونے والی ایک سماجی تقریب میںایک طویل القامت نوجوان کو دیکھا۔ جو پہلی نظر میںسپینش لگا۔وہ بہت روانی سے چینی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ گمان گزرا کہ شاید انہوں نے چینی زبان باقاعدہ پڑھی اور سیکھی ہو گی اور کسی یورپی ادارے کے یہاں نمائندہ ہو ںگے۔مگر یہ سارا ابتدائی تاثر اس وقت ختم ہو گیا جب تھوڑی دیر بعد وہی صاحب ایک پاکستانی دوست سے اردو میں گفتگو فرمانے لگے۔
بہت حیرت ہوئی ۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر سید سدا حسین شاہ ہیں۔ چین سے ہی ڈاکٹری پڑھے ہوئے ہیں۔گز شتہ بائیس سال چین ہی کے شہر شینیانگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی شریک حیات چینی ہیں اور ان کا ایک تیرہ سال کا بیٹا بھی ہے۔ تب ان کی روانی سے چینی زبان بولنے کی سمجھ آئی۔پاکستانیوں کی چینی زبان میں مہارت کا ذکر آیا ہے تو بتا تا چلوں کے ایک پاکستانی نوجوان اظہر سعید خان کے بقول Shenyang Chemical University اور Nort East University of Lioning میں غیر ملکی طلباء کو چینی زبان پڑھانے پر مامور چینی اساتذہ کے بقول چینی زبان جلد ، اچھے تلفظ اور ادائیگی کے ساتھ سیکھنے میں روس اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخواہ سے تعلق رکھنے والے طلباء نمایاں ہیں۔
(جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ
قسط نمبر : 5
'' ـ زبانِ یارمن چینی و من چینی نمی دانم'' اس ضرب المثل کی حقیقت اُس وقت ہم پر عیاں ہوئی جب نئے نئے چین پہنچے اور چینی لوگوں سے ہم کلامی کی ضرورت پیش آئی۔ حالت یہ تھی کہ ہم چینی زبان سے نا آشنا اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت کو انگلش سے نا بلد پایا۔ یوں ہماری گفتگو ابتداء میںنی ہاو اور ہیلو ہائے سے آگے نہ بڑھی۔ویسے چین جا کر جو سب سے پہلا لفظ سیکھا وہ ''نی ہاو'' ہی تھا جس کامطلب السلام علیکم سے ملتا جلتا ہے۔
جب ہم مارکیٹ میں جاکر چینی دکانداروں کو نی ہاو بولتے تو وہ بہت خوش ہوتے مگر ان کی یہ خوشی لمحاتی ثابت ہوتی کیونکہ جب وہ مزید گفتگو چینی میں جاری رکھنا چاہتے تو ہم خاموش ہوجاتے۔ چین میں معیشت و معاشرت کے ضوابط، سائنس و ٹیکنالوجی کے اسرار ورموز، پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی ہدایات، بینکنگ کے معاملات ، دفتری و عدالتی امور ، عوامی سہولیات سے استفادے کے حوالے سے معلومات سبھی کچھ چینی زبان میں ہے۔ چین کی تمام ترترقی ان کی اپنی زبان کی مرہونِ منت ہے۔
چینی زبان کے مختلف لہجے ہیں جو کہ چین بھر میں بولے جاتے ہیں۔شمالی چین اور جنوبی چین میں بولی جانے والی چینی میں بڑا واضح فرق ہے۔جنوبی چین میںبولی جانے والی زبان کینٹونیز (Cantonese) کہلاتی ہے۔انیس سوتیس سے چین میں جو سرکاری زبان رائج ہے اس کو مندرین (Mandarin) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک اور نام پُوتنگخواہ (Putonghua)بھی ہے جس کا مطلب کامن سپیچ یا عام گفتگو ہے۔ویسے تو چینی زبان کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے مگر ہم اس میں بیسوی صدی میں ہونے والی ارتقائی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کریںگے۔
لسانی ماہرین نے چینی زبان کولہجے کے اعتبار سے سات سے دس گروپس میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سب سے بڑا لہجہ مندرین (Mandarin) ہے ۔ اس کے بعد وُو(Wu)، من (Min) یو ای (Yue)گن(Gan)، شیانگ (Xiang) اور ہکا (Hakka)ہیں۔ اگر دیکھا جائے کہ کو نسا لہجہ یا ڈائیلیکٹ کہاں کہاں اور کتنے لوگ بولتے ہیں تو سب سے بڑا لہجہ یا ڈائیلیکٹ مندرین (Mandarin)ہے جو کہ چین کے پورے شمال اور جنوب مغرب میں بولا جاتا ہے اس کو بولنے والی آبادی کا تناسب 71.5فیصد ہے ۔اس کے علاوہ چین کے مختلف علاقوں اور شہروں کے مقامی لہجے بھی ہیں۔ چینی زبان کی ایک نمایاں اور امتیازی خاصیت اس کی چار ٹونزTones) ہیں۔اس کی جانکاری کا سبب بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ہم اپنی دیسی عادات سے مجبور دودھ، دہی کی تلاش میں تھے۔
اُردو سروس کی ایک چینی ساتھی وانگ (اُردو نام مسرت) سے دودھ اور دہی کے چینی الفاظ سیکھے اور سٹور پر جا پہنچے لیکن دکاندار کو ہماری بات پلے نہ پڑی۔ بعد میں دفتر آکر اس تجربے کو چینی ساتھیوں سے شیئر کیا تو پہلے تو وہ مسکرائے اور بتایا کہ چینی زبان کی چار ٹونز ہوتی ہیں۔ ایک فلیٹ (Flat)، ایک رائزنگ (Rising) ، ایک فالنگ اور رائزنگ (FallingandRising)اور ایک فالنگ (Falling)ہے۔ ایک چینی شہری ہی دوسرے چینی شہری کے الفاظ کے اتار چڑھاو سے تبدیل ہونے والا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔تب ہمیں معلوم ہوا کہ دکاندار ہماری بات سمجھنے سے اس لیے قاصر تھا کہ ہماری چینی الفاظ کی ادائیگی درست نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ ہمارا مدعا سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
چینی زبان کے کچھ تیکنیکی پہلووں کی گرہ ڈاکڑ ظفر حسین کے گھر کھلیں۔ڈاکٹر ظفر حسین ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور چین میں مقیم ہیں اور اُس وقت پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلا لیا۔وطن سے دور پاکستانی کھانے اور وہ بھی گھر میں روایتی انداز سے تیارکردہ ۔کھانے کالطف ہی دو بالا ہو گیا ۔ ان کے گھر جا کر یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی پاکستانی فیمیلیز بھی بیجینگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز تھیں۔کھانے کے دوران چینی معاشرے اور زبان کا موضوع چھڑگیا تو معلو م ہوا کہ ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بشری ظفر چینی زبان میں گریجویشن کی ڈگری کی حامل ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا "چینی زبان کے کیریکٹرز میں Strokes بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
بنیادی Strokes آٹھ ہیں۔دراصل دو یا اس سے زیادہ Strokes جو کہ باہمی طور پر جڑے ہوتے ہیںاور ایک مجموعے یا سیٹ کی صو رت میں ہوتے ہیںان کی کل تعداد 29 ہے اور 39 قسم کے مختلف Strokes سے چینی کیریکٹرز تشکیل پاتے ہیں۔چینی کیریکٹرز کو لکھنے کے کچھ متفقہ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو چین میں صدیوں سے اپنایا جا رہا ہے اور ان میں سڑوکس کی ترتیب نمایاں اور بڑی واضح ہوتی ہے۔چینی کیریکٹرز کو چارا اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم شیانگ شنگ (Xiangxings) ہے ۔ اس کا مطلب تصاویر کے ذریعے چینی کیریکٹرز کا اظہار ہے۔اس طرح کی علامات ان اشیاء کی خصوصیت سے ملاپ رکھتی ہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا میں موجود اشیاء کا عکس ہوتی ہیں۔مثلاً کھیت،سورج اور پہاڑ کی چینی زبان میں علامات ۔ شیانگ شنگ اصولوں کی بنیاد پر چینی علامتوں یا کیریکٹرز کے پہلے یا ابتدائی سیٹ کو ترتیب دیا گیا ہے۔ دوسری قسم ذی شی (ZhiShi) علامات جو ازخود وضاحت والی ہوتی ہیں۔
تصویری علامتوں یا کیریکٹرز کے برعکس وہ کسی بھی چیز کی جسمانی ساخت سے مطابق نہیں رکھتیں تاہم ان میں کچھ اشارے موجود ہوتے ہیں مثلاً اوپر یا نیچے کی طرف کا اشارہ یا علامت۔ تیسری قسم ہوئی ای (Huiyi) علامات یا کیریکٹرز میں باہمی ربط قائم کرنے والے مجموعے ہوتے ہیں۔یہ زیادہ تر دو یا اس سے زیادہ کیریکٹرز یکجا کرکے کسی چیز کا مطلب سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چوتھی قسم شنگ شینگ (Xingsheng) کیریکٹرز ہیں جن کو تصویر اور صوت والے کیریکٹرز بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح کے کیریکٹرز میں کم از کم دو علامات جڑی ہوتی ہیں۔ایک علامت کا مطلب اظہار ہوتا ہے جب کہ دوسری سے مراد آواز ہوتی ہے۔چینی زبان کے زیادہ تر کیریکٹرز شنگ شینگ (Xingsheng) ہیں۔''
بشری ظفر کے گیا ن سے فیض یاب ہوئے تو چینی زبان میں دلچسپی اور بڑھ گئی۔ایسے ہی ایک روز بیجینگ کی سب وے میں سفر کرتے ایک غیر ملکی کو چینی زبان میں روانی سے فون پر گفتگو کرتے سنا۔ چہرے مہرے سے ایشیائی دکھائی دیے تو سوچا کہ بات کر ہی لی جائے۔ ان کو اپنا ہم وطن پا کر خوشی دو با لا ہوگئی۔ پوچھا حضرت اس قدر روانی سے چینی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا۔ فرمانے لگے کہ چین میں آٹھ سالوں سے مقیم ہوں اورچینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے(HSK) کا اعلی ترین لیول سکس (Six) پاس کیا ہوا ہے۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ ہم بہت مرعوب ہوئے اورا ن سے چینی زبان سیکھنے کے متعلق بہت سوالات کیے۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں اونچا بولنے، دھیما بولنے اورتیز بولنے سے مفہوم بدل جاتا ہے۔ ان کی یہ بات سن کر ہمیں اپنی دودھ، دہی والی غلطی یا د آگئی۔ ان سے باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ ان کا سٹاپ آگیا اور وہ اترنے کی تیاری کرنے لگے۔
اس وقت مجھے احسا س ہوا کہ چینی زبان کی باتوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے اس چیز کا احساس ہی نہ رہا کہ ان کا نام پوچھ لیتے۔تو جب وہ اترنے لگے تو ان سے ان کا نام پوچھا اور جلدی سے وی چیٹ شیئر کیا تو یوں اظہر سعیدخان سے آئندہ ملاقات کے وعدے پر یہ گفتگو تمام ہوئی۔چینی زبان کی انہی ٹونز کی وجہ سے ہی چین میں نئے آنے والے غیر ملکیوں کے لیے ابتدا ء میں چین کے دو صوبوں Shanxi اور Shaanxi کے ناموں میں فرق و امتیاز برتنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
دونوں صوبوں کا تلفظ اور ادائیگی بظاہر ایک سی دکھائی دیتی ہے مگر چینی شہری ان دوصوبوں کے ناموں کے درمیان فرق ان کے نام بولتے وقت مخصوص ٹون کا استعمال کر کے با آسانی کرلیتے ہیں۔اسی طرح کا کچھ معاملہ چین کے ایک صوبے اور اسی صوبے کے ایک شہر کے نام کے درمیان ہے جس میں ابتدائی سطح پر فرق روا رکھنا بظاہر غیر ملکیوں کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔چین کے ایک صوبے کا نام Guandong ہے جبکہ اسی صوبے کے ایک شہر کا نام Dongguan ہے۔اب یہ دونوں نام بظاہر ملتے جلتے ہیں۔مگر چینی شہری ان میں با آسانی تمیز کر سکتے ہیں۔ ہمارا چینی زبان سے استوار ہونے والا الفت کا رشتہ اپنے رنگ دکھا رہا تھااور ہم ہر روز کچھ نہ کچھ اس کے متعلق پڑھتے رہتے یا دوستوں سے پوچھتے رہتے۔ اسی تناظر میں چینی زبان پر ایک ریڈیو پروگرام کی تیاری کے دوران اس زبان کے حوالے سے جو معلومات اکٹھی کیں ۔ وہ بھی کافی دلچسپ ہیں۔
چینی زبان کو سادہ بنانے اور پورے ملک میں اس کو یکساں سطح پر اختیار کرنے اور اس کے نفاذ کی کوششیںعوامی جمہوریہ چین کے قیام کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئیں تھیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے ابتداء ہی سے مینڈرین کو قومی زبان بنانے کے متعلق سوچ رہی تھی تاکہ شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا جاسکے۔انیس سو پچپن میں کمیونسٹ پارٹی نے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میٹنگ کا مقصدمینڈرین کی بنیاد پر ایک Alphabetic سسٹم ترتیب دینا تھا۔چین کے وزیراعظم چو این لائی نے چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو اس کام کے لیے نامزد کیا۔ چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بنیادی طور پر ماہرِمعیشت تھے مگر انہیں لسانیات اور لسانی امور سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ چین کے اعلی سطح کے معاشی اداروں سے وابستہ رہے اور ایک چینی معاشی ادارے کے امریکہ میںنما ئندے کے طور پر تین سال تک کام کرتے رہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد وہ چین واپس آئے اور شنگھائی کی ایک یونیورسٹی میں معیشت پڑھانے لگے۔
ان کی چین کے وزیراعظم سے شناسائی چھانگ چھنگ میں قیام کے دوران ہوئی۔چھانگ چھانگ ایک زمانے میں چین کا جنگی دارالحکومت تھا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب جاپان نے چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے چین پر حملہ کیا۔ اس دورمیں چو این لائی کمیونسٹ پارٹی کے ایک نمایاں رہنما تھے اور وہ دانشوروں ، ادیبوں اور پڑھے لکھے افراد سے باقاعدگی سے بات چیت کیا کرتے تھے۔انہی دانشوروں میں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بھی شامل تھے جو کہ چھانگ چھنگ میںایک معاشی ادارے سے وابستہ تھے مگر باقاعدگی سے ان دانشوروں کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے اور لسانی امور میں اپنے شوق کی وجہ سے چواین لائی کی نظروں میں آ گئے۔بعد میں جب چو این لائی وزیراعظم بنے تو انہیں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) اپنی لسانی شوق کی وجہ سے یاد تھے۔
اس لیے انہوں نے اِن کو ایک قومی زبان کو تشکیل دینے کے لیے نامزد کیا۔ نامزدگی کے بعدانہوں نے بہت عذر تراشے کہ میں تو ماہرِ معیشت ہوں مگر چونکہ وزیراعظم ان کی لسانی امور میں مہارت اور ان کے شوق کو جانتے تھے اس لیے ان کی ایک نہ چلی اور انہوں نے ان کو اس کام کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ یہ ایک فیصلہ چین میں بہت دوررس نتائج کی بنیاد ثابت ہوا۔چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو چین میں فادر آف پِھنین(Father of Pinyin) کو بھی کہا جاتا ہے۔لسانی امور کی نزاکتوں اور تیکنیکی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کو وقتی طور پر نظرا نداز کرتے ہوئے عام آدمی کی تفہیم کے لیے سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے پِھنین (Romanized Spelling System) ہے۔اس سسٹم نے چین کی قدیم زبان کو جدید عہد سے ملادیا۔ پِھنین سسٹم کی ایجادسے پہلے یہ ایک عمومی مسئلہ تھا کہ چینی زبان کے کیریکٹرز براہ راست آواز سے ہم آہنگ نہیں تھے۔
پِھنین کے Phonetic Alphabetسسٹم سے الفاظ کو گفتگو سے ہم آہنگ کرنے میںآسانی ہوئی۔اس سے چین کی شرحِ خواندگی میں نمایا ں اضافہ ہوا اور چینی زبان میں آسانی پیداہوئی۔کہا جاتا ہے کہ انیس سو پچاس میں چین کی شرحِ خواندگی آٹھ فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر نوے فیصد سے زائد ہے۔اسی سسٹم کی وجہ سے Pekingکو Beijing کہا جانے لگا۔ چین کا جنگی دور کا دارالحکومت Chungkingتبدیل ہو کر Chongqing کہلایا جانے لگا اور چین کے بانی رہنما کا نام MaoTse Tung سے تبدیل ہو کرong Mao Zed لکھا جانے لگا۔
چو یوگوانگ اوران کے ساتھیوں کو یہ سسٹم بنانے میں تین سال کا عرصہ لگا۔چین میں گیارہ فروری انیس سو اٹھاون کو اس سسٹم کو اپنایا گیا اور International Organization For Standardization نے انیس سو بیاسی میں اس کو اختیار کیااقوامِ متحدہ نے اس کو انیس سو چھیاسی میں اپنایا۔ اسی سسٹم سے نابینا افراد کو پڑھنے میں آسانی پیدا ہوئی اور ان کے لیے بریل(Braille)بنی۔ اب چین کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو ابتداء سے ہی پِھنین پڑھائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ چینی کیریکٹرز بھی پڑھتے ہیں۔چین میں سمارٹ فونز اور دیگر سمارٹ گیجٹس میں یہی پھنین استعمال ہوتی ہے۔ موبائل فون پر ٹیکسٹ پیغامات لکھنے اور بھیجنے، ای میلز، انٹر نیٹ اورسوشل میڈیا پر بلاگز لکھنے کے لیے یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ترقی کی وجہ سے چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں نمایا ں اضافہ ہو اہے۔
چین میں قیام کے دوران بہت سے غیر ملکی طلباء سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان میں اپنے ہم وطن بھی تھے اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ اکثر سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ طلباء کی ایک کثیر تعداد چینی زبان پڑھنے اور سیکھنے یہاں آئی ہوئی ہے۔ چینی زبان سیکھنے والے ایک پاکستانی طالب علم فہد بقا سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ چین میں انگلش زبان میں مہارت کے امتحان IELTS اور TEFL کی مانند ایک ٹیسٹ HSK (Hanyu Shuiping Kaoshi) ہے جو کہ غیر ملکیوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ لیتا ہے۔
اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم چینی شہریوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ بھی اسی ٹیسٹ سے لیاجاتا ہے۔ اس کے ایک سے لیکر چھ تک لیولز ہیں۔ ہر لیول پر مہارت کا معیار مختلف ہے۔ یہ لیولز چینی حروف تہی کی پہچان اور اِن کے استعمال سے لے کر چینی زبان میں ہر طرح کی معلومات کو سمجھ کر زبانی اور تحریری اظہار خیال کی صلاحیت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر لیول کے کل تین سو مارکس ہوتے ہیں۔ جبکہ پاس کرنے کے لیے ایک سو اسی مارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔یوں ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرنے والا کامیاب قرار پاتا ہے۔ اس امتحان میں بھی Listening, Reading, Writing, Speaking کے مراحل ہوتے ہیں۔ اس کا ہر ماہ ٹیسٹ ہوتا ہے ۔ یوںسال میں بارہ مرتبہ اس کا انعقاد ہوتا ہے۔طالب علم دو ہفتوں کے بعد آن لائن اپنا رزلٹ چیک کر سکتا ہے اور چالیس دن بعد اس کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔اس ٹیسٹ کا دورانیہ ایک گھنٹہ تیس منٹ ہوتا ہے۔ٹیسٹ کی ایکسپا ئری کا دورانیہ دو سال ہے۔سی آر آئی میں کام کرنے والے ایک چینی ساتھی لی ہانگ (Li Hong) کے مطابق چینی زبان کے کیریکٹرز کے تعداد اسی ہزار سے زائد ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ تعداد 91251 ہے۔ روزمرہ استعمال میں آنے والے الفاظ کی تعداد 3500 ہے۔
چین میں ہائی سکول( ہمارے ہاں کا میڑک سمجھ لیں) کے طلباء کے لیے 3500-4000 کیریکٹرز کا مطالعہ ضروری ہے۔جبکہ 5000-6000 کیریکٹرز یونیورسٹی طلباء کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔چینی زبان کو سیکھنے والے غیر ملکیوں کی چینی زبان کے کیریکٹرز کی ووکیبلری عمومی طور پر 6000-7000 تک محدود ہوتی ہے۔ کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ ، بیجینگ میں زیر تعلیم ایک پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر ظفر حسین نے بتایا کہ ان کی جامعہ کی ایک چینی خاتون ٹیچر چین (Chen) جن کا انگلش نام Julia ہے وہ واشنگٹن یونیورسٹی اور دیگر غیر ملکی اداروں اور جامعات میں چینی زبان پڑھاتی رہی ہیں۔ان کا شمار چین کے صف اول کے اساتذہ میں ہوتا ہے انہیں بیس ہزار چائینز کیریکٹرز آتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی کیریکٹرز کا علم مخصوص شعبہ جات کے حوالے سے تبدیل ہوتار ہتا ہے۔چینی شعراء اور ادیب زیادہ کیریکٹر ز جانتے ہوتے ہیں۔عمومی طور پر پڑھے لکھے افراد کو بارہ ہزار تک کیریکٹرز آتے ہیں۔ایچ ایس کے ٹیسٹ کا انعقاد Hanban کرتا ہے جوکہ چین کی وزارتِ تعلیم کا ایک ادارہ ہے۔ ایچ ایس کے کے سپیکنگ (Speaking) ٹیسٹ بھی منعقد ہوتے ہیں۔اس کے بھی تین لیولز ہیں۔ پرائمری، انٹر میڈیٹ لیول اور ایڈوانسڈ لیول ۔
چین اپنی زبان کی ترویج وترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات اپنا رہا ہے۔چین میں نہ صرف مختلف تعلیمی ادارے، دیگر حکومتی اداے چینی زبان کی تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپس فراہم کرتے ہیں بلکہ چین کے نشریاتی اداروں میں بھی اس حوالے سے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اردو سروس نے چینی زبان کی اشاعت کے حوالے سے کتابیں بھی شائع کروائی ہوئی ہیں۔
ان میں اردو کی مدد سے چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ چینی زبان سکھانے کا ایک پروگرام سی آر آئی کی تامل سروس سے بھی ہفتے میں پانچ دن پیش کیا جاتا ہے۔ ہندی سروس سے بھی ـ چینی بھاشا سیکھیں کے نام سے روزانہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی اور پشتو سروس سے بھی اسی نوعیت کے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ چین کی ایک نیوز ایپ چائنہ پلس(China Plus) پر چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔چین دنیا بھر سے طالب علموں کو چینی زبان سیکھنے کے لیے سکالرشپس فراہم کرتا ہے ۔چین کے دارالحکومت بیجینگ میں موجود ایک یو نیورسٹی بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing
Language andCultre University) چین بھر میں چینی زبان کی تدریس کے حوالے سے ایک معروف جامعہ ہے۔ اس جامعہ کو 1962میںچین کے وزیراعظم چو این لائی کی رہنمائی میںقائم کیا گیا تھا۔1964میں اس کو بیجینگ لینگوئج انسٹیوٹ کا نام دیا گیا جبکہ انیس سو چھیانوے میں اس کو اس کا موجودہ نام دیا گیا۔اسی کو منی یونائیٹیڈ نیشنز (Mini United Nations)بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا بھر سے طالب علم یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان سے بھی طلباء کاایک گروپ بھی یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے موجود ہے ۔
اسے پنجاب کے سابق وزیراعلی کے ایک پروگرام کے تحت یہاں بھیجا گیا تھا۔کل پانچ سو طلباء کو اس پروگرام کے تحت بھیجا جانا ہے۔ پہلا گروپ چھیاسٹھ طلباء و طالبات پر مشتمل تھا۔ اس میں پنجاب بھر سے اور گلگت بلتستان سے بھی کچھ طلباء شامل تھے۔ یہ دو سال تک چینی زبان پڑھتے رہے اور ان کو چینی زبان کا ایک ڈپلومہ دیا گیا ہے۔ ان طلباء کے آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ، وہاں قیام وطعام،ٹیوشن فیس، کتابوں اور دیگر تعلیمی اخراجات سب کے سب مفت تھے۔اس کے علاوہ ان طلباء کو ماہانہ اٹھائیس سو یوان وظیفہ بھی دیا جاتارہا۔ان کو چینی زبان میں مہارت کا ایچ ایس کے فائیو لیول کا امتحان بھی پاس کرنا ہوگا۔پہلا گروپ بیجینگ میں ہی رہا جبکہ بعد میں آنے والے طلباء کو چین کے مختلف شہروں شنگھائی، ووہان، چھینگ تاو، انر منگولیا اور چین کے صوبے حہ بے (Hebei)کے دارالحکومت شی جیاز ہوانگ (Shijiazhuangمیں واقع مختلف جامعات میں بھیجا گیا۔
چین میں بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing Language and Culture University) کے علاوہ بھی چین کی کم وبیش ہر جامعہ میں چینی زبان سکھانے کا باقاعدہ اہتمام بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نجی اداروں کی جانب سے اور آن لائن بھی چینی زبان کی تدریس کی سہولیات موجود ہیں۔جامعات کے ذریعے چینی زبان کی تدریس کے علاوہ دنیا بھر میں چین کا ایک ادارہ کنفیوشس سینٹر بھی چینی زبان و ثقافت کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہا ہے۔چین کا کنفیوشس سینٹر دنیا کے دیگر ممالک کی اپنی زبان وثقافت کے فروغ کے اداروں کی طرح کام کررہا ہے۔ اس کا قیام دو ہزار چار میں ہوا۔دنیا بھر میں اس کے تحت ادارے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کنفیوشس سینٹر نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کراچی یونیورسٹی میں قائم ہے۔جب ہم نے چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس کو اگست دوہز ار پندرہ میں جوائن کیا تو اس وقت ہمارا تعارف چن شیانگ (Chen Xiang) جن کا پاکستانی نام شاہین ہے سے بھی ہوا کہ وہ اردو سروس کے ایک سینئر ساتھی تھے اور ہمارے استقبالیہ کھانے کی دعوت میں شریک بھی ہوئے تھے۔بعد میں وہ دفتر آتے اورخاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ۔ بعدازاں وہ جنوری 2016ء میں سی آر آئی کنفیوشس کلاس روم پاکستان کے ڈائریکٹر تعینات کر دیئے گئے۔
ایک پاکستانی پوسٹ ڈاک (Post Doc)ڈاکٹر شاہد حسین ان دنوں چین کے ایک شہر نانجنگ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھار ہے ہیں۔ ان کا بنیادی شعبہ فزکس ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسین نے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاک چین ہی سے کی مگر انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں مہارت حاصل کرنے پر بھی محنت کی جس کی وجہ سے انہیں کئی بہتر مواقع میسر آئے۔ ڈاکٹر شاہد حسین کو دورانِ تعلیم بہترین ریسرچ کا ایک چینی حکومتی ایوارڈ بھی ملا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی یونیورسٹی میں ان کی جاب کے وقت ان کی تعلیمی کارکردگی اور چینی حکومتی ایوارڈ کے باوجود ان کی چینی زبان میں مہارت نے بڑی مدد کی۔جاب کے انٹرویو کے وقت ان کی چینی زبان میں چینی طلباء کو پڑھانے کی صلاحیت بہت کام آئی۔
اس کے علاوہ ان کاکہنا تھا کہ چینی زبان آنے کی وجہ سے انہیں سائنس وٹیکنالوجی کے فورمز، ایکسپوز، تعلیمی کانفرنسز، سیمینارز اورماہرین کے ساتھ با ت چیت میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اور انہیں چین میں اس طرح کے فورمز میں جانے یا ان کے ادارے کی جانب ان کو ان میں نامزد کیے جانے کے حوالے سے کبھی تامل نہیں ہوا۔ ایک او ر نوجوان پاکستانی پی ایچ ڈی ڈاکٹر محمد سعید (Animal Nutritionsit) Northwest Agriculture and Forestry University سے وابستہ ہیں اور چین کے شہر یانگ لنگ میں ہوتے ہیںاور پولٹری کی ریسرچ سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بھی چینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے فور پاس کیا ہوا ہے۔
ان کا بھی کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران لیب میں ٹیکنیکل اشیاء کے بہتر استعمال،اپنے چینی اساتذہ اور لیب میٹس کے ساتھ بہتر کمیونیکیشن میں انہیں چینی زبان کی وجہ سے بہت آسانی ہوئی۔ بیجینگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی (Beijing Foreign Studies University) بیجینگ میںاردو کی تدریس سے وابستہ اور چینی زبان میں ماہر ایک پاکستانی خاتون بشریٰ ظفر بھی ہیں ۔جن کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ چین کے صدر شی جن پھنگ سے ان کی بالمشافہ ملاقات ہے۔چین کے صدر سے ان کو ملاقات کے لیے منتخب کیے جانے کی بنیادی اور اہم وجہ ان کی چینی زبان میںمہارت تھی۔ یہ ملاقات بیجینگ کے گریٹ ہال میں دو ہزار بارہ میں ہوئی تھی جب وہ پہلی مر تبہ صدر منتخب ہوئے تھے ۔
صدر شی جن پھنگ سے ملاقات کے لیے چین میں مقیم مختلف ممالک کے دس فارن ایکسپرٹس کو منتخب کیا گیا تھا۔ان دس ایکسپرٹس میں بشری ظفر واحد پاکستانی تھیں۔ملاقات کا مقصد غیرملکیوں کے خیالات اور رائے جاننا،چین کی اصلاحات وپالیسیوں سے انہیں آگاہ کرنا،اور غیرملکیوں کو درپیش مشکلات اور ان کے کام کے حوالے سے موجود سہولیات اور شعبہ جاتی ترقی وپیش رفت کا جائزہ لینا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں ان کی سلیکشن میںدیگر عوامل کے علاوہ ان کی چینی زبان میں مہارت ہی ان کی بطور اردو ٹیچر کے سلیکشن میں کام آئی۔ایک مرتبہ بیجینگ میں ہونے والی ایک سماجی تقریب میںایک طویل القامت نوجوان کو دیکھا۔ جو پہلی نظر میںسپینش لگا۔وہ بہت روانی سے چینی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ گمان گزرا کہ شاید انہوں نے چینی زبان باقاعدہ پڑھی اور سیکھی ہو گی اور کسی یورپی ادارے کے یہاں نمائندہ ہو ںگے۔مگر یہ سارا ابتدائی تاثر اس وقت ختم ہو گیا جب تھوڑی دیر بعد وہی صاحب ایک پاکستانی دوست سے اردو میں گفتگو فرمانے لگے۔
بہت حیرت ہوئی ۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر سید سدا حسین شاہ ہیں۔ چین سے ہی ڈاکٹری پڑھے ہوئے ہیں۔گز شتہ بائیس سال چین ہی کے شہر شینیانگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی شریک حیات چینی ہیں اور ان کا ایک تیرہ سال کا بیٹا بھی ہے۔ تب ان کی روانی سے چینی زبان بولنے کی سمجھ آئی۔پاکستانیوں کی چینی زبان میں مہارت کا ذکر آیا ہے تو بتا تا چلوں کے ایک پاکستانی نوجوان اظہر سعید خان کے بقول Shenyang Chemical University اور Nort East University of Lioning میں غیر ملکی طلباء کو چینی زبان پڑھانے پر مامور چینی اساتذہ کے بقول چینی زبان جلد ، اچھے تلفظ اور ادائیگی کے ساتھ سیکھنے میں روس اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخواہ سے تعلق رکھنے والے طلباء نمایاں ہیں۔
(جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ