
ذرائع کے مطابق سی آئی اے نے خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کے بعد کانگریس سمیت امریکی انتظامیہ کے مختلف اداروں کو بریفنگ دی کہ اس کے تجزیے کے مطابق اس قتل میں سعودی ولی عہد کا ہاتھ ہے۔ ادھر سعودی حکومت کا موقف ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں جب کہ وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ دونوں نے اس خبر پر اپنا موقف دینے سے انکار کردیا ہے۔
یہ امریکا کا پہلا واضح تجزیہ ہے جس میں صاف صاف اس واقعے میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کی بات کی گئی ہے۔ واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کی خاتون ترجمان نے سی آئی اے کے اس مجوزہ تجزیے کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی صحافی خاشقجی کو سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا، ترک صدر
سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس کام کے لیے سعودی عرب سے 15 افراد کی ٹیم ترکی بھیجی گئی تھی۔ سعودی حکومت نے اس قتل کو اتفاقیہ طور پر پیش آنے والا حادثہ قرار دیا ہے تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی اور سعودی عرب سے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
As we told the Washington Post the last contact I had with Mr. Khashoggi was via text on Oct 26 2017. I never talked to him by phone and certainly never suggested he go to Turkey for any reason. I ask the US government to release any information regarding this claim.
— Khalid bin Salman خالد بن سلمان (@kbsalsaud) November 16, 2018
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سی آئی اے نے پتہ لگایا ہے کہ محمد بن سلمان کے بھائی اور امریکا میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے خاشقجی کو فون کرکے استنبول میں سعودی قونصلیٹ بلایا تھا۔ سی آئی اے کا خیال ہے کہ یہ فون کال ولی عہد کے کہنے پر کی گئی تھی۔ ادھر شہزادہ خالد بن سلمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خاشقجی کو کبھی فون کرکے ترکی جانے کا نہیں کہا، اور اگر امریکا کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے تو جاری کرے۔
یہ بھی پڑھیں: خاشقجی کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو سزائے موت دی جائے گی، سعودی پراسیکیوٹر
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد استنبول میں سعودی قونصل خانے سے سیکیورٹی افسر ماہر مطرب نے شہزادہ محمد بن سلمان کے معاون سعود القحطانی کو فون کرکے بتایا تھا کہ کام ہوگیا ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔