جمہوریت کاثمرہےکہاں

نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 کے مطابق صوبۂ سندھ میں تقریباً 70 فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں


Shabbir Ahmed Arman August 18, 2012
[email protected]

KABUL: ''اس ملک (پاکستان) میں غریب ہونا 302 (قتل عمد) سے بڑا جرم ہے اور غریب ہو کر بولنا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔'' اگرچہ یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے جج جسٹس خلجی عارف نے سپریم کورٹ میں عظمیٰ ایوب کے بھائی کے قتل کیس میں نامزد ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے دوران دیے، لیکن حقیقتاً یہ ریمارکس ہمارے ملکی مجموعی حالات و واقعات کی عکاسی کرتے ہیں جہاں غریب کی آواز اور اس کی داد و فریاد اورمجبور چیخیں اونچے ایوانوں کی در و دیواروں سے ٹکرا کر فضا میں بکھر جاتی ہیں۔

آئیے! ذرا ملک میں غربت اور غریبوں کی حالاتِ زندگی پر ایک نظر کرتے ہیں جہاں غربت اونچی شان و شوکت والوں کی شان مزید بڑھاتی ہے اور غریب لوگ بھوک و افلاس کے عالم میں دوا دارو سے محروم ہو کر اس فانی دنیا سے ایسے رخصت ہورہے ہیں کہ جیسے ان کی زندگیاں روئے زمین پر بوجھ ہوں۔ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں اقدام خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں اوسطاً 20 افراد یومیہ ایسے لائے جاتے ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی ہی زندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

35 فیصد افراد مالی پریشانیوں کے باعث اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں، جن میں خواتین کی شرح 55 فیصد جب کہ مردوں کی شرح 45 فیصد ہے۔ ماہر نفسیات اور ڈائو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اسحٰق نے کہا ہے کہ موجودہ معاشی و معاشرتی حالات اور قوتِ برداشت کم ہونے کے باعث اقدام خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے افراد شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے اور اسلامی ممالک میں دوسرے سب سے بڑے ملک پاکستان کے 18 کروڑ سے زاید افراد میں سے 7 کروڑ 39 لاکھ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 3 سال میں غریب افراد کی تعداد میں 2 کروڑ 86 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا، یومیہ 25 ہزار افراد خطِ غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے اور قدرتی آفات سے پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہوئی ہے، گذشتہ 10 برس کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پاکستانی معیشت کو 70 ارب کے قریب اور قدرتی آفات سے 3 برس کے دوران 10 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 کے مطابق صوبۂ سندھ میں تقریباً 70 فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں، غذائی قلت کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچّوں میں کم عمری میں مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ادھر کراچی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بھتہ خوری، لوڈشیڈنگ اور بدامنی نے گذشتہ 5 برس میں پونے دو لاکھ افراد کو خیراتی دسترخوانوں کا مستقل ضرورت مند بنادیا ہے جب کہ 1995 سے 2007تک ایسے خیراتی کھانے کے سفید پوش لوگوں کی تعداد 30 ہزار سے زاید نہ تھی۔

سروے رپورٹ کے مطابق ایسے مقامات پر بعض ایسے لوگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو دسترخوان پر کھانے کی خوشبو اور مچلتی بھوک کے باوجود اپنا چہرہ یا شناخت چھپانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہانہ راشن بھی بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ شہر کی ان 4 بڑی رفاہی تنظیموں میں عبدالستار ایدھی ٹرسٹ، عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، اور چھیپا ایمبولینس سروس شامل ہیں جہاں دسترخوان بچھائے جاتے ہیں اور راشن تقسیم کیا جاتا ہے اور ماہِ رمضان المبارک کے دنوں میں ان اداروں کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں افطار بکس بھی روزانہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کریں! اگر یہ رفاہی ادارے نہ ہوتے تو کراچی جیسے بادشاہ گر شہر میں غربت کی بھیانک صورتِ حال کیسی ہوتی؟ نہ جانے کتنے لوگ بھوک سے مرجاتے؟

کراچی میں حقِ حکمرانی کے دعوے دار لیڈرانِ قوم کی کمی نہیں ہے۔ روز ان کے بیانات کراچی کے حوالے سے مشتہر ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ان کھوکھلے بیانات سے کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ مگر افسوس! سیاسی مفادات سے بالاتر خدمت انسانیت کا لیڈرانِ قوم میں فقدان واضح ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے بوجھ میں ہولناک اضافہ ہو رہا ہے، پالیسی سازوں سمیت سیاست دانوں اور حکومت نے بھی صحت و تعلیم کے اہم مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی ہے، جس کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے، مہنگا علاج اور معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے غریب عوام کی اکثریت علاج سے محروم یا ادھورا علاج کرانے پر مجبور ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں بیماریوں کا ڈیٹا جمع کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں، اس لیے کسی بھی مرض کے اعداد و شمار محض اندازے کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومت اپنی ہی منظور کردہ 18 ویں ترمیم کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی وزارتیں کم کرنے کے بجائے ان کی تعداد بڑھانے میں مگن ہو یعنی وفاقی ڈویژنوں کی تعداد 50 سے کم ہو کر 32 کی جانا تھیں لیکن اب ان کی تعداد 43 ہے، تو یہ اضافہ حکومت کی اس خواہش کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے کہ کابینہ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو رکھا جائے یعنی اپنے حکومتی اتحادیوں کو بھرپور خوش رکھا جائے جب کہ بیورو کریسی کا فائدہ یہ ہے کہ وہ پروموشن کے بہترین مواقع اور پرتعیش عہدے حاصل کرنا چاہتی ہو۔ جو حکومت روزانہ ساڑھے 8 ارب روپے قرض لے رہی ہو، 70 فیصد بجٹ خسارہ قرض لے کر پورا کیا جائے اور 505 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپ دیے جائیں اور عالمی قرضے اور سود کی ادائیگیوں کی مد میں مزید عالمی قرضے حاصل کیے جائیں تو ذرا سوچیں۔

شاہ خرچیوں کی داستان الگ گمبھیر ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، شہر مقتل بنے ہیں۔ ہر سو مفاہمت کی پالیسی کا زور شور ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام'' کا دعویٰ ہے جس کے تحت مستحقین کو ماہانہ ایک ہزار روپے دینے پر فخر ہے۔ ہر تین مہینے بعد یہ تین ہزار روپے اس مردم کش مہنگائی میں کیا وقعت رکھتے ہیں۔

کیا یہی ہے جمہوریت کا ثمر؟
کسی زمانے میں پی پی پی کا سیاسی نعرہ ہوا کرتا تھا ''روٹی، کپڑا اور مکان'' جس کی کوکھ سے یہ نعرہ بھی نکلا کہ ''دال روٹی کھائیں گے، بھٹو کو لائیں گے'' بھٹو حکومت نے اپنے وعدوں کا پاس کیا اور عوام نے بھی وفا کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) نے بھی اپنے ادوارِ حکومت میں غریب عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کیا اور عوام نے بھی انھیں سر آنکھوں پر رکھا۔ لیکن موجودہ پی پی پی حکومت نہ صرف غریب عوام سے دور ہے بلکہ غریبوں کے مصائب سے بھی ناآشنا دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر غریب کے گھر میں جہاں چولہے بجھے ہوئے ہیں، ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگی جا رہی ہیں کہ ''یاالٰہی! تو ہی ہم غریبوں کے لیے کوئی مسیحا بھیج دے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں