بھیڑوں کے بھیس میں بھیڑئیے…
سب سے اہم سوال تو یہ ذہن میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں فوجی وردی کا حصول کیا اتنا ہی آسان ہے کہ کوئی بھی خرید لے یا بنوا لے؟
'ریڈ رائیڈنگ ہڈ'... ایک پیاری سی کم عمر لڑکی تھی، جسے اس کی ماں نے کچھ کھانے پینے کی اشیاء دے کر بھیجا کہ جنگل کے پار اپنی نانی کے گھر جا کر اسے دے آئے کیونکہ نانی بیمار تھیں، '' کسی کے پاس جنگل میں رکنا نہ ہی بات کرنا اور کوئی کچھ پوچھے تو بھی مت بتانا... '' ماں نے نکلتے وقت' ریڈ رائیڈنگ ہڈ' کو نصیحت کی تھی، جسے وہ جنگل میں ایک بھیڑئیے سے بات چیت کے دوران بھول گئی جس نے باتوں باتوں میں اس سے اگلوا لیا کہ وہ پیاری سی لڑکی اپنی نانی کے پاس جا رہی تھی، جس کا جنگل کے پار درختوں کے جھنڈ میں گھر تھا-' ریڈ رائیڈنگ ہڈ' اس راز کو اگل کر خوشی خوشی اپنی نانی کے گھر پہنچتی ہے تو وہاں اپنی نانی سے ملنے کو بے تاب ہوتی ہے... نانی کا حلیہ اور آواز اسے شک میں مبتلا کرتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی نانی کے لباس میں ملبوس اور اس کی آواز کی ہو بہو نقل کرتا ہوا وہ بھیڑیا ...جو اس کی نانی کو کھا چکا ہوتا ہے اب اس پر حملہ آور ہوتا ہے، مگر اس کی قسمت سے اس کی جان بچانے کو ایک لکڑ ہارا آ جاتا ہے جو اسے اس ظالم بھیڑئیے کے چُنگل سے بچاتا ہے۔
بچپن میں سنی ایک کہانی جسے ہم کبھی خود سنتے تھے، پھر اپنے بچوں کو سنائی اور اب وقت آ گیا ہے کہ بچوں کے بچوں کو بھی سنائی جائے... کچھ کہانیوں کا ''سبق'' کبھی بھی نہیں بدلتا، وہ ہر وقت اور ہر زمانے کے حساب سے بالکل نئی لگتی ہیں-آج کل میرا واسطہ ہر روز ننھے ننھے بچوں سے پڑتا ہے، وہ بچے جو ہمارے جیسے معصوم نہیں رہے، میڈیا کی تیز رفتاری نے ان کے اندر ذہانت کو اتنا جلد بیدار کر دیا ہے کہ وہ ہر کہانی پر یقین نہیں کرتے بلکہ سوال کرتے ہیں- چھ سال کی اس معصوم بچی کا سوال مجھے یاد آ رہا ہے جس نے پوچھا تھا کہ ' ریڈ رائیڈنگ ہڈ ' نے اپنی نانی کو کیوں نہیں پہچانا، میں تو فوراً ایسے کسی جانور کو پہچان لوں جو میری نانی کا بھیس بدل کر آئے...
ان بچوں کو سمجھانا کتنا مشکل ہو گیا ہے کہ کہانی کہانی ہوتی ہے... مگر حالیہ ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب بھی کوئی بھیڑیا اپنا بھیس بدل کر آتا ہے تو اچھے اچھے آج بھی دھوکا کھا جاتے ہیں...بچے بھی چاہے لاکھ کہیں کہ انھیں کوئی دھوکا نہیں دے سکتا مگر ہر جگہ اور ہر وقت بچے کسی نہ کسی کے ہاتھوں دھوکے کا شکار ہو ہی جاتے ہیں، جیسے ہمارے دشمن فوجی وردی کی آڑ میں ہمارے ملک کی اہم ترین تنصیبات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں... بھیڑیا لباس بدل کر اتنا اصل کیسے لگنے لگتا ہے کہ ہمارے اہم ترین مقامات کی حفاظت کے فرض پر مامور ماہر افراد ان میں تمیز ہی نہیں کر پاتے...
سب سے اہم سوال تو یہ ذہن میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں فوجی وردی کا حصول کیا اتنا ہی آسان ہے کہ کوئی بھی خرید لے یا بنوا لے؟ کیا وردی میں ملبوس افراد کی چیکنگ کاکوئی اور طریقہ کار نہیں ہے؟ کیا وردی کے علاوہ کوئی اور پہچان کسی فوجی کے اصل اور نقل ہونے کی نہیں ہے؟ جی- ایچ -کیو یا کامرہ ائیر بیس کوئی ایسی جگہیں نہیں ہیں کہ جہاں پر ذرا سی بھی غفلت کی گنجائش ہونی چاہئیے... اس سے اگلے روز ہونے والا واقعہ اس سے بھی بڑے نقصا ن کا حامل رہا کہ جس میں گلگت جانے والی بس سے مسافروں کو اتار کر بھون ڈالا گیا، ان معصوم روزہ دار مسافروں کے قاتل بھی فوجی وردیوں میں ملبوس تھے...
کیا ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا کہ اس سارے کھیل کا کیا مقصد ہے... کیوں اس وردی کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے؟ ملک کے شمالی علاقوں کے محنت کش جو سار ا سال شہروں میں کام کرتے ہیں اور عید یا تہواروں پر ہی اپنے آبائی گھروں کو جاتے ہیں، انھیں کیا علم تھا کہ کس مقام پرکس اندازمیں موت ان کی گھات لگائے کھڑی ان کے انتطار میں عید چراغ جلائے ان کے گھر والوں کی زندگیوں میں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شام غریباں چھا گئی ہے- سب سے اہم سوال ہے کہ ایسی ظالمانہ کارروائیوں کے لیے ملک کی محافظ فوج کی وردیوں کی آڑ کیوں لی جاتی ہے، کیوں ان معصوم لوگوں کے اذہان میں یہ خیال ڈالا جا رہا ہے کہ ان کے محافظ ہی ان کے قاتل ٹھہرے... کیوں اس خطرے کی بو بہت پہلے نہیں سونگھ لی گئی تھی اور ایسے اقداما ت نہیں کیے جا رہے کہ فوجی وردی تو کجا اس کا کپڑا بھی دستیاب نہ ہو؟
یہ وہ وردی ہے جسے بدن پر سجا کر چلنے والے کی چال ہی نرالی ہو جاتی تھی اور اب یہ عالم ہے کہ یہ وردی پہن کر گھروں سے نکلنا اور حتی کہ اپنے مقام فرض تک پہنچنا بھی نا ممکن ہو گیا ہے- وردی میں ملبوس، ملک کے محافظوں کے لیے حالات اس قدر تنگ کر دیے گئے کہ چند برس قبل تمام افسران گھروں سے سول لباس میں نکل کر اپنی وردی دفتر پہنچ کر پہنتے تھے... یہ بہت دور کی نہیں، فقط چار پانچ برس پہلے کی بات ہے- جو ودری ایک سپاہی کی شان اور آن کا نشان تھی، اس وردی کو پہننا گویا اپنی شامت کو دعوت دینے کے مترادف ہو گیا ہے- میری ایک دوست بتا رہی تھی کہ اس کا بیٹا فوج میں ہے اور اسے اس کے باپ نے کہہ رکھا ہے کہ جب تم سفر کرو تو تمہارے پاس کوئی ایسا ثبوت نہ ہو کہ جس سے تمہارے فوجی ہونے کا علم ہو سکے...
یہ حالات بھی آنے تھے ... جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے
فوجی جوان جو ہمارے ہیرو ہوتے تھے، ہماری کہانیوں، ناولوں، ڈراموں اور فلموں کے... اب وہ اپنے فرائض کی بجا آوری کے باوجود اس دھرتی ماں کے لیے ہی فخر کا باعث رہ گئے ہیں، عوام نے تو ان پر فخر کرنا چھوڑ دیا ہے... ان کے خیال میں تو انھیں مرنے کا معاوضہ ملتا ہے، کون سی ماں ہے جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کسی بھی معاوضے پر موت کے صریح منہ میں دھکیل سکتی ہے؟ کس باپ کے کندھے اتنے توانا ہوتے ہیں کہ اپنے انیس بیس سال کے بیٹے کے جنازے کو کندھا دے سکے؟ کون سی بہنوں اور بیٹیوں کا حوصلہ ہوتا ہے کہ جن کے پیارے شوہر اور بھائیوں کا آسرا چھوٹ جائے اور وہ ساری عمر اس نام کا فخر لے کر جیتی رہیں؟
کتنے لاکھ بھی مل جائیں ان ماؤں کے کلیجوں کو ٹھنڈک نہیں پڑ سکتی جن کے پلے پلائے لال ہم جیسے لوگوں کی حفاظت پر قربان ہو جاتے ہیں... ہم جو اس پر دل سے ان کے شکرگزار بھی نہیں ہوتے، ہم جو ان کی شہادت کو شہادت سمجھنے کو بھی تیار نہیں ہوتے، ہم جو ان کی قدر نہ ان کی زندگیوں میں کرتے ہیں نہ ان کی شہادت کے بعد ... کامرہ میں ہونے والی سپاہی رمضان کی شہادت ایک سپاہی کی شہادت سہی، گلگت میں مارے جانے والے اٹھائیس افراد کی شہادت ان افراد کی شہادت سہی... مگر یہ اصل میں موت ہے جانے کتنے گھروں میں عید کی، نہ صرف اب کی بار مگر جانے کب تک، جب تک ان لوگوں کو یاد رہے گا کہ ان کے پیارے عید کے روز ان کے ساتھ ہونے والے تھے، جن گھروں میں عید سے قبل مہندی اور چوڑیوں کی بجائے لہو کے چھینٹوں سے آنگن میں رنگ پھیل گئے ہوں گے... ایک سپاہی کی شہادت ایک خاندا ن اور ایک علاقے میں المیہ ہے ...