شہر قائد میں دہشت گردی نہ تھم سکی
ساجد قریشی کے قتل کے بعد متحدہ کے ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان موخر
شہر قائد میں لوگوں کی نگاہیں متحدہ قومی موومنٹ کے ریفرنڈم پر مرکوز تھیں، جس کے اگلے روز قریب تھا کہ اس کے نتائج جاری کیے جاتے کہ متحدہ کے رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کو نارتھ ناظم آباد میں مسجد سے نماز جمعہ پڑھ کر نکلتے ہوئے گھات لگائے ملزمان نے قتل کر دیا، جس میں ان کے صاحبزادے وقاص قریشی بھی جاں بحق ہوگئے۔
اس افسوس ناک واقعے کے بعد متحدہ نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارے کارکنوں اور عہدے داروں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا ہے، لیکن دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ آخر کیوں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود آگ وخون کا کھیل جاری ہے۔
رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کے قتل کے خلاف اتوار کو مزار قائد پر شمعیں بھی روشن کی گئیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے پارلیمانی راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دہشت گردی اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کوئٹہ، پشاور سے کراچی اور گلگت بلتستان تک دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں طالبان کا مخالف ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لندن میں متحدہ کی جانب سے منعقدہ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا کہ مہاجروں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور کوئی ہماری آواز سننے والا نہیں۔ مظاہرے سے نسرین جلیل، طارق جاوید ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
کراچی میں جاری مسلسل قتل وغارت سے اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکی اور روزانہ کی 10، 12 ہلاکتیں بدستور جاری ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں کراچی میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سندھ حکومت کو مہلت دینے کے کسی بھی بیان کی تردید کی اور کہا کہ ایک ابلاغی ادارے نے ان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ تاہم مجموعی طور پر وفاقی حکومت ابھی کراچی کی خراب صورت حال پر متوجہ ہوتی محسوس نہیں ہوتی۔
؎ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے خلاف توقع ابھی تک شہر قائد کا دورہ نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس سے قبل روایت رہی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم حلف برداری کے بعد بابائے قوم کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ضرور حاضر ہوتا ہے۔ اگر اس حوالے سے سندھ حکومت کی کوششوں کا جائزہ لیں تو امن وامان کے حوالے سے کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یعنی ایک بار پھر اس بے عنوان دہشت گردی اور نامعلوم قاتلوں کی درندہ صفتی کو قابو میں کرنے کے لیے سیاسی راستے اختیار کیے جائیں گے۔ اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر کراچی میں اہدافی قتل کی روک تھام کے لیے سیاسی قوتوں کا اجتماع ہوتا رہا ہے، لیکن خاطر خواہ کام یابی نہیں ہوسکی یا فقط عارضی سکون ہی میسر آسکا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور وزیراعظم نواز شریف اس ضمن میں کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور وہ کس حد تک کار گر رہتی ہے۔ فی الوقت گورنر سندھ کے حوالے سے بھی معاملہ التوا کا شکار ہے۔ آیا ڈاکٹر عشرت العباد کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا اس ذمہ داری کے لیے کسی اور کا چُناؤ کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وفاق ابھی دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی پر کاربند ہے، جس میں متحدہ کی جانب سے صوبائی حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو متحدہ کو مرکز میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہے، یعنی مرکز میں وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی، جب کہ سندھ میں حزب اختلاف میں ہونے کے ناطے چارو نا چار اسے نواز لیگی ارکان کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ فی الوقت متحدہ کے اس اہم فیصلے کا تعین کرنے والے ریفرنڈم کے نتائج التوا کا شکار ہیں، جس کے بعد ہی سیاسی صف بندی واضح ہوسکے گی۔
دوسری طرف صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے ''سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء'' کی بحالی کا امکان رد کرتے ہوئے کہا کہ 1979ء کے بلدیاتی نظام کی بحالی سندھ اسمبلی کی اکثریت نے منظور کی تھی۔ اب اس میں بہتری کے لیے تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بات کر کے کوئی فیصلہ ہوگا۔ اسمبلی اجلاس کے بعد صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں شرجیل میمن نے کہا کہ اسلحہ کراچی میں نہیں بنتا، بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے لایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلحہ سے بھرا ایک ٹرک سندھ کی ایکسائز پولیس نے پکڑا، جو پنجاب سے لایا جا رہا تھا۔ کراچی میں قیام امن کے لیے دیگر صوبے بھی اپنی سرحدوں کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام کریں۔ صوبے میں پولیس اور دیگر امن و امان کی بحالی کے ادارے اپنا کام مستعدی سے کر رہے ہیں، اب عدالتوں کو بھی اپنا کام کرنا چاہیے۔ ہم نے اراکین سندھ اسمبلی رضا حیدر اور منظر امام کے قاتلوں کو پکڑ کر عدالتوں میں پیش کر دیا ہے۔ کراچی کے شہری خودکو بے یارو مددگار نہ سمجھیں، حکومت ان کے ساتھ ہے۔ ایک اورموقع پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ سندھ میں دوسرے صوبے کا پروپیگنڈہ وہ کر رہے ہیں جو اتحاد اور بھائی چارے کے مخالف ہیں اور یہاں کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں کسی دوسرے سندھ کی گنجائش نہیں ہے۔
ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کے پوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ نواز حکومت کا پہلا بجٹ ایک ناکام بجٹ ہے۔ جس نے عوام اور تاجروں کو بھی ناخوش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار اپنی ناکامی تسلیم کریں اور بجٹ واپس لینے کا اعلان کریں۔ نواز حکومت کی اس بجٹ سے سبکی اور بدنامی ہوئی ہے۔
جی ایس ٹی میں تو ایک فی صد اضافہ ہوا، لیکن اشیا کی قیمت میں 17 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ نواز لیگ کا میزانیہ اس کے منشور سے متصادم ہے۔ غریب عوام کی حالت نہیں صرف حکومت تبدیل ہوئی۔ سیمینار سے خطاب کرنے والے دیگر مقررین میں اے کیو خلیل، محمد حسین محنتی ، ڈاکٹر قاضی احمد و دیگر بھی شامل تھے۔
زیارت میں قائد اعظم کی رہایش گاہ پر دہشت گردوں کے حملے اور پشاور میں حسینی مسجد میں دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات کے خلاف بھی شہر میں احتجاج کیا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ انسانیت دشمنوں سے مذاکرات نہ کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی کے راہ نما ذوالفقار قائم خانی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں بے نظیر کے نام سے منسوب سرکاری منصوبوں کے نام بدلنے کی سخت مذمت کی گئی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو اور پیپلزپارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر و دیگر نے مطالبہ کیا کہ بے نظیر کے حوالے سے خصوصی یادگار اور ریسرچ سینٹر قائم کیا جائے۔
اس افسوس ناک واقعے کے بعد متحدہ نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارے کارکنوں اور عہدے داروں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا ہے، لیکن دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ آخر کیوں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود آگ وخون کا کھیل جاری ہے۔
رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کے قتل کے خلاف اتوار کو مزار قائد پر شمعیں بھی روشن کی گئیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے پارلیمانی راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دہشت گردی اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کوئٹہ، پشاور سے کراچی اور گلگت بلتستان تک دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں طالبان کا مخالف ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لندن میں متحدہ کی جانب سے منعقدہ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا کہ مہاجروں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور کوئی ہماری آواز سننے والا نہیں۔ مظاہرے سے نسرین جلیل، طارق جاوید ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
کراچی میں جاری مسلسل قتل وغارت سے اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکی اور روزانہ کی 10، 12 ہلاکتیں بدستور جاری ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں کراچی میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سندھ حکومت کو مہلت دینے کے کسی بھی بیان کی تردید کی اور کہا کہ ایک ابلاغی ادارے نے ان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ تاہم مجموعی طور پر وفاقی حکومت ابھی کراچی کی خراب صورت حال پر متوجہ ہوتی محسوس نہیں ہوتی۔
؎ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے خلاف توقع ابھی تک شہر قائد کا دورہ نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس سے قبل روایت رہی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم حلف برداری کے بعد بابائے قوم کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ضرور حاضر ہوتا ہے۔ اگر اس حوالے سے سندھ حکومت کی کوششوں کا جائزہ لیں تو امن وامان کے حوالے سے کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یعنی ایک بار پھر اس بے عنوان دہشت گردی اور نامعلوم قاتلوں کی درندہ صفتی کو قابو میں کرنے کے لیے سیاسی راستے اختیار کیے جائیں گے۔ اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر کراچی میں اہدافی قتل کی روک تھام کے لیے سیاسی قوتوں کا اجتماع ہوتا رہا ہے، لیکن خاطر خواہ کام یابی نہیں ہوسکی یا فقط عارضی سکون ہی میسر آسکا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور وزیراعظم نواز شریف اس ضمن میں کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور وہ کس حد تک کار گر رہتی ہے۔ فی الوقت گورنر سندھ کے حوالے سے بھی معاملہ التوا کا شکار ہے۔ آیا ڈاکٹر عشرت العباد کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا اس ذمہ داری کے لیے کسی اور کا چُناؤ کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وفاق ابھی دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی پر کاربند ہے، جس میں متحدہ کی جانب سے صوبائی حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو متحدہ کو مرکز میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہے، یعنی مرکز میں وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی، جب کہ سندھ میں حزب اختلاف میں ہونے کے ناطے چارو نا چار اسے نواز لیگی ارکان کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ فی الوقت متحدہ کے اس اہم فیصلے کا تعین کرنے والے ریفرنڈم کے نتائج التوا کا شکار ہیں، جس کے بعد ہی سیاسی صف بندی واضح ہوسکے گی۔
دوسری طرف صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے ''سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء'' کی بحالی کا امکان رد کرتے ہوئے کہا کہ 1979ء کے بلدیاتی نظام کی بحالی سندھ اسمبلی کی اکثریت نے منظور کی تھی۔ اب اس میں بہتری کے لیے تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بات کر کے کوئی فیصلہ ہوگا۔ اسمبلی اجلاس کے بعد صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں شرجیل میمن نے کہا کہ اسلحہ کراچی میں نہیں بنتا، بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے لایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلحہ سے بھرا ایک ٹرک سندھ کی ایکسائز پولیس نے پکڑا، جو پنجاب سے لایا جا رہا تھا۔ کراچی میں قیام امن کے لیے دیگر صوبے بھی اپنی سرحدوں کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام کریں۔ صوبے میں پولیس اور دیگر امن و امان کی بحالی کے ادارے اپنا کام مستعدی سے کر رہے ہیں، اب عدالتوں کو بھی اپنا کام کرنا چاہیے۔ ہم نے اراکین سندھ اسمبلی رضا حیدر اور منظر امام کے قاتلوں کو پکڑ کر عدالتوں میں پیش کر دیا ہے۔ کراچی کے شہری خودکو بے یارو مددگار نہ سمجھیں، حکومت ان کے ساتھ ہے۔ ایک اورموقع پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ سندھ میں دوسرے صوبے کا پروپیگنڈہ وہ کر رہے ہیں جو اتحاد اور بھائی چارے کے مخالف ہیں اور یہاں کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں کسی دوسرے سندھ کی گنجائش نہیں ہے۔
ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کے پوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ نواز حکومت کا پہلا بجٹ ایک ناکام بجٹ ہے۔ جس نے عوام اور تاجروں کو بھی ناخوش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار اپنی ناکامی تسلیم کریں اور بجٹ واپس لینے کا اعلان کریں۔ نواز حکومت کی اس بجٹ سے سبکی اور بدنامی ہوئی ہے۔
جی ایس ٹی میں تو ایک فی صد اضافہ ہوا، لیکن اشیا کی قیمت میں 17 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ نواز لیگ کا میزانیہ اس کے منشور سے متصادم ہے۔ غریب عوام کی حالت نہیں صرف حکومت تبدیل ہوئی۔ سیمینار سے خطاب کرنے والے دیگر مقررین میں اے کیو خلیل، محمد حسین محنتی ، ڈاکٹر قاضی احمد و دیگر بھی شامل تھے۔
زیارت میں قائد اعظم کی رہایش گاہ پر دہشت گردوں کے حملے اور پشاور میں حسینی مسجد میں دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات کے خلاف بھی شہر میں احتجاج کیا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ انسانیت دشمنوں سے مذاکرات نہ کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی کے راہ نما ذوالفقار قائم خانی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں بے نظیر کے نام سے منسوب سرکاری منصوبوں کے نام بدلنے کی سخت مذمت کی گئی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو اور پیپلزپارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر و دیگر نے مطالبہ کیا کہ بے نظیر کے حوالے سے خصوصی یادگار اور ریسرچ سینٹر قائم کیا جائے۔