ایس پی طاہر داوڑ کا قتل
تمام چوکیوں ،چیک پوسٹوں کے باوجود اغوا کرکے افغانستان لے جایا جاتاہے۔
حال ہی میں ایس پی طاہر داوڑ کاپاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد سے اغوا ہونا اور چند ہفتوں بعد افغانستان میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جانا بے شک پاکستان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ اغوا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے 2013ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو دن دیہاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ جنوبی پنجاب سے افغانستان تک کا سفر طے کرتاہے۔تمام چوکیوں ،چیک پوسٹوں کے باوجود اغوا کرکے افغانستان لے جایا جاتاہے اور تین سال تک وہی رہتاہے اورپھر امریکا کی فوجی ریڈ کے بعد بازیاب ہوجاتاہے۔
اس کے علاوہ سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو لاہور شہر سے اغوا کیا جاتاہے اور وہ بھی کئی سال بعد دوبارہ بازیاب ہوجاتاہے اور اس کے بازیاب ہونے کا طریقہ بھی کچھ اس طرح سے ہیں کہ اس کے اغوا کار خودہی اس کو آزاد کردیتے ہیں۔ اغوا کرنے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ۔اگر آپ بلوچستان کی صورتحال دیکھیں تو وہاں پر اس وقت بہت بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ گم شدہ افراد کا ہے ۔
اسی طرح خیبر پختون خوا میں بھی بہت سارے اغوا کے کیسز موجود ہیں ۔جن لوگوں کے بارے میں کوئی پتا نہیں چلاسکتاکہ آخر وہ کہاں گئے؟ اس صورتحال میں بہت سارے سوال پیداہوتے ہیں لیکن آخر کار پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال اس حد تک کیسے پہنچی ؟اس کو جاننے کے لیے تاریخ پر نگاہ بھی ڈالنی پڑے گی اور بہت سارے سوال بھی اٹھانے پڑیں گے ۔روس کے خلاف جنگ کے اندر افغانستان میں پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا ۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر 80ء کی دہائی کے اندر پاکستان کی مدد کے بغیر روس کو شکست ناممکن تھی توپھر اس حالیہ پچھلے کئی سالوں سے امریکا کے ساتھ جو طالبان نبردآزماہیں ان کی پشت پناہی کون سی طاقت کر رہی ہے ؟ اور کس طرح سے وہ طالبان اتنی طاقتور قوموں کی فوج کے خلاف مسلسل لڑے چلے جارہے ہیں اور ان کی پشت پناہی پر کون عناصر ہیں ؟
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان نے افغان جنگ کے اندر اپنا حصہ ڈال کر کیا اچھا کیا ؟ اکثر اس افغانستان کے اندر پاکستانی کردار کو سپورٹ کرنے والی شخصیات یہ کہتی ہیں کہ اگر پاکستان روس کو افغانستان میں نہ روکتا تو اس کا اگلا نشانہ پاکستان تھا ۔لیکن ایک اور نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والی شخصیات یہ نقطہ پیش کرتی ہیں کہ اس وقت جو افغانستان حکومت تھی وہ روس کی اتحادی تھی اور پھر روس بنیادی طورپر حملہ آور نہیں ہواتھا بلکہ اس وقت کی حکومت کے بلانے پر اس کی امداد کے لیے آیاتھا ۔
روس کے آنے سے پہلے افغانستان کے اندر خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور ان باغی قوتوں کو بہت ساری بیرونی قوتیں امداد فراہم کررہی تھیں۔اور حکومت وقت کی امداد کے لیے روس آیاتھانہ کہ اس کے عزائم میں پاکستان کے اوپر قبضہ کرنا شامل تھا ۔اگر مان لیا جائے کہ ہمارے اس وقت کے کرتوں دھرتوں نے یہ چیز بھانپ لی تھی کہ افغانستان میں جنگ جیتنے کے بعد روس پاکستان پر حملہ آور ہوجائے گا تو پھر تو یہ اس دلیل سے ملتی جلتی دلیل ہے کہ اس شبے میں کہ کل صدام حسین مہلک ہتھیار بناکر امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملہ آور ہوجائے گا ۔
اسی لیے اس اندیشے کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ۔اگر اسی منطق کو مان لیاجائے تو پھر بہت سارے ممالک کسی بھی ملک کی طرف سے حملہ ہونے سے پہلے ہی اس پر حملہ آور ہوکر اس کو تباہ برباد کرنے کے حق بجانب ہوجائیں گے ۔
بہرحال افغانستان جہاد کی بحث میں پڑے بغیر اس کے بعدکے ہونے والے حالات پر نظر ڈالیں تو جنگ کے بعد 95ء کی دہائی کے اندر تو کس طریقے سے طالبان کو بہت ساری قوتوں نے سپورٹ کیا اورافغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ کو پھانسی پرکس طرح چڑھایا گیا اور کابل کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔کس طریقے سے جنیوا کارڈ کی روح کو پامال کیاگیا یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اسی جنیوا کارڈ پر دستخط کرنے کی پاداش میں جونیجو صاحب کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا ۔
یہ اغوا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے 2013ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو دن دیہاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ جنوبی پنجاب سے افغانستان تک کا سفر طے کرتاہے۔تمام چوکیوں ،چیک پوسٹوں کے باوجود اغوا کرکے افغانستان لے جایا جاتاہے اور تین سال تک وہی رہتاہے اورپھر امریکا کی فوجی ریڈ کے بعد بازیاب ہوجاتاہے۔
اس کے علاوہ سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو لاہور شہر سے اغوا کیا جاتاہے اور وہ بھی کئی سال بعد دوبارہ بازیاب ہوجاتاہے اور اس کے بازیاب ہونے کا طریقہ بھی کچھ اس طرح سے ہیں کہ اس کے اغوا کار خودہی اس کو آزاد کردیتے ہیں۔ اغوا کرنے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ۔اگر آپ بلوچستان کی صورتحال دیکھیں تو وہاں پر اس وقت بہت بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ گم شدہ افراد کا ہے ۔
اسی طرح خیبر پختون خوا میں بھی بہت سارے اغوا کے کیسز موجود ہیں ۔جن لوگوں کے بارے میں کوئی پتا نہیں چلاسکتاکہ آخر وہ کہاں گئے؟ اس صورتحال میں بہت سارے سوال پیداہوتے ہیں لیکن آخر کار پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال اس حد تک کیسے پہنچی ؟اس کو جاننے کے لیے تاریخ پر نگاہ بھی ڈالنی پڑے گی اور بہت سارے سوال بھی اٹھانے پڑیں گے ۔روس کے خلاف جنگ کے اندر افغانستان میں پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا ۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر 80ء کی دہائی کے اندر پاکستان کی مدد کے بغیر روس کو شکست ناممکن تھی توپھر اس حالیہ پچھلے کئی سالوں سے امریکا کے ساتھ جو طالبان نبردآزماہیں ان کی پشت پناہی کون سی طاقت کر رہی ہے ؟ اور کس طرح سے وہ طالبان اتنی طاقتور قوموں کی فوج کے خلاف مسلسل لڑے چلے جارہے ہیں اور ان کی پشت پناہی پر کون عناصر ہیں ؟
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان نے افغان جنگ کے اندر اپنا حصہ ڈال کر کیا اچھا کیا ؟ اکثر اس افغانستان کے اندر پاکستانی کردار کو سپورٹ کرنے والی شخصیات یہ کہتی ہیں کہ اگر پاکستان روس کو افغانستان میں نہ روکتا تو اس کا اگلا نشانہ پاکستان تھا ۔لیکن ایک اور نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والی شخصیات یہ نقطہ پیش کرتی ہیں کہ اس وقت جو افغانستان حکومت تھی وہ روس کی اتحادی تھی اور پھر روس بنیادی طورپر حملہ آور نہیں ہواتھا بلکہ اس وقت کی حکومت کے بلانے پر اس کی امداد کے لیے آیاتھا ۔
روس کے آنے سے پہلے افغانستان کے اندر خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور ان باغی قوتوں کو بہت ساری بیرونی قوتیں امداد فراہم کررہی تھیں۔اور حکومت وقت کی امداد کے لیے روس آیاتھانہ کہ اس کے عزائم میں پاکستان کے اوپر قبضہ کرنا شامل تھا ۔اگر مان لیا جائے کہ ہمارے اس وقت کے کرتوں دھرتوں نے یہ چیز بھانپ لی تھی کہ افغانستان میں جنگ جیتنے کے بعد روس پاکستان پر حملہ آور ہوجائے گا تو پھر تو یہ اس دلیل سے ملتی جلتی دلیل ہے کہ اس شبے میں کہ کل صدام حسین مہلک ہتھیار بناکر امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملہ آور ہوجائے گا ۔
اسی لیے اس اندیشے کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ۔اگر اسی منطق کو مان لیاجائے تو پھر بہت سارے ممالک کسی بھی ملک کی طرف سے حملہ ہونے سے پہلے ہی اس پر حملہ آور ہوکر اس کو تباہ برباد کرنے کے حق بجانب ہوجائیں گے ۔
بہرحال افغانستان جہاد کی بحث میں پڑے بغیر اس کے بعدکے ہونے والے حالات پر نظر ڈالیں تو جنگ کے بعد 95ء کی دہائی کے اندر تو کس طریقے سے طالبان کو بہت ساری قوتوں نے سپورٹ کیا اورافغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ کو پھانسی پرکس طرح چڑھایا گیا اور کابل کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔کس طریقے سے جنیوا کارڈ کی روح کو پامال کیاگیا یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اسی جنیوا کارڈ پر دستخط کرنے کی پاداش میں جونیجو صاحب کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا ۔