پرویز مشرف… وائڈ ابنیشیو Void ab initio
میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ عام انتخابات میں عوام نے انھیں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور معیشت مستحکم کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا تھا، اس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے رہے ہیں حالانکہ عمران خان فرماتے ہیں کہ عوام نے ڈرون حملے بند کرانے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔ اب عوام بے چارے اپنی صفائی کس فورم پر پیش کریں کہ انھوں نے ان لیڈرانِ کرام کو ووٹ کس مقصد کے لیے دیے تھے۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات جیت کر حکومت بنائی تو اس نے اے این پی اور ایم کیو ایم والوں کو ملا کر پنجاب میں صوبے بنانے کا کام شروع کر دیا۔ اسے بھی شاید عوام نے یہی مینڈیٹ دیا تھا۔
میاں صاحب نے اقتدار سنبھال کر لوڈشیڈنگ کا تو کچھ نہیں کیا البتہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا تاریخی اعلان کر دیا ہے۔ مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ اسی لیے دیا ہے کہ وہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائے ورنہ میاں صاحب کو اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا وہ کچھ عرصہ انتظار نہیں کر سکتے تھے؟ پنجابی میں کہتے ہیں کہ بیوہ تو بیوگی کاٹنا چاہتی ہے لیکن چھڑے ایسا نہیں کرنے دیتے۔ ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب خود تو پرویز مشرف اور آرٹیکل 6 نامی پنڈورا باکس سے بچ بچا کر نکلنا چاہتے ہوں لیکن ان کے اردگرد قوتیں ذرا جلدی میں ہوں گی۔ پنجابی کا ایک اور محاورہ بھی حسب حال ہے۔ لاگیاں نوں اپنے لاگ نال کم اے' کڑی پانہویں گھر جاندیاں بیوہ ہو جائے۔ (گاؤں کے کمیوں کو اپنے معاوضے سے غرض ہوتی ہے' دلہن چاہے گھر جاتے ہی بیوہ کیوں نہ ہو جائے)
لگتا ہے کہ میاں صاحب کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہو گیا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ چل رہا ہے جس کا تعلق 3 نومبر 2007 کے اقدامات سے ہے۔ 3 نومبر 2007 کو صدر پرویز مشرف نے آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت بطور آرمی چیف ایمرجنسی پلس نافذ کی تھی، اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سات رکنی بنچ تشکیل دیا، اس بنچ نے ایک عبوری حکمنامے کے ذریعے ایمرجنسی پلس کے نفاذ کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے دیا اور اس کے ساتھ ہی آرمڈ فورسز کو حکم دیا کہ وہ غیرآئینی احکامات کی تکمیل نہ کریں، اس حکم کے باوجود ایمرجنسی نافذ ہوئی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کیا گیا، پی سی او کے تحت جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں سپریم کورٹ قائم کر دی گئی۔
اس سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کو آئینی قرار دیا تاہم سابقہ پارلیمنٹ نے اسے استثنیٰ نہیں دیا تھا۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر والی سپریم کورٹ کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے ایک عدالتی فیصلے کے تحت وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) قرار دے دیا گیا۔ اس میں آئینی نکتہ یہ تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ ایمرجنسی کے نفاذ کو غیرآئینی قرار دے چکا تھا لہٰذا پی سی او کے تحت سپریم کورٹ قائم ہی نہیں ہو سکتی لہٰذا یہ سمجھا جائے کہ جس سپریم کورٹ کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر ہیں، وہ کبھی وجود میں آئی ہی نہیں۔
اب پرویز مشرف کو اسی شکنجے میں جکڑا جائے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا معاملہ نگران حکومت کے سامنے بھی آیا تھا لیکن نگران وزیر اعظم ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسو نے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا کہ نگران حکومت پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل شروع کرانے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ میر ہزار خان کھوسو خود قانون دان تھے اور بڑی صفائی سے اپنی جان چھڑا گئے۔ یہی گیند میاں صاحب کے کورٹ میں آ چکی تھی۔ وہ میر ہزار خان کھوسو والی دلیل کا سہارا بھی نہیں لے سکتے، اگر وہ انکار کرتے تو سیاسی مخالفین کے ہاتھ بڑا ایشو آ جانا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل شروع کرنے کا اعلان کر دیتے، آگے جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔
پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے اور چیف ایگزیکٹو کے طور پر حکمرانی شروع کر دی۔ ان کے حکم نامے کے تحت جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ قائم ہوئی تھی۔ اس عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دیا اور انھیں تین برس کے اندر عام انتخابات کرنے کا حکم دیا۔ انھیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا گیا۔ پرویز مشرف نے عدالت عظمیٰ کی دی گئی ڈیڈلائن میں رہتے ہوئے 2002میں عام انتخابات کرا دیے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ق) نے حکومت بنائی۔ دینی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جسے ایم ایم اے کہا جاتا ہے، وہ اپوزیشن بنا اور مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی نے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات' سپریم کورٹ کے فیصلے اور دیگر ترامیم پر مبنی ایل ایف او کو دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ مارچ 2007 میں پرویز مشرف نے طاقت کے زعم میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفیٰ طلب کیا اور انھوں نے انکار کر دیا۔ یہاں سے وہ طوفان اٹھا جو 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پلس کے نفاذ تک پہنچا اور پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی سے ہوتا ہوا جسٹس ڈوگر کی عدلیہ کے وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) پر جا کر ختم ہوا۔ یہ آئین وقانون کی اعلیٰ و ارفع باتیں ہیں لیکن اس میں کہیں کہیں سیاست کا شائبہ بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا اور ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔
لوڈشیڈنگ' معیشت کی بحالی اور دہشت گردی جیسے ایشوز پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس پنڈورا باکس میں سے کون کون سی بلائیں برآمد ہوں گی' اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں قانون کا ماہر نہیں ہوں، ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے یہ ضرور سوچ رہا ہوں کہ اگر پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007 کو نافذ ہونے والی ایمرجنسی غیر آئینی اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی عدلیہ وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) قرار پاتی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل مشرف کا 12 اکتوبر 1999 کا اقدام چھوٹا ''جرم'' تھا۔
اسے محض اس لیے معاف کر دیا گیا ہے کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے اور بعدازاں پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کر دی تھی حالانکہ وہ سارا نظام پرویز مشرف کے حکم نامے کے تحت ہی قائم ہوا تھا۔ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنی پالیسی تقریر میں یہ کہا ہے کہ پرویز مشرف نے دو بار آئین توڑا لیکن ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے ڈکٹیٹر کے خلاف کارروائی صرف ایک خلاف ورزی پر ہو گی اور وہ بھی ایسی خلاف ورزی جو میاں صاحب کی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بارے میں تھی۔
کیا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ 12 اکتوبر 1999 کا اقدام' اس کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ' پھر 2002 کے عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ کبھی وجود میں آئی ہی نہیں تھی اور سلسلہ وہیں سے شروع کریں جہاں سے ٹوٹا تھا یعنی 12 اکتوبر 1999 سے پہلے والی پارلیمنٹ اور حکومت بحال ہو جائے، بلکہ ضیاء الحق کا اقدام بھی وائڈ ابنیشیو سمجھا جائے توسب کچھ شیشے کی طرح صاف ہو جائے گا، پھر جن سیاست دانوں' ججوں' بیورو کریٹس نے ڈکٹیٹروں کے دور میں جو مراعات حاصل کیں، وہ بھی وائڈ ابنیشیو ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ڈکٹیٹروں کے دور میں فوائد اور مراعات حاصل کرنے والوں سے سارا پیسہ بمع سود واپس لیا جائے۔
میاں صاحب نے اقتدار سنبھال کر لوڈشیڈنگ کا تو کچھ نہیں کیا البتہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا تاریخی اعلان کر دیا ہے۔ مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ اسی لیے دیا ہے کہ وہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائے ورنہ میاں صاحب کو اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا وہ کچھ عرصہ انتظار نہیں کر سکتے تھے؟ پنجابی میں کہتے ہیں کہ بیوہ تو بیوگی کاٹنا چاہتی ہے لیکن چھڑے ایسا نہیں کرنے دیتے۔ ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب خود تو پرویز مشرف اور آرٹیکل 6 نامی پنڈورا باکس سے بچ بچا کر نکلنا چاہتے ہوں لیکن ان کے اردگرد قوتیں ذرا جلدی میں ہوں گی۔ پنجابی کا ایک اور محاورہ بھی حسب حال ہے۔ لاگیاں نوں اپنے لاگ نال کم اے' کڑی پانہویں گھر جاندیاں بیوہ ہو جائے۔ (گاؤں کے کمیوں کو اپنے معاوضے سے غرض ہوتی ہے' دلہن چاہے گھر جاتے ہی بیوہ کیوں نہ ہو جائے)
لگتا ہے کہ میاں صاحب کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہو گیا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ چل رہا ہے جس کا تعلق 3 نومبر 2007 کے اقدامات سے ہے۔ 3 نومبر 2007 کو صدر پرویز مشرف نے آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت بطور آرمی چیف ایمرجنسی پلس نافذ کی تھی، اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سات رکنی بنچ تشکیل دیا، اس بنچ نے ایک عبوری حکمنامے کے ذریعے ایمرجنسی پلس کے نفاذ کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے دیا اور اس کے ساتھ ہی آرمڈ فورسز کو حکم دیا کہ وہ غیرآئینی احکامات کی تکمیل نہ کریں، اس حکم کے باوجود ایمرجنسی نافذ ہوئی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کیا گیا، پی سی او کے تحت جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں سپریم کورٹ قائم کر دی گئی۔
اس سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کو آئینی قرار دیا تاہم سابقہ پارلیمنٹ نے اسے استثنیٰ نہیں دیا تھا۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر والی سپریم کورٹ کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے ایک عدالتی فیصلے کے تحت وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) قرار دے دیا گیا۔ اس میں آئینی نکتہ یہ تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ ایمرجنسی کے نفاذ کو غیرآئینی قرار دے چکا تھا لہٰذا پی سی او کے تحت سپریم کورٹ قائم ہی نہیں ہو سکتی لہٰذا یہ سمجھا جائے کہ جس سپریم کورٹ کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر ہیں، وہ کبھی وجود میں آئی ہی نہیں۔
اب پرویز مشرف کو اسی شکنجے میں جکڑا جائے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا معاملہ نگران حکومت کے سامنے بھی آیا تھا لیکن نگران وزیر اعظم ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسو نے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا کہ نگران حکومت پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل شروع کرانے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ میر ہزار خان کھوسو خود قانون دان تھے اور بڑی صفائی سے اپنی جان چھڑا گئے۔ یہی گیند میاں صاحب کے کورٹ میں آ چکی تھی۔ وہ میر ہزار خان کھوسو والی دلیل کا سہارا بھی نہیں لے سکتے، اگر وہ انکار کرتے تو سیاسی مخالفین کے ہاتھ بڑا ایشو آ جانا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل شروع کرنے کا اعلان کر دیتے، آگے جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔
پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے اور چیف ایگزیکٹو کے طور پر حکمرانی شروع کر دی۔ ان کے حکم نامے کے تحت جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ قائم ہوئی تھی۔ اس عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دیا اور انھیں تین برس کے اندر عام انتخابات کرنے کا حکم دیا۔ انھیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا گیا۔ پرویز مشرف نے عدالت عظمیٰ کی دی گئی ڈیڈلائن میں رہتے ہوئے 2002میں عام انتخابات کرا دیے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ق) نے حکومت بنائی۔ دینی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جسے ایم ایم اے کہا جاتا ہے، وہ اپوزیشن بنا اور مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی نے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات' سپریم کورٹ کے فیصلے اور دیگر ترامیم پر مبنی ایل ایف او کو دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ مارچ 2007 میں پرویز مشرف نے طاقت کے زعم میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفیٰ طلب کیا اور انھوں نے انکار کر دیا۔ یہاں سے وہ طوفان اٹھا جو 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پلس کے نفاذ تک پہنچا اور پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی سے ہوتا ہوا جسٹس ڈوگر کی عدلیہ کے وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) پر جا کر ختم ہوا۔ یہ آئین وقانون کی اعلیٰ و ارفع باتیں ہیں لیکن اس میں کہیں کہیں سیاست کا شائبہ بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا اور ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔
لوڈشیڈنگ' معیشت کی بحالی اور دہشت گردی جیسے ایشوز پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس پنڈورا باکس میں سے کون کون سی بلائیں برآمد ہوں گی' اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں قانون کا ماہر نہیں ہوں، ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے یہ ضرور سوچ رہا ہوں کہ اگر پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007 کو نافذ ہونے والی ایمرجنسی غیر آئینی اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی عدلیہ وائڈ ابنیشیو (Void ab initio) قرار پاتی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل مشرف کا 12 اکتوبر 1999 کا اقدام چھوٹا ''جرم'' تھا۔
اسے محض اس لیے معاف کر دیا گیا ہے کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے اور بعدازاں پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کر دی تھی حالانکہ وہ سارا نظام پرویز مشرف کے حکم نامے کے تحت ہی قائم ہوا تھا۔ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنی پالیسی تقریر میں یہ کہا ہے کہ پرویز مشرف نے دو بار آئین توڑا لیکن ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے ڈکٹیٹر کے خلاف کارروائی صرف ایک خلاف ورزی پر ہو گی اور وہ بھی ایسی خلاف ورزی جو میاں صاحب کی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بارے میں تھی۔
کیا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ 12 اکتوبر 1999 کا اقدام' اس کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ' پھر 2002 کے عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ کبھی وجود میں آئی ہی نہیں تھی اور سلسلہ وہیں سے شروع کریں جہاں سے ٹوٹا تھا یعنی 12 اکتوبر 1999 سے پہلے والی پارلیمنٹ اور حکومت بحال ہو جائے، بلکہ ضیاء الحق کا اقدام بھی وائڈ ابنیشیو سمجھا جائے توسب کچھ شیشے کی طرح صاف ہو جائے گا، پھر جن سیاست دانوں' ججوں' بیورو کریٹس نے ڈکٹیٹروں کے دور میں جو مراعات حاصل کیں، وہ بھی وائڈ ابنیشیو ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ڈکٹیٹروں کے دور میں فوائد اور مراعات حاصل کرنے والوں سے سارا پیسہ بمع سود واپس لیا جائے۔