ادیبوں کی آر سی ڈی
اگر لہجوں کے فرق کو نظرانداز کیا جا سکے تو زبانِ یارمن کچھ بھی ہو بات کسی نہ کسی طرح بن ہی جاتی ہے۔
لاہور:
غالباً ایوب خان کے دورِ حکومت میں RCD کے نام سے ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر باہمی تعاون اور ترقی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ کچھ ٹھیک اندازہ نہیں کہ وہ کتنی دیر چلا اور کیسے غائب ہو گیا لیکن کل شام سے ادیبوں کی حد تک اس کے احیاء کی ایک صورت نکلتی نظر آ رہی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں عزیزم ڈاکٹر خالد سنجرانی نے ایک عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے غیرملکی مندوبین میں انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر آسمان بیلسن اوزجان اور ان کے کچھ رفقاء کے علاوہ قونیہ یونیورسٹی ترکی اور طہران یونیورسٹی ایران کے اردو اساتذہ بھی شامل تھے جب کہ جرمنی سے مشہور مستشرق اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ تشریف لائی تھیں۔
آسمان اوزجان سے میری پہلی ملاقات 20 برس قبل لاہور ہی میں ہوئی جب وہ اپنے ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں پروین شاکر کے بارے میں مجھ سے انٹرویو کرنے آئی تھیں۔ ذہین تو وہ تھیں ہی مگر ان کی محبت، ادب سے دلچسپی اور گرمجوشی کا اندازہ اس سے بھی زیادہ متاثرکن تھا۔ چند برس قبل کراچی میں کسی کانفرنس کے دوران اگرچہ سرسری سی راہ چلتی قسم کی ملاقات ہوئی لیکن اس کا نقش بھی بہت گہرا تھا۔
دو برس قبل انھوں نے انقرہ یونیورسٹی میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی صدسالہ سالگرہ کے حوالے سے ان کے فکر و فن پر ایک تین روزہ ادبی سیمینار کا اپنی یونیورسٹی میں اہتمام کیا اور مجھے اس قدر محبت اور شدت سے مدعو کیا کہ انکار یا معذرت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی لیکن شاید تقدیر کو یہ ملاقات منظور نہیں تھی کہ ان ہی دنوں میرا جھوٹا بھائی محسن اسلام ایک ایسے آپریشن سے گزرا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ان کی لاہور میں آمد کی اطلاع مجھے اسلام آباد میں ملی جہاں میں کراچی کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی کی میری شاعری کے بارے میں لکھی گئی کتاب ''امجد فہمی'' کی تقریبات رونمائی کے سلسلے میں پہنچا تھا۔
14 نومبر کو اسی کتاب کی تقریب پلاک لاہور میں طے تھی جس میں یہ لوگ اس لیے شامل نہ ہو سکے کہ عین اسی وقت اس کانفرنس کا سیشن جاری تھا جس کے لیے یہ احباب خاص طور پر تشریف لائے تھے۔ سو طے پایا کہ اگلے روز پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ڈاکٹر تقی عابدی کے لیکچر کے بعد ہم بھی اس کانفرنس کا حصہ بنیں گے اور یوں ان عزیز مہمانوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ لیکن یہاں بھی تقدیر مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ ملین مارچ کی صورت میں رستہ کاٹ گئی کہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے موقع واردات سے قربت کی وجہ سے اولڈ کیمپس میں چھٹی کا اعلان کر دیا اگرچہ اس صورت حال کا اطلاق ان مہمانوں والی کانفرنس پر نسبتاً زیادہ ہوتا تھا کہ اس مارچ کا آغاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سامنے واقع گول باغ سے ہونا تھا مگر ڈاکٹر خالد سنجرانی اور ان کی انتظامیہ نے اپنے اجلاس یوں جاری رکھے کہ ان کے مقررین اور سامعین سب کے سب پہلے سے اسی چاردیواری میں موجود تھے۔
شام پانچ بجے کے قریب بالآخر خالد سنجرانی کے فون پر آسمان سے رابطہ ہوا تو اس نے شکایتوں کے ڈھیر لگا دیے۔ بہت مشکل سے اسے اس کی وجوہات سمجھائی گئیں لیکن اب سوال یہ تھا کہ کس طرح جلد سے جلد ملا جائے۔ کوئی ایک گھنٹے کے مزید انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ اب مال روڈ پر ٹریفک کھل گئی ہے اور چانس لیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس کے دروازے پر آسمان مقامی دوستوں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر سنجرانی اور اپنے ملتان والے ڈاکٹر انور احمد کے ساتھ منتظر تھی۔
اس قد محبت سے ملی کہ چند ہی لمحوں میں بیچ کے کئی برس ادھر ادھر ہو گئے۔ میں اور ڈاکٹر تقی عابدی اپنی طرف سے تمام مہمانوں کے لیے کتاب ''امجد فہمی'' کی کاپیاں لے کر گئے تھے مگر وہ بوجوہ کم پڑ گئیں سو بیشتر مقامی دوستوں کے ساتھ ''وعدۂ فردا'' سے کام چلانا پڑا۔ راستے میں تقی بھائی نے طہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر علی بیات کے بارے میں بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا تھا، ان کو غیرمتوقع طور پر وہاں دیکھ کر وہ اس قدر خوش ہوئے کہ بہت دیر تک باقی لوگوں کے ساتھ بھی فارسی میں بات کرتے رہے۔
اتنی ساری قومیتوں کے لوگوں کو اردو میں بات کرتے دیکھنا اپنی جگہ پر ایک بہت دلچسپ اور پرلطف تجربہ تھا، گفتگو کے دوران ایک ترک دوست کی اس بات نے مجھے مزا دیا کہ اسے پاکستان میں کسی جگہ غیر ملکی مہمان کہہ کر بلایا گیا تو اس نے کہا کہ میں تو ترکی سے ہوں، میں کیسے غیرملکی ہو گیا۔ میرے لیے تو لاہور اور استنبول ایک ہی شہر کے دو نام ہیں۔
اگلے دن یعنی جمعے کی صبح اورینٹل کالج کے احباب نے ان مہمانوں کے لیے ایک استقبالیے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کے اصرار پر ''امجد فہمی'' کی گزشتہ روز کی نہ ہو سکنے والی تقریب کو بھی اس کے ساتھ شامل کر لیا گیا لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ تقی عابدی صاحب کا گیارہ بجے اقبال اکیڈمی میں ایک خصوصی لیکچر پہلے سے طے تھا۔ سو حل یہ نکالا گیا کہ دس سے گیارہ بجے تک وہ ''امجد فہمی'' کے بارے میں اپنا کلیدی خطبہ دے کر اقبال اکیڈمی کو نکل جائیں اور میں استقبالیے میں شرکت کے بعد انھیں وہیں سے لے لوں۔ دوسری طرف مہمانوں کو بھی فوراً لاہور کی سیر کے لیے نکلنا تھا۔ سو تقریب کے دونوں حصے بقول جون ایلیا ''یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں'' کی تصویر بنتے بنتے بچے۔
اردو زبان کے تقریباً 50 فیصد الفاظ فارسی اور ترکی سے آئے ہیں جب کہ قرآن مجید کی وساطت سے عربی الفاظ کا اشتراک تینوں زبانوں سے ایک جیسا ہے۔ ایسے میں ان کا رسم الخط ہو یا نظامِ اصوات، سب ایک دوسرے سے فطری طور پر جڑے ہوئے ہیں یعنی اگر لہجوں کے فرق کو نظرانداز کیا جا سکے تو زبانِ یارمن کچھ بھی ہو بات کسی نہ کسی طرح بن ہی جاتی ہے۔ یوں بھی بقول شخصے ''جو باتیں ہم کہہ نہیں پاتے آنکھیں کہتی ہیں۔''
ترکی اور ایران کے ان ادیبوں اور اردو کے حوالے سے ماہرین لسانیات سے ان ملاقاتوں کے دوران محبت کا جو زمزم بہتا رہا اس کا تقاضا ہے کہ عوام کے درمیان باہمی روابط اور میل جول کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے کہ اپنائیت کا ایسا احساس بہت نادر بھی ہے اور کمیاب بھی۔
غالباً ایوب خان کے دورِ حکومت میں RCD کے نام سے ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر باہمی تعاون اور ترقی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ کچھ ٹھیک اندازہ نہیں کہ وہ کتنی دیر چلا اور کیسے غائب ہو گیا لیکن کل شام سے ادیبوں کی حد تک اس کے احیاء کی ایک صورت نکلتی نظر آ رہی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں عزیزم ڈاکٹر خالد سنجرانی نے ایک عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے غیرملکی مندوبین میں انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر آسمان بیلسن اوزجان اور ان کے کچھ رفقاء کے علاوہ قونیہ یونیورسٹی ترکی اور طہران یونیورسٹی ایران کے اردو اساتذہ بھی شامل تھے جب کہ جرمنی سے مشہور مستشرق اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ تشریف لائی تھیں۔
آسمان اوزجان سے میری پہلی ملاقات 20 برس قبل لاہور ہی میں ہوئی جب وہ اپنے ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں پروین شاکر کے بارے میں مجھ سے انٹرویو کرنے آئی تھیں۔ ذہین تو وہ تھیں ہی مگر ان کی محبت، ادب سے دلچسپی اور گرمجوشی کا اندازہ اس سے بھی زیادہ متاثرکن تھا۔ چند برس قبل کراچی میں کسی کانفرنس کے دوران اگرچہ سرسری سی راہ چلتی قسم کی ملاقات ہوئی لیکن اس کا نقش بھی بہت گہرا تھا۔
دو برس قبل انھوں نے انقرہ یونیورسٹی میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی صدسالہ سالگرہ کے حوالے سے ان کے فکر و فن پر ایک تین روزہ ادبی سیمینار کا اپنی یونیورسٹی میں اہتمام کیا اور مجھے اس قدر محبت اور شدت سے مدعو کیا کہ انکار یا معذرت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی لیکن شاید تقدیر کو یہ ملاقات منظور نہیں تھی کہ ان ہی دنوں میرا جھوٹا بھائی محسن اسلام ایک ایسے آپریشن سے گزرا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ان کی لاہور میں آمد کی اطلاع مجھے اسلام آباد میں ملی جہاں میں کراچی کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی کی میری شاعری کے بارے میں لکھی گئی کتاب ''امجد فہمی'' کی تقریبات رونمائی کے سلسلے میں پہنچا تھا۔
14 نومبر کو اسی کتاب کی تقریب پلاک لاہور میں طے تھی جس میں یہ لوگ اس لیے شامل نہ ہو سکے کہ عین اسی وقت اس کانفرنس کا سیشن جاری تھا جس کے لیے یہ احباب خاص طور پر تشریف لائے تھے۔ سو طے پایا کہ اگلے روز پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ڈاکٹر تقی عابدی کے لیکچر کے بعد ہم بھی اس کانفرنس کا حصہ بنیں گے اور یوں ان عزیز مہمانوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ لیکن یہاں بھی تقدیر مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ ملین مارچ کی صورت میں رستہ کاٹ گئی کہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے موقع واردات سے قربت کی وجہ سے اولڈ کیمپس میں چھٹی کا اعلان کر دیا اگرچہ اس صورت حال کا اطلاق ان مہمانوں والی کانفرنس پر نسبتاً زیادہ ہوتا تھا کہ اس مارچ کا آغاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سامنے واقع گول باغ سے ہونا تھا مگر ڈاکٹر خالد سنجرانی اور ان کی انتظامیہ نے اپنے اجلاس یوں جاری رکھے کہ ان کے مقررین اور سامعین سب کے سب پہلے سے اسی چاردیواری میں موجود تھے۔
شام پانچ بجے کے قریب بالآخر خالد سنجرانی کے فون پر آسمان سے رابطہ ہوا تو اس نے شکایتوں کے ڈھیر لگا دیے۔ بہت مشکل سے اسے اس کی وجوہات سمجھائی گئیں لیکن اب سوال یہ تھا کہ کس طرح جلد سے جلد ملا جائے۔ کوئی ایک گھنٹے کے مزید انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ اب مال روڈ پر ٹریفک کھل گئی ہے اور چانس لیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس کے دروازے پر آسمان مقامی دوستوں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر سنجرانی اور اپنے ملتان والے ڈاکٹر انور احمد کے ساتھ منتظر تھی۔
اس قد محبت سے ملی کہ چند ہی لمحوں میں بیچ کے کئی برس ادھر ادھر ہو گئے۔ میں اور ڈاکٹر تقی عابدی اپنی طرف سے تمام مہمانوں کے لیے کتاب ''امجد فہمی'' کی کاپیاں لے کر گئے تھے مگر وہ بوجوہ کم پڑ گئیں سو بیشتر مقامی دوستوں کے ساتھ ''وعدۂ فردا'' سے کام چلانا پڑا۔ راستے میں تقی بھائی نے طہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر علی بیات کے بارے میں بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا تھا، ان کو غیرمتوقع طور پر وہاں دیکھ کر وہ اس قدر خوش ہوئے کہ بہت دیر تک باقی لوگوں کے ساتھ بھی فارسی میں بات کرتے رہے۔
اتنی ساری قومیتوں کے لوگوں کو اردو میں بات کرتے دیکھنا اپنی جگہ پر ایک بہت دلچسپ اور پرلطف تجربہ تھا، گفتگو کے دوران ایک ترک دوست کی اس بات نے مجھے مزا دیا کہ اسے پاکستان میں کسی جگہ غیر ملکی مہمان کہہ کر بلایا گیا تو اس نے کہا کہ میں تو ترکی سے ہوں، میں کیسے غیرملکی ہو گیا۔ میرے لیے تو لاہور اور استنبول ایک ہی شہر کے دو نام ہیں۔
اگلے دن یعنی جمعے کی صبح اورینٹل کالج کے احباب نے ان مہمانوں کے لیے ایک استقبالیے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کے اصرار پر ''امجد فہمی'' کی گزشتہ روز کی نہ ہو سکنے والی تقریب کو بھی اس کے ساتھ شامل کر لیا گیا لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ تقی عابدی صاحب کا گیارہ بجے اقبال اکیڈمی میں ایک خصوصی لیکچر پہلے سے طے تھا۔ سو حل یہ نکالا گیا کہ دس سے گیارہ بجے تک وہ ''امجد فہمی'' کے بارے میں اپنا کلیدی خطبہ دے کر اقبال اکیڈمی کو نکل جائیں اور میں استقبالیے میں شرکت کے بعد انھیں وہیں سے لے لوں۔ دوسری طرف مہمانوں کو بھی فوراً لاہور کی سیر کے لیے نکلنا تھا۔ سو تقریب کے دونوں حصے بقول جون ایلیا ''یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں'' کی تصویر بنتے بنتے بچے۔
اردو زبان کے تقریباً 50 فیصد الفاظ فارسی اور ترکی سے آئے ہیں جب کہ قرآن مجید کی وساطت سے عربی الفاظ کا اشتراک تینوں زبانوں سے ایک جیسا ہے۔ ایسے میں ان کا رسم الخط ہو یا نظامِ اصوات، سب ایک دوسرے سے فطری طور پر جڑے ہوئے ہیں یعنی اگر لہجوں کے فرق کو نظرانداز کیا جا سکے تو زبانِ یارمن کچھ بھی ہو بات کسی نہ کسی طرح بن ہی جاتی ہے۔ یوں بھی بقول شخصے ''جو باتیں ہم کہہ نہیں پاتے آنکھیں کہتی ہیں۔''
ترکی اور ایران کے ان ادیبوں اور اردو کے حوالے سے ماہرین لسانیات سے ان ملاقاتوں کے دوران محبت کا جو زمزم بہتا رہا اس کا تقاضا ہے کہ عوام کے درمیان باہمی روابط اور میل جول کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے کہ اپنائیت کا ایسا احساس بہت نادر بھی ہے اور کمیاب بھی۔