زیارت ریذیڈنسی سے نانگا پربت تک

اِسے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت، خصوصاً وزارتِ داخلہ کے نئے سربراہ جناب نثار علی خان کی بدقسمتی ہی کہا جانا چاہیے...


Tanveer Qaisar Shahid June 25, 2013
[email protected]

اِسے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت، خصوصاً وزارتِ داخلہ کے نئے سربراہ جناب نثار علی خان کی بدقسمتی ہی کہا جانا چاہیے کہ اقتدار میں آتے ہی آفات کے اولے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ نیا پاکستان بنانے اور مثبت طور پر قدم آگے بڑھانے کا عندیہ اور مینڈیٹ لے کر آئے تھے لیکن پے در پے سانحات نے اُن کے راستے میں روڑے ہی نہیں اٹکائے بلکہ مصائب و مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے صاحبِ اختیار ہونے کے آس پاس امریکا نے آگے پیچھے دو ڈرون حملے کرکے اپنی سابقہ پالیسیوں کے جاری رہنے کا پیغام دیا۔

ابھی اِن کی بازگشت کم نہ ہوئی تھی کہ بلوچستان میں دہشت گردوں، از قسم بی ایل اے و بی ایل ایف وغیرہ، نے دو خوں ریز سانحات کو جنم دے کر حکومت کو للکارا کہ ہمیں لگام ڈالنا آسان ہے نہ ہمارے خونیں منصوبوں کو خاک میں ملانا ابھی ممکن ہے اور یہ بھی کہ کوئی ہمارے لیے مذاکرات کی میز نہ سجائے۔زیارت ریذیڈنسی، جس سے بانی پاکستان سے وابستہ لاتعداد اور قیمتی یادیں وابستہ تھیں، پر دہشت گردوں کا شب خون مارنا اور کوئٹہ میں میڈیکل کی طالبات کو بموں سے اڑانا ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک پورے پاکستان کی فضا سوگوار ہے اور ہم سب نادم ہیں کہ مرکزِ گریز قوتوں نے ہمارے کلیجے کو ہاتھ ڈالا لیکن ''شاباش'' ہے پاکستان کے بعض اینکر پرسنز پر جنہوں نے سانحۂ زیارت ریذیڈنسی کا سارا ملبہ آئی ایس آئی پر ڈال دیا۔یہ بات(بعض اینکرپرسنزکی زبانی)ہم پر یکبار منکشف ہوئی ہے کہ ہماری سرکاری خفیہ ایجنسیوں کو محض اپنے ہی ملک اور اپنے ہی عوام کو ڈائنامائیٹ کرنا آتا ہے۔ جو لوگ یہ ''متاثر کُن'' انکشافات فرما رہے ہیں، کیا اُنہیں دانش و بینش کے ایوارڈز سے نوازا نہیں جانا چاہیے؟ اُن کی ایسی ''قومی خدمات'' کو آخر کب تسلیم کیا جائے گا؟

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو دہشت گردی کی اِن حیرت خیز وارداتوں نے ششدر کر رکھا ہے لیکن وہ مقدور بھر کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اِس عفریت پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اُن کی نہایت سنجیدہ و فہمیدہ اور ہدف پر مبنی تقریروں میں بہرحال یہ عنصر نظر ضرور آ رہا ہے۔ ابھی زیارت ریذیڈنسی کا دل شکن واقعہ مدہم نہ پڑا تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے رکنِ صوبائی اسمبلی اور اُن کا صاحبزادہ سرعام گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اِس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا میں ایک نمازِ جنازہ پر خود کش حملہ کر دیا گیا جس میں دو درجن کے قریب معصوم افراد شہید ہو گئے۔

اِن میں ایک رکنِ صوبائی اسمبلی بھی تھا۔ 22جون کو پشاور کی ایک مسجد میں خودکش حملہ آور نے تو نمازیوں کے چیتھڑے اُڑا کر رکھ دیے۔نئی حکومت آنے کے بعد تین مختلف سانحات میں تین ارکانِ اسمبلی (فریدخان،ساجدقریشی اور عمران مہمند)دہشت گردوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور مجرم ایک بھی گرفتار نہیں ہوا۔ کراچی، کوئٹہ، زیارت، پشاور اور فاٹا میں بہتی ہوئی خون کی ندی تھمی تھی نہ ہمارے آنسو کہ نانگا پربت کی اترائیوں میں ایک اور خوں ریز سانحہ نے جنم لیا۔ اِس بار ہمارے دشمن نے وطنِ عزیز کو ساری دنیا میں بدنام کرنے کا ہدف بنایا تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان میں اپنے تو اپنے، غیر ملکی سیاحوں کی جان و مال بھی محفوظ نہیں۔ 23 جون 2013 کووقوع پذیر ہونے والے اِس خونیں واقعے میں دہشت گرد خاص منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان آئے اور سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ ایک درجن کے قریب قتل کیے جانے والے اِن ٹورسٹوں کی خبر نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کر لی ہے۔

پاکستان میں ٹورازم ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوات کے طالبان، جن کی کمر بجا طور پر ہماری افواج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر توڑی، نے اِس شعبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ گزشتہ حکومت نے اِس محکمے کی وزارت جس صاحب کو سونپ رکھی تھی، اُنہیں دیکھ کر ویسے بھی عالمی سیاح اِس ملک کا رُخ نہ کرنے کا عہد کر لیتے تھے۔ اور اب نانگا پربت میں ظالمان، جن سے نئی حکومت مکالمہ اور مصافحہ کرنے کا بار بار اعلان بھی کر چکی ہے، نے جس وحشت و خشونت کے ساتھ ہمارے مہمان سیاحوں کو قریب سے گولیاں مار کر قتل کیا ہے، اٍس نے پاکستان ٹورسٹ انڈسٹری کو جڑ سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اِس کی شاید کسی صورت تلافی نہ کی جا سکے۔ غارت گری اور قتل کی اِس بہیمانہ واردات نے پاکستان کے دوست ممالک سے تعلقات کو سفارتی سطح پر شدید زک پہنچائی ہے۔

دشمن اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور ناکامی ہمارے حصے میں آئی۔ ایسے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر جن جذبات کا اظہار کیا اور مقتولین کے ممالک سے جس لہجے میں زاری کی اور آگے بڑھ کر اِس سانحے کے خلاف قرارداد پیش کرنے میں اپوزیشن کو جس اسلوب میں شریک کیا، اِس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ ہمیں اِس بات کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ ابھی تک کسی اینکر پرسن نے اِن غیر ملکی سیاحوں کے قتل عام کا ملبہ آئی ایس آئی پر نہیں ڈالا۔ آزادیٔ صحافت نے ہمیں آج کس مقام پر کھڑا کر دیا ہے، یہ تو کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا گیا تھا۔

کیا ممبئی حملہ کے وقت بھارت کے کسی اخبار نویس یا اینکر پرسن نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ کارستانی ''را'' کی ہے؟ تو پھر ہمارے ہاں''را'' کی زبان بولنے والوں کا محاکمہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان عناصر نے وزیرِداخلہ چوہدری نثارعلی خان کو بھی اپنے غچے میں لینے کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر سندھ کے بارے میں مبینہ طور پر دیاگیا اُن کا بیان جس کی نثارصاحب نے اسمبلی کے فلور پر تردید بھی کی ہے لیکن بدقسمتی سے اِسے ہنوزایکسپلائیٹ کرنے کی سعی جاری ہے۔چوہدری نثار نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر بجا طور پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی تحسین کی ہے جو سب سے پہلے ریسکیو کی خاطر نانگا پربت کے بیس کیمپ پہنچیں۔

نانگا پربت کے بیس کیمپ میں یوکرائن، چین، روس اور نیپال کے سیاحوں کو بربریت سے قتل کرنے کی واردات میں کیا بھارت شامل ہو سکتاہے؟ ممکن ہے اُس نے ظالمان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے اپنا ایک پرانا بدلہ چکایا ہو؟ 1995 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہل گام میں چھ مغربی سیاحوں کو اغوا کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ نے دنیابھر میں بھارت کو بہت بدنام کیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی سیاحت عالمی سیاحوں پر تقریباً بند کردی گئی تھی۔ اِن مقتول سیاحوں میں سے دو (کیتھ اور پال) کا تعلق برطانیہ سے اور دو (جان اور سمس بری) کا امریکا سے تعلق تھا جب کہ ایک (ڈرک) جرمن اور ایک (کرسٹین اوسٹرو)ناروے سے تھا۔ بھارت نے عالمی ندامت سے بچنے کی خاطر پہلے تو چالاکی سے ایک نام نہاد جہادی تنظیم (الفاران) کے حوالے سے اِس کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی بہت کوشش کی لیکن سفارتی محاذ پر جب بھارت کو مختلف النوع بنیادی سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو اُس کی چالاکی دھری کی دھری رہ گئی۔

اِس واقعہ کو اٹھارہ برس گزر چکے تھے لیکن بھارت اِس شرمناک ندامت کو بھولا نہیں تھا؛ چنانچہ ہمیں بوجوہ اِس خدشے کا اظہار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ممکن ہے بھارت نے بدلہ لینے کے لیے دہشت گرد عناصر کو بروئے کار لا کر نانگا پربت میں یہ خونی کھیل کھیلا ہو۔دیکھاجائے تو پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں سیاحوں کے اغوا اور اُن کے قتل کی وارداتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ 1994میں انڈیا میں گیارہ اسرائیلی سیاحوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ مارچ 2012 میں انڈیا ہی میں ماؤ نواز علیحدگی پسندوںنے دو اطالوی سیاحوں (پاؤلو اورکلاڈیو) کو اغوا کرکے بے دردی سے قتل کر دیاتھا۔

اب ہماری عزت اور حُرمت اِسی میں ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان شب و روز ایک کرکے اُن ظالموں کا کُھرا نکالیں جنہوں نے نانگا پربت کے اترائیوں میں ایک درجن کے قریب سیاحوں کو بے دردی سے قتل کیاہے۔ مجرموں کو تلاش کرنا اگرچہ بُھوسے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے لیکن جتنے وہ طاقتور وزیر داخلہ ہیں، اس کے پیش نظر ہم کسی مثبت نتیجے ہی کا انتظار کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں