کسے بچایا جائے
گزشتہ چند کالموں میں پیش کیے گئے سوالات کے کچھ جوابات موصول ہوئے، لیکن کچھ احباب نے ہم سے بھی سوالات دریافت کر ڈالے۔
گزشتہ چند کالموں میں پیش کیے گئے سوالات کے کچھ جوابات موصول ہوئے، لیکن کچھ احباب نے ہم سے بھی سوالات دریافت کر ڈالے۔ ایک سوال نے تو چکرا ہی دیا۔ ہم نے سوچا اس سوال پر غور کے لیے سب ہی قارئین کو دعوت دی جائے۔ ابتداء میں تو سوال اتنا اہم معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایسا ہی لگا جیسا ''لیٹرل تھنکنگ'' والے حضرات پیش کیا کرتے ہیں مثلاً آپ ایک سنسان اور غیر آباد علاقے سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک طوفانی رات ہے۔ باد و باراں نے ہر طرف جل تھل کر رکھا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بس اسٹاپ پر تین مسافر بس کے منتظر پریشان بیٹھے ہیں۔
ایک ضعیف خاتون ہیں جو شدید بیمار بلکہ لبِ دم ہیں۔ ایک آپ کے دیرینہ دوست ہیں کہ جنھوں نے کبھی آپ کی زندگی بچائی تھی۔ آج اُنھیں آپ کی ضرورت ہے۔ ایک طرح دار خاتون ہیں جن کی نک سک دیکھ کر ہی آپ نے اندازہ لگا لیا ہے کہ یہ ہی آپ کی موزوں جیون ساتھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو اِس طرح کے سوال کا اطلاق یوں بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم تو تینوں ہی کو گاڑی میں بٹھا کر بچا لیں گے۔
لیکن سوال میں مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ آپ کسی ایک فرد ہی کو ساتھ لے جا سکتے ہیں؟ کسے؟ کیوں؟ اس قبیل کے بہت سے اور سوالات بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً ایک ملحد، ایک عالمِ دین اور ایک ڈاکٹر میں سے کسی ایک فرد کی زندگی بچائی جا سکتی ہو تو آپ کِس کا انتخاب کریں گے۔ گھر کے افراد میں سے خدانخواستہ کسی ایک فرد کی زندگی بچانے کا موقع ہو تو آپ کیا کریں گے؟ وغیرہ۔ لیکن یہ جو سوال پوچھا گیا جس کا ہم ابھی تک جواب ہی سوچ رہے ہیں وہ بڑا عجیب سا سوال ہے۔ آپ بھی کوشش کریں۔
یہ ایک چھوٹے سے علاقے کے چھوٹے سے اسپتال کی بات ہے۔ وہاں آگ لگ جاتی ہے۔ اسپتال سے بہت سے افراد جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں۔ آگ بجھانے والوں کو بلایا جاتا ہے تو ایک ہی فرد پہنچتا ہے۔ دیگر آگ بجھانے والے یا تو ہیں نہیں یا کہیں اور آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔ آگ اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ایک سے زائد کسی فرد کو بچانا ممکن نہیں۔
اسپتال، اسپتال میں آگ، ایک آگ بجھانے والا اور وہ کسی ایک ہی فرد کو بچا سکے گا۔ اب دیکھیے جنھیں بچانا ہے ان میں کون کون افراد شامل ہیں۔ ایک عورت جس کی گود میں دو دِن کا بچہ ہے، ایک عالمِ دین، ایک مشہور ڈاکٹر، ایک نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت، ایک بچہ، چار لڑکیاں، دس مریض اور ایک مکمل معذور بچہ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اسپتال میں رہ جانے والی واحد عورت اُس کی وہ ماں ہے جس نے باپ کے انتقال کے بعد انتہائی مشقت سے پال پوس کر اُسے جوا ن کیا۔ دوسری جانب اُس ماں کی گود میں ایک دو دن کا بچہ ہے جس کی ماں اسے جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔
تیسری طرف ایک مکمل معذور بچہ ہے جو دیکھنے، بولنے، سننے یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہے۔ چوتھی جانب شہر کا سب سے بہترین ڈاکٹر جس کے دستِ شفاء سے روزانہ شہر کے کتنے ہی لوگ فیض یاب ہوتے تھے۔ یہ آگ بجھانے والے فرد کے بیوی بچوں کا مفت علاج کیا کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کسے بچائے؟ کون سی ہستی اُس کے لیے اہم ترین ہے۔ وہ کون سی اخلاقیات اور عقلیت ہو سکتی ہے جو درست فیصلے تک پہنچنے میں مدد دے؟ کیا اِس موقعے پر عقلی اخلاقی فہم رہنمائی کر سکتا ہے؟ یہاں عقل و منطق کا مطالبہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا اس مسئلے کو عقلِ محض کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم اسے آلاتی عقل سے حل کر سکتے ہیں؟
انسانی حقوق کے تحت اس مسئلے کا جائزہ لیں۔ انسانی حقوق کے تحت تمام متاثر کنندگان کا مفاد یکساں طور پر بلا تخصیص پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ورنہ یہ انسانیت پرستی کی نفی ہو گی۔ امتیازی رویہ کہلائے گا۔ حقوقِ انسانی کے منشور کے تحت تمام انسان برابر ہیں۔ یہ ہی مساوات ہے۔ جب سب مساوات کے قائل ہیں تو اِس فلسفے کے تحت یا تو سب کو بچایا جائے یا سب کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ دورِ جدید کے فلسفی ''مِل'' کے مطابق افادیت، خود مختاری اور مساوات کے تحت ہر فرد کا یکساں احترام ضروری ہے۔
کیا اس موقعے پر ہم صرف عقلیت کو پیمانہ بنا سکیں گے؟ یا جواب کے لیے کسی تصورِ خیر کی ضرورت پیش آئے گی؟ اگر صرف عقلیت پیمانہ ہو تو ہر شخص کی عقلیت مختلف فیصلہ کرے گی۔ اس میں اشتراک ممکن نہیں ہو گا۔ اشتراک کے لیے کسی خیر کو اپنانا ضروری ہے۔ اگر اس اشتراک کو ممکن بنایا جائے تو یہ جبر ہو جائے گا۔ کیوں کہ اس طرح سب کو ایک خاص خیر اور اُس کے نتیجے میں ایک خاص عمل پر مجبور کیا جائے گا۔ جب کی بنیادی حقوق کا منشور فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کسی کو کسی خاص خیر پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ جبر ہر جگہ ہے یہاں تک کہ بظاہر ''لبرل ازم'' میں بھی۔ ''لبرل ازم'' میں ہر فرد خود مختار فاعل ہے۔
یہ آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتا نہ ہی اس کے پاس کوئی دلیل ہے کہ آزادی کیوں؟ ''مِل'' کا کہنا ہے کہ آزادی کے مخالف پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دلیل فراہم کرے۔ یہ ماورائے تاریخ نظریہ ہے۔ اس پر سب کو یقین کرنا ہو گا۔ ''مِل'' سے لے کر ''جان رالز'' تک آزادی کے تمام مفکرین کا کہنا ہے کہ آزادی کو رد کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ آزادی پر یقین رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی آزادی میں مداخلت کرے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر فرد کی آزادی کو دوسرے فرد کی دست بُرد سے محفوظ رکھے۔
اسپتال کی عمارت سے کسے نکالا جائے؟ اس موقعے پر ہمارے اخلاقی فیصلے کی عقلی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟ کیا عقل سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے، جس پر سب متحد و متفق ہو سکیں؟ افادہ پرستی کے اخلاقی نظریے کے تحت اس معاملے میں درست فیصلہ کیا ہو گا؟ کیا اس معاملے میں افادیت کا نظریہ ہمیں لوگوں کے بارے میں یکساں نوعیت کے فیصلے اور حفاظتِ نفس کے سلسلے میں مساویانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی ممانعت نہیں کرتا؟ ''این میکلین'' کا خیال ہے کہ افادیت کا نظریہ ہمیں کوئی اخلاقی جواز فراہم نہیں کرتا۔ لیکن افادیت پرستی کے تحت ہمیں وہ عمل اختیار کرنا چاہیے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مسرتوں میں، فوائد میں، فلاح میں اضافہ ہو اور تکالیف میں کمی ہو۔ عقلیت کچھ بھی کہتی رہے فیصلہ مغرب کے تصورِ خیر (ہائپر گُڈ) کے تحت ہی کیا جائے گا۔ مغرب میں عموماً افادیت پرستی کے تصورِ خیر کے تحت فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تمام انسان برابر ہیں لیکن سب سے بہتر انسان وہ ہے جس سے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ مغرب میں تعداد کو معیار پر فوقیت حاصل ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہی انسانیت پرستی کے نظریے کا حاصل ہے۔ ''جان ہیرس'' اپنے پیپر ''دی سروایول لاٹری'' میں ''پلین مرڈر'' کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ دو قریب المرگ مریض جو تبدیلی اعضاء کے منتظر ہیں۔ ایسے میں اگر کسی شخص کی فطری موت واقع نہ ہونے کی بنا پر اعضاء کی فراہمی ممکن نہ ہو تو لاٹری کے ذریعے کسی ایک صحت مند شخص کا انتخاب کر کے اُسے قتل کر دیا جائے اور دو قیمتی جانیں بچا لی جائیں۔ اگر آپ مذہب اور اخلاقیات کے دھندوں میں الجھے رہے تو آپ نے ایک کی جان نہیں بچائی بلکہ دو افراد کو قتل کیا۔اسپتال میں کس کو بچایا جائے؟ ایک کو مار کر دو کو زندگی دی جائے یا نہیں؟ اہم سوال ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسی پیچیدہ صورتِ حال کا حل کون بتائے گا؟ علمیت لیکن کون سی علمیت؟ مابعد الطبیات؟ وجدان؟ عقل؟ جذبات؟ تاریخ؟ تہذیب؟ آخر کون؟
ایک ضعیف خاتون ہیں جو شدید بیمار بلکہ لبِ دم ہیں۔ ایک آپ کے دیرینہ دوست ہیں کہ جنھوں نے کبھی آپ کی زندگی بچائی تھی۔ آج اُنھیں آپ کی ضرورت ہے۔ ایک طرح دار خاتون ہیں جن کی نک سک دیکھ کر ہی آپ نے اندازہ لگا لیا ہے کہ یہ ہی آپ کی موزوں جیون ساتھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو اِس طرح کے سوال کا اطلاق یوں بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم تو تینوں ہی کو گاڑی میں بٹھا کر بچا لیں گے۔
لیکن سوال میں مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ آپ کسی ایک فرد ہی کو ساتھ لے جا سکتے ہیں؟ کسے؟ کیوں؟ اس قبیل کے بہت سے اور سوالات بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً ایک ملحد، ایک عالمِ دین اور ایک ڈاکٹر میں سے کسی ایک فرد کی زندگی بچائی جا سکتی ہو تو آپ کِس کا انتخاب کریں گے۔ گھر کے افراد میں سے خدانخواستہ کسی ایک فرد کی زندگی بچانے کا موقع ہو تو آپ کیا کریں گے؟ وغیرہ۔ لیکن یہ جو سوال پوچھا گیا جس کا ہم ابھی تک جواب ہی سوچ رہے ہیں وہ بڑا عجیب سا سوال ہے۔ آپ بھی کوشش کریں۔
یہ ایک چھوٹے سے علاقے کے چھوٹے سے اسپتال کی بات ہے۔ وہاں آگ لگ جاتی ہے۔ اسپتال سے بہت سے افراد جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں۔ آگ بجھانے والوں کو بلایا جاتا ہے تو ایک ہی فرد پہنچتا ہے۔ دیگر آگ بجھانے والے یا تو ہیں نہیں یا کہیں اور آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔ آگ اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ایک سے زائد کسی فرد کو بچانا ممکن نہیں۔
اسپتال، اسپتال میں آگ، ایک آگ بجھانے والا اور وہ کسی ایک ہی فرد کو بچا سکے گا۔ اب دیکھیے جنھیں بچانا ہے ان میں کون کون افراد شامل ہیں۔ ایک عورت جس کی گود میں دو دِن کا بچہ ہے، ایک عالمِ دین، ایک مشہور ڈاکٹر، ایک نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت، ایک بچہ، چار لڑکیاں، دس مریض اور ایک مکمل معذور بچہ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اسپتال میں رہ جانے والی واحد عورت اُس کی وہ ماں ہے جس نے باپ کے انتقال کے بعد انتہائی مشقت سے پال پوس کر اُسے جوا ن کیا۔ دوسری جانب اُس ماں کی گود میں ایک دو دن کا بچہ ہے جس کی ماں اسے جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔
تیسری طرف ایک مکمل معذور بچہ ہے جو دیکھنے، بولنے، سننے یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہے۔ چوتھی جانب شہر کا سب سے بہترین ڈاکٹر جس کے دستِ شفاء سے روزانہ شہر کے کتنے ہی لوگ فیض یاب ہوتے تھے۔ یہ آگ بجھانے والے فرد کے بیوی بچوں کا مفت علاج کیا کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کسے بچائے؟ کون سی ہستی اُس کے لیے اہم ترین ہے۔ وہ کون سی اخلاقیات اور عقلیت ہو سکتی ہے جو درست فیصلے تک پہنچنے میں مدد دے؟ کیا اِس موقعے پر عقلی اخلاقی فہم رہنمائی کر سکتا ہے؟ یہاں عقل و منطق کا مطالبہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا اس مسئلے کو عقلِ محض کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم اسے آلاتی عقل سے حل کر سکتے ہیں؟
انسانی حقوق کے تحت اس مسئلے کا جائزہ لیں۔ انسانی حقوق کے تحت تمام متاثر کنندگان کا مفاد یکساں طور پر بلا تخصیص پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ورنہ یہ انسانیت پرستی کی نفی ہو گی۔ امتیازی رویہ کہلائے گا۔ حقوقِ انسانی کے منشور کے تحت تمام انسان برابر ہیں۔ یہ ہی مساوات ہے۔ جب سب مساوات کے قائل ہیں تو اِس فلسفے کے تحت یا تو سب کو بچایا جائے یا سب کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ دورِ جدید کے فلسفی ''مِل'' کے مطابق افادیت، خود مختاری اور مساوات کے تحت ہر فرد کا یکساں احترام ضروری ہے۔
کیا اس موقعے پر ہم صرف عقلیت کو پیمانہ بنا سکیں گے؟ یا جواب کے لیے کسی تصورِ خیر کی ضرورت پیش آئے گی؟ اگر صرف عقلیت پیمانہ ہو تو ہر شخص کی عقلیت مختلف فیصلہ کرے گی۔ اس میں اشتراک ممکن نہیں ہو گا۔ اشتراک کے لیے کسی خیر کو اپنانا ضروری ہے۔ اگر اس اشتراک کو ممکن بنایا جائے تو یہ جبر ہو جائے گا۔ کیوں کہ اس طرح سب کو ایک خاص خیر اور اُس کے نتیجے میں ایک خاص عمل پر مجبور کیا جائے گا۔ جب کی بنیادی حقوق کا منشور فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کسی کو کسی خاص خیر پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ جبر ہر جگہ ہے یہاں تک کہ بظاہر ''لبرل ازم'' میں بھی۔ ''لبرل ازم'' میں ہر فرد خود مختار فاعل ہے۔
یہ آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتا نہ ہی اس کے پاس کوئی دلیل ہے کہ آزادی کیوں؟ ''مِل'' کا کہنا ہے کہ آزادی کے مخالف پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دلیل فراہم کرے۔ یہ ماورائے تاریخ نظریہ ہے۔ اس پر سب کو یقین کرنا ہو گا۔ ''مِل'' سے لے کر ''جان رالز'' تک آزادی کے تمام مفکرین کا کہنا ہے کہ آزادی کو رد کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ آزادی پر یقین رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی آزادی میں مداخلت کرے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر فرد کی آزادی کو دوسرے فرد کی دست بُرد سے محفوظ رکھے۔
اسپتال کی عمارت سے کسے نکالا جائے؟ اس موقعے پر ہمارے اخلاقی فیصلے کی عقلی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟ کیا عقل سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے، جس پر سب متحد و متفق ہو سکیں؟ افادہ پرستی کے اخلاقی نظریے کے تحت اس معاملے میں درست فیصلہ کیا ہو گا؟ کیا اس معاملے میں افادیت کا نظریہ ہمیں لوگوں کے بارے میں یکساں نوعیت کے فیصلے اور حفاظتِ نفس کے سلسلے میں مساویانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی ممانعت نہیں کرتا؟ ''این میکلین'' کا خیال ہے کہ افادیت کا نظریہ ہمیں کوئی اخلاقی جواز فراہم نہیں کرتا۔ لیکن افادیت پرستی کے تحت ہمیں وہ عمل اختیار کرنا چاہیے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مسرتوں میں، فوائد میں، فلاح میں اضافہ ہو اور تکالیف میں کمی ہو۔ عقلیت کچھ بھی کہتی رہے فیصلہ مغرب کے تصورِ خیر (ہائپر گُڈ) کے تحت ہی کیا جائے گا۔ مغرب میں عموماً افادیت پرستی کے تصورِ خیر کے تحت فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تمام انسان برابر ہیں لیکن سب سے بہتر انسان وہ ہے جس سے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ مغرب میں تعداد کو معیار پر فوقیت حاصل ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہی انسانیت پرستی کے نظریے کا حاصل ہے۔ ''جان ہیرس'' اپنے پیپر ''دی سروایول لاٹری'' میں ''پلین مرڈر'' کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ دو قریب المرگ مریض جو تبدیلی اعضاء کے منتظر ہیں۔ ایسے میں اگر کسی شخص کی فطری موت واقع نہ ہونے کی بنا پر اعضاء کی فراہمی ممکن نہ ہو تو لاٹری کے ذریعے کسی ایک صحت مند شخص کا انتخاب کر کے اُسے قتل کر دیا جائے اور دو قیمتی جانیں بچا لی جائیں۔ اگر آپ مذہب اور اخلاقیات کے دھندوں میں الجھے رہے تو آپ نے ایک کی جان نہیں بچائی بلکہ دو افراد کو قتل کیا۔اسپتال میں کس کو بچایا جائے؟ ایک کو مار کر دو کو زندگی دی جائے یا نہیں؟ اہم سوال ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسی پیچیدہ صورتِ حال کا حل کون بتائے گا؟ علمیت لیکن کون سی علمیت؟ مابعد الطبیات؟ وجدان؟ عقل؟ جذبات؟ تاریخ؟ تہذیب؟ آخر کون؟