شہر قائد کا ویڈیو سرویلنس سسٹم خطرے میں پڑ گیا
نجی کمپنیوں سے معاہدوں کی تجدید ہو سکی نہ انہیں لاکھوں روپے کی ادائیگیاں۔
انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایجاد کیا جانے والا ویڈیو سرویلنس کا نظام بالخصوص ترقی یافتہ ممالک اور بالعموم دنیا کے ہر ملک میں رائج ہے، اس نظام کا مقصد ہر اس مقام کی مسلسل نگرانی کرنا ہے، جہاں انسانی آنکھ کو مشکلات کا سامنا تھا، جہاں پولیس موبائل جا سکے نہ پولیس اہلکار تعینات کیا جاسکے، تو وہاں یہ نظام انتہائی موثر ثابت ہوتا ہے۔
یہ کیمرے ایک مانیٹرنگ روم سے کنٹرول کئے جاتے ہیں، جہاں آپریٹرز تمام تر کیمروں کی مانیٹرنگ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس مانیٹرنگ کے نتیجے میں امن و امان کے قیام اور جرائم کی روک تھام کے لئے اعلی حکام کی طرف سے پولیس افسروں کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔
دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار کیے جانے والے کراچی میں بھی کلوز سرکٹ ٹی وی مانیٹرنگ کا نظام کچھ سال قبل قائم کیا گیا لیکن افسوس چند سال بعد ہی اب یہ نظام خطرے سے دوچار ہو چکا ہے۔ نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی کئی ماہ سے تجدید نہ ہوسکی، جس کے باعث کمپنیاں کسی بھی وقت سرویلنس سسٹم بند کرسکتی ہیں۔
شہر بھر میں 2200 کیمرے نصب ہیں، جن میں سے 200 ٹریفک پولیس، ایک ہزار سے زائد سٹی گورنمنٹ کے ماتحت جبکہ 960 سندھ پولیس کے تحت نصب کئے گئے ہیں، اور ان تینوں کو آپس میں منسلک کرکے مجموعی طور پر سندھ پولیس کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ تمام نگران کیمروں کو سنٹرل پولیس آفس (سی پی او) میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے دور میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بند ہونے کی نوبت آگئی تھی، سندھ پولیس اس وقت بھی کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کرتی تھی جبکہ کمپنی مینٹیننس نہیں کررہی تھی جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی تھی۔ واجب الادا رقم 22 کروڑ روپے سے بھی تجاوز کرگئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرسے منسلک کیمرے محض 20 فیصد ہی کام کررہے تھے لیکن ان کے بعد تعینات ہونے والے آئی جیز نے اس ضمن میں کچھ بہتر اقدامات کیے.
معاملہ سپریم کورٹ گیا اور آئی جی اے ڈی خواجہ نے اس سسٹم میں گہری دلچسپی لیتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کردیا ، کمپنیوں کے کنٹریکٹس کی تجدید کی اور واجب الادا کروڑوں روپے بھی انھیں دیے گئے جس کے بعد سے تمام تر کام روانی کے ساتھ چل رہا تھا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اچانک تعطل آنے لگا، اب نجی کمپنیوں کو دوبارہ سے عدم ادائیگیوں کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
عام انتخابات سے قبل آئی جی اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کردیا گیا اور امجد جاوید سلیمی کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا ، اس ضمن میں آئی جی امجد جاوید سلیمی کو کئی مرتبہ آگاہ کیا گیا لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ، انتخابات کے انعقاد کے بعد امجد جاوید سلیمی کا بھی تبادلہ ہوگیا اور کلیم امام کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا.
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سندھ پولیس نے ٹھوس پیش رفت یا کمپنیوں کو ادائیگیوں کی یقین دہانی نہیں کرائی تو وہ بڑا فیصلہ کرتے ہوئے سرویلنس سسٹم کو بند کرسکتی ہیں ، سرویلنس سسٹم کی بدولت جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے ہی ملزمان کی شناخت ، ان کی آمدورفت کے راستے اور دیگر معلومات حاصل کی جاتی ہیں ، اگر یہ سسٹم بند ہوگیا تو پھر شہر میں صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی۔ جب یہ سسٹم نافذ کیا جارہا تھا تو کئی علاقے ایسے تھے جہاں پولیس آزادانہ طور پر نہیں جاسکتی تھی ، آپریشن کے بعد اب ایسی صورت حال نہیں لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں کی مانیٹرنگ کیمروں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔
کراچی میں کئی کیسز سی سی ٹی وی فوٹیجز کی بدولت ہی حل ہوئے ، حال ہی میں ڈیفنس میں فائرنگ سے شہید ہونے والی معصوم امل کا واقعہ بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بدولت ہی اصل حقائق سامنے لے کر آیا، فوٹیج سامنے آنے سے قبل پولیس نے معصوم امل کی ہلاکت کو محض ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان ہونے والی فائرنگ کا نتیجہ بتایا تھا لیکن جب فوٹیج سامنے آئی تو اصل معلومات سامنے آئی ، اسی طرح اسٹریٹ کرائم اور قتل و ڈکیتی کی متعدد وارداتوں کے کیسز بھی اسی طرح کے سی سی ٹی وی فوٹٰیجز کے ذریعے حل ہوئے.
پاک کالونی میں دکانیں لوٹنے والے ملزمان کی گرفتاری بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے عمل میں آئی ، نارتھ کراچی ، بفرزون اور متصل علاقوں میں اے ٹی ایم بوتھ میں شہریوں سے نقدی چھیننے والے دو ملزمان بھی سی سی ٹی وی کیمروں میں چہرے واضح ہونے کے بعد ہی قانون کی گرفت میں آئے ، اسی طرح رینجرز نے بھی کئی اسٹریٹ کریمنلز گرفتار کیے، جن کی گرفتاری میں انہی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے مدد ملی۔
اس سلسلے میں عام شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام اور خصوصاً آئی جی سندھ کلیم امام کو چاہیے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تنصیب شدہ اس سسٹم کو بچاتے ہوئے کمپنیز کے کنٹریکٹ کی فوری طور پر نہ صرف تجدید کریں بلکہ واجبات بھی ادا کردیے جائیں ، شہریوں کے ٹیکسز کی بدولت لگائے گئے اس سسٹم کو پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہنا چاہیے تاکہ شہر میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی سرکوبی میں ٹیکنالوجی کی مدد شامل رہے۔
یہ کیمرے ایک مانیٹرنگ روم سے کنٹرول کئے جاتے ہیں، جہاں آپریٹرز تمام تر کیمروں کی مانیٹرنگ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس مانیٹرنگ کے نتیجے میں امن و امان کے قیام اور جرائم کی روک تھام کے لئے اعلی حکام کی طرف سے پولیس افسروں کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔
دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار کیے جانے والے کراچی میں بھی کلوز سرکٹ ٹی وی مانیٹرنگ کا نظام کچھ سال قبل قائم کیا گیا لیکن افسوس چند سال بعد ہی اب یہ نظام خطرے سے دوچار ہو چکا ہے۔ نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی کئی ماہ سے تجدید نہ ہوسکی، جس کے باعث کمپنیاں کسی بھی وقت سرویلنس سسٹم بند کرسکتی ہیں۔
شہر بھر میں 2200 کیمرے نصب ہیں، جن میں سے 200 ٹریفک پولیس، ایک ہزار سے زائد سٹی گورنمنٹ کے ماتحت جبکہ 960 سندھ پولیس کے تحت نصب کئے گئے ہیں، اور ان تینوں کو آپس میں منسلک کرکے مجموعی طور پر سندھ پولیس کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ تمام نگران کیمروں کو سنٹرل پولیس آفس (سی پی او) میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے دور میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بند ہونے کی نوبت آگئی تھی، سندھ پولیس اس وقت بھی کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کرتی تھی جبکہ کمپنی مینٹیننس نہیں کررہی تھی جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی تھی۔ واجب الادا رقم 22 کروڑ روپے سے بھی تجاوز کرگئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرسے منسلک کیمرے محض 20 فیصد ہی کام کررہے تھے لیکن ان کے بعد تعینات ہونے والے آئی جیز نے اس ضمن میں کچھ بہتر اقدامات کیے.
معاملہ سپریم کورٹ گیا اور آئی جی اے ڈی خواجہ نے اس سسٹم میں گہری دلچسپی لیتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کردیا ، کمپنیوں کے کنٹریکٹس کی تجدید کی اور واجب الادا کروڑوں روپے بھی انھیں دیے گئے جس کے بعد سے تمام تر کام روانی کے ساتھ چل رہا تھا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اچانک تعطل آنے لگا، اب نجی کمپنیوں کو دوبارہ سے عدم ادائیگیوں کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
عام انتخابات سے قبل آئی جی اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کردیا گیا اور امجد جاوید سلیمی کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا ، اس ضمن میں آئی جی امجد جاوید سلیمی کو کئی مرتبہ آگاہ کیا گیا لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ، انتخابات کے انعقاد کے بعد امجد جاوید سلیمی کا بھی تبادلہ ہوگیا اور کلیم امام کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا.
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سندھ پولیس نے ٹھوس پیش رفت یا کمپنیوں کو ادائیگیوں کی یقین دہانی نہیں کرائی تو وہ بڑا فیصلہ کرتے ہوئے سرویلنس سسٹم کو بند کرسکتی ہیں ، سرویلنس سسٹم کی بدولت جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے ہی ملزمان کی شناخت ، ان کی آمدورفت کے راستے اور دیگر معلومات حاصل کی جاتی ہیں ، اگر یہ سسٹم بند ہوگیا تو پھر شہر میں صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی۔ جب یہ سسٹم نافذ کیا جارہا تھا تو کئی علاقے ایسے تھے جہاں پولیس آزادانہ طور پر نہیں جاسکتی تھی ، آپریشن کے بعد اب ایسی صورت حال نہیں لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں کی مانیٹرنگ کیمروں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔
کراچی میں کئی کیسز سی سی ٹی وی فوٹیجز کی بدولت ہی حل ہوئے ، حال ہی میں ڈیفنس میں فائرنگ سے شہید ہونے والی معصوم امل کا واقعہ بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بدولت ہی اصل حقائق سامنے لے کر آیا، فوٹیج سامنے آنے سے قبل پولیس نے معصوم امل کی ہلاکت کو محض ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان ہونے والی فائرنگ کا نتیجہ بتایا تھا لیکن جب فوٹیج سامنے آئی تو اصل معلومات سامنے آئی ، اسی طرح اسٹریٹ کرائم اور قتل و ڈکیتی کی متعدد وارداتوں کے کیسز بھی اسی طرح کے سی سی ٹی وی فوٹٰیجز کے ذریعے حل ہوئے.
پاک کالونی میں دکانیں لوٹنے والے ملزمان کی گرفتاری بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے عمل میں آئی ، نارتھ کراچی ، بفرزون اور متصل علاقوں میں اے ٹی ایم بوتھ میں شہریوں سے نقدی چھیننے والے دو ملزمان بھی سی سی ٹی وی کیمروں میں چہرے واضح ہونے کے بعد ہی قانون کی گرفت میں آئے ، اسی طرح رینجرز نے بھی کئی اسٹریٹ کریمنلز گرفتار کیے، جن کی گرفتاری میں انہی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے مدد ملی۔
اس سلسلے میں عام شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام اور خصوصاً آئی جی سندھ کلیم امام کو چاہیے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تنصیب شدہ اس سسٹم کو بچاتے ہوئے کمپنیز کے کنٹریکٹ کی فوری طور پر نہ صرف تجدید کریں بلکہ واجبات بھی ادا کردیے جائیں ، شہریوں کے ٹیکسز کی بدولت لگائے گئے اس سسٹم کو پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہنا چاہیے تاکہ شہر میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی سرکوبی میں ٹیکنالوجی کی مدد شامل رہے۔