پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے واٹر اینڈ سینی ٹیشن پالیسی بنانا ہوگی

13 فیصد پاکستانی ٹائلٹ سے محروم ہیں جبکہ پنجاب میں صورتحال دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے


13فیصد پاکستانی ٹائلٹ سے محروم ہیں جبکہ پنجاب میں صورتحال دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے، سینی ٹیشن کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بچوں کی نشوونما ٹھیک نہیں ہورہی اور ہر سال 19 ہزار 500 بچے دستوں کی بیماری سے ہلاک ہوجاتے ہیں ، لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیم، صحت اور سینی ٹیشن کا بجٹ دوگنا کردیا گیا ہے:مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال ۔ فوٹو : وسیم نیاز

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی و سیوریج کے مسائل زیادہ ہیں۔ یہاں بیت الخلاء کی بھی کمی ہے جو ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

کھلی فضا میں رفع حاجت، سینی ٹیشن کا ناقص نظام اور آلودہ پانی کے استعمال بہت سے امراض کا سبب بنتا ہے جو تشویشناک ہے۔ سینی ٹیشن کی سہولیات بہتر کرنے اور لوگوں میں ٹائلٹ کے استعمال کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے دنیا بھر میں 19 نومبر کو ''ٹائلٹ کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت واپوزیشن کے نمائندوں اور آبی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

حنیف خان پتافی
( مشیر برائے صحت وزیراعلیٰ پنجاب)

پنجاب حکومت مالی بحران کے باوجود عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحت، تعلیم اور سینی ٹیشن کا بجٹ دوگنا کردیا گیا ہے۔ سینی ٹیشن کی سہولیات کے حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پنجاب میں صرف 11 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے مگرجنوبی پنجاب کی صورتحال تشویشناک ہے۔ سینی ٹیشن کی سہولیات کے فقدان کے حوالے سے راجن پور پہلے اور مظفر گڑھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ڈی جی خان کا شمار بھی پہلے پانچ اضلاع میں ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے سابق حکومت نے جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا مگر پاکستان تحریک انصاف کی توجہ جنوبی پنجاب پر ہے اور ہمارے وزیراعلیٰ کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے ۔ موجودہ حکومت جنوبی پنجاب کو اس کا حق دلوانے کیلئے کوشاں ہے لہٰذا اب جنوبی پنجاب کی حالت ضرور بدلے گی اوروہاں اَپر پنجاب سے بہتر کام کیا جائے گا تاکہ لوگوں کی محرومیوںکا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ڈیرہ غازی خان واحد ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے جہاں نہ تو واسا ہے اور نہ ہی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی تاہم موجودہ حکومت نے ڈی جی خان سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی منظوری دے دی ہے لہٰذا بہت جلد وزیراعلیٰ پنجاب اس کا اعلان کریں گے۔

اسی طرح صاف پانی کے حوالے سے بھی مختلف منصوبے شروع کیے جارہے ہیں تاکہ لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ دیہاتوں میں ٹائلٹ کی کمی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے بے شمار لوگوں کو رفع حاجت کیلئے باہر جانا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرکے اور این جی اوز کے تعاون سے یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ گندگی کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 64 فیصد خواتین گھر کا ٹائلٹ صاف نہیں رکھتی جس کی وجہ سے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا خواتین کو صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہفتے میں 7 دن کام کررہے ہیں تاکہ ملک کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔ پانی و سیوریج کے مسائل کا حل ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد واٹر اینڈ سینی ٹیشن پالیسی بنائی جائے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

سردار فاروق امان اللہ دریشک
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
ہم وزیراعظم عمران خان اور حکومت سے پرُامید ہے کہ اب راجن پور میں بھی تبدیلی آئے گی اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ بدقسمتی سے سابق ادوار میں ہمارے ضلع کو محروم رکھا گیا۔ ہمارا فنڈ دوسرے اضلاع میں لگا دیا جاتا تھا جس کے باعث ہمارے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔

ہم وسائل کی منصفانہ تقسیم چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کی محرومیوں کو دور کیا جا سکے۔ سابق پنجاب حکومت نے اپنے 10 سالہ دور میں اتنا زیادہ قرض لیا ہے کہ اب موجودہ حکومت کیلئے اسے اتارنا مشکل ہورہا ہے۔ میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوںپر لاکھوں روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے، جس کا فائدہ ہمارے علاقے کونہیں ہورہا بلکہ جن شہروں میں میٹرو بس بنائی گئی وہاں بھی ایک مخصوص علاقے کو ہورہا ہے مگر اس کا بوجھ سب پر ہے۔ سابق حکومت نے صاف پانی منصوبے کے بجٹ کا 1 ارب روپیہ اشتہارات پر خرچ کردیا جبکہ حقیقت میں اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ ضلع راجن پور کے 95 فیصد لوگ زراعت سے منسلک ہیں لہٰذا پانی وہاں کے لوگوں کی بنیادی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے سابق حکومت نے ہمارے ساتھ پانی کے معاملے پر ناانصافی کی ، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ وہاں کے لوگوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دیا۔ میرے حلقے میں 50 فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں زمینی پانی مضر صحت ہے مگر لوگ یہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ این جی اوز اور بین الاقوامی ڈونرز کی مہربانی ہے جنہوں نے وہاں واٹر فلٹریشن پلانٹس اور RO پلانٹس لگائے جن سے لوگوں کو سہولت ملی ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں میرے حلقے کی 70 فیصد واٹر سپلائی سکیمیں بند ہوچکی ہیں اور لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ میٹنگ میں ہماری ڈویژن کے تمام ایم پی ایز کا اولین مطالبہ صاف پانی کی فراہمی تھا۔ ہم نے تجویزدی ہے کہ جو واٹر سپلائی سکیمیں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی یا مرمت نہ ہونے کے باعث غیر فعال ہوچکی ہیں، ان کی بحالی کے لیے خصوصی فنڈ رکھا جائے تاکہ انہیں سولر انرجی پر منتقل کیا جاسکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے لہٰذا وہ ہمارے تمام مسائل کو بہتر سمجھتے ہیں۔

ا س حوالے سے انہوں نے بھی اقدامات اٹھائے ہیں لہٰذا بہت جلد لوگوں کو بہتری نظر آئے گی۔ 2010ء میں ملک میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا جس میں راجن پور بہت زیادہ متاثر ہوا۔ اس کے بعد وہاں مقامی و بین الاقوامی این جی اوز نے کام کیا، دیہاتوں میں ٹائلٹ بھی بنائے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ سابق حکومت نے این جی اوز پر سختی کردی اور ان کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا۔ افسوس ہے کہ سابق حکومت نے نہ خود کام کیا اور نہ ہی سماجی اداروں کو کرنے دیا جس کے باعث آج لوگوں کی حالت ابتر ہے مگر اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں عام آدمی کے مسائل کا حل شامل ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہیں لہٰذا ہم اس حوالے سے اسمبلی کے فورم پر بھرپور آواز اٹھائیں گے۔

راحیلہ خادم حسین
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)

ایشیاء میں رہنے والے لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں، کھانے پینے کی اشیاء کا فقدان ہے جبکہ حکومتیں بھی معیاری نہیں آتی جس کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ ہمیں آزادی کے فوری بعد ہی اپنے مسائل حل کرلینے چاہیے تھے مگر جمہوری حکومتوں کے نہ آنے کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے گئے اور آج یہ مسائل ''جن'' کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔

پینے کا صاف پانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی اہمیت کو سب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سینی ٹیشن بھی ایک اہم مسئلہ ہے لہٰذا ورلڈ ٹائلٹ ڈے منانے کا مقصد یہی ہے کہ نہ صرف اس مسئلے پر موثر بات کی جاسکے بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں اور لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ میرے نزدیک لوکل باڈیز کے نظام کے ذریعے پانی و سینی ٹیشن کو بہتر کیا جاسکتا ہے لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ شہر لندن میں پبلک ٹائلٹ نہیں ہیں مگرراولپنڈی، لاہور، فیصل آباد و دیگر بڑے شہروں میں پبلک ٹائلٹ موجود ہیں تاہم ان کے معیار اور صفائی پر بات کی جاسکتی ہے۔

چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں سینی ٹیشن کا نظام درست نہیں۔ بے شمار دیہات ایسے ہیں جہاں گھروں میں ٹائلٹ کا رواج نہیں ہے بلکہ لوگ کھیتوں و دوردراز جگہ پر کھلی فضا میں رفع حاجت کرتے ہیں ۔ میرے نزدیک منتخب عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور ایسی سکیمیں لائیں جن سے لوگ مستفید ہوسکیں۔ یہ کہناکہ حکومت پانی و سیوریج کے مسائل حل کرنے کیلئے بہت بڑے فنڈز مختص کردے تو مسائل حل ہوجائیں گے، میرے نزدیک درست نہیں۔ اگر چھوٹے پیمانے پر، مقامی نمائندوں کے ذریعے کام کروایا جائے تو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آگاہی مہم چلائی جائے اور عام آدمی تک موثر طریقے سے پیغام پہنچایا جائے۔

ہندوستان میں ٹائلٹ کا مسئلہ زیادہ ہے لیکن وہاں دو دہائیاں قبل سے ہی ٹائلٹ کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جارہی ہے، ہمیں اپنے ملک میں اس طرز کی آگاہی مہم چلانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے وہ کس طرح کم خرچ میں اپنے گھر میں ٹائلٹ تعمیر کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے موثر آگاہی مہم چلائی جائے تو کافی حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں چند بل ایسے تھے جن پر اپوزیشن نے ہمارا ساتھ دیا اور موثر قانون سازی ممکن ہوسکی۔ ان میں سے وویمن پروٹیکشن بل ایک واضح مثال ہے جس پر اپوزیشن نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور یہ اسمبلی سے پاس ہوکر ایکٹ بن گیا لہٰذا اگر موجودہ حکومت مفاد عامہ کا کوئی بل لاتی ہے تو ہم وسیع تر عوامی مفاد میں اس کا ساتھ دیں گے۔

مبارک علی
(واٹر ایکسپرٹ)

باقی صوبوں کی نسبت پنجاب میں سینی ٹیشن کی صورتحال بہتر ہے۔ رواں ماہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقی پنجاب کاسال 2016-17ء کا ''ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے'' (MICS) شائع ہوجائے گاجس کے مطابق تقریباََ 11 فیصد افراد کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ یہ شرح 2004-05 ء میں 29 فیصد تھی۔

جس میں واضح کمی آئی ہے۔ بدقسمتی سے جنوبی پنجاب کے اضلاع بالخصوص راجن پورمیں سینی ٹیشن کی سہولیات سب سے کم ہیں۔ اس کے بعد مظفر گڑھ کا نمبر ہے جہاں ہمارا ادارہ کام کررہا ہے اور ہم اسے انسانی فضلے سے پاک ضلع بنانے جارہے ہیں اور اب تک اس کی 2 تحصیلیں مثال بن چکی ہیں۔ ہم حکومتی تعاون کے ساتھ کام کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی کام سول سوسائٹی کے ادارے اپنے طور پر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا کردار اہم ہے۔ سابق پنجاب حکومت نے سینی ٹیشن کے حوالے سے 400 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا جو 36 اضلاع میں برابر تقسیم کردیا گیا۔ اگر سینی ٹیشن کی حالت دیکھی جائے تو جنوبی پنجاب کی صورتحال ابتر ہے لہٰذا انہیں زیادہ بجٹ ملنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا۔

موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ بجٹ مختص کرتے وقت اضلاع کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور ضرورت کے مطابق بجٹ تقسیم کیا جائے۔ مظفر گڑھ میں تندہی سے کام جاری ہے لہٰذا ہم محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور سول سوسائٹی کے اداروں کے تعاون سے 2019ء میں ضلع مظفر گڑھ کو انسانی فضلے سے پاک کردیں گے۔ یہ پاکستان کا پہلا ضلع ہوگا جو انسانی فضلے سے پاک ہوگا لہٰذا اس حوالے سے تقریب میں وزیراعظم عمران خان کو مدعو کریں گے تاکہ دنیا کواچھا پیغام جاسکے۔ سینی ٹیشن کا تعلق بچوں کی نشونما کے ساتھ ہے۔

جہاں سینی ٹیشن کی سہولیات ناقص یا بالکل نہیں ہیں وہاں بچوں کی نشونما درست نہیں ہورہی اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بچوں کی ''سٹنٹنگ گروتھ'' پر مدلل بات کی۔ بدقسمتی سے دیہاتوں میں خواتین کے ساتھ زیادتی و ہراسمنٹ کے واقعات کی ایک بڑی تعداد اس وقت ہوتی ہے جب وہ کھلی فضا میں رفع حاجت کیلئے جاتی ہیں لہٰذا اگر انہیں سینی ٹیشن کی سہولیات فراہم کردی جائیں تو یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔سول سوسائٹی بشمول ہمارا ادارہ لوگوں میں ٹائلٹ بنانے کے حوالے سے شعور بیدار کررہا ہے۔ اس حوالے سے ہم گاؤں کے سب سے غریب گھر میں ایک کم لاگت والی نمونہ لیٹرین بناتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں لیٹرین کی تعمیر کیلئے بڑی رقم درکار ہونے کے تاثر کو ختم کیا جاسکے۔

ہم نے ایسی لیٹرینیں بھی بنائی ہیں جن کی لاگت 6 سے 10ہزار روپے ہے۔ابتدائی طور پر ہم نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ انسانی فضلے پر راکھ یا مٹی ڈال دیں تاکہ مکھیوں کے ذریعے جراثیم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ بعدازاں ہم نے انہیں ٹائلٹ کی تعمیر اور استعمال کی جانب راغب کیا۔دیہاتوں میںلیٹرین کے فضلے کو تلف کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ٹائلٹ کے ساتھ ٹینک لگایا جاتا ہے لیکن گھر میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہ ٹینک باہر رکھتے ہیں۔ وہاں نالیاں بھی کھلی ہوتی ہیں۔

جن سے جراثیم پھیل رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سیوریج کا نظام بہتر کرے تاکہ لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جاسکے۔بہت ساری جگہ سیوریج اور پینے کا پانی مکس ہوجاتا ہے لہٰذا ہمیں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ سیوریج اور صاف پانی کے پائپ میں ایک مناسب فاصلہ رکھیں تاکہ پانی کوآلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ ہم نے مظفر گڑھ میں نسٹ یونیورسٹی اور واٹر ایڈ کے تعاون سے سیوریج ٹریٹمنٹ یونٹ لگایا ہے جس کی لاگت تقریباََ ڈھائی لاکھ ہے۔ یہ یونٹ پورے گاؤں کی سیوریج کا پانی ٹریٹ کرتا ہے جو زرعی استعمال کیلئے موزوں ہے۔ اس طرح کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے سے پانی کے مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔ 2030ء تک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول پر حکومت نے دستخط کیے ہیں۔

ان میں چھٹا ہدف واٹر اینڈ سینی ٹیشن ہے جس کے مطابق لوگوں کو پانی و سیوریج کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے حکومت پرعزم ہے اور اس کام ہورہا ہے۔ میرے نزدیک پنجاب میں سینی ٹیشن پالیسی کی شدت بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں اس پر کام ہوا لیکن اقوام متحدہ کے ''ہزاریہ ترقیاتی اہداف '' پورے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا از سر نو جائزہ لیا گیا۔ اس وقت یہ پالیسی پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے منظوری کے بعد پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود ہے۔ یہاں سے منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ میرے نزدیک واٹر اینڈ سینی ٹیشن کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی اور سینی ٹیشن کا بہتر نظام فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

دنیا بھر میں ''ورلڈ ٹائلٹ ڈے'' منانے کا مقصد لوگوں میں سینی ٹیشن کے بہتر نظام کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں اس حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی 1 فیصد افراد کھلی فضا میں رفع حاجت کرتے ہیں ۔ پاکستان میں سماجی اداروں نے حکومت ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ ملکر سینی ٹیشن کے مسائل کے حل کیلئے کام کیا ہے۔بعض جگہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور لوکل گورنمنٹ کے دائرہ اختیار میں ٹکراؤ ہے جس کی وجہ سے معاملات خراب ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا اب تک کا کام دیہی علاقوں میں صاف پانی و سیوریج کی سہولیات کی فراہمی رہا ہے۔

محکمہ واٹر سپلائی سکیم لگا دیتا ہے مگر وہ ٹی ایم اے کو منتقل نہیں ہوپاتی جس کی و جہ سے نقصان ہوتا ہے۔ اب چونکہ لوکل باڈیز کا نیا قانون بنایا جارہا ہے تو اس میں دائرہ اختیار کا یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ سکولوں میں محکمہ تعلیم نے صفائی، ستھرائی کے حوالے سے کافی کام کیا ہے تاہم ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے مظفر گڑھ میں بالغ بچیوں کے 60 سرکاری سکولوں میں ''گرل فرینڈلی ٹائلٹ'' تعمیر کروائے ہیں جن لاگت بھی کم ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ اسی ماڈل پر آئندہ سکولوں میں ٹائلٹ تعمیر کیے جائیں۔ اس کے علاوہ سکولوں میں صابن سے ہاتھ دھونے کے حوالے سے کام ہورہا ہے تاہم ابھی مزید عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک مختلف محکموں میں موجود لیڈی ویلفیئر ورکرز کو آگاہی مہم کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں تحقیق اور میڈیا پر آگاہی مہم بھی چلائی جائے، اس سے بہتری آئے گی۔ 13 اکتوبر 2018ء کووزیراعظم عمران خان نے ''کلین اینڈ گرین پاکستان'' مہم کا باقاعدہ آغاز کیا جو خوش آئند ہے۔ ہم اس مشن میں حکومت کے ساتھ ہیں اور ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔

شاہنواز خان
(واٹر ایکسپرٹ)

سینی ٹیشن کا مسئلہ پاکستان کے انتہائی غریب طبقے کا بنیادی مسئلہ ہے کیونکہ انہیں ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے بلکہ وہ کھلی فضا میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔ 2015ء میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس جی ڈیز) پر دستخط کیے جس کے تحت ہم نے دنیا کے ساتھ مختلف وعدے کیے جنہیں 2030ء تک پورا کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک وعدہ شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ حکومت نے قومی آبی پالیسی منظور کی۔ اس سے پہلے ہمارے پاس ایسی کوئی پالیسی موجود نہیں تھی۔گزشتہ دور حکومت میں پنجاب کی واٹر اور سینی ٹیشن پالیسیاں ڈرافٹ ہوچکی تھیں لیکن انہیں تاحال اسمبلی سے منظور نہیں کرایا جاسکا۔

امید ہے موجودہ حکومت اس پر توجہ دے گی۔ سینی ٹیشن کی سہولیات کے حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پاکستان میں 7 کروڑ 90 لاکھ افراد کو صاف ستھرے ٹائلٹ میسر نہیں جبکہ ان میں سے 13 فیصد لوگ کھلے عام رفع حاجت کیلئے جاتے ہیں۔ پنجاب کے اعداد و شمار کا جائزہ لیںتو 13 سے 17 فیصد لوگ کھلے عام رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے25فیصد کا تعلق دیہی علاقوں جبکہ.4 1 فیصد کا تعلق شہری علاقوں سے ہے۔ ٹائلٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں اور خواتین کو بیماریاں لاحق ہورہی ہیں اور انہیں ہراسمنٹ جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سکولوں میں ٹائلٹ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب کے ہر 3میں سے 1 سکول میں ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں۔ بے شمار گرلز سکول ایسے ہیں جہاں ٹائلٹ نہیں ہیں۔

یہ باعث تشویش ہے کہ ہر سال 19 ہزار 500 بچے دست کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ حفظان صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے 45 فیصد بچوں کی نشوونما ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتی۔ سینی ٹیشن کی سہولیات کے حوالے سے پنجاب کے 36 اضلاع میں سے راجن پور کی صورتحال الارمنگ ہے۔ وہاں 49 فیصد لوگوں کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں اور وہ کھلی فضا میں رفع حاجت کیلئے مجبور ہیں۔ سینی ٹیشن کی سہولیات کے فقدان کے حوالے سے مظفر گڑھ دوسرے اور چنیوٹ تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح ڈی جی خان اور جھنگ میں 38 فیصد جبکہ خوشاب میں 35 فیصد لوگوں کو ٹائلٹ میسر نہیں۔ اس کے علاوہ بھکر اور بہاولنگر بھی سینی ٹیشن کی عدم سہولیات والے 10 اضلاع میں شامل ہیں۔ میرے نزدیک ان تمام اضلاع میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے ''واٹر اینڈ سینی ٹیشن پالیسی'' انتہائی ضروری ہے لہٰذا پہلے سے ڈرافٹ شدہ واٹر اینڈ سینی ٹیشن پالیسی کو (اگر تبدیلی کی ضرورت ہے تو اسے بہتر کرکے) جلد از جلد اسمبلی سے پاس کرایا جائے تاکہ درست سمت میں کام کیا جاسکے۔ اس پالیسی کی روشنی میں سب سے پہلے پسماندہ اضلاع سے کام شروع کیا جائے۔ وہاں بہت سارے سماجی ادارے پہلے سے ہی کام کررہے ہیں لہٰذا معاملات میں بہتری آئے گی۔ جنوبی پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی ایک بنیادی وجہ ٹائلٹ کا نہ ہونا ہے جس کے باعث انہیں گھر سے دور کھلی فضا میں رفع حاجت کیلئے جانا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک ٹائلٹ کی سہولیات فراہم کرنے سے خواتین پر تشدد میں کمی آئے گی۔

اراکین پارلیمنٹ، حکومت ، سماجی ادارے اور میڈیا مل کر کام کریں تو اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں واٹر اینڈ سینی ٹیشن کیلئے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو 8 ماہ میں خرچ کیے جائیں گے۔ عمومی طور پر بجٹ کے استعمال کی شرح 5 سے 20 فیصد ہوتی اور جو پیسہ بچتا ہے وہ کسی اور منصوبے میں لگا دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اگریہ رقم ٹھیک طریقے سے خرچ کردی جائے تو پانی و سیوریج کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں