غداری کیس کیلیے عدالت کے تعین پرقانونی حلقوں میں بحث

آئین خاموش ہے،ماہرین،سماعت کسی عدالت میں ہو، قواعدطے کرناہونگے،خواجہ نوید


Asghar Umar June 26, 2013
آئینی معاملات کااختیارہائیکورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل عدالت رکھتی ہے،فاروق ایڈووکیٹ فوٹو: فائل

سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف آئین سبوتاژکرنے کے الزام میں سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت کاتعین قانونی حلقوں میں تاحال زیربحث ہے، فوجداری قوانین کے ماہرین کاموقف ہے کہ سنگین غداری کے مقدمے میں آئین خاموش ہے، بنیادی طورپر یہ سیشن ٹرائل ہے۔

جبکہ آئینی ماہرین کاموقف ہے کہ اسپیشل کورٹس ایکٹ 1976کے تحت ہائیکورٹس کے 3ججوں پر مشتمل عدالت اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔ سابق جسٹس خواجہ نویداحمد کا کہناہے کہ موجودہ آرٹیکل6 آئین کی 18ویں ترمیم کے نتیجے میں وجودمیں آیا ہے اس لیے اس کے اطلاق کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہوگا یامستقبل سے۔ لیکن اس مقدمے میں مستغیث وفاقی حکومت ہے اس لیے وہ اسلام آبادکے سیشن جج سمیت کسی اسپیشل جج کاتعین کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت ہائیکورٹس کے3ججوں کوبھی مقررکرسکتی ہے ۔



تاہم اسلام آبادہائیکورٹ کے قیام کے بعد ہائی کورٹس کی تعداد میں تبدیلی آئی ہے۔ خواجہ نویدنے کہاکہ غداری کے دیگرمقدمات جن میں جاسوسی یا دیگر الزامات آتے ہیں، کے بارے میں تو پاکستان پینل کوڈمیں وضاحت ہے لیکن آرٹیکل6کے تحت سنگین غداری کے مقدمے کے بارے میں تعزیرات پاکستان کے شیڈول8 میں وضاحت نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ مقدمے کی سماعت کوئی بھی عدالت کرے لیکن کچھ قواعد طے کرنا ہوں گے کہ یہ مقدمہ قابل ضمانت ہے یا نہیں، یہ تعین کرنابھی باقی ہے کہ اگروفاقی سیکریٹری داخلہ شکایت کنندہ کے طورپر نامزدکیا جاتاہے تووہ اپنی شکایت کہاں درج کرائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ پہلے عدالت کا قیام عمل میں آئے گا اس کے بعدمدعی کی شکایت درج کی جائے گی۔

محمدفاروق ایڈووکیٹ کاموقف تھاکہ سیشن عدالت قانونی مقدمات کی سماعت کرتی ہے، آئینی معاملات کے ٹرائل کورٹ کے لیے ہائیکورٹ کے 3ججوں پرمشتمل عدالت ہی سماعت کااختیار رکھتی ہے۔ اسی طرح مقدمے میں تحقیقاتی ایجنسی کاکردار بھی انتہائی اہم ہوگا۔ تاحال ایف آئی اے واحدسویلین وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ہے جو وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ لیکن سیکریٹری داخلہ کے مدعی ہونے کی صورت میں یہ کیوںکر آزادانہ کام کرپائے گی۔ اس بارے میں متعدد حلقوں کو تحفظات ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں