انجام سے ذرا پہلے
فواد چوہدری کی زبان و بیان کو ناقابل قبول سمجھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے ان کے مقدس ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کردی
میدان جنگ میں شکست کے بادل منڈلا رہے ہوں تو فوج کو اپنے ہی مورچوں پر گولہ باری کاحکم دینا پڑجاتا ہے، کمانڈر حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹتے ہوئے آرٹلری یونٹ کے ذریعے اپنے ہی مورچوں کو تباہ کروا دیتا ہے۔ اپنا فوجی سازوسامان دشمن کے ہاتھ میں دینے سے بہتر ہے کہ اسے تباہ کر دیا جائے۔
جنگ میں ایک اور حکمت عملی بھی کام کرتی ہے۔ اتحادی فوجیں بسا اوقات کسی غلطی کی بناء پر اپنے اتحادیوں کو فضائی بمباری کا نشانہ بنا دیتی ہیں، جسے ''فرینڈلی فائر'' کا نام دیا جاتا ہے تاکہ کورٹ مارشل سے بچا جاسکے۔ میدان سیاست ہو یا میدانِ کارزار، یہاں ایک غلطی کا خمیازہ بہت بھاری پڑتا ہے۔ جس طرح ن لیگ اور اداروں کے ٹکراؤ کو ختم ہونے کےلیے اگلی نسل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کچھ روز پہلے جب وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے اتحادی چیئرمین کے مورچے پر لفظی گولہ باری کی مجھے بہت کچھ یا د آرہا تھا، شاید وہ مخالفوں پر اتنے وار کر چکے ہیں کہ اب چیئرمین سینیٹ بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں۔
آخری اطلاع تو سینیٹ سے یہی آئی تھی کہ وہاں فواد چوہدری کی زبا ن و بیان کو ناقابل قبول سمجھتے ہوئے سینیٹ چیئرمین نے ان کے مقدس ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ رضار ربانی، حاصل بزنجو، شیری رحمان نے فواد چوہدری کی گفتگو پر اعتراضات اُٹھائے اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد وزیر اطلاعات پر سخت غصہ طاری ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ اس عالم میں انہوں نے کامران خان کو انٹرویو بھی دے ڈالا، جس میں سیدھا انہوں نے چیئرمین سینیٹ پر خوب غصہ اتارا اور انہیں حادثے کی پیداوار قرار دے دیا؛ اور اس کے علاوہ بھی ان سے کہا کہ چیئرمین صاحب کیونکہ منتخب ہوکر نہیں آ ئے اور میں نے اپنے مخالفین کو شکست دے رکھی، اس لیے انہیں پارلیمانی روایات کا نہیں پتا۔ دوسری طرف سننے میں آیا کہ وزیراعظم صاحب نے اپنا خصوصی پیغام بھی چیئرمین سینیٹ تک پہنچا دیا۔
میری بھولی بسری یاد میں آیا کہ چیئرمین سینیٹ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ایک غیر فطری اتحاد کے نتیجے میں اس عہدے پر آئے تھے تو غالباً فواد چوہدری اس اتحاد کو حادثہ قرار دے رہے تھے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کی قیادت کو بھی سینیٹ الیکشن میں کیے گئے جرم کا اعتراف کرنے پر آمادہ کرلیا ہے یا نہیں؟ فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویوز دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہ یہ باتیں خاصے اعتماد سے کررہے ہیں۔ باخبر ذرائع تو یہی کہتے ہیں کہ جناب وفاقی وزیر اطلاعات کو گفتگو میں پریشر بڑھانے کےلیے خود وزیراعظم صاحب کہتے رہتے ہیں۔ اس وقت وہ اسمبلی میں اکیلے مولا جٹ ہیں اور نوری نتھ اس وقت پنجاب اسمبلی میں اپنی آخری ذمہ داریا نمٹا رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اب چیئرمین سینیٹ ہوں یا وزیر اطلاعات، مستقبل بھی کسی ایک خیر نہیں۔ تحریک انصاف کو وزیر اطلاعات بدلنا پڑے گا، یہ بات طے شدہ ہے۔ صرف فیصلے کا انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں، کیا ہوتا ہے۔
اگر وفاقی وزیر کی دھمکی مدنظر رکھی جائے اور انہیں یاد کروایا جائے یا پھر باور کرادیا جائے کہ جس طرح آپ بلوچستان کی حکومت بدلنے اور چیئرمین سینیٹ کےلیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے تھے، اسی طرح چیئرمین سینیٹ کو بچانے کےلیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن اتحاد کے پاس 68 اور حکومتی اتحاد کے پاس 35 نشستیں ہیں۔ اس لیے جو کل تک ان پر مہربان تھے، وہ آج کسی اور بھی مہربان ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اس دشمنی سے حکومت کو جائز بل پاس کروانے میں بھی سخت مشکل کا سامنا ہو گا۔ اب بات یہ ہے کہ معافی بڑا اچھا حل ہے ورنہ اور طریقے بھی موجود ہیں۔
ایک بات تو صاف اور سیدھی ہے کہ جب جج کمرہ عدالت میں ملزم کو سزا دیتا ہے تو فیصلے میں ثبوت اور دلائل کو تو مدنظر رکھا جاتا، جج اپنے فیصلے میں ملزم کو دشنام طرازی سے ہر گز نہیں نوازتا، اور حکومت نے انصاف کا فیصلہ کر ہی لیا تو اس پر شورو غل اور بڑھکیں لگانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
سینیٹ میں مشاہداللہ اور وفاتی وزیر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، مشاہد صاحب دشمن پر وار کرنے کےلیے ادب کا سہار ا تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ سے فواد صاحب کا ادب سے تعلق کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا تو لہذا موصوف چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنے سے ذرا نہیں چوکتے۔ وزیراعظم صاحب نے خود سنجرانی صاحب کو فون کیا اور یقیناً ان کے چیرمین سینیٹ بننے میں اپنے کردار کو واضح کیا ہوگا، تبھی تو چیئرمین نے اس اجلاس کے بعد مزید اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا اور آئندہ اجلاس غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی کر دیا۔
اب کیا ہوگا؟ یہ ہم آپ کو بتائیں اگلی قسط میں۔ تب تک کےلیے اجازت دیجیے، اللہ نگہبان۔ آخر میں منیر نیازی کا ایک شعر:
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جنگ میں ایک اور حکمت عملی بھی کام کرتی ہے۔ اتحادی فوجیں بسا اوقات کسی غلطی کی بناء پر اپنے اتحادیوں کو فضائی بمباری کا نشانہ بنا دیتی ہیں، جسے ''فرینڈلی فائر'' کا نام دیا جاتا ہے تاکہ کورٹ مارشل سے بچا جاسکے۔ میدان سیاست ہو یا میدانِ کارزار، یہاں ایک غلطی کا خمیازہ بہت بھاری پڑتا ہے۔ جس طرح ن لیگ اور اداروں کے ٹکراؤ کو ختم ہونے کےلیے اگلی نسل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کچھ روز پہلے جب وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے اتحادی چیئرمین کے مورچے پر لفظی گولہ باری کی مجھے بہت کچھ یا د آرہا تھا، شاید وہ مخالفوں پر اتنے وار کر چکے ہیں کہ اب چیئرمین سینیٹ بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں۔
آخری اطلاع تو سینیٹ سے یہی آئی تھی کہ وہاں فواد چوہدری کی زبا ن و بیان کو ناقابل قبول سمجھتے ہوئے سینیٹ چیئرمین نے ان کے مقدس ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ رضار ربانی، حاصل بزنجو، شیری رحمان نے فواد چوہدری کی گفتگو پر اعتراضات اُٹھائے اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد وزیر اطلاعات پر سخت غصہ طاری ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ اس عالم میں انہوں نے کامران خان کو انٹرویو بھی دے ڈالا، جس میں سیدھا انہوں نے چیئرمین سینیٹ پر خوب غصہ اتارا اور انہیں حادثے کی پیداوار قرار دے دیا؛ اور اس کے علاوہ بھی ان سے کہا کہ چیئرمین صاحب کیونکہ منتخب ہوکر نہیں آ ئے اور میں نے اپنے مخالفین کو شکست دے رکھی، اس لیے انہیں پارلیمانی روایات کا نہیں پتا۔ دوسری طرف سننے میں آیا کہ وزیراعظم صاحب نے اپنا خصوصی پیغام بھی چیئرمین سینیٹ تک پہنچا دیا۔
میری بھولی بسری یاد میں آیا کہ چیئرمین سینیٹ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ایک غیر فطری اتحاد کے نتیجے میں اس عہدے پر آئے تھے تو غالباً فواد چوہدری اس اتحاد کو حادثہ قرار دے رہے تھے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کی قیادت کو بھی سینیٹ الیکشن میں کیے گئے جرم کا اعتراف کرنے پر آمادہ کرلیا ہے یا نہیں؟ فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویوز دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہ یہ باتیں خاصے اعتماد سے کررہے ہیں۔ باخبر ذرائع تو یہی کہتے ہیں کہ جناب وفاقی وزیر اطلاعات کو گفتگو میں پریشر بڑھانے کےلیے خود وزیراعظم صاحب کہتے رہتے ہیں۔ اس وقت وہ اسمبلی میں اکیلے مولا جٹ ہیں اور نوری نتھ اس وقت پنجاب اسمبلی میں اپنی آخری ذمہ داریا نمٹا رہا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اب چیئرمین سینیٹ ہوں یا وزیر اطلاعات، مستقبل بھی کسی ایک خیر نہیں۔ تحریک انصاف کو وزیر اطلاعات بدلنا پڑے گا، یہ بات طے شدہ ہے۔ صرف فیصلے کا انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں، کیا ہوتا ہے۔
اگر وفاقی وزیر کی دھمکی مدنظر رکھی جائے اور انہیں یاد کروایا جائے یا پھر باور کرادیا جائے کہ جس طرح آپ بلوچستان کی حکومت بدلنے اور چیئرمین سینیٹ کےلیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے تھے، اسی طرح چیئرمین سینیٹ کو بچانے کےلیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن اتحاد کے پاس 68 اور حکومتی اتحاد کے پاس 35 نشستیں ہیں۔ اس لیے جو کل تک ان پر مہربان تھے، وہ آج کسی اور بھی مہربان ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اس دشمنی سے حکومت کو جائز بل پاس کروانے میں بھی سخت مشکل کا سامنا ہو گا۔ اب بات یہ ہے کہ معافی بڑا اچھا حل ہے ورنہ اور طریقے بھی موجود ہیں۔
ایک بات تو صاف اور سیدھی ہے کہ جب جج کمرہ عدالت میں ملزم کو سزا دیتا ہے تو فیصلے میں ثبوت اور دلائل کو تو مدنظر رکھا جاتا، جج اپنے فیصلے میں ملزم کو دشنام طرازی سے ہر گز نہیں نوازتا، اور حکومت نے انصاف کا فیصلہ کر ہی لیا تو اس پر شورو غل اور بڑھکیں لگانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
سینیٹ میں مشاہداللہ اور وفاتی وزیر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، مشاہد صاحب دشمن پر وار کرنے کےلیے ادب کا سہار ا تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ سے فواد صاحب کا ادب سے تعلق کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا تو لہذا موصوف چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنے سے ذرا نہیں چوکتے۔ وزیراعظم صاحب نے خود سنجرانی صاحب کو فون کیا اور یقیناً ان کے چیرمین سینیٹ بننے میں اپنے کردار کو واضح کیا ہوگا، تبھی تو چیئرمین نے اس اجلاس کے بعد مزید اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا اور آئندہ اجلاس غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی کر دیا۔
اب کیا ہوگا؟ یہ ہم آپ کو بتائیں اگلی قسط میں۔ تب تک کےلیے اجازت دیجیے، اللہ نگہبان۔ آخر میں منیر نیازی کا ایک شعر:
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔