ایرانی اقتصادیات پابندیوں کے شکنجے میں

امریکی پابندیوں سے ایران کی عالمی منڈی تک رسائی آسان نہیں ہوگی جس سے ایرانی نظام معیشت زمین بوس ہونے کا خطرہ لگ رہا ہے


شاہد اللہ اخوند November 26, 2018
ایران میں خمینی انقلاب کے قیام کے بعد چار عشروں میں اب تک کی یہ سب سے خوفناک اقتصادی پابندیاں ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

PESHAWAR: سال 2015 میں طے پانے والے بین الاقوامی جوہری معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے بدلے میں اس پر عائد امریکی، یورپی اور اقوامِ متحدہ کی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں؛ لیکن کچھ ہی مدت میں ایران پھر سے نئے امریکی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑا گیا۔

سال 2018 کے آغاز کے کچھ ہی مدت کے بعد امریکا نے ایران پر نئی پابندیوں کے اشارے دیے۔ مئی 2018 میں صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک نئے اور مزید سخت معاہدے کے حصول تک دوبارہ پابندیاں لاگو کرنے کا فیصلہ کیا۔

چونکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا یہ پہلا موقع نہیں۔ 5 نومبر کے پابندیوں سے قبل 2012ء اور 2013ء کے دوران بھی ایران کڑی اقتصادی پابندیوں سے گذر چکا ہے۔ 2012ء میں عائد کی گئیں پابندیوں کے نتائج کے اعدادو شمار واضح کرتے ہیں کہ پابندیوں کے باعث ایران سخت مشکل میں پھنس گیا تھا جس کے بعد اس نے پابندیوں کے بوجھ سے نکلنے کےلیے جوہری سمجھوتے پر عالمی طاقتوں سے بات چیت شروع کی تھی جو 2015 میں کامیاب رہی۔

امریکا نے اب ایران پر حالیہ نئے پابندیوں کو دو مراحل میں منقسم کیا۔ تیل کے خرید و فروخت پر پابندی کے لیے پہلی ڈیڈ لائن چھ اگست دے دی گئی۔ جب کہ پابندیوں کے دوسرے مرحلے کے لیے 90 دن بعد 4 نومبر ڈیڈ لائن دی گئی۔ 6 اگست کے دن سے عائد ہونے والی پابندیوں سے ڈالر کی خریداری، سونے اور دیگر دھاتوں کی تجارت کے علاوہ فضائی اور کاروں کی صنعت نا صرف شدید متاثر ہوئی بلکہ پورا ایران اقتصادی بحران کے باعث تاریکی میں ڈوب گیا۔ جس کے بعد یکے بعد دیگرے مظاہرے شروع ہوئے جس نے ایران کے دارالحکومت کے ساتھ تمام صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایران میں دوسری دفعہ انقلاب ایران کے بعد ہی ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

پابندیوں کی اگلی لہر 4 نومبر کو ایران پر حملہ آور ہوئی۔ امریکی حکومت نے جمعہ کے روز ایران پر اقتصادی پابندیوں کے دوسرے مرحلے پرعمل درآمد کا اعلان کیا جس کا عملی نفاذ سوموار سے کردیا گیا ہے۔ نئے اقتصادی پابندیوں میں ایران کے نہایت حساس شعبوں کو ہدف بنایا گیا جن میں فنانشل سیکٹر کے علاوہ تیل، گیس، بینکاری نظام، توانائی اور ٹرانسپورٹ جیسے کلیدی شعبے شامل ہیں، جب کہ یہ پابندیاں محض چھ ماہ پر محیط ہیں۔ چھ ماہ کے اختتام پر ان افراد کے خلاف بھی پابندیاں بحال ہوجائیں گی جو ماضی میں امریکی محکمۂ خزانہ کی پابندیوں کی فہرست کا حصہ تھیں۔

ایران میں خمینی انقلاب کے قیام کے بعد چار عشروں میں ایران پر اب تک کی یہ سب سے خوفناک اقتصادی پابندیاں ہیں۔ ان حالیہ پابندیوں نے ایرانی نظام معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا۔ حتی کہ ایک امریکہ ڈالر 1 لاکھ ایرانی ریال سے بھی اوپر چلا گیا تھا۔ جب کہ امریکی صدر کے اعلان سے قبل ایک امریکی ڈالر 65000 ریال جبکہ 2017 کے آخر میں ایک امریکی ڈالر 42890 ایرانی ریال کے برابر تھا۔

امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد اس کے مستقبل کے بارے میں سوالات پیدا ہو گئے جو نہایت تشویش ناک ہے۔

اب جو بنیادی سوال ہے وہ یہ ہے کہ 4 نومبر کو نئی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا ایران پر اور اس سے کاروبار کرنے والی عالمی کمپنیوں پر کیا اثر پڑے گا؟

اس سوال کا جواب قطعاً پیچیدہ نہیں۔ اس کا مشاہدہ 3 ماہ میں لگائے گئی پابندیوں کے دوران کیا جاچکا ہے۔ بلکہ اس دفعہ اگست کے بعد کی پابندیوں سے نومبر میں نئی لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو کئی درجہ زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

کیوں کہ ایرانی معیشت کا سب سے زیادہ انحصار تیل کی پیدوارا پر ہے۔ ایران دنیا کے تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ وہ سالانہ اربوں ڈالر مالیت کا تیل اور گیس برآمد کرتا ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ملک میں تیل کی پیداوار اور اس کے مجموعی قومی پیداوار میں بہت زیادہ کمی دیکھنے کو ملے گی۔ کیوں کہ ان پابندیوں کا زیادہ تر اطلاق دوسرے ممالک اور خود امریکہ کا ایران سے تیل خریدنے پر پابندی کی صورت میں پڑے گا۔ امریکی پابندیوں کے بعد ایران کےلیے کھلے عام اپنی پٹرولیم مصنوعات عالمی منڈی اور دوسرے ممالک کو فروخت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جس سے ایرانی نظام معیشت زمین بوس ہونے کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔

اگرچہ امریکہ ایران کا بڑا گاہک نہیں ہے، لیکن جوغیرملکی کمپنیاں اور دیگر ممالک جو پابندیوں کے نفاذ کے بعد بھی ایران سے کاروبار کرے گا، وہ بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کریں گے۔ جس کے باعث اس کا اثر یورپی تیل کمپنیوں پر پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ فرانسیسی کمپنی ٹوٹل نے پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا جب کہ برٹش پیٹرولیم نے ایران کے سرکاری تیل کمپنی کے ساتھ ایک گیس فیلڈ چلانے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔

جب کہ ان پابندیوں سے دیگر شعبے بھی متاثر ہوں گے۔

* ممکنہ طور پر ان پابندیوں سے متاثر ہونے والی کمپنیوں میں وہ کمپنیاں سرفہرست ہیں جو ایران کو کمرشل طیارے فروخت کر رہی ہیں۔

* اس کے علاوہ ایئر بس اور بوئنگ نے ایران کو 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد مجموعی طور پر 180 طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور پابندیوں کی وجہ سے انھیں اربوں ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہ طیاروں کی تیاری میں امریکی ساختہ پرزے استعمال کرتی ہیں۔

* کاریں بنانے والی فرانسیسی کمپنیوں رینو اور پرجو نے بھی ایران میں کاروبار کے معاہدے کیے ہیں جو ان پابندیوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

* پابندیوں کے خاتمے کا مثبت اثر سیاحت کے شعبے پر بھی پڑا تھا اور 2012 میں سیاحوں کی جو تعداد 38 لاکھ تھی وہ 2015 میں بڑھ کر 50 لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔ پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

* عالمی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی صنعت متاثر ہونے والا دوسرا اہم ترین شعبہ ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے تازیانے نے ماضی میں بھی ایرانی صنعت کو تباہ کردیا تھا۔ صنعتی درآمدات وبرآمدات، سرمایہ کاری، عالمی کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کاری ، تعاون اور سمجھوتے سب متاثر ہوئے اور اس کے ایرانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

* ایرانی اقتصادیات میں تجارت کا شبعہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ پابندیوں کے نتیجے میں یہ حساس ترین شعبہ بھی بری طرح‌ متاثر ہوتا ہے۔ امریکا کی جانب سے ایران پر پابندیوں کے اعلان کے فوراً بعد ایرانی تجارت اور کاوربار پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |