دو شخصیات کا قتل گہری سازش خطرناک نتائج
طاہر داوڑ کا اغوا،افغانستان پہنچانا، قتل اور بعدازاں افغان حکام کا رویہ،دہشت گردی سے بڑھ کر کسی سازش کا پتہ دے رہے ہیں
دونوں واقعات قتل سے زیادہ ایک گہری سازش کا حصہ ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ
مملکت خداداد پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر ملکی سالمیت کو ٹھیس پہنچانے کےلیے نت نئے واردات اور تخریب کاریوں میں مصروف عمل ہیں۔ ہر وقت ہر لمحہ مملکت پاکستان اور باسیوں پر بزدلانہ وار کرکے ہمیں عظیم شخصیات سے محروم کرنے کا افسوسناک سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ سیاسی، مذہبی اور عسکری اعتبار سے دشمن ہمیں یتیم کرکے ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کےلیے دشمن کی تگ و دو جاری ہے۔ اسلام آباد جیسے سیف سٹی میں ملک کے دو عظیم شخصیات کو قتل کرکے دشمن نے برملا یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ''کسی کو بھی، کہیں بھی، اپنے مذموم مقاصد کے لیے نشانہ بناسکتے ہیں۔''
جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، قتل اور ظلم کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس دفعہ دشمن نے ہمارے بزرگوں اور راہنماؤں کو بے دردی سے قتل کرکے اپنے نئے ایجنڈے کا تعین کیا ہے۔
ان بزدلانہ واقعات سے ایک بات تو واضح پر قوم کے سامنے عیاں ہوئی ہے کہ دشمن ٹولہ کسی شخصیت، پارٹی، حکمران جماعت یا فوج کے خلاف نہیں، بلکہ پاکستان کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہے؛ جس کی ابتداء 1947 سے ہوکر تاحال جاری ہے۔
حالیہ چند ایام میں شہید کیے جانے والے ایک عظیم راہنما مولانا سمیع الحق اور ایک فرض شناس بہادر ایس پی پولیس طاہر داوڑ کو جس طریقہ سے شہید کیا گیا ہے، یہ ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ دشمنوں کا منصوبہ اور مقصد محض دو شخصیات کا قتل نہیں، بلکہ ریاست کو مبینہ طور پرنشانہ بنانا ہے۔
مولانا سمیع الحق شہید کے بابت کہا جاتا ہے کہ مرحوم اپنے ساتھ گارڈز نہیں رکھتے تھے، باوجود یہ کہ مرحوم کو کئی دفعہ قتل کی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ جب کہ بین الاقوامی انٹیلی جنس اداروں کے ہٹ لسٹ میں بھی تھے۔ لیکن اس کے باجود مرحوم کو اسلام آباد جیسے سیف سٹی میں واقع بحریہ ٹاون جیسے محفوظ مقام پر گھر کے اندر چھریوں کے وار سے قتل کرنا کچھ اور ثابت کرتا ہے۔ کیوں کہ مرحوم کو اسلام آباد کے بہ نسبت پشاور اور ان جیسے غیر محفوظ مقامات میں نشانہ بنانا زیادہ آسان تھا، لیکن اس کے باوجود بزدل دشمن عناصر نے عظیم رہنما کو اسلام آباد میں بحریہ ٹاؤن کے اندر شہید کردیا۔ جب کہ انسانیت سے عاری درندوں نے 82 سالہ بزرگ کو چھریوں کے وار سے قتل کر کے ایک اور مذموم مقصد کے طرف اشارہ کیا ہے۔
حالانکہ مولانا سمیع الحق ایک امن پسند اور قابل مذہبی اسکالر تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مثبت رویہ اپناتے ہوئے ملکی دینی اور قومی مسائل کو احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ اس لیے اسے فرقہ واریت کے ساتھ جوڑنے کی ناقابل فہم کوشش بھی ایک گہری سازش ہے۔
اس بابت تحقیقات ابھی جاری ہیں، تحقیقات مکمل ہونے سے قبل کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر داخلہ شہری یار آفریدی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ''مولانا سمیع الحق قتل کیس کی تحقیقات مکمل ہونے سے قبل کچھ کہنا تفتیش کے عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔'' یقیناً مولانا سمیع الحق کا قتل ایک بڑا سانحہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت اور امن و امان کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔
مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد ایک اور پراسرار قتل کا واقعہ پیش آیا۔ 26 اکتوبر کو ایک فرض شناس پولیس آفیسر ایس پی طاہر داوڑ اسلام آباد سے اغوا ہوئے جس کے پورے 19 دن بعد ان کی لاش افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ملی۔
ایس پی طاہر داوڑ شہید کا بیہمانہ قتل بھی اپنے اندر کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ کیوں کہ اگر دشمن عناصر کا ہدف صرف ایس پی کو قتل کرنا تھا تو اتنے دن اپنے پاس انہیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ پاکستان میں قتل کرنے کے بجائے انہیں پہلے اسلام آباد سے پنجاب لے جایا گیا، چند دن وہاں پر رکھنے کے بعد انہیں میانوالی اور پھر بنوں کے راستے افغانستان لے جایا گیا۔ جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بناکر بے دردی سے شہید کردیا گیا اور ان کی لاش کو ایک خط کے ساتھ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں پھینک دیاگیا۔
جس کے بعد لاش کی حوالگی میں افغانستان کی جانب سے تاخیر اور غیر سفارتی و غیر اخلاقی رویہ نے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ یہ غیر روایتی طریقہ قتل ملک کے خلاف ایک گہری سازش تصور کی جارہی ہے جس کا اظہار پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ٹویٹر پر جاری ایک بیان میں کیا گیا:
''ایس پی طاہر خان داوڑ کا اغوا، افغانستان پہنچانا اور بعد ازاں قتل کے بعد افغان حکام کا رویہ دہشت گردی سے بڑھ کر کسی سازش کا پتہ دے رہے ہیں۔''
اس بناء پر بعض مبصرین اسے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کا سازش گردان رہے ہیں۔ بادی النظر میں یہ دونوں واقعات قتل سے زیادہ ایک گہری سازش کا حصہ ہیں جس کا تدارک نہایت ضروری اور اہم ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔